محمد فراز احمد
معاون مدیر، رفیقِ منزل
لوک سبھا انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی شروع کردی ہے، اب سے الیکشن کے آخری دور تک سیاسی بازار گرم رہے گا، بی جے پی اور کانگریس اپنی اپنی چالیں چلیں گے، بی جے پی کلچرل نیشنل ازم، پاکستان اور دہشت گردی جیسے مدوں پر گفتگو کرے گی اور ہندو مسلم تفریق کے کارڈ پھیکتی جائے گی، کانگریس بھی جو کہ 5 سالوں تک کمزور اپوزیشن رہی ہے اب سرگرم ہوجائے گی.
بی جے پی کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی بہتر رپورٹ کارڈ موجود نہیں ہے، وہ تمام محاذوں پر پوری طرح ناکام ہوچکی ہے، اسی لیے پہلے پلوامہ حملہ کے ذریعے کشمیر کو ایشو بنا کر ہندو ووٹ جمع کرنے کی ناکام کوشش ہوئی اس کے بعد پاکستان سے جنگ کے نام پر ووٹرز کو گمراہ کرنے کی کوشش ہوئی لیکن دونوں میں بھی ناکامی ہاتھ آئی. لیکن ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے، بی جے پی ایسے ہی خاموش نہیں بیٹھے گی. بھاجپا کو یقین ہیکہ انھیں مسلمانوں سے کچھ نہیں ملے گا لہٰذا وہ مسلمانوں کو جتنا ہوسکے اتنا دباکر ہندو ووٹ حاصل کرنے کی مکمل کوشش کرے گی.
گزشتہ تین انتخابات سے یہ بات کھل کر سامنے اگئی ہیکہ ملک ہندوستان میں کوئی بھی پارٹی اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی، کانگریس نے UPA کے نام سے ایک گٹھ بندھن بنایا جس میں 28 سے زائد چھوٹی بڑی پارٹیاں ہیں جس کی مدد سے وہ حکومت حاصل کررہی تھی اور اب بھی وہ مہا گٹھ بندھن کے نام پر ریاستی بڑی پارٹیوں کو جوڑنے میں مصروف ہے، وہیں بھاجپا بھی جانتی ہیکہ وہ بھی اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی، اس کا بھی ایک الائینس 1998 سے ہے NDA کے نام سے جس میں 40 سے زائد پارٹیاں ہیں، لیکن اب وہ مزید پارٹیوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں. اس سے اندازہ ہوتا ہیکہ بی جے پی اور کانگریس دونوں بھی اپنی ناکامیوں کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اب تنہا وہ میدان سر کر نہیں سکتے.
ایسے حالات میں مسلمانوں کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کیا مسلمان اب بھی کچھ ٹھوس منصوبہ بندی کریں گے یا پھر ماضی کی طرح اب بھی غلطیاں دہرائیں گے؟ مسلم قائدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس وقت حالات کی سنگینی کا جائزہ لیں اور ممکنہ طریقوں کو اپناتے ہوئے فسطائی منصوبوں کو ناکام کریں.
عمومی طور پر جب گفتگو ہوتی ہے تو صرف مودی اور راہل کا چہرہ ہی سامنے لایا جاتا ہے. اور سب یہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں بھی ملک کے لئے ناکارہ ہیں، اور یہ ڈیموکریسی کے لئے سخت نقصاندہ بھی ہیکہ اس میں صرف دو چہرے یا دو راہیں ہی موجود ہوں. یہ صرف ایک پروپگنڈہ ہیکہ ملک میں صرف دو چہرے ہی ہیں، ایسا نہیں ہے، ملک میں بہت سے ایسے قابل لوگ ہیں جو اس ملک کی باگ دوڑ سنبھال سکتے ہیں. اس کے لئے مسلمانوں اور سیکولر طبقہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مقام پر منظم منصوبہ بندی کے ذریعہ نان بی جے پی اور نان کانگریس سیکولر امیدوار کی تائید کریں، اگر ہر ریاست میں ایسا کیا جائے گا تو خودبخود کانگریس اور بی جے پی کو شدید نقصان پہنچے گا. اس کے لیے کچھ نکات جو اس منصوبے میں مددگار ہوسکے ہیں وہ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں.
اول تو یہ کہ اس وقت ملک کی عوام مجموعی طور پر بھاجپا کی سیاست اور حکمت عملی سے شدید ناراض ہیں، خاص کر نوجوان اور کسان شدید برہم ہیں. نوجوان روزگار کے مواقع کی عدم فراہمی اور تعلیمی اداروں کی خستہ حالی کی وجہ سے پریشان ہیں. اور خاص بات یہ ہیکہ اس بار کے الیکشن میں 18 تا21 سالہ نوجوانوں کی بڑی تعداد حصہ لے گی. نوجوانوں کی اس ناراضگی کا بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے. سوشل میڈیا پر بی جے پی کے پروپیگنڈہ کو نظر انداز کرتے ہوئے زمین پر قوت کو مجتمع کرنے کی کوشش ہونی چاہیے.
دوسرا سب سے اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ مسلم قائدین، جماعتیں اور ادارے اپنی قوت کا احساس کریں اور اعداد و شمار کی بنیاد پر ٹھوس حکمت عملی اختیار کریں. دی کوئینٹ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 14 لوک سبھا حلقہ مسلم اکثریت والے ہیں، اس کے علاوہ 13 ایسے حلقہ ہیں جہاں مسلم ووٹرس کی آبادی 40 فیصد ہے، دونوں کو ملایا جائے تو کُل 27 حلقہ ایسے ہیں جہاں بآسانی مسلمان اپنے نمائندے کو جیت دلوا سکتے ہیں.
رپورٹ کے مطابق ملک میں 110 ایسے لوک سبھا حلقہ ہیں جہاں مسلم ووٹرس کا 20 فیصد حصہ ہیں اور 50 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی ایک تہائی ہے. ان علاقوں میں مسلمان دیگر سیکولر افراد کے تعاون سے کسی بھی امیدوار کو آگے بڑھا سکتے ہیں. یہ 2014 کے اعدادوشمار ہیں ان 5 سالوں میں یہ فیصد اور بھی بڑھ گیا، اس کا بھر پور فائدہ اٹھا جاسکتا ہے.
اگر اندازہ لگایا جائے تو 187 ایسی نشستیں ہیں جہاں فسطائی طاقتوں کو جیتنے سے روکا جاسکتا ہے، لیکن یہ مسلم قائدین اور سیاسی جماعتوں کی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ایسے مقامات پر بی جے پی جیت رہی ہے.
اس کا واضح ثبوت دیوبند کی سیٹ ہے، دیوبند جو کہ مسلم اکثریت والا علاقہ ہے، لیکن 2017 کے اسمبلی الیکشن میں وہاں بی جے پی نے جیت حاصل کی، وہ اس طرح سے کہ BSP اور SP نے دو مسلم امیدوار کھڑے کئے، جس میں BSP امیدوار کو 72,844 اور SP امیدوار کو 55,385 ووٹ حاصل ہوئے، اور بی جے پی امیدوار کو 1,02,244 ووٹ حاصل ہوئے. اگر سیاسی جماعتیں اور ملی قائدین صحیح حکمت عملی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے تو کسی ایک مسلم امیدوار کو جتا سکتے تھے.
دوسری مثال اتر پردیش کے رامپور لوک سبھا سیٹ کی ہے، جہاں 50 فیصد مسلم ووٹرس ہیں، لیکن وہاں بھی 2014 کے الیکشن میں بی جے پی نے محض 37٪ ووٹ شئیر کے ذریعہ کامیابی حاصل کی. اس کی وجہ یہ تھی کہ سوائے بی جے پی کے تمام بڑی جماعتوں نے مسلم امیدوار کھڑے کئے، 12 امیدواروں میں سے 7 امیدوار مسلم تھے جس کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوگئے.
سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی بہترین مثال اترپردیش کے کیرانہ لوک سبھا سیٹ کی ہے، 2018 کے ضمنی انتخابات میں بی ایس پی، ایس پی اور کانگریس نے راشٹریہ لوک دل کی امیدوار تبسم حسن کی تائید کی جس کی وجہ سے وہاں بی جے پی کو 44 ہزار کے فرق سے شکست کھانی پڑی. اگر اس طرح کا اتحاد اور منصوبہ 2019 کے الیکشن میں بھی بنایا جائے تو فسطائی پارٹی کو اقتدار سے روکا جاسکتا ہے.
تیسرا اہم کام الیکشن کے دن کا ہے، اس دن مسلم ووٹرس کو ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکالا جائے، یہاں بھی ایک دقت یہ پیش آتی ہیکہ سرکاری محکمہ کی جانب سے ووٹر سلپ نہیں پہنچائے جاتے، جس کی وجہ سے بہت سے ایسے افراد جن کا نام ووٹر فہرست میں موجود ہے وہ بھی ووٹ نہیں دیتے جس کا اثر ووٹنگ فیصد پر پڑتا ہے. مسلم اداروں کے چاہئے کہ وہ الیکشن کے روز بڑے پیمانے پر ووٹر سلپ کی تقسیم کا کام کریں جس سے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوگا.
آخری کام یہ ہیکہ اس سارے مرحلہ میں میڈیا پروپیگنڈے سے دور رہیں، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر جو دکھائی دیتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی، وہ صرف ایک پروپگنڈہ ہوتا ہے اور ہوا بنانے کا کام کیا جاتا ہے، اصل کام زمین پر ہوتا ہے، سارے ملک کی فکر کرنے کے بجائے اپنے علاقہ کی فکر کریں اور وہاں سیکولر اور مسلم دوست نمائندوں کی مدد کریں، سارے ملک کی فکر کرنے سے سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا.
یہ کچھ نکات ہے جو اس الیکشن میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں. ضرورت اس بات کی ہیکہ مسلم جماعتیں اور سیکولر افراد مل کر بیٹھیں اور مضبوط حکمت علمی اپنا کر کام کریں.