عیسائیوں کے خلاف نفرت پرمبنی جرائم

جان دیال

2024ء کے عام انتخابات سے پہلے کا سال، 2014ء کی سیاسی مہمات کے بعد سب سے زیادہ زہریلی اور نفرت انگیز تقاریر کے ساتھ رکارڈ کیا گیا ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ ان نفرت انگیز تقاریر کو سرکاری مشینری نے چیلنج تک نہیں کیا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کی بڑی اور حساس ریاستوں میں اسے خاموش شہ بھی دی گئی ہے۔ معاشرے میں اس طرح کی غیر سماجی حرکتوں پر انتظامیہ کے نرم روّیے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس کی وجہ سے عیسائی اور عمومی طور پر اقلیتوں کے خلاف تشدد کے بڑے پیمانے پر واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
ڈاٹا، عیسائیوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی تعداد میں انتہا اضافے کو ظاہر کرتا ہے، یہ تعداد 2022ء سے 2023ء کے آخر میں 601 تک پہنچ گئی ہے۔ دیہات اور چھوٹے شہروں میں متاثرین، چرچ کے پادری اور سول سوسائٹی کی طرف سے ان واقعات کے خلاف ایکشن کی مانگ کی گئی مگر ریاست کسی بھی قسم کا ردعمل دینے میں کمزور اور سست پائی گئی ہے۔
اتر پردیش جو کہ بھارت کی سب سے بڑی اور سیاسی طور پر حساس ریاست ہے، عیسائیوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ عیسائیوں کے خلاف تشدد میں اُتر پردیش پہلے نمبر پر برقرار ہے، جہاں 279 کیسز درج ہیں۔ یہ وہ ریاست بھی ہے جہاں پادریوں اور مذہبی لوگوں کی گرفتاریوں کی سب سے بڑی تعداد مقامی سیاسی گروہوں کے کہنے پر جیلوں میں بند ہے، جن پر مقامی لوگوں نے زبردستی تبدیلی مذہب کا الزام لگایا ہے۔ الزام یہ ہے کہ وہ گرفتار شدہ لوگ، سالگرہ منانے یا دعائیہ اجتماعات کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، ان میں بہت سے لوگ جو مقامی عدالتوں کی طویل عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے بغیر ضمانت کے جیل میں ہیں، انہیں رہا ہونے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ قانونی کارروائیاں بھی وقت لیتی ہیں۔
اُتر پردیش کے قریب ہی وسطی ہندوستان، چھتیس گڑھ میں 132 کیس اور ہریانہ میں 43 معاملات پیش آئے ہیں۔
2023ء سے اب تک بھارت میں گرفتار ہونے والے عیسائیوں کی کل تعداد 648 تھی، جو کہ ایک بڑا ریکارڈ بھی ہے، جن میں سے 440 کیس ریاست اتر پردیش سے تھے۔ ان میں سے 35 عیسائی اب تک سال کے اختتام پر رہائی کے منتظر تھے۔
یہ تعداد اپنے آپ میں بہت کچھ معنی رکھتی ہے۔ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں اور اس کی سماجی حرکیات کے ساتھ، اکثر لوگ شکایت درج کرانے سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اکثر پولیس مذہبی نوعیت کے نفرت انگیز جرائم کے واقعات کو ریکارڈ کرنے یا تفتیش کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے میں ایک پی آئی ایل بھی زیر سماعت رہی۔
سال کے اختتام پر ان نفرت کی مہمات میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ دوسری طرف، اتراکھنڈ نے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے والا ایک بل منظور کیا جس کے مسلمانوں اور قبائلی عیسائیوں پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا تحفظ اورقانونی شناخت چھن جانے کا خطرہ ہے جو انہیں ہندوستانی آئین کے تحت حاصل ہے۔
اس بل میں مذہبی اقلیتوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا ہے۔ ابھی قانون بننا باقی ہے لیکن اتر پردیش، آسام اور چھتیس گڑھ سمیت کئی دیگر ریاستوں نے نوٹس دیا ہے کہ وہ 2024ء میں اپنے دائرہ اختیار میں اسی طرح کے قوانین بنائیں گے۔
آسام اور چھتیس گڑھ نے بھی “مشنری سرگرمیوں” کو روکنے کے لیے قانون بنانے کی دھمکی دی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ انجیل کی تعلیم پر پابندی ہوگی یا نہیں! آئین، عیسائیوں کو اپنے عقیدے کے اظہار، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ یہاں تک کہ عوام میں براہ راست انجیل کی گواہی دینے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ قوانین اور بیانات، مذہبی اقلیتوں کو دھمکانے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے غیر ریاستی عناصر اور غیر سماجی گروہوں کے لیے محرک بنتے ہیں۔
بھارت کے 13/ اضلاع ایسے ہیں جہاں عیسائی ہونا مصیبت بنتا جا رہا ہے۔ عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 51/ واقعات کے ساتھ ‘بَستر’ سرفہرست ہے، اس کے بعد کونڈا گاؤں اور اعظم گڑھ میں 14، جون پور، رائے بریلی اور سیتا پور میں 13، کانپور میں 12، ہردوئی، مہاراج گنج، کشی نگر اور مؤ میں 10، غازی پور اور رانچی میں 9-9 واقعات پیش آئے ہیں۔
عیسائیوں کو پریشان کرنے اور زد و کوب کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار مذہب تبدیل کرنے کا جھوٹا الزام ہے جو عیسائیوں کے خلاف بڑے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دلت عیسائیوں اور آدیواسی عیسائیوں کے معاملے میں، عیسائی خواتین اپنی باہمی شناخت کی وجہ سے تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔
اس سے ان قبائلی برادریوں پر بھی اثر پڑے گا جن کے روایتی قوانین آئین کی وجہ سے محفوظ ہیں۔ عیسائی قبائلیوں کو بھی اپنی نسلی حیثیت کے دوہرے صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ قبائل، عیسائیت قبول کرنے پر ختم ہو جاتے ہیں، لیکن ہندو مذہب میں تبدیلی پر قبائل اپنے آبائی مذہب اور عبادت کے طریقوں سے دست بردار نہیں ہوتے۔
ہندوتوا جو کہ اکثریتی مذہب کا ایک انتہائی سیاسی دایاں بازو ہے ،جس میں زیادہ تر ریاستوں کا بڑا کیڈر ہے، عیسائیوں پر زبردستی تبدیلی مذہب کا جھوٹا الزام لگا رہا ہے۔ عیسائیوں پر منصوبہ بند حملوں کا ذمہ دار بھی ہے۔
مندرجہ ذیل چند واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عیسائیوں، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے عوامی اداروں کو کس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پادری پر حملہ
6/ اگست کو مہاراشٹر کے جادھو پاڈا، نالاسوپارہ، پالگھر میں تین نقاب پوش انتہا پسندوں نے ایک 54 سالہ پادری جس کا نام زیویئر پالہار تھا، اس کے بیٹے اور ایک دوسرے عبادت کرنے والے آدمی پر، جاری دعائیہ اجتماع کے دوران وحشیانہ حملہ کیا۔ انتہا پسندوں نے حملہ کرنے کے لیے لوہے کی سلاخوں کا استعمال کیا اور پادری اور دیگر عیسائیوں پر تبدیلیِ مذہب کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بے بنیاد الزام لگایا۔ تشدد چرچ کے احاطے تک بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ ہوئی۔ حملے کے بعد، پادری پالہار، جو شدید زخمی ہوئے، نے حملہ آوروں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔ ان کی چوٹیں کافی زیادہ اور گہری تھیں، انہیں مقامی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ابتدائی طبی جائزوں کے بعد یہ تجویز کیا گیا کہ ان کی صحت یابی کے لیے طویل مدتی آرام کی ضرورت ہوگی، جو چند ماہ پر محیط ہوگا۔
چرچ پر حملہ
19/ مارچ کو جودھ پور، راجستھان میں چرچ آف پادری راجو تھامس چرچ آف نارتھ انڈیا (CNI)کے کمیونٹی ہال میں ‘ٹرانسفارمیشن’ کے نام سے اپنی سالانہ 10 روزہ دعائیہ اجتماع کا انعقاد کر رہا تھا۔ جب دعائیہ اجتماع جاری تھا، انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے زبردستی ہال میں گھس کر جلسے کی فلم بنائی۔ اس کے بعد انہوں نے دو خارجی دروازوں کو باہر سے بند کر دیا، جس سے تقریباً 250 عیسائیوں کو باہر جانے سے روک دیا گیا۔ انتہا پسندوں نے لوگوں کی عبادت کے بارے میں پوچھ گچھ کی، ان پر لوگوں کو عیسائی بنانے کے لیے رقم کی پیشکش کا الزام لگایا، بائبل کو پھاڑا، گالی گلوچ کی اور لوٹنے کی کوشش کی۔ دس عیسائیوں نے کہا کہ ان پر حملہ کیا گیا اور مارا پیٹا گیا۔
خواتین جنسی تشدد سے بچ گئیں
15/ اکتوبر کو جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم کے جاگرناتھ پور میں، ایک بیوہ سنائی سنکو نے اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک دعائیہ اجتماع کیا۔ عبادت کے دوران مسلح مذہبی انتہا پسندوں نے دھاوا بول دیا جس سے عبادت میں خلل واقع ہوا۔ انہوں نے دو خواتین پر حملہ کیا، دوسروں پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ وقت پر پہنچنے کے باوجود پولس نے فوری کارروائی نہیں کی۔ بعد از اں تمام متاثرین پولیس اسٹیشن گئے اور دوسرے دن صبح انہیں طبی علاج کے لیے صدر ہسپتال چائباسہ لے جایا گیا۔ ابتدائی طور پر باضابطہ شکایت درج کرنے سے ہچکچاتے ہوئے، پولیس نے “سمجھوتہ” کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کی۔ آخرکار ایک آن لائن شکایت درج کرائی گئ اور رسمی شکایت سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کو بھیج دی گئی۔ ایس پی کے دفتر میں درج شکایت کے جواب میں متاثرین کے حق میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
منی پور
اڑیسہ کے کندھمال ضلع میں 2007ء اور 2008ء کے قتل عام کے بعد سے منی پور میں تشدد کے بارے میں سنا نہیں گیا۔ شمال مشرقی ریاست میں مئی 2023ء کے اوائل میں شروع ہونے والے تشدد کے واقعات سال کے آخر میں وقفے وقفے سے جاری رہے جس میں ریاست اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالنے اور امن اور قانونی کاروائی کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
منی پور اس رپورٹ کا حصہ نہیں ہے حالانکہ متاثرین کوکی، زو اور ہمار قبائل کے زیادہ تر عیسائیوں کے لیے ہیں، جو کہ ہندوستان اور میانمار کے اس خطے میں مقامی ہے۔ تشدد سے پہلے عیسائی نسلی گروہ کے خلاف جان بوجھ کر نفرت اور تشدد کی مہم چلائی گئی۔
عیسائی مخالف تشددتو تیز تھا ہی لیکن مذہبی و نسلی اقلیتوں سے متعلق ریاست کی ادارہ جاتی اور ساختی تبدیلیاں عیسائیوں پر کہیں زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتی نظر آئیں۔ ان میں ملک کا تعلیمی نظام بھی شامل ہے جو تعلیم پر اقلیتوں کے آئینی حقوق کمزور کرتا ہےاس کے علاوہ اب کارپوریٹائزڈ تعلیمی نظام کو کھولنے کے علاوہ، دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کی طرف سے دراندازی اور جوڑ توڑ کے لیے واضح انتخاب موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
2011ء کی مردم شماری (2021ء میں ہونے والی اگلی مردم شماری ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے) کے مطابق ہندو 79.8 فیصد، مسلمان 14.23 فیصد، عیسائی 2.3 فیصد، سکھ 1.72 فیصد، بدھ 0.7 فیصد، جین 0.37 فیصد (4,451,753)اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ جن میں پارسی اور یہودی بھی شامل ہیں۔ یہ ہندوستان کی آبادی کا 0.6فیصد ہیں۔ ہندوستان کے بہت سے مقامی مذاہب کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ملحدوں اور لا ادریوں کی تعداد کا کوئی سرکاری ڈاٹا نہیں ہے۔ ہندوستان میں عیسائی برادری یکساں نہیں ہے اور اس کے ارکان مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیتھولک چرچ ان میں سے سب سے بڑا، خود تین طرح کا ہے جس میں لاطینی، کیرالہ میں واقع سائرو مالابار اور سائرو مالانکارا شامل ہیں۔
قبائلی اور مقامی برادریوں کے بہت سے لوگ آپس میں رسا کشی رکھتے تھے اور بعد میں ثقافتی انضمام کے عمل سے عیسائیت اور ہندو مذہب میں تبدیل ہو گئے۔ اس لیے ہندوستان کے آئین کی ضمانتیں بہت ہی دل چسپ اور گہری ہیں اور چھوٹے سے چھوٹے گروہوں کو اپنے اپنے حقوق کی حفاظت کا یقین دلاتی ہیں۔ اکثریتی سیاست ہندوستانی ثقافت کو ہندو ثقافت اور شناخت کے ساتھ جوڑتی ہے۔ اقلیتی حقوق کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ “بی جے پی کا ہندو قوم پرستی کو فروغ دینا نہ صرف ہندوستان کی اقلیتوں کے خلاف ہے بلکہ اس نے ہندوستان میں عدم تحمل کے مجموعی ماحول کو فروغ دینے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔”
(مضمون نگار سینئر صحافی، نیشنل انٹیگریشن کونسل، حکومت ہند کے سابق رکن اور آل انڈیا کیتھولک یونین کے سابق صدر ہیں۔)
[email protected]

اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں