قرآن کی روح سورہ الفاتحہ کا مطالعہ

ایڈمن

 پروفیسرمستنصر میراللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے۔شکرسے لبریز تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جوتمام عالم کا رب ہے، بے انتہا مہربان، نہایت رحم والا، یوم جزا کا مالک۔ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے…

 پروفیسرمستنصر میر

اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

شکرسے لبریز تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جوتمام عالم کا رب ہے، بے انتہا مہربان، نہایت رحم والا، یوم جزا کا مالک۔ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ہمیں سیدھا راستہ سجھا۔ان لوگوں کا راستہ جن کو تونے انعام سے نوازا، جو نہ تیرے غیظ و غضب کا شکار ہوئے اور نہ بھٹکے۔

تعارف:یہ قرآن کی افتتاحی سورہ ہے،اسی لیے اس کا نام ’الفاتحہ‘ ہے۔ عام خیال کے مطابق یہ محمد ﷺ پر نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ایک ہے۔ بعض کے خیال میں وحی کا آغاز اسی سورہ سے ہوا اور اس طرح اسے تاریخی اور تدوینی دونوں اعتبار سے اولیت کا درجہ حاصل ہے۔دوسری رائے کے مطابق جو معقول بھی ہے، سورہ فاتحہ ایک افتتاحی سورہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے بایں طور کہ ایک طرف قرآنی وحی کا عمل اسی سے شروع ہوتاہے اوردوسری طرف موجودہ ترتیب کے لحاظ سے قرآن کی پہلی سورہ بھی یہی قرارپاتی ہے۔قرآن کی معروف ترین سورہ الفاتحہ فرض نمازوں کا لازمی جز ہے۔مختلف موقعوں پر برکت کے لیے بھی مثلا میت کے لیے دعا کرتے وقت،بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے۔’اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے‘ یہ دعا جو سورہ توبہ کے علاوہ قرآن کی تمام سورتوں کے شروع میں رکھ دی گئی ہے، بجا طور پر ایک مستقل بالذات آیت سمجھی جاتی ہے جو قرآن کا جزو تو ہے لیکن کسی سورہ کا حصہ نہیں۔بالفاظ دیگر،یہ دعا جسے بَسملہ کہا جاتا ہے، ایک سورہ کے آغاز کا پتہ دیتی ہے یا ایک سورہ کو دوسری سے ممتاز کرتی ہے۔

تفسیر:

آیت 1:’شکرسے لبریزتعریف‘ قرآنی لفظ ’حمد‘ کا ترجمہ ہے۔’حمد‘کے اصل معنی احسان مندی اورشکرگزاری ہے اگرچہ ’تعریف‘ اس لفظ کے عربی معنی میں شامل ہے۔کوئی شخص کسی ہستی کے احسان کے بغیر بھی اس کی تعریف کرسکتا ہے، لیکن احسان مند اور شکر گزار وہ اسی ہستی کا ہو سکتا ہے جس سے اسے کچھ نہ کچھ فضل حاصل ہوا ہو۔بنی نوع انسان پر خدا کی شکر گزاری اسی لیے واجب ہے کہ وہ اس کی عطا کردہ بے پایاں نعمتوں سے شب و روز مستفید ہوتے ہیں۔شکر ادا کرنا بھی،تعریف کرنا ہے۔اسی لیے حمد کا ترجمہ’شکرسے لبریزتعریف‘کیا گیا ہے۔”تمام جہانوں کا رب“۔ ’رب‘ کا معنی ہے ’پرورش کرنے والا‘ اور ’مالک‘، یا زیادہ بہتر تعبیر ’مالک اور خداوندبہ سبب پروردگار و پالنہار‘۔ ”جہانوں“ کا بنیادی طور پر وہی معنی ہے جو ’عالم حیوانات، معدنیات اور نباتات‘ میں ’عالم‘ کا ہے، اس خصوصیت کے ساتھ کہ عالم، معلوم و غیر معلوم لاتعداد ہوسکتے ہیں،جن میں وجود یامخلوق کو منقسم کیا جاسکتا ہے۔عرب کے مشرکانہ نقطہ نظر نے خدا کو ایک بزرگ و برتر ہستی کے طور پر تو ضرور قبول کیا تھا البتہ کار خدائی میں خدا کے ساتھ بہت سے ’ارباب‘ شریک کر دیے تھے۔یہ ارباب فرشتے تھے،جن کے بارے میں اعتقاد تھا کہ یہ کائنات کے مختلف انتظامی امور سنبھالتے ہیں۔الوہیت اور ربوبیت کے درمیان اس تفریق نے الوہیت،فرمانروائی اور خدا کی دیگر صفات کی موثر طریقے سے نفی کردی تھی۔ یہ کہہ کر کہ خدا ہی تمام جہانوں کا رب ہے، قرآن یہ بیان کرتے ہوئے اس تفریق کو مسترد کردیتا ہے کہ خدا نہ صرف خدائے بزرگ و برتر ہے بلکہ تمام کائنات کی دیکھ ریکھ کرنے والا رب بھی ہے۔

آیت2: ”بڑا مہربان“ اور ”نہایت رحم فرمانے والا“ کے لیے عربی الفاظ بالترتیب ”الرحمن“ اور ”الرحیم“ ہیں۔پہلا لفظ شدت پر دلالت کرتا ہے، جب کہ دوسرا  دوام پر۔بالفاظ دیگر خدایوں تو ہمیشہ ہی مہربان ہے مگر خاص خاص مواقع پر اس کی رحمت خصوصی طور پر جوش میں آجاتی ہے۔اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص،جوبالعموم سخی ہے،وہ بعض موقعوں پر خاص سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کردیتاہے۔پس،”الرحمن“ اور ”الرحیم“ دونوں صفات محض دوہم معنی لفظوں کی تکرارنہیں ہیں بلکہ یہ کرم ایزدی کی دو مختلف لیکن باہم متکامل پہلوؤں کو پیش کرتی ہیں۔

آیت 3:خدا درحقیقت تمام دنوں کا مالک ہے۔ حیات دنیوی اور روز جزا دونوں کا۔لیکن آیت میں صرف مالک روز جزا کا ذکر کیا گیا ہے کیوں کہ اس دن،اس خداکے علاوہ کسی اور کو برائے نام یاعلامتی طور پر بھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا، جب کہ دنیاوی زندگی میں کسی نہ کسی درجہ میں اختیارانسانوں کو بھی حاصل ہوسکتا ہے،اگر چہ فی الحقیقت وہ بھی خودخدا ہی کا عطا کردہ ہوتاہے۔ آیت 4:ابتدائی آیت نے الوہیت اور ربوبیت کے درمیان تفریق کو مسترد کردیا۔یہ آیت الوہیت و ربوبیت کی یکجائی کے تصور کو اور قوت بہم پہنچاتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ عبادت یا اطاعت (الوہیت) صرف خداہی کی ہونی چاہیے، اور بہرصورت دست سوال اسی کی بارگاہ میں دراز کرنا چاہیے (ربوبیت)۔

آیت 5: آیت نمبر4میں متکلم ایک خدا کی عبادت و اطاعت کے عمومی عزم کا اظہار کرتا ہے اور صرف خدا سے استعانت کافیصلہ کرتا ہے۔آیت 5میں ایسا لگتا ہے کہ متکلم کو بالتحدید یہ ادراک حاصل ہوگیا کہ صحیح ہدایت کا حصول ہی اسے اس قابل بنائے گا کہ وہ اپنے عزم کو عملی جامہ پہناسکے۔صرف خدا ہی سے استعانت کا معاملہ طے پا جانے اور اس بات پر پوری طرح مطمئن ہونے کے بعدکہ صحیح ہدایت کا منبع خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا، متکلم دعا کرتا ہے کہ صراط مستقیم کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے۔

 آیت 6:یہ آیت ’صراط مستقیم‘ کے مفہوم کی وضاحت اور تفصیل بیان کرتی ہے۔وضاحت کا مقصد انسانی متکلم کے عزم مصمم کا اظہار ہے،جوہدایت کی دعا کرنے کے بعداب گزشتہ نسلوں کے ان افراد کے نقش قدم کی پیروی کا فیصلہ کرچکا ہے جنہوں نے صراط مستقیم اختیار کی اور خدا کی خوشنودی حاصل کرکے بہرہ مند ہوئے، اور ان لوگوں کے طرز عمل سے اجتناب کرنا چاہتا ہے جنہوں نے بداعمالی سے بھرپورزندگی بسرکی،پس خدائے ذوالجلال کے غیظ و غضب کے سزاوار ہوئے،اسی طرح ان کے طرز عمل سے بھی پناہ مانگتا ہے جو اپنے غلط اصول و عقائدکی وجہ سے گمراہی کے جنگل میں بھٹکتے ہوئے بہت دور نکل گئے۔آیت لطیف پیرائے میں اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صراط مستقیم،اپنی اصل کے اعتبار سے ہمیشہ ایک ہی رہی ہے اور وہ جو اس راہ کی پیروی کرتے ہیں،چاہے ان کا تعلق عہد قدیم سے ہو یا عہد جدید سے،سب ایک ہی کنبہ کے افراد ہیں۔

قرآن کا خلاصہ:سورہ فاتحہ کو اکثر، بجا طور پر، ’خلاصہ قرآن‘ کہا جاتا ہے۔قرآن کے اصولی تصورات تین ہیں؛توحید،نبوت اور آخرت۔ ان مرکزی مضامین کو سورہ فاتحہ میں اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ سورہ نے دعا کی شکل اختیار کرلی اور اس دعا کا اظہار ایک انسانی کیرکٹر کرتا ہے جو پوری انسانیت کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔آیات 1اور 2میں متکلم اعتراف کرتا ہے کہ ایک ہی خدا ہے جس کی گرفت میں آسمان و زمین ہیں اور وہی ان کا پرودگار بھی ہے۔آیت 3میں متکلم یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ خدا ایک دن انسانیت کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔آیات 4تا6میں متکلم کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوگیا کہ خدا کے بارے میں مذکورہ بالا حقائق کا اعتراف تمام بنی نوع انسان کو کرلینا چاہیے،چنانچہ اب وہ صراحت کے ساتھ انسانیت کی نمائندگی کرتے ہوئے خدا سے مخاطب ہوتاہے۔اسی لیے سورہ کے اس حصے یعنی (اھدنا) میں (نا) جمع متکلم کی ضمیر استعمال ہوتی ہے۔صرف ایک خدا کی عبادت و اطاعت کے پُرعزم اظہار(آیت 4) کے بعد، مگراس کی عبادت کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہونے کے سبب، متکلم خدا ہی سے ہدایت کا خواستگارہوتا ہے(آیت 5)۔آیت 6میں متکلم ماضی کے ہدایت یافتہ لوگوں کی صحبت میں اپنی شمولیت کے عزم مصمم کا اظہار کرتا ہے، اور ان لوگوں کی مصاحبت سے برائت و اجتناب کے ارادے کا اظہار کرتا ہے جو صراط مستقیم کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔اس سورہ کی مرکزی آیت،یہی آیت 5:”ہمیں صراط مستقیم کی راہ سجھا“ہے۔ پہلی چار آیات کے نتیجے میں یہ عرض داشت یا درخواست سامنے آتی ہے جو اس آیت 5میں کی گئی اور آخری آیت اس عرضداشت کی مزیدتفصیل بیان کرتی ہے۔

باقی قرآن کو، جسے ہدایت الہی کے طور پر نبی محمد ﷺ کو عنایت کیا گیا، اس عرضداشت کے جواب کے طور پرلیا جا سکتا ہے۔لہذا سورۃ الفاتحہ ایک خاکہ یا خلاصہ ہے جس کی توضیح و تفصیل باقی قرآن میں ملتی ہے۔سورۃ الفاتحہ اوربقیہ قرآن کے مابین تعلق کا یہ فہم اس خیال کو تقویت پہنچاتا ہے کہ سورہ فاتحہ پہلی وحی تھی جو محمدﷺ کو موصول ہوئی۔

سورۃالفاتحہ میں منطقی استدلال: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا،سورہ فاتحہ نے ایک دعا کی شکل اختیار کی جو بذریعہ وحی ملی اورانسانی لبوں پر جاری ہوگئی۔ اس دعا کا اندازصریح خبریہ اور اعلانیہ کے بجائے ندائیہ، اسی طرح غائرانہ فکر کے اظہار کے بجائے جذبہ کا اظہار ہے،اگرچہ اس جذبہ کی تہ میں ایک خاص منطقی استدلال بھی موجود ہے جو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ 

1۔ انسانی متکلم کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے۔اس میں کمال ترتیب اور ہم آہنگی کو دیکھتے ہوئے،اس کی توجہ چہار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے ربوبیت کے غیر معمولی نظام کی جانب مبذول ہوتی ہے،پھر وہ ان تمام نعمتوں اور برکتوں کو پہچان لیتا ہے جن سے پوراعالم وجود مستفید ہورہاہوتا ہے۔اس کے بعد انسان اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ اس کمال ربوبیت کے انتظام کا سرچشمہ ایک ہی یکتا و تنہا ذات ہے،ایک حاکم، جس نے ہر شئے کو زیور وجود سے آراستہ کیا اور اس کی پرورش و دیکھ بھال کا نظم کیا۔اس نتیجے تک پہنچنے اور یہ ادراک کرلینے کے بعد کہ خدا ہی وہ ذات ہے،متکلم پکار اٹھتا ہے”شکرسے لبریزتعریف اللہ ہی کے لیے ہے،جو تمام جہانوں کا رب ہے“۔(آیت 1)

2۔ اس کے بعد متکلم حیرت انگیز انداز میں سوچتا ہے کہ آخر اللہ تعالی اس درجہ عنایت اور ربوبیت کی شکل میں کائنات کا خیال کیوں کرتا ہے! کیا کسی نے اسے اس فرض پر مامور کیا ہے! بہ ادنی تامل وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ کسی نے خدا کو اس فرض پر مامور نہیں کیا بلکہ خدا ایسا اپنی بے پایاں شفقت و رحمت کی بنیاد پر کرتا ہے۔یہ عرفان متکلم کو یہ کہنے پر آمادہ کرتا ہے کہ ”(خدا)بے انتہا مہربان،نہایت رحم فرمانے والاہے“۔(آیت2)

3۔اس مرحلہ پر متکلم کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے:”کیا خدا کی ربوبیت کا یہ انتظام میرے او پر کوئی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے؟“یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ استحقاق اور جوابدہی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔اگر انسانی وجود اللہ کی دی ہوئی گوناگوں نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے تو اسے جوابدہ ہونا چاہیے کہ اس نے ان نعمتوں کو کیسے استعمال کیا اور نعمتوں کے سلسلے میں اس کا رویہ کیسا رہا؟ احتساب اور جوابدہی کی سوچ انسان کے دل میں ایک ایسے دن کا خیال پیدا کرتی ہے جب تمام انسانوں کو جواب دہی کے لیے بلایا جائے گا، ایسا دن جب خدا خود مسند عدالت پر جلوہ افروز ہوگا، پس متکلم بول اٹھتا ہے ”مالک روزجزاہے“۔(آیت3)

4۔ اگرعدالت و انصاف کا ایک دن ہوگا،تو صحیح طور پر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دن کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ کیا ہوگا۔بالفاظ دیگر،آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ ہدایت و رہ نمائی کا محتاج ہے۔ مگر ہدایت کے لیے خدا سے درخواست کرنے سے پہلے-اور خدا کے علاوہ ہدایت کا بہترین ذریعہ اور کون ہوسکتا ہے؟- اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ بندہ خدا کے حضور اپنا سر تسلیم خم کردے اوراپنی فروتنی اور عاجزی کا اعلان کردے۔یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ اطاعت و عبادت کا مستحق صرف وہی ہیاور صرف وہی ہر نصرت و سہارے کا سرچشمہ ہے۔پس متکلم انسانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے:”ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد چاہتے ہیں“۔(آیت4)

5۔خدا کے تئیں کامل سپردگی کے بعد، متکلم، جمع متکلم کی ضمیر(اھدنا)  استعمال کرتے ہوئے،اب ہدایت کی درخواست کرتا ہے:”صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی کر“۔(آیت 5)

6۔ متکلم محض نظری یا قولی مفہوم میں صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا پر اکتفا نہیں کرتا،بلکہ اس عزم و ارادہ کا اظہار کرتا ہے کہ عملا ان لوگوں کے نقش قدم پر چلے گا جنہوں نے صراط مستقیم اختیار کیااور ان لوگوں کو اپنے لیے اسوہ بنانے سے احتراز کرے گا جنہوں نے اس سیدھے راستے کو مسترد کردیا غلط راستے پر چل پڑے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: ”ان لوگوں کا راستہ جن کو تونے انعام سے نوازا، جو نہ تیرے غیظ و غضب کا شکار ہوئے اور نہ گمراہ ہوئے“۔(آیت6)

سورہ فاتحہ کا یہ استدلالی پہلواپنے اندرکچھ اہم فلسفیانہ مضمرات رکھتا ہے۔یہ مذہب کو،انسان کے وجودی حقائق کے حوالے سے انسانی قلب و ذہن کا ایک شعوری اورمثبت رویہ قرار دیتا ہے۔اس طرح یہ نقطہ نظر اپنا راستہ ان نظریات سے الگ کرلیتا ہے جو مذہب کو کسی خوف یا کسی منفی خیال و جذبہ کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔

مزید برآں اس نقطہ نظر کے لحاظ سے 1۔حقیقت کے افادی پہلوکے حوالے سے خیر کا اعتراف 2۔ اس حقیقت کے خالق،یعنی خداسے جذبہ شکر کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی انسانی ضرورت کااقرار 3۔ انسانوں کی جانب سے، اس تعلق کے تقاضہ کے طور پر سامنے آنے والے مطالبات اور احکام کو قلب و جاں سے قبول کرنے کا عہد، مذہب کا جوہر اور اس کی اصل روح قرار پاتی ہے۔

سورہ میں تقابلی ہم آہنگی: سورہ فاتحہ چند مقابل عناصر کو پیش کرتی ہے پھر ان کے اندر توافق پیدا کرتی ہے۔ اگر ہم سورہ کو دو حصوں میں تقسیم کریں،پہلا حصہ آیات 1تا 3 اور دوسرا 4 تا 6آیات پر مشتمل ہو توایک حصہ دوسرے کے لیے تکملہ کے طور پر نظر آئے گا۔

1۔فکر و عمل: حصہ اول میں، انسان کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں موجود ربوبیت کے غیر معمولی انتظام کو دیکھتے ہوئے شکر کے جذبہ سے سرشار ہوکر والہانہ انداز میں خدا کی حمد میں نغمہ سنج ہو جاتا ہے۔ دوسرے حصہ میں وہ طے کرلیتا ہے کہ صرف خدا ہی کی بندگی کرے گا اور تاعمر اسی کی مدد کا خواستگوار ہوگا۔بالفاظ دیگر تدبر اور فہم اسے حرکت و عمل پر ابھارتے ہیں۔

2۔جذبہ اور معرفت: پہلے حصے کا تعلق جذبات سے ہے، کائنات اور اپنی ذات پرغور کرنے کے نتیجے میں انسان حیرت کے عالم میں بے اختیار ہوکر پکار اٹھتا ہے کہ اللہ تعالی کیساپالنہار، مہربان اور عادل خدا ہے!دوسرے حصے میں خدائی ربوبیت، رحمت اور عدل کا اعتراف انسان سیدو تقاضے کرتا ہے ایک یہ کہ وہ خدا کی اطاعت میں داخل ہوجائے دوسرا یہ کہ خدا کے بارے میں اس کااعتراف طلب ہدایت کی دعا میں منتقل ہوجائے جس کے نتیجے میں یہ اطاعت ایک باقاعدہ  شکل اختیار کرلے۔ایسا نہیں ہے کہ دوسرے حصے میں جذباتی اور تاثیراتی عنصر بالکل عنقا ہے،مگرمعرفی اور استدلالی عناصر اس میں غالب ہیں۔دوسری جانب پہلے حصے میں غور وفکر کا عنصر مکمل طور پرمفقود نہیں ہے۔ درحقیقت یہ تدبر و تفکر کا عمل ہی ہے جوانسان کو حیرت انگیز اظہار تک پہنچاتا ہے۔البتہ غور و فکرکا عنصر پس پردہ ہے اور جذباتی عنصر ظاہر اورعیاں۔

3۔پہل اور اس کا جواب: پہلا حصہ خدا کی جانب سے کی گئی پہل پر دلالت کرتا ہے،جو مہربان ہے،انسان کے تئیں منصف اوراسکی نگہداشت بصد اہتمام کرتا ہے۔دوسرا حصہ انسانی استجابت کو بیان کرتا ہے:وہ خود کو خدا کے حوالے کرکے اس کی ہدایت کا طلب گار ہوتا ہے۔دوسرے حصے کے اندر خود بھی ایک تقابل کا اسلوب کارفرما ہے: انسان پورے شعور کے ساتھ خدا کی بندگی کا فیصلہ کرتا اور اس کے احکامات کے موافق اپنی زندگی کو موڑتا ہے۔اس انسانی پہل پر آیت6میں خداکی طرف سے قبولیت اور استجابت ان لوگوں پر برکت نوازی کی شکل میں نمودار ہوتی ہے جو صراط مستقیم اختیار کیے ہوئے ہیں۔

4۔اعزاز اور ذمہ داری: حصہ اول انسانوں پر خدا کے انعامات اور برکتوں کو بیان کرتا ہے۔دوسرا حصہ اس کے نتیجے میں صرف خدا ہی کی اطاعت اور اسی سے مدد طلبی کی انسانوں پر عائد ذمہ داری کی نشاندہی کرتا ہے۔انسان کی یہ ذمہ داری حصہ اول میں مذکورانعامات کا لازمی تقاضہ ہے۔

5۔فرد اور انسانیت: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ آیات 1تا 3کا تحیر آمیز اقراری انداز اس حقیقت کو انتہائی مضبوط طریقے پر پیش کرتا ہے کہ ان کا اظہار ایک فرد کی جانب سے ہوا ہ جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ماڈل ہے اور ہر انسان کو مذکورہ صورتحال میں اسی طرح اظہار اور اقرار کرنا چاہیے۔آیات  4تا6کا  تاملاتی اسلوب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جمع متکلم ضمیر کیاستعمال کا مقصد اس بات کی یقین دہانی ہے کہ یہ آیات اس فرد کی زبان سے ادا ہوئی ہیں جو انسانیت کی نمائندگی کررہا ہے۔

6۔ دنیا و آخرت:پہلے حصے میں بنیادی توجہ اس دنیا پر ہے۔جس پر غور وفکر انسان کوکچھ اصولی نتائج تک پہنچاتی ہے۔دوسرے حصے میں بنیادی توجہ آخرت پر جس کے سیاق میں عملی رویہ کے مخصوص نوعیت کی طاقت کی بنیاد پر نجات تلاش کی جاتی ہے۔اس کو مرئی اور غیر مرئی یا ٹھوس اور معنوی کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔کائناتی مواد، جن پر انسان پہلے حصے میں غائرانہ نظر ڈالتا ہے،اپنی ماہیت میں بنیادی طور پر حسی یا مادی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں ہدایت اور نجات سے متعلق نظریات اپنی نوعیت میں بنیادی طور پر تصوراتی یا روحانی ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں