ابوالاعلی سید سبحانی
اسلامی دعوت کی ایک اہم ضرورت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان، بنیادی اسلامی اصطلاحات کا صحیح فہم حاصل کرنا اور اس کے صحیح مفہوم کو عام کرنا ہے۔ اسلامی دعوت کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ اور اسلام کے داعیوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج اسلامی اصطلاحات کا وہ غلط مفہوم ہے جو سماج میں نہ صرف رائج اور عام ہے بلکہ اپنوں کے درمیان بھی اور غیروں کے درمیان بھی بری طرح راسخ ہوچکا ہے، جبکہ حقیقت سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ غلط مفہوم مسلمانوں کے لیے بھی نقصاندہ ہے اور غیر مسلموں کے لیے بھی، یہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی صحیح اور مطلوبہ تصویر نہیں پیش کرتا اور بسااوقات اسلام سے دوری کا سبب بن جاتا ہے، جبکہ مسلمانوں کے فکر ونظرپر بھی یہ اثرانداز ہوتا ہے اور اسلام کے پیش نظر جن داعیانہ رویوں اور جس داعیانہ کردار کی تشکیل ہے اس میں بھی مانع ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکات نے اسلامی اصطلاحات کی درستگی اور ان کی تفہیم نو پر خاصا زور دیا ہے، چنانچہ اسلامی تحریکات کے لٹریچر کا ایک قابل ذکر حصہ اسی سے متعلق ہے۔ بیسویں صدی میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ کا تیار کردہ لٹریچر بالخصوص قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، الجہاد فی الاسلام، سود، پردہ، اور خلافت وملوکیت جیسی کتابیں اس سلسلے میں اہمیت کی حامل ہیں۔
اسلامی اصطلاحات کے مفاہیم ومعانی کی تعیین کے لیے کچھ بنیادی اصولوں کا لحاظ ضروری ہے۔ ان میں سے تین اہم اصولوں کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے:
(۱) اس بات کا خیال رکھنا کہ اسلامی شریعت کی روح اس ضمن میں کیا ہے۔
(۲) قرآن وسنت میں وہ اصطلاح کہاں کہاں اور کن کن معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔
(۳) قرآن وسنت میں ان اصطلاحات کو کہاں اور کس سیاق میں پیش کیا گیا ہے، اور سیاق کی رعایت اور فہم کس معنی اور مفہوم کس طرف لے جاتا ہے۔
غلطی اس وقت ہوتی ہے کہ جب اِن اصطلاحات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر اور ان کے صحیح اور درست استعمالات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے ظاہری معنی پر اکتفاء کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں شریعت کی روح اور اس کے مقاصد کو بالکل ہی نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں جہاد سے متعلق آیات اور سماجی تعلقات سے متعلق آیات کے سلسلے میں اس طرح کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ جہاد کی آیات کو اُن کے سیاق وسباق سے کاٹ دیا جائے تو اُن کے معانی اور مفاہیم کچھ سے کچھ ہوجائیں گے، اسی طرح سماجی تعلقات سے متعلق آیات کو اُن کے سیاق وسباق سے کاٹ کر پڑھا جائے تو اُن کے معانی ومفاہیم اُس سمت میں لے جائیں گے جو کبھی بھی شریعت کا مقصود نہیں ہوسکتا۔
گزشتہ دنوں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ایک دوست نے درج ذیل سوال بھیجا، اور اس سلسلے میں ناچیز کی رائے جاننے کی کوشش کی، سوال کچھ اس طرح تھا:
’’میرے کچھ جاننے والے قرآنی آیات (مثلا سورہ مائدہ کی آیت 51، اور سورہ بقرہ کی آیت 120) کا استعمال ہندوستانی سیاق میں کرتے ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غیرمسلموں کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے، ان سے دور رہنا چاہیے اور ان پر بھروسہ تو بالکل ہی نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ مجھے اس سلسلے میں قرآن و سنت کا حقیقی موقف جاننے کی خواہش ہے۔‘‘ مختلف اسفار کے دوران بھی، جب اسلام اور اسلامی تعلیمات پر گفتگو ہوتی ہے، تو اسی قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں سے بیشتر سوالات کا تعلق انہی غلط مفاہیم سے ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے سماج میں عام ہیں۔ مذکورہ بالا سوال میں بھی دیکھا جائے تو آیات سے استدلال کے سلسلے میں عہد رسالت کے مخصوص یہود ونصاری اور عام غیرمسلموں میں فرق نہیں کیا گیا، اور نہ ہی اولیاء بنانے کا صحیح مفہوم قرآنی استعمالات کی روشنی میں دیکھا گیا، اور نہ سماجی تعلقات کے سلسلے میں شریعت کی روح یعنی تمام ہی غیرمسلموں کے ساتھ نصح وخیرخواہی اور ان کی ہدایت طلبی کے رویے اور اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا، حالانکہ اگر ان پہلووں پر نظر رکھی جاتی تو مسئلہ بہت سادہ اور سمجھ میں آنے والا تھا۔
جہاں تک قرآن مجید میں مذکور آیات جہاد کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں درج ذیل باتیں ملحوظ رکھنی چاہئیں:
(۱) اسلامی شریعت کی روح اس سلسلے میں یہ ہے کہ انسانی سماج کے درمیان صلح ہی بہترین اور پسندیدہ راستہ ہے۔
(۲) قرآن مجید میں موجود نبیوں کی دعوتوں کا مطالعہ کرنے سے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل جدوجہد کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تصادم کا آغاز ہمیشہ باطل کی طرف سے ہوتا ہے، نبیوں اور رسولوں نے ہمیشہ تصادم سے گریز کرتے ہوئے اپنے مشن کی انجام دہی کے لیے پرامن ماحول کو ترجیح دی ہے۔
(۳) قرآن مجید میں جہاد کا لفظ اسلامی جدوجہد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور قتال کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، لیکن کہیں بھی یہ قتل کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ قتل اور قتال میں بہت ہی واضح فرق پایا جاتا ہے، آیات جہاد کے مطالعہ کے دوران اس فرق کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
(۴) اسلامی شریعت میں جہاد بمعنی قتال میں افراد کے قتل کا تصور سرے سے ہے ہی نہیں، افراد سے تعامل کے سلسلے میں از اوّل تا آخر دعوت دین ہی تنہا آپشن ہے۔
(۵) اسلامی شریعت میں جہاد بمعنی قتال افراد سے نہیں حکومتوں سے کیا جاتا ہے، وہ بھی صرف ان حکومتوں سے جو ظلم وجبر کی روش اختیار کر بیٹھتی ہیں، اور اس میں بھی پیش نظر قتل وخون ہرگز نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصود صرف اور صرف ان کی طاقت توڑنا ہوتا ہے، یہی غزوات نبوی کا بھی امتیاز رہا ہے اور یہی دور اوّل کی دوسری جنگی سرگرمیوں کا بھی امتیاز رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ غزوات میں قتل کیے جانے والے افراد کی مجموعی تعداد زیادہ سے زیادہ سیکڑوں یا چند ایک ہزار تک ہی شمار کی جاتی ہے۔
(۶) جہاد بمعنی قتال کے سلسلے میں یہ بات بھی بہت بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جہاد بمعنی قتال کا فیصلہ کرنے کا اختیار کچھ افراد یا کسی جماعت کو حاصل نہیں ہے، بلکہ اس فیصلہ کا اختیار صرف اور صرف اسلامی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ البتہ جہاد بمعنی اسلامی جدوجہد ہر مسلم فرد کی ذمہ داری ہے اور وہ اس ذمہ داری کے لیے عنداللہ جوابدہ ہوگا۔
(۷) قرآن مجید میں جہاں کہیں جہاد بمعنی قتال کی آیات آئی ہیں وہ مخصوص حالات اور مخصوص واقعات سے تعلق رکھتی ہیں، ان کو عمومی معنی پہنانا کسی بھی طور سے اسلامی شریعت کا مقصود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سورہ توبہ میں موجود آیات جہاد وقتال اوّل تو کفار مکہ سے تعلق رکھتی ہیں، دوم یہ کہ یہ اس زمانے سے متعلق ہیں جب کہ ان کفار مکہ نے تمام معاہدے توڑ ڈالے تھے اور یہ تمام حدود سے تجاوز کرگئے تھے، چنانچہ ان آیات سے استدلال کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جس میں یقینی طور پر صورتحال اور اس کے اسباب وعلل کی یکسانیت کو اہمیت دی جائے گی۔
اسی طرح سماجی تعلقات سے متعلق آیات اور احکام کے ضمن میں درج ذیل باتیں پیش نظر رہنی ضروری ہیں:
(۱) اسلامی تعلیمات تکریم بنی آدم اور احترام انسانیت کی تعلیم دیتی ہیں، ہمارے سماجی رویوں میں اس اصول کو ہمیشہ اوّل نمبر حاصل رہنا چاہیے۔
(۲) سماجی تعلقات کے سلسلے میں دوسری اصولی بات یہ ہے کہ اہل ایمان کا دوسری اقوام وملل کے ساتھ رشتہ داعی اور مدعو کا ہے، داعی اور مدعو کا یہ رشتہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ داعی ہر حال میں مدعو کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کرے، اور چونکہ پوری امت مسلمہ داعی کے منصب کی حامل ہے اور اس کی نگاہ میں باقی تمام اقوام وملل مدعو کے مقام پر ہیں، لہٰذا امت مسلمہ کو دیگر اقوام وملل کے ساتھ نہ صرف یہ کہ خوشگوار تعلقات رکھنے چاہئیں بلکہ خوشگوار تعلقات بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، یقینا یہ خوشگوار تعلقات دعوتی عمل کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں، اور ان تعلقات کے پیچھے صرف اور صرف ان کی ہدایت طلبی اور خیرخواہی کا سچا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔
(۳) اسلام جن اعلی اخلاق واقدار کی تعلیم دیتا ہے، ان کے سلسلے میں وہ کسی بھی تفریق کا قائل نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات وہ واضح لفظوں میں تفریق سے باز رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ عدل وانصاف کا رویہ، احسان کا رویہ، کمزوروں اور پریشان حالوں کی دیکھ بھال، محتاجوں اور مسکینوں کی حاجت روائی، مظلوموں کا تعاون، وغیرہ یہ تمام اعلی اسلامی اخلاق واقدار بلاتفریق مذہب وملت تمام ہی انسانوں کو اپنا وسیع تر اور ٹھنڈا سایہ فراہم کرتے ہیں۔
(۴) قرآن مجید فساد فی الارض کو انسانوں کا ذاتی مسئلہ بناکر پیش کرتا ہے، وہ کسی بھی سطح پر اور کسی بھی درجہ میں ہو، اس کے خلاف انسانوں کو جدوجہد پر ابھارتا ہے۔ اسی طرح ان تمام برائیوں کے خلاف سماج کا ذہن تیار کرتا ہے جو سماج کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں، یقینا فساد فی الارض کے خلاف اور سماج کو تباہی کی طرف لے جانے والی سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے تمام طبقات کو اس میں شریک کیا جائے، یہ سماجی جدوجہد داعی کو سماج میں ایک مضبوط پوزیشن اور مقام عطا کرے گی اور سماج اور داعی کے درمیان موجود دوریوں کو کم سے کم کرے گی۔
ان اصولی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان قرآنی آیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن میں یہود ونصاری کو اولیاء بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس میں اوّل تو ان آیات کا سیاق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس زمانے کے اُن یہود ونصاری سے متعلق ہیں جنہوں نے اسلام کے خلاف ہر ممکن سازش کرڈالی تھی، دوم اس میں ولی کے مفہوم کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ولی بنانے اور عام انسانی بنیادوں پر خوش گوار سماجی تعلقات استوار کرنے میں کیا فرق ہے، ولی قرآن مجید میں جہاں بھی استعمال ہوا ہے، وہاں رازدار بنانے اور اپنی زندگی کی باگ ڈور کسی کے حوالے کردینے جیسے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
مثال کے طور پر سورہ مائدہ کی آیت 51 ہے: یا ایھا الذین آمنولا تتخذوالیھود و النصاریٰ اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم۔ ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین ا ے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انہیں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اس آیت سے پہلے اور بعد کی آیتوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں بہت ہی واضح طور سے منافقین کو مخاطب بنایا گیا ہے جنہوں نے یہود ونصاری کو اپنا ولی بنا رکھا تھا اور وہ اپنے اولیاء کے کہنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مشن کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ اور مسلمانوں کے درمیان رہ کر کشمکش کے دوران جو بھی راز کی باتیں ہوسکتی تھیں وہ اپنے اولیاء تک پہنچانے کی مذموم حرکت انجام دیتے تھے۔
وہ سماجی تعلقات جو دعوتی مشن اور اسلامی جدوجہد کے حق میں مفید ہوں اسلام ان کی ترغیب دیتا ہے اور وہ تمام ہی سماجی تعلقات اور سماجی نسبتیں جو اسلامی جدوجہد اور دعوتی مشن کو نقصان پہنچا سکتی ہوں اسلام ان کے سلسلے میں سختی کے ساتھ خبردار کرتا ہے۔ دین کا صحیح فہم حاصل کرنا بھی دعوتی مشن کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے اور اس فہم کو عام کرنا بھی۔ خاص طور سے ان حالات میں جبکہ غلط فہمیوں اور نفرتوں کا بازار مستقل گرم رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں ہورہی ہیں اہل حق اور داعیان دین کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔
واللہ ولی التوفیق وہو حسن المآب