انس شاکر
دور جدید کی دو تین صدیاں گزر جانے کے بعد اب دانشوران دور حاضر کی زبان پر مابعد جدیدیت (Post Modernism)کی اصطلاح گردش کرتی نظر آنے لگی ہے۔مغربی مفکرین کے مطابق مابعد جدیدیت محض ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حالت و کیفیت نام ہے جس میں انسان طے شدہ تصورات کو decunstructاور ہر نظریہ کوrevisitکررہاہے۔فکر انسانی کے رویہ میں اس تاریخی تبدیلی کا اثر اگر تمام انسانوں پر پڑرہا ہے تو اسلامی مفکرین کا بھی فوری طور پر اس سے متاثر ہونا باعث حیرت نہیں ہونا چاہئے۔چنانچہ اس دور میں ایسے اسلامی مفکرین بھی منظر عام پر آچکے ہیں جو اسلامی علوم کی روایات پر قابل توجہ سوالات کھڑے کرنے لگے ہیں۔مقاصد شریعت کے سلسلے میں امام شاطبیؒ کے اصول خمسہ کو آج تک کافی سمجھاجاتا رہا ہے لیکن اب اس موضوع پر نئی بحثوں کاآغاز ہوچکاہے۔ اس پر کلام کرنے والوں میں عہد حاضر کے بالغ نظر مفکر شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی سر فہرست ہیں۔ ان کی ایک مستقل کتاب ’مقاصد شریعت‘کے موضوع پر ہی ہے۔
اس مقالے کاا موضوع فقہ اسلامی کے حوالے سے ہے۔فقہ اور تفقہ فکر و ذہن کے دانشورانہ عمل اور علم و حکمت کے نئے زاویوں کی تلاش کانام ہے۔یہ بڑا نازک اور انتہائی ذمہ دارانہ کام ہے۔یہ کام اگر وحی الہی کی روشنی میں آگے بڑھے تو یہ امت محمدیہ کوعروج کی اعلی منازل تک پہنچا سکتا ہے۔لیکن یہی کام اگر ائمہ پروری یا مسلک پرستی کی بیڑیوں میں جکڑ جائے اور انسانی تعبیرات کے دام میں الجھ کر رہ جائے تو امت کو زوال کے گہرے گڑھے میں پہنچاسکتا ہے۔بلکہ پہنچایا ہے۔نبی اسرائیل کی تاریخ اس بات پرمہر صداقت ثبت کرتی ہے۔بنی اسرائیل وہ امت تھی جسے امت مسلمہ سے پہلے خیر امت کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔لیکن ان کے علماء نے وحی ربانی کے گرد تعبیرات انسانی کا ایسا حصار کھینچا کہ اس سے نہ صرف وحی کی روح فوت ہوگئی بلکہ اسی بنا پر یہود کو مقام اعلیٰ سے ذلت ے ساتھ معزول کردیا گیا۔
”وَضُرِبَت عَلَیہِمُ الذِّلَّۃُ وَالمَسکَنَۃ وَبَاءُ وا بِغَضَبِ مِنَ اللَّہ“(ترجمہ:اور ان پر ذلت اور پست ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر لوٹے،سورہ البقرۃ،آیت61) قرآن نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو تفصیل کے ساتھ کھول کر رکھ دیا ہے تاکہ ہم اس سے درس عبرت حاصل کر سکیں۔
اسلام دراصل غیر مشروط عبودیت کا داعی ہے۔جس میں بندہ بے چوں چراں فی الفور حکم پر عمل کرگزرنے کا جذبہ رکھتا ہو۔اس کے بر خلاف غیر ضروری فقہی ذہن نہ صرف دین کی روح کو مجروح کرتا ہے بلکہ اس کو ایک فنی پیچیدگی میں قید کردیتا ہے۔جس کی واضح مثال حضرت موسی ؑ کا بنی سرائیل کے ساتھ ہوا مکالمہ ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:”وَاِذ قَالَ مُوسی لِقَومِہ اِنَّ اللَّہ یَامُرُکُم اَن تَذبَحُوا بَقَرَۃ۔۔۔الخ“ (ترجمہ:اور یاد کرو جب کہ موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو۔۔۔،سورۃ البقرۃ،آیت 67)
بنی اسرائیل نے ایک حکم الہی پر فی الفور عمل کرنے کے بجائے اس عمل کو اپنے لئے مشکل ترین بنالیا۔بلکہ فقہی سوالات کے ذریعہ روح عبادت کو ختم کرکے رکھ دیا۔اتفاق سے فقہ اسلامی میں بھی اسی قسم کی فقہی اٹکلوں کی ناقابل جواز روایت ہمیشہ سے موجودرہی ہے۔ہمارے علمی ورثہ کا ناقابل نظرانداز حصہ ان فقہی موشگافیوں سے عبارت ہے جس نے روح دین کوغیرمعمولی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔وہ دین جو خدا کی زمین پر خدا کے حکم کو نافذ کرنے کی غرض سے آیاتھا،ان مسائل کی آماجگاہ بن کر رہ گیا جن کی اصل دین میں تھی ہی نہیں۔وہ دین جو عوام الناس کو ایک آفاقی پیغام دینے آیا تھا،تعبیرات انسانی کے دام میں جاپھنسا،بالآخرعوام نے ان ہی تعبیرات کو اصل دین سمجھ لیا۔تاریخ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے اگر ہم زوال کی تاریکی میں پہنچے ہیں تو اس کا بنیادی سبب کتاب اللہ کو چھوڑ کر علماء کو Ultimateمرجع بنالینا ہے۔صدیوں پر محیط ہمارا تاریخی ذخیرہ شاہد ہے کہ ہم نے کتاب اللہ کو برکت و ثواب کی کتاب بنا کر اپنے مسائل کا حل فقہاء کی تعبیرات میں تلاش کرنے لگے ہیں۔عصر حاضر میں فقہی Prejudicesکی رد تشکیل کا بڑا علمی و تحقیقی کام سر انجام دینے والے اسکالرڈاکٹر راشد شازرقم طراز ہیں کہ فقہاء کے حلقے میں بھی یہ خیال عام ہوا کہ دینی زندگی میں رہنمائی کیلئے فقہ کا مطالعہ کافی ہے۔ بعض معتقدین علماء نے فقہ کو کتاب اللہ کا ہم پلہ قراردیا۔شارح الانتباہات المفیدہ نے لکھا:
”قیاس اور حدیث کا سلسلہ تو کتاب اللہ سے صرف دو ایک کے واسطے سے ملاہوا ہے تو ان کے احکامات کو کتاب اللہ کے احکامات کہنے میں کیا تعجب کی گنجائش ہے،بلا تردد سب کو کتاب اللہ کے احکامات کہہ سکتے ہیں۔علماء اسلام نے ان سب کو جمع کیا ہے اور ان کا نام علم فقہ رکھا ہے۔“(شرح الانتباہات المفیدہ،تالیف مولانااشرف علی تھانویؒ،شرح مصطفی ارشد19،صفحہ30)
یہ ہے وہ طرز فکر جس نے امت کوعلمی،فکری وعملی زوال کی راہوں پر ڈال دیا۔بعض اہل علم و اہل بصیرت افراد نے کتاب اللہ کے فقہی تعبیرات کی ضخیم مجلدات کے نیچے دب جانے پر اعتراض و مخالفت کا اظہاربھی کیا جن میں ابن تیمیہؒ اورابن حزمؒ کا نام نمایاں ہے۔دور حاضر میں اس موضوع کو از سر نو موضوع بحث بنانے والے حضرات میں بڑا نام ڈاکٹرراشد شازکا ہے جنہوں نے اپنی تجدیدی علمی کاوشوں سے روایتی فقہ پر تنقید کی اور اس کےloop holesکو واضح کیا۔یہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ ڈاکٹرشاز کے اس عمل کے نتیجہ میں انہیں بھی’منکر حدیث‘ کے مشہور زمانہ لقب سے نوازا جاچکا ہے۔ظاہر ہے یہ لقب نوازنے والے لوگ وہی ہوسکتے ہیں جو اندیشوں کے گرفتار ہیں اور اسلامی روایات پر تنقیدی نگاہ سے جن کے عقیدے پر حرف آتا ہے۔یہ ٹرینڈ تو امت کی روایت میں شامل ہورہاہے کہ جب جب کسی بندہ حُر نے امت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور اس کو ا س کے بھولے ہوئے اسباق کی جانب توجہ دلائی تو ملت کا ایک مخصوص طبقہ اس کے درپئے آزار ہوگیااور اس کے خلاف کافر و منکر حدیث جیسی سنگین اصطلاحوں کا استعمال کرنے لگا۔چاہے وہ اقبالؒ ہوں یا مودودیؒ،جاوید احمد غامدی ہوں یا ڈاکٹر عنایت اللہ اسدسبحانی۔ہمارے اکثرروایت پرست علماء نے ہر تجدیدی فکر کو ہمیشہ ناقابل اعتناء ہی سمجھا اور اپنی ’نیم عالمانہ دانش گردی‘کی بنیاد پر تکفیر اور انکار حدیث کے تیر داغتے رہے۔نتیجہ یہ ہواکہ اصلاح امت کی مخلصانہ کوششیں اکثرخاطر خواہ نتائج نہیں دے سکیں۔
اقبال نے اس رویے کی ترجمانی یوں کی ہے
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
وحی الہی،فقہ اور ڈاکٹرراشد شاذ
امت مسلمہ کے لیے قرآن کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے۔جوآج بھی امت مسلمہ کے پاس اپنے روزاول کی سی آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔لیکن اس حقیقت کے باوجود امت محمدیہ عزل وتعطل کے سخت عذاب سے دوچار ہے۔جس کا سبب قرآن کی ساتھ خود اس کا رویہ ہے۔جس کی تشکیل میں ان ضخیم وحجیم تفسیروں کے مجلدات کے رول سے انکار نہیں کیا جن کی تدوین تو صدیوں میں ہوئی البتہ منہج قرآنی سے اس روایت کا انحراف کا عمل دوسری اور تیسری صدی میں منصہ شہود پر ظاہرہونے لگا تھا۔متن قرآنی کی تمام تر صحت کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ آج وحی ربانی تفاسیر کی ضخیم مجلدات میں مقیدہے۔ڈاکٹرراشد شاذ اپنی اہم کتاب’ادراک زوال امت‘میں رقم طراز ہیں:
”‘ سچ تو یہ ہے کہ قرآن ایک غیر فقہی ربانی معاشرہ کا داعی ہے۔غیر مشروط عبودیت اورWilling Submissionکی علامت ہی یہ ہے کہ فرد بندگی میں کسی logical essenceکی تلاش کے بجائے فی الفور کر گزرنے کے جذبہ سے سرشار ہو“ ڈاکٹرشاز مزید لکھتے ہیں:”دین اگر وحی سے راست رابطے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والےdivine sparksکے ناقابل بیان phenomenonکا نام ہے تو فقہ کا سارا زور انسانی تعبیر و تفہیم اور متعلقات و مظاہر پر ہوتا ہے۔دین اگر وحی کو ہر لمحہ ایک نئی آب و تاب اور نئی تجلی کا مظہر سمجھتا ہے تو فقہ تشریحی و تعبیری ادب کو مقدس اورخود مکتفی باور کراتی ہے۔وحی سے ماورا،تعبیرات پر مشتمل،خود مکتفی فقہی ادب کے وجود میں آجانے سے وحی سے انسانوں کا تعلق واجبی سا رہ جاتا ہے“۔
(ادرا ک زوال امت،جلد اول،ص293)
فقہ کو افسوس ہے کہ محض احکام و فرامین کی تلاش کا نام بنادیا گیا ہے۔ جو قرآن کی مجموعی ساخت کو بر طرف کرکے اپنی توجہ صرف ان آیات پر مرکوز کرتی ہے جن سے فقہی احکامات حاصل کئے جاسکیں۔ اور پھر احکام و مسائل کے استخراج کے بعد وحی کی حیثیت فقہی ذہن رکھنے والے مسلمانوں کے لیے اس بے مزہ پھل کی ہوجاتی ہے جس سے تمام رس کشید کرلیا گیا ہو۔
راشد شاز اس حوالے سے لکھتے ہیں:”وحی کے گرد استخراجی واستنباطی فقہ کے جنگل اگ آنے سے عملاً وظیفہ وحی معطل ہوکر رہ جاتا ہے،قوموں کی زندگی میں اگر ایک بار وحی کا چراغ گل ہونے لگے تو پھر ا س کے زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوتا،منصب سیادت سے اہل یہود کی معطلی ہو یا خیر امت کے منصب سے مسلمانوں کا انخلاء،اس کا بنیادی سبب وحی کے گرد آراء الرجال کا پیدا ہونے والا وہی رطب و یابس کا سرمایہ (ادرا ک زوال امت،جلد اول،ص293) ہے۔“
مسلمانوں نے جب اپنی فکری اور روحانی زوال کی روک تھام کی کوشش کی اور جب انہیں محسوس ہونے لگا کہ فقہی تعبیرات نے وحی پر حجابات ڈالنے شروع کردئے ہیں تو انہوں نے مزید فقہی مسائل و تاویلات کا دروازہ بند کردیا۔اس سے ایک طرف تو نئے مسالک و مدارس ہائے فکر پر بند لگ گیا،لیکن دوسری طرف پرانا فقہی ذخیرہ اعتبار و استناد کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اور جہاں سے زوال درآیا تھا وہیں سے زوال کو ختم کر نے کا کام شروع ہوگیا۔بقول ڈاکٹرشاز،فقہی ادب کو غیر معمولی اعتبار بلکہ کتاب ہدایت کے متبادل کی حیثیت حاصل ہوجانے سے ہوا یہ کہ:
اولاً،قرآن،کتاب ہدایت سے جمہور مسلمانوں کا تعلق یکسر منقطع ہوگیا۔ثانیاً،وحی سے ماورا متبادل کتاب ہدایت کی ترتیب و تدوین کا ایک لا متنا ہی سلسلہ وجود میں آگیا۔ثالثاً،تفقہ اور تدبر کے حوالے سے جو فقہی مجالس قایم ہوئی تھیں اور جسے آگے چل کر ائمہ اربعہ کی اصطلاح نے تقدیسی حیثیت عطا کر دی تھی،اس نے وحی سے راست اکتساب کی راہ میں ایسی ناقابل عبور چٹانیں کھڑی کردیں جن کو ہٹانے کیلئے بڑے بڑے مجتہدین اٹھے، بڑی بڑی دانشورانہ بغاوتیں عمل میں آئیں، لیکن یہ تمام حضرات غلط فہمیوں کی چٹانوں سے اپنا سر ٹکرا کر رہ گئے۔
اصول اربعہ اور وحی کی تنسیخ،راشد شاز کی نظر میں
عہد رسول ﷺمیں اصحاب رسول ﷺکا واحد ماخذ و مرجع قرآن کریم تھا۔اسی کتاب سے اس وقت کے مسلمان اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کی سمت متعین کرتے تھے۔کبار صحابہ ”حَسبُنا کِتَابُ اللَّہِ“(ترجمہ،اللہ کی کتاب ہی ہمار ے لیے کافی ہے)کہہ کر وحی کی مرکزی حیثیت کی توثیق کیا کرتے تھے۔خود ذات نبیؐ پر اس کی اتباع لازم تھی۔ڈاکٹرراشد شاز کے الفاظ میں ”آپ کی حیثیت شارح کی تھی شارع کی نہیں“۔لیکن آگے چل کر سنت کے حوالے سے اہل الرائے اور اہل حدیث کے دو گروہ پیدا ہوچکے تھے۔اور اسی عہد میں مسلم معاشرہ ایک خطرناک علمی تحریک کی زدمیں تھا،ڈاکٹر شازرقم طراز ہیں:”اس زمانے میں اگر ایک طرف فقہاء ومحدثین کی مجلسیں آباد ہوتی جاتی تھیں،آثار و اخبار کی تحفیظ کا غلغلہ برپا تھا،تو دوسری طرف اجنبی فلسفلہ اور بیرونی ذہن کے اثرات بھی مسلم ذہن پر پڑرہے تھے،بنیادی طور پر یہ بیرونی فکری مداخلت کا کرشمہ تھا کہ آنے والے دنو ں میں سنت کی تشریعی حیثیت کو وسعت دے کر اس میں اجماع و قیاس کو بھی شامل کرلیاگیا۔“ (ادرا ک زوال امت،جلد اول،صفحہ 313)
اصو ل اربعہ اصل میں وہ اصول ہیں جن کو تمام علماء متقدمین و متاخرین کے نزدیک قبول عام حاصل ہے۔یہ وہ اصول ہیں جن کو واصل بن عطا نے سب سے پہلے ثبوت حق کے لیے بنایا۔واصل بن عطا پر ادراک زوال امت میں راشد شاز نے کلام کیا ہے۔ملاحظہ ہوان کی کتاب ادرا ک زوال امت،جلد اول،صفحات314اور 315۔
اصول اربعہ حسب ذیل ہیں:
(۔ قرآن ناطق 2۔ حدیث متفق علیہ 3۔ اجماع امت 4۔عقل و حجت(بمعنی قیاس)
ان اصولوں نے بعد کی مسلم فکر کو بڑی حد تک متاثر کیا،اور بعد کے دنوں میں امام شافعی نے اسے اصول فقہ کی حیثیت دے کر ان کے لیے بنیاد فراہم کردی۔راشد شاز لکھتے ہیں:”واصل کا اصول اربعہ جو بنیادی طور پر قرآن مجید اور سنت ثابتہ کو قبول عام کے معیار پر مستند قراردینے اور عقل و حجت کے حوالوں سے اسے مزین کرنے سے عبارت ہے،بظا ہر کسی بڑے انحراف فکری کا علامیہ نہیں معلوم ہوتا،واقعہ یہ ہے کہ اگر ان اصول ہائے اربعہ میں قرآن مجید کی مرکزی اور بنیادی حیثیت برقرار رکھی جاتی تو شرع کے ضمنی مآخذ کے وجود میں آنے کا امکان کم ہی ہوتا،لیکن ہوا یہ کہ اصولی طور پر قرآن کی بنیادی حیثیت تسلیم کئے جانے کے باوجود وحی غیر متلو کے حوالے سے سنت کی تشریعی حیثیت مستحکم ہوتی گئی۔“(ادرا ک زوال امت،جلد اول،صفحہ 315)
قرآن ناطق
ڈاکٹرراشد شازکے مطابق فقہ اسلامی کے ماخذ میں ان اصول ہائے اربعہ کے مطابق قرآن مجید کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔جس سے بظاہر یہ تاثر قایم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ہمارے فقہی سرمائے کی پہلی ناگزیر منزل ہے۔ لیکن فقہاء کرام کے نزدیک قرآن مجید کی تشریح و تاویل کا جو طریقہ کا ر مروج ہے اس سے اس خیال کی قلعی کھل جاتی ہے۔بقول شمس الائمہ امام السرخسی:
”اِعلَم بِِاَنَّ الکِتَابَ ہُوا القرآنُ المُنَزَّل عَلَ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ المَکتُوبُ فِی دَفاتر المُصَاحِف،المَنقُول اِلَینا بِاَ حرُفِ السَّبعَۃِ نَقَلاً مُتواتراً“ (اصول السرخسی،جلد1،صفحہ۔279)
گویا فقہاء کے نزدیک الکتاب سے مراد وہ لازوال مصحف نہیں جو دفتین میں موجود ہے اور ہر خاص وعام کی دسترس میں پایا جاتا ہے۔بلکہ اس کے برعکس فقہاء کا قرآن سبع احرف پر نازل کیا جا نے والا ایک ایسا قرآن جس کی مختلف قراتیں،یا الفاظ میں لفظ و معانی کے اختلافات آثار وروایات کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔مثا ل کے طور پر ابو حنیفہؒ کی فقہ میں بارہا قرات شاذہ کو لائق اعتناء سمجھا گیا ہے۔راشد شاز اس حوالے سے لکھتے ہیں:”فرضی قرآنی نسخوں اور قرات شاذ سے استنباط فقہی میں احناف تنہا نہیں ہیں، شافعیؒ جنہیں اصول الفقہ کے مؤسس کی حیثیت حاصل ہے وہ بھی الکتاب کے سلسلے میں اس التباس فکری کا شکار نظر آتے ہیں اور ان کے یہاں استنباط فقہ میں مفروضہ قرآنی آیتوں کے استعمال کا دخل ملتا ہے۔مثال کے طور پر رضاعت کے معاملے میں فقہ شافعیہ اس خیال کی حامل ہے کہ اللہ تعالی نے رضاعی بہنوں کی حرمت کے سلسلے میں کسی خاص مقدار کا ذکر نہیں کیا،فقہ شافعی میں پانچ گھونٹ کی تخصیص حضرت عائشہ ؓسے منسوب اس خبر پر ہے جس کے مطابق خَمس رَضَعَات کبھی قرآن مجید کا حصہ تھا۔شافعی ؒہوں یا ابو حنیفہؒ، دونوں کے یہاں رضاعت کیلئے پانچ گھونٹ کی تحصیص دراصل اسی فرضی قرآن کی اس فرضی آیت سے ماخوذ ہے،جس کا اتہام حضرت عائشہ ؓکے سر رکھا گیا ہے۔“ (ادرا ک زوال امت،جلد اول،صفحہ317)
سنت کے سلسلے میں راشد شاز اس بات کے قائل ہیں کہ سنت بمعنی حدیث ایک تعبیری و تشریحی اہمیت کی حامل تھی۔ احادیث و آثار کو اگر قرآن مجید کے تشریحی ماخذ کی حیثیت سے دیکھا جاتا تو یقینا آثار کے مابین السطور فہم قرآن کیلئے خاصہ مواد موجود تھا۔لیکن سنت،حدیث،اسوہ جو الگ الگ اہمیت کی حامل اصطلاحیں تھیں،انہیں باہم ایک دوسرے سے خلط ملط کردیا گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سنت کے حوالے سے آثا ر ووروایات کو تعبیری اہمیت سے کہیں زیادہ تشریعی اہمیت حاصل ہوگئی۔سنت ی تشریعی حیثیت کو مستحکم کرنے کیلئے اس قسم کے خیالات بھی سامنے لائے گئے کہ جس طرح اللہ کے رسول ﷺ پر قرآن نازل ہوا کرتا تھااسی طرح جبرئیل کے ذریعہ سنت بھی نازل کی جاتی تھی۔بقول ڈاکٹر شاز:”ا س میں شبہ نہیں کہ آپ ﷺ کا ہر اسوہ دین میں حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور ان معنوں میں یقینا سنت کو تشریعی اہمیت حاصل ہے البتہ روایات کے دفتروں میں رسول اللہ سے منسوب اقوال کو سنت کا لازوال اظہارقراردینا خطرناک اور دوررس نتائج کا باعث ہوا۔ رسول اللہ ﷺ ؓکے ہر عمل کے سلسلے میں مختلف اور متضاد روایتوں نے ایک ایسے تضاد فکری کو جنم دیا جسے اگر فقہ کی بیساکھی نہ ملتی تو یہ متضاد روایتیں تاریخ کے trash canمیں کب کی معدوم ہوجاتیں،روایات کے ذریعہ سنت کے سلسلے میں جو التباسات مسلم فکر میں داخل ہورہے تھے، فقہ نے اسے باضابطہ تشریعی حیثیت دے دی اور ا س طرح اس کے canonisationسے اس انحراف فکری کو دوام مل گیا۔“ (ادرا ک زوال امت،جلد اول،صفحہ318)
آثار و اقوال کو تشریعی ماخذ قرار دینے سے اول تو وحی کے باہر ایک ماخذ شریعت وجود میں آگیا جس کی کوئی متعین حیثیت نہ تھی،اور ایک ہی مسئلہ پر کئی متضاد قول اللہ کے رسولﷺ سے منسوب کئے جاتے تھے۔ ان روایات کا کوئی مرتبہ مجموعہ موجود نہیں تھا۔ڈاکٹر شازلکھتے ہیں:”پھر چونکہ یہ خیال بھی عام تھا کہ حدیث کے اس لامتناہی سمندر کا احاطہ کسی فقیہ کے بس کی بات نہیں۔ کسی کو ایک حدیث پہنچی تو دوسری اسے معلوم نہ ہوسکی، ایسی صورت میں احادیث کو تشریعی ماخذ حاصل ہوجانے سے فکری انار کی،ذہنی تشتت،اور نظری بحران کا پیدا ہونا لازمی تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن سے باہر اس نئے ماخذکے وجود میں آجانے سے امت ایک بڑے فکری بحران کی زد میں آگئی۔“
اجماع و قیاس
ڈاکٹر راشدشاز کا اجماع کے سلسلے میں درج ذیل اقتباس کافی اہم ہے۔وہ راقم طراز ہیں:
”اجماع کو دلیل شرعی کے طور پر پیش کرنے سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ امت میں مختلف ادوار میں جن التباسات فکری کو داخلہ مل گیا تھا اور جن اجنبی افکار کے سلسلے میں رفتہ رفتہ مانوسیت کا احساس پیداہوچلا تھا۔ان کے بارے میں تنقیدی اور تحقیقی نقطہ نظر پیدا نہ ہوسکا۔ مثال کے طور پر فہم قرآنی کے سلسلے میں وہ تمام التباسات جو روایتوں کے ذریعہ مفسرین کے قرآنی حاشیوں میں جگہ پانے میں کامیاب ہوگئے تھے،اس کے بوجھ سے امت اب تک نجات نہ حاصل کرسکی،بلکہ ہر آنے والا نیا دن اس مفروضہ اجماع و قبول پر ایک دن طویل کرتا جاتا تھا اور اس طرح اجماع کی ہیبت ہمارے تقلیدی ذہن پر گہری ہوتی جاتی تھی۔“ (ادرا ک زوال امت،جلد اول،صفحہ323)
قیاس کے سلسلے میں ڈاکٹر شاز لکھتے ہیں:”شرع اسلامی کے ایک ذیلی ماخذ کی حیثیت سے قیاس اور اس کی تعریف کے تعین میں سخت نزاع برپا رہا ہے۔مسلمانوں میں اختلاف فقہی کو ہوا دینے اور التباس فکری کوتقدس عطا کر نے میں قیاس کا اہم رول ہے“۔مزید لکھتے ہیں:”نصوص میں علت کی دریافت دراصل Textمیں Contextسے کہیں زیادہ خود اپنے ذہنی رجحانات کو پڑھنے سے عبارت تھی۔ اصولی طور پر یہ بات چونکہ تسلیم کرلی گئی تھی کہ احکام محض متن سے ہی نہیں بلکہ انداز بیان سے بھی مترشح ہوتے ہیں اور یہ کہ نصوص کے صحیح Appreciationکیلئے زبان کا ذوق اور اس کی نزاکت و بلاغت بھی ضروری ہے۔اس لئے علماء نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے ذہنی رویہ کو نصوص میں پڑھنے کی بھر پور کوشش کی،نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی متن سے مختلف معانی برآمد ہونے لگے۔ ایک آیت احکام سے مختلف ذیلی احکامات نکل آئے جن کے باہمی تطابق اور ہم آہنگی کی ہر کوشش مزید نقطہ آفرینی اور اختلافات پر منتج ہوتی گئی۔“
اپنے اس قو ل کی دلیل میں راشد شاز نے قرآن کی آیت ”لَا تَقُل لَھُمَا اُفِّ“(ترجمہ،اوروالدین کو اف تک نہ کہو) پیش کی ہے ان کے نزدیک فقہاء نے اسے اسلوب بیان کی مختلف سطحوں پر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔کسی نے کہا کہ یہ محض انداز بیان ہے جس سے مراد والدین کو ہر قسم کی ایذاء رسانی سے محفوظ رکھنا ہے۔فقہاء کے مابین اس مسئلہ پر طویل بحثوں کا سلسلہ چل نکلا۔والدین کو جسمانی اذیت دینا یا سیاسی وجوہ سے ان کا قتل کرنا قبل اس کے کہ ان کے منہ سے کلمہ افّ ادا ہو لا تقل لھما افکی خلاف ورزی ہوگی یا نہیں؟ فقہاء نے جب کتاب ہدایت کتاب قانون کی حیثیت سے پڑھنا شروع کیا تو اس طرح کے سوالا ت میں ان کا الجھنا فطری تھا۔
ڈاکٹر راشد شاز نے اپنی علمی کاوشوں کی شکل میں بلاشبہ ایک نئے طرز فکر و تحقیق کی راہ سجھائی ہے۔انصاف پسندی اور حق شناسی کا کم سے کم تقاضہ یہ ہے کہ ان کی رویوں کو پہلی نظر میں ’شاذ‘ کے خانے میں نہ ڈال دیا جائے۔بلکہ انہیں کم از کم لائق اعتناء سمجھا جائے۔ان کے intentionپر سوال ااٹھانے کی بجائے دلیل کی میز پر بحث و مناقشہ کے ماحول کو فروغ دیا جائے۔یہی طالب علمانہ روش ہے۔ظاہر ہے کہ کسی آرگیومنٹ کو محض اس بنا پر رجیکٹ کردینا خلاف انصاف ہے کہ اسے پیش کرنے والا شخص،پہلا شخص ہے۔در آں حالیکہ اس آرگیومنٹ کو پیش کرنے والے راشد شاز پہلے اسکالر نہیں ہیں۔
ANAS SHAKIR
Graduate
Fuculty of Islamic Jurisprudence
Al Jamia Al Islamiya, Santhapuram
Email:[email protected]