اللہ تعالیٰ نے پہلا علم جو ہمیں عطا فرمایا ہے وہ قلب کی پاکی اور ناپاکی سے متعلق ہے۔ اسی علم کی بنیاد پرہم صحیح اور غلط اور حق اور ناحق کو جانتے ہیں اور ان میں فرق وامتیاز کرتے ہیں۔ اور اسی کی وجہ سے اچھائیوں کو پسند اور برائیوں کو نا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ پاک صاف رہنا ہماری فطرت ہے اور ناپاکی ہماری فطرت کے خلاف ہے۔ نجاست خواہ جسم کی ہو یا روح کی، ہمارے لیے گھناؤنی چیز ہے۔
قرآن مجید کی ساری تعلیم ہمیں پاک نفس بنانے کے لیے ہے۔ سورہ آل عمران(۱۶۴) میں فرمایا ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ اس میں تزکیہ کے علاوہ جو امور بیان ہوئے ہیں وہ اس کے حصول کا ذریعہ ہیں۔(فراہی)
یہی سبب ہے کہ مختلف سورتوں میں الگ الگ پہلوؤں سے ہماری تطہیر کی بات آئی ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ میں تزکیہ وطہارت کے اصول بیان ہوئے ہیں اور بار بار تقوی کا ذکر آیا ہے۔ سورہ آل عمران میں ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم دی گئی ہے اور اختلاف وافتراق سے روکا گیا ہے تاکہ امت کا شیرازہ منتشر نہ ہو اور لوگوں میں اتحاد قائم رہے۔ سورہ نساء میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی اور شفقت سے پیش آنے، رشتوں کا پاس ولحاظ رکھنے اور گھریلو نزاعات کو دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (فراہیؒ۔ تعلیقات سورہ مائدہ)
ان کے علاوہ بہت سی سورتیں ایسی ہیں جو(فراہیؒ۔ تفسیر سورہ تحریم۔ص:۱۶۰۔۱۶۲)
سورہ مائدہ(۵۔۶) میں فرمایا ہے: الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إِذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَانٍ وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَأَیْْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ وَإِن کُنتُمْ جُنُباً فَاطَّہَّرُواْ وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مَّنکُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَیَمَّمُواْ صَعِیْداً طَیِّباً فَامْسَحُواْ بِوُجُوہِکُمْ وَأَیْْدِیْکُم مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـکِن یُرِیْدُ لِیُطَہَّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ۔
(فراہیؒ مقدمہ نظام القرآن۔ص ۵۰۔۱۵)
جہاں تک نماز کا تعلق ہے (فراہیؒ ،تفسیر سورہ کوثر، ص: ۴۴۶)
یعنی یہ بارگاہ قدس میں انسان کی حاضری ہے جس کے لیے با ادب ہونا ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اپنے سامنے حاضری کے وقت فرمایا: إِنِّیْ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْْکَ إِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًیo وَأَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوحی إِنَّنِیْ أَنَا اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِی (سورہ طہ: ۱۱-۱۴)
نماز میں ہماری تعلیم وتربیت کے کئی پہلو ہیں:
۱۔ نماز کی نیت کرتے وقت ہم کہتے ہیں’’۔ إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِین (سورہ انعام: ۷۹)
(فراہیؒ تفسیر سورہ کوثر،ص:۴۳۱)
شرک کو اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑی نجاست قرار دیا ہے اس لیے نماز کا شائبہ شرک سے پاک ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہمارے اندر ذرہ برابر بھی شرک ہوگا تو ہماری نماز االلہ کے لئے خالص نہ ہوگی۔ سورہ روم(۳۰۔۳۱) میں فرمایا ہے: ’’فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمونَo مُنِیْبِیْنَ إِلَیْْہِ وَاتَّقُوہُ وَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ‘‘۔
۲۔ نماز قلب وذہن کو کبرونخوت سے جو کہ کفر کی علامت ہے پاک صاف کرنے والی عبادت ہے(فراہیؒ۔ تفسیر سورہ کوثر، ص: ۴۳۶۔ ۴۳۷)
۳۔ نماز رجوع الی اللہ اور حشر میں پروردگار کے حضور ہمارے کھڑے ہونے کی تصویر ہے۔ گویا بندہ جس وقت نماز میں کھڑا ہوتا ہے اس وقت وہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری کے دن کو یاد کررہا ہوتا ہے۔ یہ اشارہ مندرجہ ذیل آیت سے نکل رہا ہے:
’’َإِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِیْنَo الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ الیہ رَاجِعونَo (سورہ بقرہ: ۴۵۔۴۶)
جن لوگوں کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا اور اپنے تمام اعمال واقوال کی جواب دہی کرنی ہے وہ تمام غفلتوں اور گناہوں سے تائب ہوکر لازماً اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں، اور جو خشیت اور پستی اللہ کے سامنے آخرت میں ان پر طاری ہونے والی ہے اس کا عکس دنیا ہی میں ان پر نظر آنے لگتا ہے۔ سورہ نور(۳۷) میں ہے’’ رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیع عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَاء الزَّکَاۃِ یَخَافُونَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ‘‘](فراہیؒ۔ تفسیر سورہ کوثر: ۴۴۱۔۴۴۲)
۴۔ نماز شکر اور صبر دونوں کی جامع ہے (فراہیؒ۔ تفسیر سورہ کوثر۔ص: ۴۴۰)
اور جہاں تک صبر کا تعلق ہے(قرآن مجید نے صبر اور نماز کا متعدد آیات میں ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ’’واستعینوا بالصبر والصلاۃ‘۔
سورہ رعد(۲۲) میں ہے۔ ’’وَالَّذِیْنَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ‘‘ نیز فرمایا ’’فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَالْإِبْکَارِ‘‘ (سورہ مومن:۵۵)] (فراہیؒ۔ تفسیر سورہ کوثر۔ ص: ۴۴۳۔ ۴۴۴)
۵۔ ایک نماز ہی ایسی عبادت ہے جس کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ فحشاء اور منکر سے رو ک دیتی ہے۔ نماز کے بعد دوسرا بڑا اہم حکم زکوٰۃ کا ہے جس کے معنی ہی پاکی کے ہیں(فراہیؒ۔ تفسیر سورہ بقرہ:۲۱۸۔ ۲۱۹)upu
(جاری)
از: ڈاکٹر عبید اللہ فراہی