یہ ہوتا آرہا ہے کہ دنیا میں بسنے والے کسی طاقتورپر اس کی طاقت کا، مالدار پر اس کی مالداری کا ، بادشاہ پر اس کی سلطنت کا نشہ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ کوئی چیز اس کے اس غرور کو توڑ ہی نہیں سکتی لیکن موت کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو ان کے سارے منصوبوں کوخاک میں ملادیتا ہے، اور سارے کبر وغرور کو کمزور کردیتا ہے ۔ یہاں پہنچ کر انسان کی ساری سرمستیاں جواب دے جاتی ہیں اس لئے کہ موت کے آگے کیسے کیسے انسان بے بس ہوگئے، تاریخ اس پر شاہد ہے۔
موت کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو انسان کو اس کی حقیقت یاد دلاتا ہے ۔ کسی کے دل میں جب موت کا خوف جاگزیں ہو جائے تو کوئی سبب نہیں کہ وہ گناہوں سے باز نہ آجائے ، انسان پر سب سے زیاد ہ اثر انداز ہونے والی چیز موت کا خوف ہی ہے جس کے ساتھ عیش و عشرت کی ساری راحتیں عذابِ جاں بن جاتی ہیں۔
آں حضورؐ نے اپنے ایک ارشاد میں موت کو کثرت سے یاد کرنے کو کہا ہے، ارشاد گرامی ہے: أکثروا ذکر ھاذم اللذات یعنی الموت (لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔)
قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت (ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ )
بعض روایات میں موت کے بعد قبر میں پیش آنے والے حالات کا ذکر جس انداز میں کیا گیا ہے وہ کم چو نکانے والا نہیں ہے۔ نیکوکاروں کے لئے تاحد نگاہ قبر کی وسعت کا وعدہ اگر باعث تسکین ہے تو بد کاروں کے لئے تنگی قبر کی بات جس میں پسلیوں کو ملانے کا ذکر ہے نیند اڑانے کے لئے کافی ہے ، پھر قیامت تک ڈستے رہنے کے لئے اژدھوں کو مسلط کئے جانے کا معاملہ اس کی خوفناکی میں بے پناہ اضافہ کردیتا ہے۔
موت کا ڈر اور انجامِ کار کا خوف دل میں تازہ رکھنا اس قدر تیر بہدف علاج ہے کہ اس کا تصور انسان کو لازماََ گناہوں سے بچاتا ہے ، اس لئے کہ یہ ناممکن ہے کہ آدمی کو اپنی برائیوں اور گناہوں کا اندازہ بھی ہو اورموت کی یاد بھی تازہ ہو، پھر بھی گناہوں سے باز نہ آئے ۔ کیا اس بات کی کوئی گارنٹی دے سکتا ہے کہ صبح کو جاگنے والا شام کو بستر پر سوئے گا ؟ یا پھر قبر کی مٹی اور دائمی آرام گاہ اس کا ٹھکانہ بنے گی ۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اپنے انجام کو یاد رکھے ، آخری سفر کی تیاری میں کوئی کوتاہی نہ برتے، کیونکہ موت کا کوئی پتہ نہیں کہ کس وقت آجائے اور انسان کو دبوچ لے ۔
کسی کے جنازے میں شرکت کے وقت جب انسان کو یہ یاد آئے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، جب میرے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا، تب آپ اندازہ لگائیں کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت ہو گی۔ یقیناًاس موقع پرہر انسان کے دل میں گناہوں سے باز آنے کا داعیہ پیدا ہوگا۔ اسی طرح قبر ستان میں داخل ہونے کے بعد پڑھی جانے والی دعامیں بھی اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وانا ان شاء اللہ بکم لاحقون (ہم بھی اگر اللہ کی مشیئت ہوئی تو آپ سے جلد ہی ملنے والے ہیں)، بھلا بتائیے کہ جب انسان کو اس قدر موت کی یاد دلائی گئی ہے تو کیوں نہ انسان اس کی ہولناکیوں سے خوف کھائے اور کیوں نہ اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائے۔
فکر آخرت اور موت کے استحضار سے یقیناًحسن عمل کی توفیق ملے گی اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا ۔
(برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل )
فکر آخرت
یہ ہوتا آرہا ہے کہ دنیا میں بسنے والے کسی طاقتورپر اس کی طاقت کا، مالدار پر اس کی مالداری کا ، بادشاہ پر اس کی سلطنت کا نشہ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ کوئی چیز اس کے اس…