محمد فراز احمد
ہندوستان ایک تکثیری سماج ہے۔یہاں مختلف مذاہب، رنگ و نسل، برادری اور ذات کے لوگ آباد ہیں اور یہی ہندوستان کی نمایاں ترین خصوصیت ہے۔ یہاں جو بھی قوانین بنتے ہیں وہ ان تمام خصوصیات اور تفرقات کو نظر میں رکھ کر ہی بنائے جاتے ہیں۔ اللہ نے ہر انسان کو تکریم بخشی ہے۔ ولقد کرمنا بنی آدم(قرآن)۔ انسان کی تکریم میں یہ بات شامل ہے کہ انسان پر جبر نہ کیا جائے، اسے آزاد رکھا جائے۔اگر وہ برضا و رغبت حق کو قبول کرتا ہے اور حق پر عمل کرتا ہے تب اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے اور اسے ظلم وستم کا شکار نہ بنایا جائے۔
آئین میں بھی تمام مذاہب اور نظریہ ہائے حیات کو ماننے والوں کو آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کے مذہب کو مان سکتے ہیں اس پر عمل کرسکتے ہیں اور اس مذہب کی تبلیغ کرسکتے ہیں ۔لیکن 2014 کے انتخابات کے بعد سے ملک کی یہ “پُر امن” فضاء جو سیکولر ازم کے کمزور سہارے پر ٹکی ہوئی تھی وہ ہندوتوا قوم پرست جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مزید لڑکھڑانا شروع ہوگئی۔ بی جے پی جو سنگھ کی سیاسی جماعت ہے، کا یہی ماننا ہے کہ دستورِ ہند میں سیکولرازم کو ایمرجنسی میں غیر قانونی طور پر شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس لفظ کی کوئی معنویت باقی نہیں رہتی اور اس کو حذف کردینا چاہئے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ یہ ملک شروع سے ہی سیکولر رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ملک کن بنیادوں پر چلے گا؟ قانون ساز ادارے اور دستور کی محافظ عدلیہ دونوں اپنے آپ میں سوالیہ نشان ہیں۔ قانون ساز اداروں میں مخصوص ذہنیت کی اکثریت اور جمہوریت کا تماشا دوسری طرف عدلیہ کا “حقیقی غضِ بصر”۔۔۔ آج کے ہندوستان میں یہ دونوں ادارے سنگھ کے خطوط پر رواں دواں ہیں (بابری کے فیصلے نے اس پر مہر لگادی)۔قوانین کے بننے، ان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے اور عدلیہ میں چیلنج کرنے پر فیصلہ ہونے تک، یہ تمام مراحل ملک کے لئے شدید نقصاندہ ثابت ہورہے ہیں۔
لو جہاد کے نام پر مختلف ریاستوں میں قوانین بنائے جارہے ہیں، پہلے بھی یہ بنائے گئے اور اِن دنوں یہ مزید سرخیوں میں ہیں۔آر ایس ایس کا نظریہ کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے اور نہ ہی وہ مبہم انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہے، بی جے پی کے قائدین تو اپنی تقریرروں میں کھلے عام اس فکر پر مبنی نفرت آمیز بیانات دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی تاریخ میں بے شمار فسادات ہوچکے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے کہ اگر بھاجپا اس قسم کے قوانین نہیں بنائے گی تو ان کی سیاست موثر نہیں رہے گی اور نہ ہی وہ حکمرانی کی گدی تک پہنچیں گے۔
بی جے پی جارحانہ قوم پرستی کے نظریہ کی ماننے والی جماعت ہے، قوم پرستی یا نیشنل ازم کی سیاست کرنے والوں کے لئے بعض چیزیں ضروری ہوتی ہیں جن کے بغیر ان کی سیاست ناکام رہتی ہے، جس میں سب سے اہم چیز”دشمن“ ہے، کوئی خیالی دشمن جس سے عوام کو خوف دلاتے ہوئے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں آسان دشمن مسلمان ہیں، بھاجپا کی یہ جارحانہ قوم پرستی والی سیاست عام ہندوؤں کے سامنے مسلمانوں کو ملک کا دشمن اور غدار کے طور پرپیش کرتی ہے جس میں خاصی کامیابی بھی اسے حاصل ہوچکی ہے. قوم پرستی کی ایک اورضرورت ”قوم کی خیالی اور من گھڑت شخصیات اور نشانیوں کے تئیں جذباتی لگاؤ کو ابھارنا“ہے. رام مندر کے نام پر بابری مسجد کا انہدام اس کی بڑی مثال ہے، اور اب واراناسی میں موجود گیانوپی مسجد پر ان لوگوں کی نظرہے جس کو کاشی وشوناتھ مندر میں تبدیل کرنے کی مانگ کے لئے عرضی داخل کی گئی اور عدالت کی جانب سے اے ایس آئی کو حکم دیا گیا کہ اس کی کھدائی کرتے ہوئے رپورٹ پیش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ بھاجپا اپنے اس ایجنڈے پر عمل آوری کرتی آرہی ہے. 2014 کے بعد سے مختلف مسلم مخالف قوانین بنائے گئے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو پریشان کیا گیا لیکن عام ہندوؤں میں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ سب قوانین مسلم سماج کی ترقی اور ان میں رائج جاہلانہ رسومات کے ختم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ تین طلاق قانون بناتے ہوئے مسلم خواتین کو ”مظلوم“ کے طور پر پیش کیا گیا اور اس کے ذریعہ مسلم عورتوں کو ظلم اور غلامی سے”آزاد“ کرنے کی بات کہی گئی۔ سی اے اے، این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ یہ غیر قانونی طور ملک میں رہائش پذیر ہیں اور ملک دشمن قوتوں یا بھاجپا مخالف سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، الغرض اس قانون کے ذریعہ بھی ملک کے سارے مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک کردیا گیا۔ اور اب لو جہاد کے نام پر ”تبدیلی مذہب مخالف“ قوانین بنائے جارہے ہیں اور جہاں پہلے سے موجود ہیں وہاں کے قوانین میں ترمیمات کرتے ہوئے بالخوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سزاؤں میں سختی لائی جارہی ہے. ان قوانین کے ذریعہ سے ہندو سماج کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکوں سے خطرہ ہے، اب ان کی حفاظت ہندوؤ ں کا فرض ہے. اس خیالی خوف کے نتیجہ میں ایسے بے شمار واقعات منظر عام پر آئے ہیں جس میں معصوم مسلم نوجوانوں کو زدو کوب کیا گیا، پولیس کی طرف سے حراست میں لیتے ہوئے ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں جب مقدمہ چلایا گیا تو ان کے خلاف ثبوتوں کی کمی کی بنا پر بری کردیا گیا۔ اس قسم کے ظالمانہ قوانین پولارائزیشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، پولارائزیشن اور نفرت کو ختم کرنے کا اہم ذریعہ بین مذہبی تعلقات، گفتگو اور ڈائیلاگ ہے. ایسے قوانین بین مذہبی ڈائیلاگ میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں، حال ہی میں کرسچن ننوں کے ساتھ ٹرین میں جو واقعہ ہوا وہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ محض شک کی بنیاد پر ان کو ہراساں کیا گیا. ایسے واقعات پولارائزیشن کو مزیدفروغ دیتے ہیں۔
اسلام کے خلاف زہر افشانی تو شروعات سے ہی رہی لیکن اب یہ نفرت جسے اسلاموفوبیا بھی کہا جاتا ہے، ادارہ جاتی حیثیت اختیار کرگئی ہے. انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پر حکومت کی جانب سے اس نفرت کو عام کیا جارہا ہے، اس قسم کے مسلم مخالف قوانین بناتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کردی گئی، جس کا نتیجہ ہجومی تشدد جیسے واقعات کی شکل میں نظر آتا ہے. ”جہاد“ کے مقدس نام کی شبیہ خراب کرتے ہوئے اسے نئے نئے روپ میں پیش کیا جاتارہا ہے، کبھی ”لو جہاد“ تو کبھی ”زمین جہاد“. اس سلسلہ میں ذی نیوز کے صحافی سدھیر چودھری نے باضابطہ ایک پروگرام کے ذریعہ سے نام نہاد جہاد کی اقسام کو لوگوں میں عام کیا، وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگال میں ایک جلسہ سے خطاب کے دوران کہا کہ وہ لو جہاد اور زمین جہاد کے خلاف قوانین بنائیں گے۔ یہ ادارہ جاتی اسلاموفوبیا ملک کے لئے شدید نقصاندہ ہے۔
اس قسم کے قوانین کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں ان کے ذریعہ سے عام شہریوں میں مسلمانوں کی شبیہ خراب کی جارہی ہے اور انہیں دشمن کے طور پر پیش کیا جارہا ہے وہیں دوسری طرف مسلمانوں کے اندر بھی خوف اور احساسِ کمتری کی کیفیت پیدا کی جارہی ہے کہ یہاں حقوق کی بات کرنا جرم ہے. مولانا مودویؒ نے خطبہ مدراس میں واضح انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ یہاں جو کچھ بھی ملے گا وہ صرف اکثریت کو ملے گا، اقلیت کو اگر ملتا ہے تو خیرات کے طور پر دست نگر ہونے کی حیثیت سے نہ کہ حق کے طور پر یا حریف و مدّمقابل اور شریک کی حیثیت سے۔ اسی ایجنڈے کی طرف آج ملک رواں دواں ہیں۔ لیکن ان حالات میں امت مسلمہ کو مایوسی میں مبتلا ہونے کے بجائے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے،ایسے میں دور اندیش، مستقل مزاج اور واضح اسلامی فکر والی قیادت کی اشد ضرورت ہے. آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی نوجوان قیادت کا ایک اہم حصہ ان مسائل کے آگے سینہ سپر تو ہے لیکن ان کا اپروچ جذباتی قسم کا نظر آتا ہے۔ جارحانہ ہندو قوم پرستی کا مقابلہ مسلم قوم پرستی کے ذریعہ ممکن نہیں ہے اور نہ ہی قومی شناخت کی سیاست والی مباحث کے ذریعہ سے مسئلہ حل ہوگا۔ اسلام قومی شناخت سے زیادہ اس کے آفاقی نظریہ پر توجہ دیتا ہے. قومی مفادات، حقوق کی مانگ کی دوڑمیں اصل مشن دعوت دین سے دوری نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے. دعوتِ دین کا کام کرنے والی تنظیموں کو بھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ”برائی کو بھلائی سے دور کرو“ اور ”نصیحت کرو عمدہ اور احسن طریقے سے“ کے قرآنی اصولوں کے ساتھ یہ سیاسی جدوجہد کس حد تک اثر انداز ہورہی ہے؟ نبی کریمؐ کی دعوتی جدوجہد کی طرف بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ کیسے آپﷺ نے محض تیرہ سالہ عرصہ میں خالص دعوتی کام میں کامیابی حاصل کی۔
مسلم نوجوانون کوضرورت ہے کہ وہ اس جذباتی کشمکش سے باہر نکلیں اور اسلام کے دائمی و آفاقی پیغام کو لوگوں میں عام کریں. حالات کی سختی ہمیشہ رہی ہے، ہر دور میں چراغِ مصطفوی کے بالمقابل شرارِ بوالہبی ضرور رہا ہے، لیکن ان شراروں نے مصطفوی چراغ کو بجھا نے میں کبھی کامیابی حاصل نہیں کی ہے. تاریخ اس کی شاہد ہے، حال میں بھی یہی ہورہا ہے اور مستقبل بھی اسی طرح کے حالات کا شاہد ہوگا. ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک فرد اپنی رعیت میں کام کرے اور تبدیلی کی کوشش کرے. آخرت میں سوال رعیت کے مطابق ہی ہوگا، مسائل پر گفتگوؤں میں وقت صرف کرنے کے بجائے حل تلاش کرتے ہوئے منظم منصوبہ بندی کے تحت کام انجام دیں۔