عام انسانی کلام ایک سپاٹ سی چھت کی طرح ہوتا ہے کہ ایک نگاہ طائرانہ یا ایک نگاہ غائرانہ سے سارے مفہوم کا ادراک ہوجائے، قرآن مجید تو کہکشاؤں سے بھرا آسمان ہے کہ جتنی دیر تک دیکھتے رہیں، نئے نئے ستارے اور نئے نئے شمس وقمر دریافت ہوتے رہیں، اس کلام کی شان یہ ہے کہ پہلی نظر میں صرف اتنا ہی ملتا ہے جتنا پہلی نظر کے لئے مقدر ہے، بار بار نظر ڈالنے والوں کو جو ملتا ہے ، اس کا اندازہ وہ نہیں کرسکتے جو ایک نظر پر اکتفا کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں تدبر ایک مسلسل عمل ہے، جسے زندگی کی آخری سانس تک جاری وساری رہنا چاہئے۔
اس کلام عظیم کی طرف بار بار رجوع کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قرآن کے پیش نظر صرف معلومات دینا نہیں بلکہ پرانا ذہنی سانچہ توڑ کر نئے ذہنی سانچے کی تشکیل کرنا ہے،ظاہر ہے قرآنی مزاج بار بار رجوع کے بغیر نہیں بنتا ہے۔بعض دینی کتابوں پر اس طور سے بھی تنقید کی گئی ہے کہ وہ اس مزاج سے مختلف مزاج بناتی ہیں جو قرآن مجید بناتا ہے، قرآن مجید کی تعلیمات سے اگر میدان کارزار کا مجاہد بنتا ہے، تو یہ کتابیں خانقاہ کا راہب بناتی ہیں۔ قرآن مجید مرد کامل بنانا چاہتا ہے اور یہ کتابیں شخصیت کے کسی ایک پہلو کی طرف توجہ کو کافی قرار دیتی ہیں۔ایک مومن کے لئے یہ دیکھتے رہنا ضروری ہے کہ اس کے رویہ اور مزاج کی تشکیل قرآن مجید کے ذریعہ ہورہی ہے یا کسی اور نقاش کا ہاتھ کارفرما ہے۔
قرآن مجید کے مطالعہ کے دوران قاری کو صرف قرآن مجید کی بات سننا چاہئے، مثال کے طور پر جنت تک جانے کا راستہ قرآن مجید میں کیا بتایا گیا ہے،ایمان کیا ہے، ایمان کے ساتھ نیک عمل کی کتنی اہمیت ہے، کفر کیا ہے، کون سے اعمال ہیں جو جہنم میں جانے کی وجہ بن سکتے ہیں، یہ سب ہمیں قرآن مجید سے معلوم کرنا چاہئے۔ بسا اوقات لوگ اپنی دوسری سابقہ ذہنی معلومات پر اس درجہ ایمان رکھتے ہیں کہ ان کی تابع داری میں قرآن مجید کی مختلف واضح آیتوں کی تاویلیں کرکے قرآن کے وعدوں کی قوت کو کم کردیتے ہیں ،یا اس کی دھمکیوں کی شدت گھٹادیتے ہیں۔ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری کسی تاویل سے قرآن مجیدکے بیان کی شدت میں کمی تو نہیں ہورہی ہے۔
قرآن مجید کے مطالعہ کے وقت یہ یقین رہنا چاہئے کہ قرآن مجید اپنے ماننے والوں کو عام انسانوں کے سامنے کسی بھی مسئلے میں کمزور پوزیشن پر نہیں کھڑا کرتا ہے، دراصل ہم قرآن کے بجائے جب بعض فقہی اجتہادات پر (جو بہر حال انسانی عمل ہوتے ہیں) مکمل انحصار کرلیتے ہیں توبسا اوقات عام انسانوں کے سامنے ہمارا موقف کمزور معلوم ہوتا ہے، اس لئے جب بھی کسی مسئلے میں اپنا موقف کمزور محسوس ہوتا ہو تو اپنے موقف پر اصرار کرنے کے بجائے، ایک مومن کو قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا چاہئے، اور قرآن مجید کی رہنمائی میں ایک مضبوط موقف اختیار کرنا چاہئے۔
قرآن مجید کا ایک مقصد سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو جگانا اور ذہن ودماغ کو ترقی دینا بھی ہے، یہ مقصد جب ذہن سے اوجھل ہوجاتا ہے تو ہم قرآن مجید پڑھتے ہوئے بھی اس کے ایک بہت بڑے فائدے سے محروم رہتے ہیں، جب ہم بار بار قرآن مجید میں غوروفکر اور تدبر کریں تو یہ عظیم فائدہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے۔قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والوں کو زندگی کی گتھیاں سلجھانے اور انسانوں کے مسائل کا حل سجھانے میں سب سے آگے ہونا چاہئے ، کیونکہ قرآن مجید نہ صرف عقدہ کشا ہے بلکہ عقدہ کشائی کی تربیت بھی دیتا ہے، وہ کائنات کی سیر بھی کراتا ہے اور کائنات کی سیر کیسے کرتے ہیں یہ بھی سکھاتا ہے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی