قرآن مجید اور ہمارا مطلوبہ رویہ

ایڈمن

’’یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں گزرے ہوئے لوگوں کی سچی خبریں ہیں ۔ مستقبل کی پیشین گوئیاں ہیں۔ زندگی کے لیے احکام ہیں۔ یہ قول فیصل ہے۔ اس میں ہنسی مذاق کی کوئی بات نہیں ہے۔ جوتکبر کی…

’’یہ اللہ کی کتاب ہے جس میں گزرے ہوئے لوگوں کی سچی خبریں ہیں ۔ مستقبل کی پیشین گوئیاں ہیں۔ زندگی کے لیے احکام ہیں۔ یہ قول فیصل ہے۔ اس میں ہنسی مذاق کی کوئی بات نہیں ہے۔ جوتکبر کی وجہ سے اسے چھوڑے گا اللہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردے گا، اور جواس کتاب کے بجائے کہیں اور ہدایت تلاش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے محروم کردے گا۔ یہ اللہ کی مضبوط ڈوری ہے۔ یہ نصیحت اور حکمت سے معمور کلام ہے۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کے ذریعے خواہشات کج روی اختیار نہیں کرسکتیں اور جس کے ذریعے زبانیں دھوکہ نہیں کھاسکتیںیا دھوکہ دے نہیں سکتیں۔ اہل علم و دانش کبھی اس سے سیر نہیں ہوسکیں گے، اور باربار پڑھے جانے کے باوجود اس کلام میں پرانا پن نہیں پیدا ہوگا۔ اس کی ناد ر باتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ یہ وہ کلام ہے جب جنوں نے اسے سنا، تو بول پڑے ہم نے ایک عجیب کلام سنا ہے، جو ہدایت کا راستہ بتاتاہے لہٰذاہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ جو قرآن کریم کے مطابق کہے گا وہ سچاہے اور جو اس پر عمل کرے گا وہ اجر پائے گا، اور جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ انصاف کرے گا، اور جو اس کی طرف دعوت دے گا اس کی دعوت سیدھے راستے کی طرف ہوگی۔‘‘ (ترمذی)
نزول قرآن کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے جزیرۂ عرب کے شہر مکہ میں، جہاں فساد اور بگاڑاپنی انتہا کوپہنچ چکا تھا،اپنے ایک بندے کو پیغمبری کے لیے منتخب فرمایا،اور اسے حکم دیا کہ وہ تمام ہی انسانوں کو دنیوی واخروی فلاح اور کامیابی کی طرف رہنمائی کا فریضہ انجام دے۔
فلاح اورکامیابی کی طرف بلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف پیغمبر کو مبعوث کیا،بلکہ ساتھ ہی رہنمائی کے لیے اپنے رسول ؐ پر ایک کتاب بھی قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمائی۔ قرآن مجیداپنے اندر رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے ہدایت اوررہنمائی رکھنے والی ایک ایسی رہنما کتاب ہے جس میں عقائدومعاملات،عبادات وسیاسیات اور زندگی کے تمام مسائل کے حل کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ جس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اصول وضوابط اور قواعدو کلیات کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے اور بہت ہی صراحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ انسان کن کن اصولوں کی رعایت کرکے سرخرواورکامیاب ہوسکتا ہے۔ اسلامی شریعت کا مقصد اورروح بھی قرآن ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتی ہے، قرآن مجید میں انسانی ضروریات اور انسانی فطرت کے تقاضوں کی بہت ہی حسن وخوبی کے ساتھ رعایت موجود ہے۔الغرض یہ کہ نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب دے کر بھیجاتاکہ وہ عالم اسلام کو ہدایت اور روشنی سے روشناس کرائیں،جیسا کہ ارشاد ہے:
’’یہ قرآن ایک نصیحت نامہ ہے پس جو چاہے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرے‘‘۔
چنانچہ دیکھا جائے تو قرآن مجید کے نزول کاپہلامقصد انسان کی نصح و خیرخواہی ہے،تاکہ اس کے ذریعہ وہ اپنے رب کی مرضی اور خوشنودی حاصل کرلے۔
پھر قرآن مجید اپنے نزول کا دوسرا مقصد یہ بتاتا ہے کہ ’’ویخرجھم من الظلمت الی النور‘‘(سورۃ البقرۃ: ۲۵۷) ترجمہ: ’’اور وہ ظلمات سے نکال کر نور میں داخل کرتا ہے۔‘‘
ظلمات سے نکال کر نور میں داخل کرتا ہے یا تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ طاغوت کا بندہ بننے کے بجائے انسانوں کو خدا کا بندہ بناتا ہے۔ تمام بندوں کو ایک خدا کی اطاعت کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے، فرمایاگیا کہ ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں مضامین دوہرائے گئے ہیں تاکہ لوگوں کوباربار خدا کی بندگی واطاعت کی طرف بلایاجائے۔‘‘
اس کا موضوع انسان ہے، یہ کتاب انسانوں کو حق کے راستے کی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ قرآن کی اہم خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب جب لوگوں نے اسے اپنایا، وہ وقت کے امام بن گئے، اور قدم قدم پر رحمت الٰہی سے فیضیاب ہوئے ، بقول شاعر ؂
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
قرآن اپنے نزول کا تیسرا مقصد اس طرح بتاتا ہے کہ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ۔ (سورۃ یونس:۵۷)
ترجمہ:’’ لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی ہے جو تمہارے دلوں کے امراض کے لیے شفاء ہے۔ ‘‘
انسان کے باطن کی تمام بیماریوں کے لیے قرآن کا نسخۂ شفا ہوناایک واقعہ اور ایک حقیقت ہے۔ قرآن کے نزول کے زمانہ میں بھی سسکتی ہوئی انسانیت اس سے شفایاب ہوئی اور تاریخ شاہد ہے کہ ہر زمانے میں اس کی طرف رجوع کرنے والے صالح کردار کے حامل بنے، نیز موجودہ زمانے میں بھی جبکہ اخلاقی گراوٹ اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے قرآن کے زیرسایہ زندگی گزارنے والے ہی اپنے اندر اخلاقی پاکیزگی کا وصف رکھتے ہیں۔مختصر یہ کہ یہ وہ کتاب ہے جو انسان کی تمام قلبی، روحانی اور باطنی بیماریوں کا علاج ہے۔
قرآن اپنے نزول کا چوتھا مقصد یہ بتاتا ہے کہ: أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ۔ (سورۃ الشوری: ۱۳)
تر جمہ: ’’دین قائم کرو، اور اس کے سلسلے میں تفرقہ کا شکار نہ ہو‘‘۔
ضرورت ہے کہ ایک ایسی سوسائٹی اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جو تفرقہ سے پاک ہو۔جو مسالک اور فرقوں میں بٹنے کے بجائے اللہ کی رسی کو تھام کر کامیابی کے راستے کی طرف گامزن ہو۔جیسا کہ قرآن اس طرف بھی متوجہ کرتاہے: وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ۔ ( سورۃ آل عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘
قرآن مجیدنے خدا کی مخلوق پر خدا کے سوا کسی اور کے قوانین واحکام کو مسلط کرنے کو ظلم قرار دیا ہے کیونکہ مخلوق کے لیے قانون بنانے کا اصل حق خالق ہی کو ہے۔ عدل و انصاف کا جو کچھ بھی تقاضا ہے وہ خدا نے اپنے قانون میں رکھ دیا ہے اور مخلوق پر صرف اس کے نفاذ کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نذیر تھے، آپؐ کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ ساری انسانیت کو رب کی نافرمانی اور غفلت کی زندگی سے خبردار کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ذمہ داری آپ کی امت پر عائد ہوتی ہے،قرآن میں ارشاد ہے:تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔( سورۃ الفرقان: ۱)
ترجمہ: ’’بڑ ی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ پر فرقان نازل کیاتاکہ وہ دنیا والوں کے لیے خبردار کرنے والا ہو‘‘۔
یہاں قرآن کو فرقان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرقان یعنی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز۔یہ کتاب فرقان ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کر تی ہے۔مختصر یہ کہ یہ کتاب تمام معاملات زندگی میں کسوٹی کا درجہ رکھتی ہے۔
پھر قرآن نے سوالیہ انداز میں اپنے ماننے والوں سے یوں بھی پو چھا ہے کہ: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ۔ ( سورۃ القمر: ۱۷)
ترجمہ: ’’ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنادیاپھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘
یہ قرآن ہی ہے جس کے ذریعہ سے خیر اور شر کی راہیں اور ان کا انجام بتادیاگیا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ خیر کا چرچا ہو اور شر کا انکار۔اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام صحیفوں میں یہی بات بندوں کو بتائی ہے، اور قرآن اس سلسلے کی آخری کڑی ہے۔کسی مفکر کے اس قول میں بڑی سچائی ہے:
’’میں نے تعلیمات قرآنی کا مطالعہ کیا ہے۔ مجھے قرآن کو الہامی تسلیم کرنے میں ذرہ برابر تأمل نہیں ہے۔مجھے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ نظرآتی ہے کہ یہ کتاب فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔‘‘
یہ کتاب تمام علوم کی کلید،رشدوہدایت کا سرچشمہ، اسلامی احکام کا بنیادی مأخذومصدراور تمام انسانوں کے لیے منبع و محور ہے اور ایک ادنیٰ مسلمان بھی اپنے کسی معاملے میں اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک بہترین لائحہ عمل ہے۔جو زندگی کے ہر مرحلے پر انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان اس میں غور وفکر کرکے اس کے احکام کو اپنی زندگی میں نافذ کرلے تو ساری ضروریات کا علاج قرآن میں تلاش کر لیں گے۔ قرآن مجید ایک ٹھوس ومحکم کتاب ہے، کوئی معمہ نہیں کہ جسے سمجھا نہ جاسکے۔ قرآن کے احکام انتہائی سادہ اور غیر پیچیدہ ہیں،یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہو،یا محض تبرک حاصل کرنے کا ذریعہ ہویا اسے محخ لطف اور سرور حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے یا دفع مصیبت کا ذریعہ سمجھا جائے، بلکہ اس کا مقصد نزول ہی جہالت کی گمراہیوں سے علم کی روشنی کی طرف لانا ہے۔یہ کتاب انسانوں کو گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر حقیقت و واقعات کی روشنی میں پہنچادیتی ہے۔ سوئی ہوئی انسانیت کو جگادیتی ہے اور زندگی کے تمام مسائل کا حل اپنے اندر رکھتی ہے۔
ضرورت ہے کہ اس کے نزول کے مقصد کو پورا کیا جا ئے اور اس میں تدبر و تفکر کیا جائے خود اس پر عمل پیرا ہوکر اس کی تعلیمات کو عام کیا جائے، اوراس کے احکامات کو لاگو کیاجائے۔

شہمینہ سبحان، حیدرآباد

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں