ہندستانی مسلمانوں کے مسا ئل کے بارے میں جب بھی سوچئے توذہن الجھ کررہ جاتا ہے۔ پوری فضامیں کنفیوژن، عدم وضوح، پیچیدگی اورگوئم مشکل ولے نہ گوئم مشکل کی کیفیت رچی بسی محسوس ہوتی ہے۔سراہے کہ ملتاہی نہیں۔ جہاں سے بھی حل کی کوشش کیجئے تھوڑی دورچلنے کے بعدمحسوس ہوتاہے کہ مسئلہ کی ایک تہہ اس کے نیچے ہے، اسے حل کرنے کے لئے اسے پہلے سلجھانا ضروری ہے۔ اس طرح اتنے محاذ اور شعبے بن جاتے ہیں کہ ان میں ترجیحات کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
ان مسائل کے حل کے لئے مختلف سطحوں پر کوشش بھی ہورہی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کوششوں سے مسائل حل تو نہیں ہوتے یاکم ہوتے ہیں، ہاں مسائل کی گونج دور تک اور دیر تک سنائی دینے لگتی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کثیر الابعاد ہیں۔ اگر ہم مسلمانوں کو اور ملتوں کی طرح ایک ملت کی حیثیت سے دیکھیں تو اس اعتبار سے بہت سے مسائل ہیں اور اگر ایک دعوتی گروہ کی حیثیت سے دیکھیں تو اس اعتبار سے بھی بہت سے دوسرے مسائل ہیں۔ مسائل کا ایک پہلو داخلی ہے اور ایک خارجی۔ ان دونوں پہلووں سے مسائل کی الگ الگ فہرست ہے۔
ان مسائل کے حل کی کوششوں کا منظرنامہ یہ ہے کہ اس راہ میں کوشاں تحریکیں بھی ہیں اور تنظیمیں بھی، ادارے بھی ہیں اور انجمنیں بھی، شخصیات بھی ہیں اور افراد بھی۔ سب مسلم مسائل کے لئے جدوجہد کررہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کا کوئی متفقہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔ انتشار کی اس حالت کو برقرار رکھنے کے لئے یہ’’ زریں خیال‘‘ مفکرانہ شان کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ مسائل اتنے زیادہ اور کام کی ضرورت اس قدر ہے کہ مزید تنظیموں، اداروں، انجمنوں اور شخصیات کی ضرورت ہے۔ حالانکہ نہ تو فلسفہ اجتماع کی روسے اور نہ ہی اسلامی نصوص کے حوالہ سے انتشار محمود اور مطلوب چیز ہے۔
یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے ماحول پر مضر اثرات نہیں مرتب ہورہے ہیں۔ مسائل کے حل کی کوششوں اور دینی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا شدہ کیفیت کو اگر ہم’’صحوہ اسلامیہ‘‘ اسلامی بیداری سے تعبیر کریں تو اس کا تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ صحت مند نہیں بلکہ غوغائی اور خودروپودوں کی طرح مرتب ہے۔ اسلامی بیداری کا اگر عوامی سطح پر جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ عوامی بیداری کے محرکات خالص اسلام کے علاوہ اور بھی چیزیں ہیں۔ قومی تفاخر کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ دینی جذبات میں فقہی مسالک اور ان کی عصبیتیں کارفرما ہیں۔ معاشی حالات اور مثبت معاشی امکانات کا بھی ایک عنصر پایا جاتا ہے۔ شخصی طموحات اور شہرت ونمود کا جذبہ بھی کارفرما نظر آتا ہے۔
ان کوششوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ’’ظاہرہ‘‘ پربے حد توجہ دی گئی ہے۔ کلینڈر اور ڈائری سے لے کر عظیم الشان کانفرنسوں کا انعقاد اور ان میں عوامی جذبات کا خیال کرکے بلکہ استحصال کرنے کے لیے بیرون ملک سے’’قدآور اور معروف‘‘ شخصیات کو مدعو کرنا وغیرہ وغیرہ اس کے شواہد ہیں۔ یہ راگ اتنے اونچے سروں میں گایا جارہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ دینی تنظیمیں نہیں بلکہ تجارتی کمپنیاں ہیں جواعد ادو شمار کی بنیاد پر اپنے نفع ونقصان کا فیصلہ کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تحریکیں تنظیمیں بن کررہ گئی ہیں اور تنظیموں نے اپنے مقاصد واہداف کے حصول کے لئے جو میکانیزم بنایا تھا خود اسی کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ جسے داعی ہونا تھا وہ آہستہ آہستہ کلرک ہوتا جارہا ہے، جسے حرکت وعمل کا پیکر ہونا چاہئے وہ بالکل روبوٹ ہوتا جارہا ہے۔ تنظیم کو بحال رکھنے اور ترقی دینے کے لئے وسائل وذرائع ناگزیر ہوتے ہیں۔ اس کا لازمی اثر یہ ہے کہ وہ افراد زیادہ ضروری قرار پاتے جارہے ہیں جو زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرسکتے ہیں۔ مسجدوں کی رونق کے لئے وہ سجدے نایاب ہوتے جارہے ہیں جن سے روح زمین کانپ جاتی تھی۔ اس کی رونق کا انحصاراب سنگ مرمر کی سلوں اور اونچے اونچے مناروں پر ہوتا جارہا ہے۔ تعلیم وتربیت میں کمال کی جگہ بام ودر کی سجاوٹیں لیتی جارہی ہیں۔ اس پورے منظرنامے میں جائے حادثہ یہ ہے کہ فرد کی اہمیت ختم ہوکررہ گئی ہے۔ ایک شخص جس مسند سے اٹھ جاتا ہے پھر وہ خالی ہی رہ جاتی ہے۔ ظاہر ہے تولنے کے بجائے سروں کی گنتی کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
اس حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کہ افراد سازی کا کوئی منصوبہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ خیروشردل کی دوکیفیتیں ہیں، اعضاء وجوارح اس کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں
مرادل مری رزم گاہ حیات
گمانوں کا لشکر یقیں کا ثبات
اسلامی تحریک کا ہدف خارج سے زیادہ داخل ہے۔ داخل کا تزکیہ صرف’’ظاہرہ‘‘ کو بہتر بنانے سے ممکن نہیں۔ اس کی قامت پر رائج الوقت تنظیمیت کا جامہ من وعن راس نہیں آتا۔ فکرمندوں کو اس کی فکر کرنی چاہئے۔ اس رخ پر فکروعمل کو آگے بڑھایا جائے تو مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی کا امکان ہے۔
زبیر ملک فلا حی ، لکھنؤ
لمحۂ فکریہ
ہندستانی مسلمانوں کے مسا ئل کے بارے میں جب بھی سوچئے توذہن الجھ کررہ جاتا ہے۔ پوری فضامیں کنفیوژن، عدم وضوح، پیچیدگی اورگوئم مشکل ولے نہ گوئم مشکل کی کیفیت رچی بسی محسوس ہوتی ہے۔سراہے کہ ملتاہی نہیں۔ جہاں سے…