کتاب کا نام: فنِ تعلیم و تربیت
مصنف: افضل حسینؒ
اشاعت: جولائی 2009ء
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی
صفحات:416
تعارف
تعلیم اور تربیت کسی بھی قوم کی ترقی کی اساس ہیں۔ اگر تعلیم محض معلومات کے حصول تک محدود ہو اور اس میں تربیت شامل نہ ہو تو فرد اور معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے۔کتاب فنِ تعلیم و تربیت اسی بنیادی اصول کو واضح کرتی ہے۔ یہ کتاب اسلامی اور جدید تعلیمی نظریات کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے اور تعلیم و تربیت کے تمام بنیادی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔
اس کتاب کو مرحوم افضل حسینؒ نے قلم بند کیا۔افضل حسینؒ برصغیر کے ممتاز تعلیمی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی اسلامی تعلیم و تربیت کے اصولوں کو عام کرنے میں صرف کی۔ ان کی تحریریں قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مثالی تعلیمی نظام کے خدوخال واضح کرتی ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کے ابتدائی دور سے ہی اس سے متاثر ہو ئے اور 1944ء میں باقاعدہ رکنیت اختیار کی۔تقسیم ملک کے بعد ملیح آباد(لکھنو) میں جب جماعت کی مرکزی درس گاہ کا قیام عمل میں آیا تو جماعت کے فیصلے کے مطابق اپنی سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر قلیل مشاہرے پر اس کے ناظم رہے۔ کم و بیش پندرہ سال تک درس گاہ کی نظامت سنبھالنے کے بعد جماعت کی گذارش پر مرکز جماعت منتقل ہوئے وہاں سکریٹری اور پھر سکریٹری جنرل(قیم) کی حیثیت میں تاحیات(جنوری1990ء تک) اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔
“فنِ تعلیم و تربیت” ان کی ایک شاہکار تصنیف ہے، جو اساتذہ، والدین اور تعلیمی ماہرین کے لیے ایک تعلیمی رہنما (Educational Guide) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں تعلیم کے نظریاتی، عملی اور روحانی پہلو بیان کیے گئے ہیں، تاکہ ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دیا جا سکے جو صرف ذہانت پیدا نہ کرے بلکہ اخلاقی و روحانی شعوربھی بیدار کرے۔فہم اسلوب میں خالص اسلامی نقطہ نظر سے بچوں کی تعلیم و تربیت کےاہم اور رہنما اصول پیش کیے گئے ہیں اور جو باتیں بھی پیش کی گئی ہیں وہ قابل عمل ہیں۔
یہ کتاب ایک عام نصابی کتاب نہیں بلکہ تعلیمی فلسفہ اور اسلامی تربیتی اصولوں کا ایک بہترین مجموعہ ہے۔ آج کے جدید تعلیمی نظام میں جہاں زیادہ زور درجات (Grades) اور ڈگریوں پر دیا جاتا ہے، وہاں یہ کتاب ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار کمانا نہیں بلکہ ایک باکردار اور باشعور انسان بنانا بھی ہے۔
یہ کتاب درج ذیل مسائل کو حل کرنے اور بچوں کی تعلیم وتربیت کو موثر بنانے میں معاون و مددگار ہے:
نئے اداروں کےلیے موزوں اساتذہ کا نہ ملنا۔
جن اساتذہ سے کام لیا جارہا ہے ان کی اکثریت کا فنِ تعلیم و تربیت سے واقف نہ ہونا۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین کا پورا تعاون حاصل نہ ہونا۔
مزید اس میں بچوں کی نفسیات،تعلیم کے اصول،تدریس کے طریقے،تربیت کے ڈھنگ،مدرسے کے انتظام،تعاون کے حصول کی صورتوں و غیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
مصنف نے اس کتاب میں قاری کی تمام تر ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئےیہ کوشش کی ہےکہ :
زبان آسان اور سلیس،اندازِبیاں عام فہم اور شگفتہ ہو۔
اساتذہ،والدین اور تعلیم سے دلچسپی رکھنے والے تمام حضرات کے لیے اسے یکساں،دلچسپ اور مفید بنایا جائے۔
ہر مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظرسامنے لایا جائے۔
صحیح تعلیم و تربیت کا احساس ابھرے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ انجام دینے کی فکر لاحق ہو۔
والدین اور اساتذہ کی کوششیں نتیجہ خیز ہوں۔
بچوں پر ان کے تحمل سے زیادہ بوجھ نہ پڑنے پائے۔
اس کتاب میں حتی الامکان اصطلاحی الفاظ اور علمی اندازِبیان سے گریز کیاگیا ہے اور تعلیم و تربیت سے متعلق تمام اہم مباحث پر روشنی ڈالی گئی۔
اہم مباحث
تعلیم اور تربیت کی ضرورت و اہمیت:مصنف نے کتاب کے آغاز میں تعلیم اور تربیت کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے، لیکن اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو علم ایک خطرناک ہتھیار بن سکتا ہے۔مصنف نے تعلیمی ادارے کامحددود مفہوم بیان کیا ہے۔ کیوں کہ تعلیمی اداروں میں تو بچے بہت کم وقت گزارتے ہیں اور بہت ہی محدود معلومات و تجربات حاصل کرتے ہیں۔جب کہ ان کے جاننے،سیکھنے اور تجربات حاصل کرنے کا عمل پیدائش سےلے کر موت تک برابر جاری رہتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی باضابطہ تعلیم کے علاوہ نہ جانے کتنی باتیں وہ اپنے گھر،محلے،پڑوس،فطری وسماجی ماحول اور اپنے گردوپیش پھیلی ہوئی دنیا اور اس میں بسنے والے افراد سے سیکھتے ہیں۔ مصنف نے تعلیم کے وسیع مفہوم کو اس طرح بیان کیا ہےکہ(تعلیم میں ) ” وہ تمام معلومات وتجربات شامل شمارہوتے ہیں جو گود سے گور تک ہر فرد باضابطہ یا بے ضابطہ خود حاصل کرتا ہےیا اسے حاصل کرائے جاتے ہیں۔ “
تعلیم کا اسلامی نقطہ نظر قرآن حکیم کی روشنی میں: قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انسان کو صحیح طرزِ زندگی سکھاتا ہے۔ قرآن بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، جو تعلیمی عمل میں تحقیق اور تنقیدی سوچ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ قرآن نظریے کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیتا ہے، جیسا کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے ذریعے تربیت کی جاتی ہے۔ مصنف نے اس پہلو پر زور دیا کہ قرآن میں بیان کردہ تعلیمی اصول آج بھی جدید دور کے تعلیمی نظریات سے زیادہ جامع اور موثر ہیں۔ مصنف نے بیان کیا کہ معلم کو چاہیے کہ وہ پوری دل سوزی سے طلبہ کو عالم و جاہل کا فرق، اہلِ علم پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل اور علم کی ضرورت و اہمیت،دل کش انداز میں دلائل کے ساتھ اور واقعات کا حوالہ دے کر برابر سمجھاتا رہے تاکہ علم کی طرف ان کی رغبت ہو نیز حصولِ علم کےلیے انہیں مختلف طریقوں سے آمادہ کرتا رہے۔
اسوۂ حسنہ کی روشنی میں تعلیم و تربیت : نبی اکرم ﷺ کا اندازِ تعلیم ایک مثالی نمونہ ہے، جسے مصنف نے کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس کی کچھ نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں
آپﷺ کی شخصیت بڑی دلکش، محبوب اور موثر تھی۔
زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپﷺ کا اسوہ قابل تقلید تھا۔
ذاتِ گرامی علم و حکمت کی حامل تھی۔
عفو و درگزر اور تحمل و بردباری میں حضورﷺ اپنی مثال آپ تھے۔
بچوں سے آپﷺ کو غیر معمولی انس اور طبعی مناسبت تھی۔
.4استاد کا کردار اور تدریسی اصول : مصنف نے اساتذہ کے کردار پر خاص توجہ دی ہے۔ ایک اچھا استاد محض معلومات فراہم کرنے والا نہیں بلکہ ایک رہنما، مربی اور مثالی شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔اس کتاب میں استاد کے لیے درج ذیل صفات کو ضروری قرار دیا گیا ہے:
عقائد و نظریات اور علمی زندگی کے لحاظ سے صالح ہونا۔
دینی علوم میں لیاقت کے ساتھ عقائد و افکار کے لحاظ سے مسلمان ہونا۔
احکامِ اسلامی کا متبع اور فضائلِ اخلاق سے آراستہ ہونا۔
علمی و عملی پندار میں مبتلا نہ ہونا۔
.5جدید اور اسلامی تعلیم میں ہم آہنگی: مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی اور جدید تعلیم میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ انہیں یکجا کر کے ایک متوازن نظام تعلیم تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ جدید سائنسی تعلیم کے ساتھ اسلامی اخلاقیات کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ ایک مکمل شخصیت کی تعمیر ہو سکے۔
“فنِ تعلیم و تربیت” ایک لازوال اور مفید کتاب ہے جو اساتذہ، والدین اور تعلیمی ماہرین کے لیے ایک بہترین رہنما ثابت ہو سکتی ہے۔ مصنف نے تعلیم اور تربیت کے اصولوں کو اسلامی اور جدید نقطہ نظر سے بیان کیا ہے اور ایک متوازن تعلیمی نظام کے قیام پر زور دیا ہے۔ اگر آپ تعلیمی نظریات کو اسلامی تناظر میں سمجھنا چاہتے ہیں یا بچوں کی بہتر تربیت کے خواہاں ہیں، تو یہ کتاب آپ کے لیے نہایت مفید ثابت ہو گی، ان شاء اللہ۔
(مضمون نگار، الجامعہ اسلامیہ شانتاپورم سے فارغ التحصیل ہیں)