مولانا محمد اسماعیل فلاحی، شیخ التفسیر جامعۃ الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ
فارغین سے ہماری مراد ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس عربیہ سے ہر سال سند عا لمیت و فضیلت لے کر ہزاروں ہزار کی تعداد میں نکلنے والے وہ طلبہ ہیں جو زندگی کے ہنگاموں اور معرکہ خیر و شر میں قدم رکھتے ہیں، اور مدارس سے ہماری مراد قرآن و سنت اور ان سے متعلق دوسرے علوم کا منبع اور سرچشمہ وہ ادارے اور روحانی و معنوی وہ قلعے ہیں جن کی اصل مکہ کا دارِ ارقم اور مدینہ کا صفۂ نبوی ہے، اور جو اسی دارِ ارقم اور صفہ کا بدل اور نقش ثانی ہونے کے مدعی ہیں۔ وہ دارِ ارقم اور صفہ جس کے معلمِ اول جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ جہاں قرآن و سنت کی علمی و عملی تعلیم ہوتی تھی، ایسی تعلیم جس کے اندر عبادات، معاملات، معاشرت، معیشت، حکومت و سیاست، تجارت، کھیتی باڑی اور صلح وجنگ کے اصول، دورِ مظلومیت ومحکومیت اور عہد غلبہ وحکمرانی کے آداب اقوام عالم کی تاریخ اور مختلف میدانوں میں ان کی حکمتِ عملی اور تکنیک اور ان کے عروج و زوال کے اسباب و علل، انسان ہی نہیں، جانوروں اور پیڑ پودوں تک کے حقوق، ماحولیات اور آب و ہوا سے متعلق امور، شعر و ادب، تفریح و مزاح، ورزش، فوجی مشق، غرض زندگی اور کائنات سے متعلق جملہ شعبوں کے مسائل زیر بحث آتے اور اس کے ساتھ عملی تربیت (تزکیہ اور اصلاح) کا سامان ہوتا، ایسی تربیت کہ ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری، عصمت دری، جوا، شراب نوشی، لڑائی جھگڑاجن کا دن رات کا مشغلہ تھا، وہ جان و مال اور عزت وآبرو کے محافظ اور انسانوں کے خدمت گاربن گئے، مے نوشی اور قمار بازی سے توبہ کرلی، ان کے دل آپس میں جڑ گئے اور بھائی بھائی بن گئے، بکریوں اور اونٹوں کی چرواہی کی جگہ، جہاں گیرو جہاں بان بن گئے، اللہ سے ایسا تعلق قائم ہوا کہ ان کا جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے وقف ہوگیا، جنھیں دیکھ کر خدا یاد آتا، جن کی راتیں خداکے آگے سجدہ و قیام میں بسر ہوتیں اور دن گھوڑوں کی پیٹھ پر۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
مدارس کے یہ نئے نئے فارغین اپنے کو عالم سمجھتے ہیں اور دنیا بھی انہیں عالم کہتی اور العلماء ورثۃ الانبیاء کی روشنی میں جانشینِ انبیاء کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کا مقام بہت اونچا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کا اس اہم منصب کے لیے انتخاب کیا ہے اور وہ انبیاء کی وراثت کے حقدار ہیں۔ لیکن انہیں سمجھنا چاہیے کہ ابھی بہت سی منزلیں باقی ہیں۔ ابھی تو انھوں نے مدرسہ کے مقررہ نصاب کی تکمیل کرکے، علم کی وادی میں قدم رکھا اور اس سرزمین پر چلنا سیکھا ہے۔ ابھی اس راہ میں انہیں ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔ ابھی ان کے سامنے نہ جانے علم کی کتنی اقلیمیں آئیں گی جنہیں سرکرنا ہے۔ اپنے ذہن سے وہ نکال دیں کہ علامہ ہوگئے ہیں، اپنی پوری زندگی اور اپنے پورے وجود کو لگا دینے کے بعد اس انبیائی وراثت کا کچھ حصہ ہاتھ آتا ہے۔
لیکن اس مرحلہ میں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ
(الف) انھیں اس مرحلہ تک پہنچتے پہنچتے عربی زبان و ادب کا اتنا فہم حاصل ہوگیا ہوگا کہ قرآن و سنت اور ان کے متعلقات براہِ راست ان کے عربی مآخذ سے سمجھنے پر یک گونہ قادر ہوں گے۔
(ب) حریف کے خیالات اور ان کی چالوں سے واقف ہونے اور ان تک دعوت پہنچانے کے لیے یہ خواہش بھی کی جاتی ہے کہ اپنے علاقہ کی مقامی زبان کے علاوہ کسی ایک عالمی زبان کی اتنی جانکاری ہوگی کہ اس کی بنیاد پر آگے اس میں کمال پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔
(ج) یہ امید بھی ان سے بے جا نہیں ہے کہ وقت کے معروف علوم سے ابتدائی واقفیت، حساب اور سائنس کی ضروری بنیادی معلومات،اسلامی تاریخ، اپنے ملک کی تاریخ، دنیا کا جغرافیہ، اپنے ارد گرد کے مذاہب کے ساتھ عالمی مذاہب، اسلام دشمن طاقتوں اور ان کے نظریات، نیز اسلامی تحریکات کے خدو خال کا ایک ایسا سرسری خاکہ ان کے ذہن میں ہوگا کہ آئندہ اپنے حالات کے مطابق جس میدان میں ضرورت ہو، اس میں ماہرانہ صلاحیت اور استادانہ بصیرت پیدا کرسکیں۔
(د) ان سے یہ حسن ظن بھی بجا ہے کہ اپنے افکار و خیالات کو تحریر و تقریر کی شکل میں ادا کرنے کا اچھا سلیقہ رکھتے ہوں۔
یہ تو علمی پہلو تھا، اس میں اگر کچھ کمی رہ بھی جائے تو بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے، اس لیے کہ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے زیادہ اہمیت رکھنے والی چیز عملی پہلو ہے، اس میں کسی طرح کا جھول یا سمجھوتا جائز نہیں۔ ان کے اندر، علیٰ وجہ البصیرۃ، اللہ پر پختہ ایمان ہو۔ اس حیثیت سے کہ تنہا وہی خالق، رازق، مدبرِ کائنات، حاضر وناظر، سمیع وبصیر، علیم وخبیر، عزیز وقدیر، غفور ورحیم، عزت اور ذلت، بیماری اور شفا، نفع اور نقصان، زندگی اور موت اور سارے اختیارات کا مختارِ کل، مالکِ ارض و سماء، قانون ساز، مجازی، محاسب، حاکمِ حقیقی اور معبودِ برحق ہے، جس کے حکم کے بغیرایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا، جس کے ارادے میں کوئی مزاحم نہیں ہوسکتا، جس کے فیصلے کو کوئی بدل نہیں سکتا، جو ایمان والوں سے محبت رکھتا اور ظالموں اور مفسدوں سے نفرت رکھتا ہے۔
اللہ پر یہ ایمان ایسا ہو کہ اللہ کی ذات سے انھیں نہایت گہرا تعلق ہو، ایسا مخلصانہ اور للّٰہیت بھرا تعلق، جس کے اندر ریا اور منافقت کا شائبہ تک نہ ہو، وہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے اور اس کے دین کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والے ہوں، اللہ کے ذکر کے بغیر انھیں چین نہ آئے، اللہ کی یاد ان کے دل کا سکون بن جائے، نماز ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور ہو، سجدے میں اللہ سے قربت کا لطف ملے اور تلاوت قرآن میں اللہ سے ہم کلامی اور سرگوشی سے لذت گیر ہوں۔ ان کا ہر کام اللہ کے لیے ہو، ان کی دوستی و محبت، دشمنی و نفرت، کسی کو دینا اور نہ دینا، ان کی نماز اور قربانی، زندگی اور موت سب کچھ اللہ کی خاطر ہو۔
اس سلسلے میں چند آیات ملاحظہ ہوں:
2 والذین آمنوا اشد حبا للہ۔ (البقرہ: ۱۶۵)ترجمہ: حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
2 ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ (الرعد: ۲۸) ترجمہ: خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
2 قل ان صلاتی ونسکی ومحیای و مماتی للہ رب العالمین۔(الانعام: ۱۶۲) ترجمہ: کہو میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
2 فویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون، والذین ھم یراؤن ویمنعون الماعون۔(الماعون: ۴۔۷) ترجمہ: پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں دینے سے گریز کرتے ہیں۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:
2 قرۃ عینی فی الصلوۃ۔ترجمہ: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
2 من أحبّ للہ و ابغض للہ واعطیٰ للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان۔ ترجمہ: جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کی، اور اللہ کے لیے دیا، اور اللہ ہی کے لیے دینے سے باز رہا، تو ایسے شخص کا ایمان مکمل ہوگیا۔
اللہ سے محبت کے پہلو بہ پہلو، اللہ کا تقویٰ، اس کا ڈر، اس کی خشیت اور اس کا خوف کسی آن اور کسی لمحے بھی ان کے دل و دماغ سے اوجھل نہ ہو۔ یہی تقویٰ انسان کو حدود اللہ کا پاسدار اور احکام الٰہی کا پابند بناتا ہے۔ یہی تقویٰ تمام کامیابی کی کلید ہے۔ انسان کی زندگی میں جمال و کمال تقویٰ ہی سے آتا ہے۔ یہ خلوت میں بھی، جلوت میں بھی، رات کے سنّاٹے میں بھی اور دن کے اجالے میں بھی، دوست کے ساتھ بھی اور دشمن کے ساتھ بھی، انسان کو راہِ راست پر قائم رکھتا اور شاہراہِ عدل و قسط سے ہٹنے نہیں دیتا ہے، اسی تقویٰ سے انسان حسد کی آگ اور کبر جیسے مہلک امراض سے محفوظ رہتا اور اس کے اندر تواضع اور خاکساری پیدا ہوتی ہے۔
چند آیات پیش خدمت ہیں:
2 الم، ذلک الکتاب لاریب فیہ، ھدی للمتقین۔ (البقرہ: ۱۔۲) ترجمہ: الف لام میم ، یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔
2 انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء۔(فاطر: ۲۸) ترجمہ: اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔
2 ومن یطع اللہ و رسولہ ویخش اللہ ویتقہ فاولئک ھم الفائزون۔ (النور: ۵۲) ترجمہ: اور کامیاب وہی ہیں جو اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کریں، اور اللہ سے ڈریں اور اس کے حدود کا پاس ولحاظ رکھیں۔
2 ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔(الطلاق:۲) ترجمہ: جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔
2 ومن یتق اللہ یجعل لہ من امرہ یسرا۔(الطلاق: ۴) ترجمہ: جو شخص اللہ کے حدود کا پاس ولحاظ رکھے گا اس کے معاملے میں اللہ سہولت پیدا کردے گا۔
2 انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم۔ (الانفال: ۲) ترجمہ: اہل ایمان تو بس وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں۔
2 و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا۔(الفرقان: ۶۳) ترجمہ: رحمان کے اصلی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں۔
2 و یطعمون الطعام علٰی حبہ مسکیناً ویتیماً واسیراً۔(الانسان:۸)ترجمہ: اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
2 انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکوراً۔(الانسان:۹) ترجمہ: ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہے ہیں، ہم تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔
2 انا نخاف من ربنا یوماً عبوساً قمطریراً۔(الانسان: ۱۰) ترجمہ: ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔
2 والذین یؤتون ما اٰتوا و قلوبھم وجلۃ انھم الٰی ربھم راجعون۔(المومنون :۶۰) ترجمہ: اور جن کا حال یہ ہے کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں، اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔
2 انما یتقبل اللہ من المتقین۔(المائدہ: ۲۷) ترجمہ: اللہ تو بس متقیوں کی نذریں قبول کرتا ہے۔
2 لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم۔(الحج: ۳۷) ترجمہ: نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے۔
اسی تقویٰ سے محرومی کا نتیجہ تھا کہ ابلیس آدم کو سجدہ کے معاملہ میں حسد کی آگ میں جل بھن بیٹھا، اسی کے نہ ہونے کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کو قتل کرڈالا۔ اسی کا فقدان تھا کہ بردرانِ یوسف یوسف کے ساتھ وہ حرکت کر گزرے جو ان کے خاندانی پس منظر کے اعتبار سے بڑی گھناؤنی اور رذیل حرکت تھی۔ اسی تقویٰ سے عاری تھے یہودجنھوں نے جانتے بوجھتے نبی ؐ کے خلاف محاذقائم کیا، قریش کی پیٹھ ٹھونکی اور نہایت گھناؤنی سازشوں کے مرتکب ہوئے۔لیکن تقویٰ چند مظاہر اور مخصوص وضع و ہےئت کا ہی نام نہیں، یہ دل کی اس کیفیت کی تعبیر ہے جوخداکی عظمت وقدرت ، اس کی قہاری و جبروت، اس کے بے لاگ عدل اور اس کے محاسب اور مجازی ہونے کے تصور سے پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کے اندر بے اختیار حلال کو اختیار کرنے اور حرام سے اجتناب کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ اوامر کی پابندی اور مناہی سے احتراز کرنے لگتا ہے۔ آپؐ نے ایک بار دل کی طرف اشارہ کرکے تین مرتبہ فرمایا:
التقویٰ ھٰھنا۔ تقویٰ یہاں ہوتا ہے، تقویٰ کا مقام یہ ہے۔
متعدد آیات سے تقویٰ کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک آیت ملاحظہ ہو:
ترجمہ: نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو، اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پراور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوۃ دے، اور نیک لوگ وہ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگی ومصیبت کے وقت میں اور حق وباطل کی جنگ میں صبر کریں، یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔ البقرہ: ۱۷۷)
اللہ پر ایمان کا تقاضا ہے کہ بلاتفریق اس کے سارے رسولوں اور اس کی ساری کتابوں پر ایمان لایا جائے اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن کریم پر دلائل کی روشنی میں اس حیثیت سے ایمان رکھا جائے کہ آپ ساری دنیا اور قیامت تک کے لیے آخری رسول، انسانیت کے سب سے بڑے محسن، اور ہادی ورہبر ہیں، جو سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قیامت تک کے لیے آخری صحیفۂ ہدایت ہے، جس نے پچھلے تمام صحیفوں کو منسوخ کردیا ہے۔ اب نجات کا واحد ذریعہ یہی آخری رسول اور اس کی لائی ہوئی یہی کتاب ہے۔ حضرت محمدؐ پر یہ ایمان، اللہ کے بعد سب سے بڑھ کر محبت کے ساتھ مطلوب ہے، محبت کا تعلق دل سے ہے لیکن اس کا عملی مظہر آپ کی اطاعت اور اتباع ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
لا یؤمن أحدکم حتیٰ أکون أحب الیہ من ولدہ و والدہ والناس اجمعین۔ ترجمہ: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین، اور تمام انسانوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔ اور لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ۔ ترجمہ:تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایات کے تابع نہ ہوجائیں۔
ارشاد خداوندی ہے:
قل اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول۔ (النور:۵۴) ترجمہ: کہو اللہ کے مطیع بنو، اور رسول کے تابع فرمان بن کر رہو۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم ۔ (آل عمران: ۳۱) ترجمہ: اے نبی لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہاری خطاؤں سے درگذر فرمائے گا۔
فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجاً مما قضیت و یسلّموا تسلیماً۔ (النساء: ۶۵) ترجمہ: اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرواس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔
ترجمہ: اے نبی کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز واقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز ہیں،تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ (التوبہ: ۲۴)
اسی طرح اللہ کی کتاب کے بارے میں یہ یقین راسخ ہو کہ یہی زندگی کا دستور اور نظام حیات ہے۔ ہمارے سارے فیصلے خواہ ہماری زندگی سے متعلق ہوں یا دوسروں سے متعلق اسی کتاب الٰہی کی روشنی میں ہوں۔ بنی اسرائیل کی طرح کتاب الٰہی کو ہم پس پشت نہ ڈال دیں۔ بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن نے بتایا ہے:
نبذ فریق من الذین اوتوا الکتاب، کتاب اللہ وراء ظھورھم کأنھم لا یعلمون (البقرہ: ۱۰۱) ترجمہ: ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔
ان کے حال کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے:
مثل الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفاراً۔ (الجمعہ: ۵) ترجمہ: جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا، مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔
اور أفتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض۔ فما جزاء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیوۃ الدنیا ویوم القیامۃ یردون الی أشد العذاب، وما اللہ بغافلٍ عما تعملون۔ (البقرہ: ۸۵) ترجمہ: تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو، اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیردیئے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کررہے ہو۔
اور ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون۔ (المائدہ: ۴۴)ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون۔ (المائدہ: ۴۵)ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون۔ (المائدہ: ۴۷)ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔
اور حضرت محمدؐ اور ہم سے کہا گیا:فاحکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ھم عما جاء ک من الحق۔ (المائدہ: ۴۸) ترجمہ: لہذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرواور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس سے منھ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
اللہ، رسول اور کتاب پر ایمان بے فائدہ اور لا حاصل ہے جب تک آخرت پر ایمان نہ ہو، جہاں ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتیں ہوں گی یا دوزخ کا عذاب اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ پوری بصیرت کے ساتھ خدا کے بے لاگ عدل اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ان کے دل ودماغ میں اس طرح رچا بسا ہو کہ خدا کی عدالت میں حاضری کے ڈر سے وہ کانپتے ہوں اور ہر قدم اٹھاتے اور ہر بات بولتے وقت سو بار سوچ لیں کہ اس سے خدا ناراض تو نہیں ہوگا۔
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیراًیرہ و من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ۔ (الزلزال: ۷،۸) ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔ (اٰل عمران: ۱۸۵) ترجمہ: کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے، رہی یہ دنیا ، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔
اللہ و رسول اور کتاب پر اگر صحیح معنوں میں ایمان ہے تو لازماً سارے انسانوں سے ہمدردی ہوگی۔وہ سماج سے الگ تھلگ کٹ کر نہیں رہے گا، سماجی مسائل کے حل میں عملاََ دلچسپی لے گا، لوگوں کے دکھ درد کو بانٹے گا، اور ان کی خوشی میں شریک ہوگا۔ ایسا شخص تمام خلق کو اللہ کا کنبہ، ایک ماں باپ کی اولاد اور اس ناطے آپس میں بھائی بھائی سمجھے گا۔ سب کے ساتھ ہمدردی و خیرخواہی، عدل ومساوات اور سب کی تکریم کا قائل ہوگا۔ اس کا تو بس ایک پیغام ہوگا: ’’ایک خدا، ایک انسان، ایک نظام‘‘۔ قرآن کہتا ہے:
یایھا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ ان أکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ ان اللہ علیم خبیر۔ (الحجرات: ۱۳) ترجمہ: لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناًاللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
اور ولقد کرّمنا بنی اٰدم۔ (بنی اسرائیل: ۷۰) ترجمہ: اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
حضوؐر کا فرمان ہے: الخلق عیال اللہ فأحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ ، وابغض الخلق الی اللہ من ضن الی عیالہ۔ ترجمہ: تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہیں، اللہ کے نزدیک سب سے محبوب وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے، اور اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ بخل کا رویہ اختیار کرے۔
اور دمہ و مالہ و عرضہ حرام۔ ترجمہ:اور اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو حرام ہے۔
اللہ، رسول، کتاب اور آخرت پر ایمان راسخ ہے اور تمام خلق کو اللہ کا کنبہ اور تمام انسانوں کو اولادِ آدم صحیح معنوں میں کوئی سمجھتا ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگ رنگ، نسل، زبان، علاقہ ، مسلک، مشرب اور گروہ بندی کی تنگنائیوں سے نکل کر اور بے جا عصبیتوں سے اوپر اٹھ کر، ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی تکریم کرنے والے، ایثار پیشہ، عہد کے پابند، زبان کے سچے، امانت دار، دل کے صاف، عفت و حیا کے پیکر، متواضع اور خاکسار، غریبوں، مسکینوں کے مددگار، یتیموں، بیواؤں، مریضوں کے خدمت گار اور باہم اتحاد و اتفاق اور تعاون کی راہوں کے جویا اور متلاشی، دوسروں کی زیادتیوں کو کشادہ دلی سے معاف کردینے والے، اپنے حق سے کم پر راضی، اپنی کوتاہیوں کے معترف اور دوسروں کی خوبیوں کے مداح ہوں گے۔ جنھیں ڈالر سے خریدا نہیں جاسکتا اور تشدد اور درندگی سے دبایا نہیں جاسکتا۔ ان کا حال ان لوگوں سے مختلف ہوگا جو دل کے گندے، زبان کے بدبودار، قلم کے متعفن، منافقت، ریاکاری، حسد، تکبر، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، لگائی بجھائی اور معاصرانہ چشمک کے گندے نالوں میں لت پت، مسلکی، گروہی، قومی تعصب میں گرفتار، عہد شکن، بد دیانت، غدار، سیاسی جوڑ توڑ کرنے والے، موقع ملے تو اسمبلی اور پارلیمنٹ کی ایک سیٹ اور وزارت کی ایک کرسی کے لیے قوم کا سودا کرنے والے، بکاؤ مال، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے والے، ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے والے، اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرکے، قوم کے معصوم بچوں کو بھڑکا کر، ان کے اندر اشتعال پیدا کرکے، سڑکوں پر اتار کر، اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے، ان کی زندگیوں سے کھیل جانے والے اور اپنے مفاد کے لیے مختلف طبقات کے درمیان منافرت پیدا کرنے والے اور اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر خود اپنی ملت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے ہوتے ہیں۔
آخری اور سب سے اہم بات جو مدرسہ کی تعلیم کا اصل مقصود اور نتیجہ ہے کہ ان فارغین کے سامنے ان کی زندگی کا نصب العین بالکل واضح اور متعین ہوگا۔ نصب العین نام ہے اس چیز کا جو زندگی کا مقصود ہو، جو ہر وقت نگاہوں کے سامنے رہے۔ ایک لمحہ کے لیے نہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو اور نہ نگاہ اس سے ہٹے۔ جس پر زندگی قربان کی جاسکتی ہو۔ لیکن زندگی پر اسے قربان نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس نصب العین کی مختلف تعبیرات ہوسکتی ہیں۔اللہ کی بندگی، اللہ کے دین کی اقامت، اللہ کے دین کی سربلندی، نہی عن المنکر، اعتصام بحبل اللہ، نماز کی اقامت وغیرہ وغیرہ۔ نماز پورے دین کا ایک جامع عنوان ہے جس کے اندر پورا دین آجاتا ہے۔ نظم، جماعت، امارت سب کچھ، اس سلسلے کی کچھ آیات ملاحظہ ہوں:
2 فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون۔ (التوبہ: ۱۲۲) ترجمہ: مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کرآتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔
2 وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات: ۵۶) ترجمہ: میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیاہے کہ وہ میری بندگی کریں۔
2 شرع لکم من الدین ماوصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسیٰ و عیسیٰ أن اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ (الشوریٰ: ۱۳) ترجمہ: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم، موسی، اور عیسی کو دے چکے ہیں۔ اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔
2 ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔ (الصف: ۹) ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے۔
2 کنتم خیر أمۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون باللہ۔ (آل عمران: ۱۱۰) ترجمہ: اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
2 وکذلک جعلناکم أمۃ وسطاً لتکونوا شھداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیداً۔ (البقرۃ: ۱۴۳)ترجمہ: اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
2 واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا۔ (آل عمران: ۱۰۳) ترجمہ: سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
2 الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ واٰتوا الزکوۃ وأمروا بالمعروف ونھوا عن المنکر۔ (حج:۴۱)ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔
ان کے ذہن میں یہ بات بھی واضح ہوگی کہ یہ کام انفرادی طور پر نہیں ہوسکتا، ا س کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے، آج امت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، امت نام ہی ہے کسی متعین چیز میں متحد، منظم اور مجتمع گروہ کا۔ تمام عبادات اجتماعیت کا درس دیتی اور اس کے آداب سکھاتی ہیں۔ حضوؐر کا فرمان ہے:
کسی صحرا میں تین آدمی بھی ہوں تو وہ اپنا ایک امیر بنا لیں۔
حضرت عمر کا قول ہے:
لا اسلام الا بالجماعۃ ولا جماعۃ الا بالامارۃ ولا امارۃ الا بالطاعۃ۔ترجمہ: جماعت کے بغیر کوئی اسلام نہیں، اور امارت کے بغیر کوئی جماعت نہیں، اور اطاعت کے بغیر کوئی امارت نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کے انتقال کے بعد آپ کا جسدِ خاکی رکھا رہا،اور سب سے پہلے خلیفہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ پھر تجہیز و تکفین کا مرحلہ طے ہوا۔ اس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ یہ امت ایک منٹ کے لیے بھی بغیر امیر کے نہیں رہ سکتی۔
شروع میں تمام مسلمانوں کی ایک جماعت ہونا ممکن نہیں۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں کہ آغاز میں ایک سے زیادہ جماعتیں ہوں۔ اگر مقصد عزیز ہے، مقصد میں اخلاص ہے تو دیر سویر ان میں قربت ہوگی، اتحاد ہوگا، تعاون کی راہیں نکلیں گی، ان کا وفاق بن سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ حق کو اپنے ہی اندر دائر و منحصر نہ سمجھیں اور اخلاص پر اپنی اجارہ داری قائم نہ کریں۔ تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (جو کام نیکی اورخدا ترسی کے ہیں، ان میں سب سے تعاون کرو، اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں، ان میں کسی سے تعاون نہ کرو)کے اصول پر کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کریں اور اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں۔
ان کی ہر جماعت کا طریقہ کار کتاب و سنت کی روشنی میں پر امن، اخلاقی، تعمیری، جمہوری اور آئینی ہوگا۔ وہ زمینی حقائق سے باخبر ہوں گے اور اس کو سامنے رکھ کر دستور العمل تیار کریں گے، انتہا پسندی، طبقاتی کشمکش اور تخریبی طریقہ سے انہیں کوئی لگاؤ نہ ہوگا، اس لیے کہ وہ امن و شانتی، سلامتی و محبت، اخوت و بھائی چارہ، انسان دوستی کے علمبردار اور پیغامبر ہیں۔
یہ تھیں وہ توقعات جو فارغین مدارس سے مطلوب ہیں لیکن بحالت موجودہ عام طور سے یہ پوری ہوتی نظر نہیں آتیں اور نہ پورا ہونا ممکن نظر آرہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ بڑا مشکل سوال ہے۔ ہمارے پورے نظام تعلیم و تربیت کو گھن لگ چکا ہے۔ ع
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
ہر سطح پر انتظامیہ، اساتذہ، ذمہ دارانِ تربیت، طلبہ اور ان کے سرپرست، نظام تعلیم، نصاب تعلیم، طرز تدریس، نظام تربیت ہر پہلو اور ہر زاویہ سے بڑی اصلاح اور بڑے آپریشن کی ضرورت ہے، لیکن یہ کون کرے؟ کس کے بس کی بات ہے؟
فارغین مدارس کا مطلوبہ کردار
مولانا محمد اسماعیل فلاحی، شیخ التفسیر جامعۃ الفلاح، بلریاگنج، اعظم گڑھ فارغین سے ہماری مراد ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس عربیہ سے ہر سال سند عا لمیت و فضیلت لے کر ہزاروں ہزار کی تعداد میں…