ابن سینا صرف مسلم دنیا کے قد آور شخصیت نہیں تھے بل کہ طب پر ان کی کتاب سینکڑوں سال تک مغربی دنیا میں پڑھائی گئی۔انھیں الشیخ الرئیس کے نام سے پکارا گیا۔ انھوں نے بہت سی کتابیں اور مضمون لکھے۔ وہ بخارا شہر میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا۔ اکیس سال کی عمر میں اس زمانے کے تمام علوم سے واقف ہوگئے۔ حوادث زمانہ نے انھیں چین سے نہیں رہنے دیا اور وہ چھپتے اور بھاگتے رہے لیکن پڑھنا اور لکھنا نہیں چھوڑا۔ وہ صرف75سال رہے لیکن دنیا کی تاریخ پر ایک چھاپ چھوڑ گئے۔ابن سینا لکھتے ہیں کہ:
اگر کوئی سائنسی مسئلہ ان کے لیے ناقابل فہم ہوتا تھا تو وہ مسجد میں جاکر عبادت کرتے تھے اور خدا سے دعا کرتے تھے کہ وہ ان کی سمجھ میں آجائے۔وہ مسئلہ ان کی سمجھ میں آجاتا تھا۔(تاریخ کے معمار 24.34 محمد احتشام کٹونوی)
فہم بہت بڑی نعمت ہے۔۔۔فہم کے بغیر بات بنتی نہیں بگڑتی ہے۔مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے تو مسئلہ حل ہوجائے۔۔۔مسئلہ کوئی بھی ہو اس کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔۔۔مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ”غور وفکر“ کرنا ضروری ہے۔۔۔مسئلہ سمجھ سے باہر ہو تو کسی سمجھ دار اور جان کار انسان سے سمجھا جاتا ہے۔۔۔ہر مسئلہ کو سب سے بہتر انداز میں اور اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے والا خدا ہے۔۔۔جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔۔۔وہ حل بتائے گا اور بالکل صحیح حل بتائے گا۔۔۔ایسا حل کہ دل مطمئن ہوجائے۔۔۔دل خوش ہوجائے۔۔۔وہ بند دروازوں کو کھولتا ہے۔۔۔وہ صحیح راہ نکالتا ہے۔۔۔وہ صحیح رہ نمائی کرتا ہے۔۔۔شرط یہ ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے۔۔۔پوری توجہ کے ساتھ۔۔۔پوری آمادگی کے ساتھ۔۔۔پوری تڑپ کے ساتھ۔۔۔پوری بے قراری کے ساتھ۔۔۔اس کے سامنے دستِ سوال دراز کیا جائے۔۔۔مانگنے والوں نے مانگا ہے۔ مانگنے کے بعد پایا ہے۔۔۔وہ دیتا ہے۔۔۔ نہ دینے سے شرماتا ہے۔۔۔ دے کر ہی لوٹاتا ہے۔۔۔مانگ کر دیکھئے۔۔۔پاکر ہی لوٹیں گے۔۔۔خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے۔۔۔ابن سینا جیسے بڑے لوگوں اور بڑے بزرگوں نے اسی سے مانگا ہے اور اسی سے پایا ہے۔