قرآن مجید میں غوروفکر: قرآنی سوالات کی روشنی میں

ایڈمن

تدبر وتفکر انسانی ساخت ‘ غور وفکرکے لیے اسی طرح مناسب اور مفید ہے جس طرح بیج ‘زمین کے لیے اور آسمان سے برسنے والا پانی زمین کے لیے مناسب و مفید ہوتا ہے۔انسانی ساخت میں نمایاں مقام رکھنے والے…

تدبر وتفکر
انسانی ساخت ‘ غور وفکرکے لیے اسی طرح مناسب اور مفید ہے جس طرح بیج ‘زمین کے لیے اور آسمان سے برسنے والا پانی زمین کے لیے مناسب و مفید ہوتا ہے۔انسانی ساخت میں نمایاں مقام رکھنے والے اعضاء ‘کان ‘آنکھ اور دل ‘اسی غرض کے لیے عطا کئے گئے ہیں‘بلکہ انسان‘ اشرف المخلوقات اسی وجہ سے قرار پایا ہے۔ان اعضاء کی مدد سے خالقِ حقیقی کو پہچاننا ‘نصیحت حاصل کرنا اورمسلم بننے کا پرعز م فیصلہ کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔اس ضمن میں قرآن مجید انسانی زندگی کے مختلف حالات‘ خود انسانی زندگی اور ساری کائنات سے متعلق قابل توجہ پہلوواضح کرتے ہوئے دعوت غور وفکر دیتا ہے:
2 ان سے پوچھو‘ کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (الانعام: ۵۰)۔
2 کون اس نظام عالم کی تدبیر کررہا ہے؟ (یونس: ۳۱)۔
2 ان سے کہو‘ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو‘ اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لئے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہوسکتی ہیں (یونس:۱۰۱)۔
2 کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟ (ابراہیم: ۱۹)۔
2 کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟ (النحل: ۴۸)۔
2 کیا یہ ان کو نہ سوجھتا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ (بنی اسرائیل: ۹۹)۔
2 کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟پھر کیا یہ غالب آجائیں گے؟ (الانبیاء : ۴۴)۔
2 ان سے کہو‘ بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ (المومنون: ۸۸)۔
2 وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے؟اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ کیااللہ کے سوا کوئی دوسرا خدا بھی ہے؟ (النمل: ۶۳)۔
2 یہ تو ہے اللہ کی تخلیق ‘ اب ذرا مجھے دکھاؤ ‘ ان دوسروں نے کیا پیدا کیاہے؟ (لقمان: ۱۱)۔
2 کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں اور وہ ان سے بہت زیادہ طاقتور تھے؟ (الفاطر:۴۴)۔
2 کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کو ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں؟ وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے‘ ان سے بڑھ کر طاقتور تھے‘ اور زمین میں ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑگئے ہیں‘ جو کچھ کمائی انہوں نے کی تھی‘ آخر وہ ان کے کس کام آئی؟ (المومن: ۸۲)۔
2 عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کون ہے جو ہم سے زیادہ زور آور ہے؟ ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے؟ (حم السجدہ: ۱۵)۔
2 بتاؤ آخروہ کون سا لشکر تمہارے پاس ہے جو رحمن کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہے؟ ( الملک: ۲۰)۔
2 کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں کا پانی زمین میں اُتر جائے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادے گا؟ (الملک: ۳۰)۔
ہدایت
ہدایت وہ سیدھا راستہ ہے جوہر طرح کے شکوک و شبہات سے پاک ہوتا ہے۔اس راستہ پر زندگی کا سفر کامیابی سے شروع ہوتا ہے اور فلاح و کامرانی کی بشارت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ فلاح و کامرانی ‘ہدایت کے بغیر ممکن نہیں۔ انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ وسیع و عریض کائنات مصروف کار ہے ‘اس میں موجود بے شمار نعمتیں انسانی زندگی ممکن بناتی ہیں۔ جبکہ ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں سے استفادہ اور شعوری کوششیں ناگزیر ہیں۔یہ نعمتیں انسان کے ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی۔ان سوالات پر غور کیجئے، ان میں اسی حقیقت کے مختلف پہلوؤں پر سے پردہ اٹھایا گیاہے:
2 ذرابتلاؤ تو صحیح ‘ جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود راہ نہیں پاتا الا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمہیں ہوکیا گیا ہے، یہ کیسے الٹے الٹے فیصلے کرتے ہو؟ (یونس: ۳۵)۔
2 کہو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہواکرتا ہے؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے؟ (الرعد: ۱۶)۔
2 تم نے دیکھا ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اسے کفران نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا ؟(ابراہیم: ۲۹)۔
2 کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گا؟ کیا اسے غیب کا پتہ چل گیا ہے یا اس نے رحمان سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟ (مریم: ۷۷)۔
2 ان سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ (المومنون: ۸۴)۔
2 کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غو ر کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنالیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پرلانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ (الفرقان: ۴۳)۔
2 کیا اس شخص کو کوئی راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو؟ (الروم: ۲۹)۔
2 ان سے کہو‘ کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے ان شریکوں کو جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے بتاؤ ‘ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے؟ کیا ہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لئے) کوئی صاف راستہ رکھتے ہوں؟ (الفاطر:۴۰)۔
2 کیا تم اپنی ہی تراشی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو؟ (الصافات: ۹۵)۔
2 ان سے کہو‘ کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ اس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو؟ (الاحقاف:۴)۔
2 کیا انسان جو کچھ چاہے اس کے لئے وہی حق ہے؟ (النجم: ۲۴)۔
2 ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان ذریعہ بنایا ہے‘ پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ (القمر: ۱۷)۔
گمراہ اقوام
دنیا میں کئی قومیں آئیں ‘کسی کو عروج نصیب ہوا تو کوئی زوال سے دوچار ہوئی۔انسانی تاریخ ان قوموں کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ قرآن مجیدواضح کرتا ہے کہ ہر دور اور ہر قوم کے لیے پیغمبر اور رسول دنیا میں آئے۔قوموں کی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض قومیں ایمان لائیں، صبر واستقامت کا مظاہرہ کیا اورکامیاب و کامران ہوئیں۔بعض قوموں نے انکار کیا، ہٹ دھرمی دکھائی اور گمراہ ہوئے۔قرآن مجید انہی گمراہ قوموں سے متعلق چند حقائق پیش کرتا ہے تاکہ جو لوگ راہ راست پر آنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ چشم کشا ثابت ہو۔
2 کیاانہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کا اپنے زمانے میں دور دورہ رہا ہے؟ (الانعام: ۶)۔
2 ان سے کہو ‘ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے؟ (الانعام: ۱۱)۔
2 اے نبیؐ تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبربھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے اور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں‘ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان قوموں کا انجام انہیں نظر نہ آیا جو اس سے پہلے گزرچکی ہیں؟ (یوسف: ۱۰۹)۔
2 ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوچکا ہے؟ (النحل: ۳۶)۔
2 ان لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں‘ بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالت میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں؟ (مریم: ۷۳)۔
2 ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں ‘ پھر آج کہیں تم ان کا نشان پاتے ہو یا ان کی بھنک بھی کہیں سنائی دیتی ہے؟ (مریم: ۹۸)۔
2 کیا ان لوگوں کو (ان تاریخی واقعات میں) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟ اس میں بڑی نشانیاں ہیں‘ کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟ (السجدہ: ۲۶)۔
2 کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں؟ ( مومن: ۲۱)۔
2 کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے؟ (الطور: ۳۶-۳۵)۔
2 کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا ان پر انہی کا حکم چلتا ہے؟ (الطور: ۳۷)۔
2 کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ عالم بالا کی سن گن لیتے ہیں؟ (الطور: ۳۸)۔
2 کیا اللہ کے لئے تو ہیں بیٹیاں اور تم لوگوں کے لئے ہیں بیٹے؟ (الطور:۳۹)۔
2 کیا ان کے پاس غیب کے حقائق کا علم ہے کہ اس کی بنا پر یہ لکھ رہے ہوں؟ کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ (الطور:۴۲-۴۱)۔
آخرت
عقیدۂ آخرت‘ دراصل دنیا میں رہ کر بعد کی زندگی کی تیاری سے متعلق ہے۔ دنیا کی زندگی ایک امتحان گاہ ہے ۔خالق کی فرمانبرداری میں اعمال صالحہ کی انجام دہی کے لیے ایک مہلت عمل۔ بعداز موت زندگی میں جزاو سزا کا معاملہ‘دنیا میں انجام دےئے گئے اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔ نیکوکاوروں کے لیے عیش و عشرت کے بے انتہا سامان مہیا کئے جائیں گے اور بدکاروں کو ان کے جرم کی حقیقی سزا دی جائے گی۔عقیدۂ آخرت سے متعلق قرآنی سوالات ان اعتراضات پر مشتمل ہیں جو ایمان نہ لانے والے اکثر کیا کرتے تھے، دیکھئے قرآن مجید کیسے ان کی فطرت کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے قلب و ذہن کو جھنجوڑتا ہے:
2 ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوچکا ہے؟ (النحل: ۳۶)۔
2 وہ کہتے ہیں جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہوکر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے؟ (بنی اسرائیل: ۴۹)۔
2 کیا جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہوکر رہ جائے گے تو نئے سرے سے ہم کو پیدا کرکے اٹھا کھڑا کیا جائے گا؟ کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ (بنی اسرائیل: ۹۹-۹۸)۔
2 یہ منکرین کہتے ہیں کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوچکے ہوں گے تو ہمیں واقعی قبروں سے نکالا جائے گا؟ (النمل: ۶۷)۔
2 کیا ان لوگوں کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا کیے اور ان کو بناتے ہوئے وہ نہ تھکا‘ وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں کو جلا اٹھائے؟ (الاحقاف: ۳۳)۔
2 کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ (ق: ۱۵)۔
2 کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے؟ (القیامہ: ۳)۔
2 کیا انسان یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی چھوڑدیا جائے گا؟ (القیامہ: ۳۶)۔
2 کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی‘ اللہ نے جسے بنایا؟ (النازعات: ۲۷)۔
2 اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی ؟ (التکویر: ۹-۸)۔
2 اور اس کا مال آخر اس کے کس کام آئے گا جبکہ وہ ہلاک ہوجائے؟ (الیل: ۱۱)۔
قرآنی سوالات و جوابات
بعض مقامات پر قرآن مجید سوالات پیش کرتے ہوئے ان کے جوابات بھی دیتا ہے، یہ بھی قرآن کا ایک دلنشین انداز بیان ہے ۔ذیل میں مذکورآیتوں کا بغور مطالعہ ‘دیگر قرآنی سوالات کے جوابات میں معاون ہوسکتا ہے۔گرچہ یہاں بیشتر سوالات منکرین حق کے حوالے سے بیان کئے گئے ہیں ‘لیکن اگر دور حاضر میں اسلام سے متعلق کئے جانے والے اعتراضات کا معروضی جائزہ لیتے ہوئے ان آیتوں سے تقابل کیا جائے تو اسلام مخالف ذہنی و نفسانی کیفیات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔اور دین اسلام کو عدل و قسط اور امن کے قیام کے لیے نظام حیات کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیجئے قرآنی سوالات اور جوابات:
2 او راے نبیؐ ‘ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں‘ تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں ‘پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے ‘ میں اس کی پکار سنتااور جواب دیتا ہوں (البقرہ: ۱۸۶)۔
2 لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجئے جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر‘ رشتے داروں پر‘ یتیموں اورمسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو (البقرہ:۲۱۵)۔
2 لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو‘ اس میں لڑنا بہت برا ہے (البقرہ: ۲۱۶)۔
2 لوگ پوچھتے ہیں شراب اور جوے کا کیا حکم ہے؟ کہو‘ ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے‘ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے منافع بھی ہیں‘ مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے ۔پوچھتے ہیں کہ ہم راہ خدا میں کیا خر چ کریں؟ کہو‘ جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو…. (البقرہ:۲۱۹)۔
2 پوچھتے ہیں کہ یتیموں کے ساتھ کیا معا ملہ کیا جائے؟ کہو‘ جس طرز عمل میں ان کے لئے بھلائی ہو‘ وہی اختیار کرنا بہتر ہے… (البقرہ: ۲۲۰)۔
2 پوچھتے ہیں کہ حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو‘ وہ ایک گندگی کی حالت ہے اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ… (البقرہ: ۲۲۲)۔
2 لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہو‘ تمہارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں… (المائدہ: ۴)۔
2 یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ کہو‘ اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے… (الاعراف: ۱۸۷)۔
2 یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ؟ کہو‘ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے (بنی اسرائیل: ۸۵)۔
2 یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟ کہو ‘ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑادے گا….(طہ: ۱۰۵)۔
2 اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کررکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے‘ پھر یہ کدھر سے دھوکہ کھارہے ہیں؟ (العنکبوت: ۶۱)۔
2 اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے‘ کہو الحمد للہ مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں (العنکبوت:۶۳)۔
2 لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی؟ کہو‘ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔تمہیں کیا خبر ‘ شاید کہ وہ قریب ہی آلگی ہو (الاحزاب: ۶۳)۔
2 ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔ان سے پوچھو‘ جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ‘ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو‘ مجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچالیں گی؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکیں گی؟ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے‘ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں (الزمر:۳۸)۔
قرآنی سوالات کے جوابات
قرآنی سوالات کے مطالعہ کے بعد اب ان کے جوابات کا مرحلہ درپیش ہے۔دنیا کی امتحان گاہ میں رہتے ہوئے ان سوالوں کے جوابات دینے اور حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔یوں سمجھ لیجئے کہ جوابات کی تیاری پر ہی دنیاوآخرت کی فلاح موقوف ہے۔بعض سوالات کے جوابات مندرجہ بالا ذیلی عنوان کے تحت آگئے ہیں البتہ دیگر جوابات کے لیے شعوری اور منظم کوشش ضروری ہے۔
ہر سوال کا جواب یکسوئی اور غورو فکر کا تقاضا کرتا ہے۔بعض سوالات انسانی ضمیر سے مخاطب ہیں‘ جس قدر حساسیت کے ساتھ ان کا جواب تلاش کیا جائے گا اسی قدر علم و عرفان کے نئے نئے پہلوسامنے آئیں گے۔بعض سوالات تاریخی و سائنسی حقائق پیش کرتے ہیں‘ جس کے لئے ماضی کی قوموں کا مطالعہ اور زمانۂ حال و بعید کامطالعہ مفید ہوسکتا ہے۔ بعض سوالات انفس وآفاق پر غور وخوض سے متعلق ہیں‘اس ضمن میں توبہ و انابت اورمشاہدہ و تجزیہ ‘معرفت کی بلندیوں تک پہنچاسکتا ہے۔ اگران سوالات کی روشنی میں قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام اور دنیا کا یکسوئی سے مطالعہ کیا جائے اورباہم تبادلہ خیال کا ماحول بنایا جائے تو ان شاء اللہ ‘ ان سوالات کے جوابات کے علاوہ قرآنی بصیرت سے بھی قلب معمورہو گا۔

محمد عبد اللّٰہ جاوید، کرناٹک

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں