معروف اسلامی دانشور مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا ایک اہم اور فکرانگیز خطبۂ عیدالفطر
برادران اسلام !
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں زندگی میں پھر ایک بار موقعہ دیا کہ رمضان المبارک کی برکتوں سے نہال ہوسکیں۔
رمضان المبارک جیساکہ آپ کو معلوم ہے سال کا سب سے اہم مہینہ ہے جس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے قراری کے ساتھ انتظار کی گھڑیاں گنا کرتے تھے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں انسانیت کو اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ملی، قرآن ملا، اسلام ملا، خدا کا آخری دین اور آخری پیغام ملا، یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہوتی ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا دریائے کرم جوش پر ہوتا ہے، اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرا لہرا کے اٹھتی اور جھوم جھوم کے برستی ہیں۔
اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتا ہے، وہ خوش ہوہوکر اسے سجاتا ہے اور کہتا ہے میرے اطاعت گزار بندے جلد ہی اپنی اپنی ڈیوٹیاں ادا کرکے آئیں گے، وہ تیرے ہی اندر ٹھہریں گے اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے۔
غرض یہ ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کی اتنی زبردست نعمت ہے کہ اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے تھوڑا ہے اور جتنی بھی ثنا کی جائے کم ہے، مگر اس موقع پر جبکہ ہم اور آپ اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت پر اس کا شکر ادا کرنے اکٹھا ہوئے ہیں، مجھے میرتقی میرکا یہ شعر یاد آتا ہے
نعمت رنگا رنگ حق سے بہرہ بخت سیہ کو نہیں
سانپ رہا گوگنج کے اوپر، کھانے کو تو کھائی خاک
اس شعر میں میرتقی میر نے اپنی نامرادیوں اور محرومیوں کی جو تصویر کھینچی ہے وہ بڑی ہی درد انگیز ہے، ظاہر ہے سانپ چاہے خزانے پر بیٹھا رہے، عمر بھر اس سے چمٹا رہے، مگر اسے اس سے کیا حاصل، اسے بھوک لگے گی تو وہ سونا تو کھائے گا نہیں، کھائے گا تو مٹی ہی کھائے گا۔
کچھ ایسی ہی کیفیت ہماری ہے، بلاشبہہ اللہ تعالی کی یہ زبردست نعمت ہمیں حاصل ہوئی، یہ مہمان عزیز پورے ایک ماہ ہمارے درمیان ٹھہرا رہا، یہ ماہ مقدس اپنی ساری رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ کامل تیس دن ہم پرسایہ فگن رہا لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس سے کیا پایا، اس کی رحمتوں اور برکتوں میں سے ہم نے کس حدتک اپنا حصہ لگایا، اس کی نورانی راتوں اور بابرکت لمحوں سے ہم کس قدر فیضیاب ہوئے؟
آہ! یہ ایک ایسا سوال ہے جو آنکھوں کو آنسوؤں اور قلب کو سوزوگداز سے بھردیتا ہے، دلوں کو دونیم اور جگر کو پاش پاش کئے دیتا ہے۔
آہ یہی رمضان کیا، اس سے پہلے بھی تو کتنے رمضان آئے اور گزرگئے، مگر ہم نے ان سے کیا پایا؟ کتنی ہی بہاریں آئیں، کتنی ہی روح پرور اور نشاط انگیز بہاریں آئیں، مگر ہمارے چمن پرویسی ہی خزاں طاری رہی، برکتوں اور سعادتوں کے کتنے ہی قافلے آئے مگر ہماری نامرادیاں اور بدبختیاں جوں کی توں قائم رہیں، ہمارے گھر کی ویرانیوں میں کوئی فرق نہ آیا، رحمت کی کتنی ہی گھٹائیں اٹھیں، لطف وکرم کی کتنی ہی بدلیاں نمودار ہوئیں، مگر ہماری قسمتوں کے پیالے ویسے ہی اوندھے پڑے رہے۔ انوارو تجلیات کی کتنی ہی موجیں اٹھیں، مگر ہمارے دلوں کی دنیاویسی ہی تاریک رہی، ہمارے ایمان کی قندیلیں ویسی ہی ٹمٹماتی رہیں، ان کی لوذرا بھی تیز نہ ہوئی۔
آہ! ہماری محرومیوں اور تیرہ بختیوں کی تاریخ کتنی لمبی اور کس قدر عبرت ناک ہے۔
شب حیات میں کچھ لوگ آفتاب بدست
کچھ ایسے بھی ہیں جو قندیل تک جلا نہ سکے
برادران اسلام!غالباً میری ان باتوں پر آپ کو تعجب ہورہا ہوگا، اس لئے کہ ہم نے بھی تو رمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں، ہم نے بھی تو راتوں میں تراویحیں پڑھی ہیں، اس رمضان میں بھی روزے رکھے ہیں، گزشتہ رمضانوں میں بھی روزے رکھتے آئے ہیں، اس رمضان میں بھی تراویحیں پڑھی ہیں، گزشتہ رمضانوں میں بھی تراویحیں پڑھتے آئے ہیں، پھر ہم خدا کی رحمت اور ماہ مقدس کی برکت وسعادت سے محروم کیوں ہونے لگے۔ مگر آہ! میرے بزرگو! آج جو ہماری صورت حال ہے، آج سارے عالم میں جو ہماری درگت بن رہی ہے، وہ آخر کس چیز کا پتہ دیتی ہے۔ کیا وہ ہماری محرومیوں کا پتہ نہیں دے رہی ہے؟ہوسکتا ہے میری ان باتوں پر آپ کو الجھن ہورہی ہو، ہوسکتا ہے آپ سوچتے ہوں آج خوشی کے موقعہ پر یہ دردوغم کی حکایت کہاں سے چھیڑدی، لیکن میں کیا کروں، میں اپنی طبیعت سے مجبور ہوں، خوشی کا ہر لمحہ مجھے غم کی یاددلاتا ہے، جب بھی کوئی کھلا ہوا پھول دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے دل کا زخم یاد آجاتا ہے، جب بھی آسمان پر کوئی ہلال دیکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ اسی کماں بدوش فلک کا کوئی تیر نہ ہو۔
بہرحال مجھے آپ کے ذوق کی بھی رعایت کرنی ہے، آپ کی طبیعت کی ضیافت بھی میرا فرض ہے، اس لئے میں اس خوشی کے موقع پر کچھ نشاط انگیز اور خوش کن باتیں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ آپ کی خوشیاں مکمل ہوسکیں، آپ صحیح معنوں میں اس عید کی خوشیاں مناسکیں، لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہیں ان کے اندر سے بھی غم کا کوئی پہلو نہ نکل آئے۔
برادران اسلام! آج جب آپ اپنے گھروں سے نکل کر عید گاہ تشریف لائے ہیں تو گلی کوچوں اور سڑکوں پر کچھ نئی نورانی صورتوں نے آپ کا استقبال کیا ہوگا، کچھ شیریں ودل نواز صداؤں نے آپ کا خیر مقدم کیا ہوگا، یقیناًایسا ہوا ہوگا لیکن شاید آپ کو محسوس نہ ہوسکا، ظاہر ہے ہماری یہ آنکھیں اس قابل کہاں کہ ان نورانی صورتوں کو دیکھ سکیں۔ ہمارے یہ کان اس قابل کہاں کہ ان لطیف آوازوں کو سن سکیں؟
سنئے جب آپ اپنے گھروں سے نکلے ہیں تو اللہ کے نورانی فرشتوں نے بڑھ بڑھ کر آپ کا استقبال کیا ہے، نہایت گرم جوشی سے آپ کا استقبال کیا ہے، نہایت خلوص ومحبت اور فرط مسرت کے ساتھ آپ کو مبارکبادیاں پیش کی ہیں اور کچھ اس انداز سے پیش کی ہیں کہ اگر آپ ان کی صورتیں دیکھ سکتے، ان کی خوش کن آوازیں سن سکتے، ان کی دل نواز بولیاں سمجھ سکتے تو آپ خوشی سے بے قابو ہوجاتے، آپ کی مسرت کی انتہا نہ رہتی، دیکھئے وہ آوازیں اب تک اس فضا میں گونج رہی ہیں۔
یَا اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ اُخْرُجُوْ اِلٰی رَبٍّ کَرِیْمٍ یُعْطِی الْجَزِیْلَ وَ یَعْفُوْ عَنِ الْعَظِیْمِ اُغْدُوْا یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ اِلٰی رَبٍّ کَرِیْمٍ یَمُنُّ بِالْخَیْرِ ثُمَّ یُثِیْبُ عَلَیْہِ الْجَزِیْلَ لَقَدْ اُمِرْتُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَقُمْتُمْ وَ اُمِرْتُمْ بِصِیَامِ النَّھَارِ فَصُمْتُمْ وَاَطَعْتُمْ رَبَّکُمْ فَاقْبِضُوْا جَوَاءِزَکُمْ۔
اے محمد کے امتیو! چلو تم مہربان رب کی طرف جو بہت بہت نوازنے والا ہے، بڑی سے بڑی خطاؤں کو معاف کردینے والا ہے، اے مسلمانو! چلو اپنے مہربان آقا کی بارگاہ میں جو نیکیوں کی توفیق بھی دیتا ہے اور نیکیوں کا بھر پور صلہ بھی عطا کرتا ہے، تم سے دن میں روزے رکھنے کے لئے کہا گیا تم نے دن میں روزے رکھے، تم سے راتوں میں نمازیں پڑھنے کے لئے کہا گیا تم نے راتوں میں نمازیں پڑھیں، تم نے اپنے رب کی اطاعت کی، چلو اپنا اپنا انعام لے لو۔
اور یہ لیجئے! اس وقت جیسے کچھ خدا کی آواز آرہی ہے۔ آپ کے مہربان مولی کی آواز۔ انتہائی شیریں ودل نشیں آواز، وہ جیسے فرشتوں سے پوچھ رہا ہے۔
مَا جَزَاءُ الْاَجِیْرِ اِذَا عَمِلَ عَمَلَہٗ؟
اگر کوئی مزدور اپنا کام پورا کردے تو اس کا بدلہ کیا ہونا چاہئے؟
فرشتے عرض کرتے ہیں:
اِلٰھَنَا وَ سَیِّدَنَا جَزَاءُ ہٗ اَنْ تُوَفِّیْہِ اَجْرَہٗ
اے ہمارے مولی! اے ہمارے آقا! اس کا بدلہ تو یہ ہے کہ اسے بھرپور صلہ عطا کیا جائے۔
مہربان مولی فرماتا ہے:
فَاِنِّیْ اُشْھِدُکُمْ یَا مَلاَ ءِکَتِیْ أَنِّیْ قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَھُمْ مِنْ صِیَامِھِمْ شَھْرَ رَمْضَانَ وَ قِیَامِھِمْ رَضَایَ وَ مَغْفِرَتِیْ۔
اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو، میرے ان بندوں نے پورے مہینے جو راتوں میں نمازیں پڑھی ہیں اور دن میں روزے رکھے ہیں، ان کے بدلے میں میں نے اپنی مغفرت اور اپنی چاہتوں کے تخت وتاج انہیں عطا کردیئے۔ اور یہ لیجئے آپ کا مہربان مولی، رحمان ورحیم آقا، براہ راست آپ سے ہم کلام ہے۔ وہ آپ کو آواز دے رہا ہے، وہ آپ سے کہہ رہا ہے۔
یَا عِبَادِیْ سَلُوْنِیْ فَوَعِزَّتِیْ وَ جَلاَ لِیْ لاَ تَسْأَلُوْنِّیْ الْیَوْمَ شَیْءًا فِیْ جَمْعِکُمْ لِآخِرَتِکُمْ اِلّاَ اَعْطَیْتُکُمْ وَلاَ لِدُنْیَاکُمْ اِلّاَ نَظَرْتُ لَکُمْ فَوَعِزَّتِیْ لَأَسْتُرَنَّ عَلَیْکُمْ عَثَرَاتِکُمْ مَارَاقَبْتُمُوْنِیْ وَعِزَّتِیْ وَجَلاَلِی لَا اُخزِیْکُمْ وَلَا اَفَضَحُکُمَْ بیْنَ اَصْحَابِ اْلحُدُوْدِ وَاْنصَرِفُواْ مَغْفُوْرًا لَکُمْ قَدْ اَرْضَیتُمُونِیْ وَ رَضِیْتُ عَنْکُمْ۔
اے میرے بندو! مانگو جو کچھ مانگنا ہو، میری عزت وجلال کی قسم! آج تم آخرت کی جو نعمت بھی مانگو گے میں تمہیں عطا کروں گا اور دنیا کی جو چیز بھی مانگو گے میں اس کا خیال رکھوں گا، میری عزت کی قسم، تم جب تک میری طرف سے غافل نہیں ہوگے، مجھ سے لو لگائے رہوگے، میں تمہاری لغزشوں کی پردہ پوشی کرتا رہوں گا، میری عزت وجلال کی قسم میں مجرموں کے ساتھ تم کو کبھی ذلیل ورسوا نہیں ہونے دوں گا، جاؤ تمہاری مغفرت ہوگئی، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا۔
اور یہ لیجئے اللہ کے فرشتے پھر خوشی سے بے قابو نظر آرہے ہیں، وہ غول در غول آسمان سے اتررہے ہیں، یقین مانئے اس وقت اللہ کے فرشتے فوج در فوج آپ کی طرف بڑھ رہے، وہ آپ کے سروں پر منڈلا رہے ہیں، اور یہ لیجئے کیسی زبردست خوش خبری سنارہے ہیں۔
اَلَااِنَّ رَبَّکُمْ قَدْ غَفَرَ لَکُمْ فَارْ جِعُواْ رَاشِدِیْنَ اِلٰی رِحَالِکُمْ
سن لو! تمہارے رب نے تمہاری مغفرت کا فیصلہ فرمادیا ہے، جاؤ اپنے گھروں کو واپس جاؤ، خوش خوش، کامیاب وکامراں۔
اللہ اکبر، یہ منظر بھی کتنا مسرت انگیز ہے، کتنا روح پرور، کتنا وجد آفریں اور کیسا نشاط انگیز ہے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلّاَ اللَّہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُوَِ للِّٰہِ الْحَمْدُ۔
محترم بزرگو اور عزیز ساتھیو! شاید میں نے آپ کی کافی ضیافت کردی، آپ کے لئے خوشی ومسرت کاکافی سامان بہم پہنچا دیا۔ اب آپ خوش ہوں گے، مسرتوں سے معمور ہوں گے، مطمئن اور پر سکون ہوں گے۔ اور اب آپ چاہتے ہوں گے کہ خوش خوش اپنے گھروں کو واپس جائیں اور عید کے پروگراموں کی تکمیل کریں۔
لیکن نہیں، آپ کو میری طبیعت کا حال معلوم ہے، میری طبیعت خوشی کے جوش میں غم کے خطرے سے غافل نہیں ہوتی، خوشی کے پھولوں سے زیادہ غم کے کانٹوں پر اس کی نظرجاتی ہے، وہ نہ خود دھوکے میں رہتی ہے نہ دوسروں کو دھوکے میں رکھنا چاہتی ہے، اس دن کا جو خوش آئند پہلو تھا وہ آپ کے سامنے آگیا، اب ضروری ہے کہ اس کا جو دردناک پہلو ہے وہ بھی سامنے لایا جائے۔
یاد رکھئے! آج کے دن، ہاں آج کے دن میں آپ کو ہنستا ہوا نہیں روتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں، میں آج خوشی کے قہقہے نہیں، دردوکرب کی چیخیں سننا چاہتا ہوں، آج آپ اس مجلس سے جتنے ہی زیادہ غمگین اور متفکر ہوکر اٹھیں گے، مجھے اتنی ہی زیادہ خوشی ہوگی، میں ہر عید کے موقعہ پر آپ کے سامنے حسرتوں کے دسترخوان چنتا رہاہوں، آج بھی چن رہا ہوں اور زندگی رہی تو آئندہ بھی چنتا رہوں گا۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں اگر چمن میں بہار آئی ہوئی ہے تو آپ کو اس سے کیا مطلب، اگر خود آپ کے اپنے نشیمن میں آگ لگی ہوئی ہے، اگر پڑوس میں شادی ہے تو اس شادی سے آپ کو کیا خوشی، اگر خود آپ کے اپنے گھر میں آپ کے جواں سال بیٹے کی لاش رکھی ہوئی ہے؟ اگر پورے عالم میں چاندنی چھٹکی ہوئی ہے تو اس چاندنی سے مجھے کیا دلچسپی، اگر خود میری اپنی جھونپڑی میں تاریکی ہے؟
بلاشبہہ آج کا دن خوشیوں کا دن ہے، مسرتوں کا دن ہے، بشارتوں کا دن ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کے تقسیم ہونے کا دن ہے، فرشتے آج گھوم گھوم کر بشارتیں سنارہے ہیں، لیکن آپ یہ بھی تو غور کیجئے کہ یہ خوشی کا دن کن کے لئے ہے؟
یہ بشارتیں ان کے لئے ہیں جنہوں نے رمضان کا احترام کیا ہے، جنہوں نے روزے کا پورا اہتمام کیا ہے، اس کے تمام آداب وشرائط کا لحاظ رکھا ہے، اس کی روح اور اس کے مقاصد کو ہمیشہ سامنے رکھا ہے، کبھی رمضان کو اپنے لئے باعث کلفت اور مصیبت نہیں سمجھا، بلکہ وہ ان کے لئے قلب کا سکون اور دل کا سرور بن گیا، طبیعت کا تقاضا اور روح کی غذا بن گیا، انہوں نے اسے ہمیشہ اپنے لئے فلاح کا ذریعہ اور سعادت کا راز سمجھا، غرض اسے وہ سب کچھ سمجھا جو ہم نے نہیں سمجھا اور اس کے لئے وہ سب کچھ کیا جو ہم نے نہیں کیا۔
آپ کو پھر حیرت ہوگی کہ میں یہ کیا کہہ رہا ہوں، اس لئے کہ ہم نے بھی تو روزے رکھے ہیں، ہم نے بھی تو تراویحیں پڑھی ہیں، ہم میں سے کتنوں نے تو اعتکاف کی سعادتیں بھی لوٹی ہیں، ہم نے ہمیشہ رمضان کے گن گائے ہیں، اس کی عظمت وتقدس کے گن گائے ہیں، زبان سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں نکالی ہے جس سے اس کی بے حرمتی ہوتی ہو۔
ٹھیک ہے میرے دوستو! مجھے یہ سب کچھ تسلیم۔ میں ان باتوں سے انکار نہیں کرتا، البتہ اس سلسلے میں مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے چاہتا ہوں کہ اپنے محبوب آقا اور پیارے رہنما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیثیں آپ کے سامنے رکھوں اور پھر آپ سے درخواست کروں کہ خداراان حدیثوں کی روشنی میں اپنے روزوں اور رمضان کی کارگزاریوں کا جائزہ لیجئے اور پھر بتائیے، کیا واقعی ہم نے رمضان کا احترام کیا ہے، کیا ہم نے صحیح معنوں میں اس ماہ مقدس کی حرمت وعظمت کا لحاظ رکھا ہے۔
(۱) عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رُبَّ صَاءِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلّاَ الْجُوْعُ۔
(۲) وَ عَنْہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفْثِ فَاِنْ سَابَّکَ اَحَدٌ اَوْجَھِلَ عَلَیْکَ فَقُلْ اِنِّیْ صَاءِمٌ اِنِّیْ صَاءِمٌ۔
(۳) وَ عَنْہُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ۔
(۴) وَ عَنْ اَبِیْ عُبَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ مَالَمْ یَخْرِقْھَا، قِیْلَ وَ بِمَ یَخْرِقُھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: بِکِذْبٍ اَوْ غِیْبَۃٍ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کتنے ہی روزہ دار ایسے ہوں گے جن کے حصے میں سوائے بھوک پیاس کی مشقت کے اور کچھ نہیں آئے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے ہی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے کا مطلب صرف کھانے پینے سے پرہیز نہیں، روزے کا مطلب لڑائی جھگڑے اور بے حیائی کے تمام کاموں سے پرہیز ہے، تو اگر کوئی تم سے گالم گلوج کرے یا تمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو کہہ دو میں تو روزے سے ہوں۔ میں تو روزے سے ہوں۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے ہی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے غلط باتیں کہنی اور غلط کام کرنے نہیں چھوڑے، اللہ کوکوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
حضرت ابو عبیدہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ ڈھال کاکام دیتا ہے بشرطیکہ روزہ دار اسے پھاڑ نہ ڈالے، لوگوں نے عرض کیا اللہ کے رسول! یہ ڈھال کیسے پھٹتی ہے؟ آپ نے فرمایا، جھوٹ سے یا غیبت سے۔
یہ چند حدیثیں ہیں، ان حدیثوں کو سامنے رکھئے، ان حدیثوں سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ روزہ کیا ہے، روزے کی روح اور اس کی حقیقت کیا ہے، اس کی منشأ اور اس کی غایت کیا ہے، وہ کس لئے آتا ہے اور وہ ہمیں کیا پیغام دیتا ہے، وہ ہمیں کس رنگ میں رنگنا اور کس سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے، وہ ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے اور ہمارے سامنے کیا مطالبے رکھتا ہے۔
یقین مانئے روزہ اس لئے نہیں آتا ہے کہ آپ کو خواہ مخواہ بھوک پیاس کی مشقت میں مبتلا کرے، روزہ اس لئے نہیں آتا ہے کہ وہ آپ کے آرام وراحت کے اوقات میں خلل اندازی کرے۔ وہ تو اس لئے آتا ہے کہ ہم کو اور آپ کو پاک صاف بنائے۔ وہ تو ہماری زندگیوں کو سنوارنے اور نکھارنے آتا ہے، ہمارے میل کچیل اور ہماری آلائشوں کو دور کرنے آتا ہے، وہ ہماری برائیوں اور ہماری کمزوریوں کی اصلاح کے لئے آتا، ہماری روحانی بیماریوں اور اخلاقی خرابیوں کا علاج کرنے آتا ہے، وہ ہمیں ہر طرح کی تاریکیوں اور ظلمتوں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لئے آتا ہے، وہ اس لئے آتا ہے کہ ہمارے پورے وجود کو سراپا نور بنادے، ہماری پوری زندگی کو مکمل روشنی بنادے۔
یہ لڑائی جھگڑے، یہ حسد اور کینے، یہ گالم گلوج، یہ غصہ اور اشتعال، یہ غیبتیں اور چغل خوریاں، یہ عیب جوئیاں اور نکتہ چینیاں، یہ عداوتیں اور دشمنیاں، یہ زیادتیاں اور دست درازیاں غرض وہ ساری چیزیں جو ہماری زندگی کے بدنما داغ اور گھناؤنے دھبے ہیں، روزہ آتا ہے، تاکہ ہمارے ان سارے دھبوں کو مٹاکر ہماری فطرت کے حقیقی حسن کو آشکارا کرے۔
اب میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا ہم نے روزوں سے یہ فائدے حاصل کئے ہیں، کیا ہم نے رمضان لمبارک کی یہ برکتیں اور سعادتیں حاصل کی ہیں، کیا ہم نے اس مہینے میں لڑائی جھگڑے اور گالم گلوج سے پرہیز کیا ہے، کیا ہم نے غیبتوں اور چغل خوریوں سے، دوسروں کی نکتہ چینیوں اور عیب جوئیوں سے احتیاط کی ہے، کیا ہماری زبانیں صاف ستھری اور پاکیزہ رہی ہیں، کیا ہمارے دلوں سے نفرت وعداوت کے سارے کانٹے نکل گئے ہیں، کیا آج ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ آج سے ہم بھائی بھائی بن کر رہیں گے، ایک دوسرے کے ہمدردو بہی خواہ او ر غم خوار وغم گسار بن کر رہیں گے، کیا آج ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ آج سے ہم بدی کے خلاف اعلان جنگ کردیں گے، اب ہم اپنے سماج کے اندر، اپنی سوسائٹی کے اندر اور خود اپنی زندگیوں میں، بال بچوں کی زندگیوں میں، ماؤں اور بہنوں کی زندگیوں میں برائی کو پنپنے نہیں دیں گے، کہیں سے بھی شیطان کو داخل نہیں ہونے دیں گے، کیا ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اب ہم نیکی کے علم بردار بنیں گے، اور خیروہدایت کا جھنڈا بلند کریں گے، اب ہم نیکی کے سپاہی بنیں گے اور نیکی کی اشاعت کریں گے؟
اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں جہاں روزوں کی فرضیت کا اعلان فرمایا ہے، اور اس سلسلے کے کچھ احکام بیان فرمائے ہیں، وہاں آخر میں فرمایا ہے:
وَ اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَأِنِّیْ قَرِیْبٌ، اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo
اور جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دو میں قریب ہی ہوں، میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو وہ میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، امید ہے وہ میری راہ پالیں گے، گویا وہ خود مجھے پالیں گے۔
یہ ایک مختصر سی آیت ہے جس میں اللہ تعالی نے روزے کی روح کھینچ کر رکھ دی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ روزہ کیا ہے، اس کی روح کیا ہے، تو بس یوں سمجھ لیجئے کہ روزے کی روح اللہ تعالی سے بے پناہ تعلق ہے، اس سے والہانہ محبت ہے، اس سے قلبی لگاؤ اور روحانی وابستگی ہے۔
یاد رکھئے روزہ اس لئے نہیں آتا ہے کہ وہ آپ کے لئے لذیذ کھانے فراہم کرے، روزہ اس لئے نہیں آتا ہے کہ وہ آپ کے لئے خوش ذائقہ اور پر تکلف سحری وافطار کا انتظام کرے، وہ تو اس لئے آتا ہے کہ آپ کے اندر اللہ تعالی کی محبت کی آگ لگادے، آپ کو اس کے لئے دیوانہ بنادے، آپ کے اندر اپنے آقا کی بھوک اور آقا کی پیاس پیدا کردے، وہ تو اس لئے آتا ہے کہ آپ کے اندر محبت الہی کی ایسی گرمی پھونک دے کہ آپ بے چین ہوجائیں، آپ بے چین ہوجائیں کہ ہمارا مولیٰ کہاں ہے، ہمارا مہربان آقا کہاں ہے، ہم اسے کہاں پاسکتے ہیں، اسے کس طرح پاسکتے ہیں، ہم اسے کس طرح خوش کرسکتے ہیں، اپنی عقیدتوں کے نذرانے ہم اس کی خدمت میں کس طرح پیش کرسکتے ہیں، اپنی محبتوں کے پھول ہم اس کے قدموں پر کس طرح نچھاور کرسکتے ہیں، آپ کے اندر ایسا بے تاب جذبہ بندگی پیدا ہوجائے کہ آپ بے اختیار پکار اٹھیں۔
کبھی اے حقیقت منتظر! نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
آپ کی سب سے بڑی آرزو اور سب سے بڑی تمنا یہ ہوجائے کہ آپ اپنے رب سے قریب ہوجائیں، آپ کی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ یہ بن جائے کہ آپ اپنے رب کو خوش کرلیں، آپ اس کے پسندیدہ اور مقرب بندے بن جائیں، آپ آخرت میں جب اس کے حضور میں پہنچیں تو اس کی شفقتیں اور اس کی رحمتیں بے تاب ہوکر آپ کو سینے سے لگالیں۔
برادران اسلام! کیا ہم نے روزوں سے یہ فائدے حاصل کئے ہیں، کیا ہمارے اندر خدا کی یہ جستجو اور رضائے الہی کی یہ طلب پیدا ہوئی ہے۔
اگر ہمارے اندر یہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے تو واقعی ہمارے روزے صحیح معنوں میں روزے ہیں، ہم نے صحیح معنوں میں اس ماہ مبارک سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کی رحمتوں اور برکتوں میں سے حصہ پایا ہے، اور اب ہمیں پورا حق ہے کہ آج جتنی چاہیں خوشیاں منائیں اور جس قدر چاہیں مسرت کے ترانے اور خوشی کے گیت گائیں۔
لیکن اگر خدانخواستہ ہماری یہ کیفیت نہیں ہوئی، اگر ہمارے اندر محبت الٰہی کی یہ گرمی نہیں پیدا ہوئی، تو پھر ہم کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس ماہ مبارک سے فائدہ اٹھایا ہے، اس کی برکتوں اور سعادتوں میں سے حصہ پایا ہے، پھر تو ہمیں ڈرنا چاہیے، ہمیں لرزنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کے مصداق نہ ہوں کہ
رُبَّ صَاءِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلاَّ الْجُوعُ وَ رُبَّ قَاءِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ قِیَامِہٖ اِلّاَ السَّھْرُ۔
کتنے ہی روزہ دار ایسے ہوں گے، جن کے حصے میں سوائے بھوک پیاس کی مشقت کے اور کچھ نہیں آئے گا اور کتنے ہی راتوں کو نمازیں پڑھنے والے ایسے ہوں گے جن کے حصہ میں سوائے شب بیداری کی کلفت کے اور کچھ نہیں آئے گا۔
یہی وہ احساس اور یہی وہ کھٹکا ہے جو ایک حساس اور باشعور مومن کو چین نہیں لینے دیتا، اسے ہمہ آن فکر مند اور بے چین رکھتا ہے، عام لوگ جب عید کا چاند دیکھ کر خوشیاں مناتے ہیں، ایک دوسرے سے مصافحے کرتے ہیں، گلے ملتے ہیں، آپس میں مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں، تو اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے ہوتے ہیں، اس وقت اس کے سینے میں اضطراب کا طوفان بپا ہوتا ہے، اس وقت وہ حسرتوں کی ایک تصویر بنا ہوا ہوتا ہے۔
جب عام لوگ عید کا چاند دیکھ کر عید کے پکوانوں اور دوستوں کی دعوتوں کے نقشے بنا رہے ہوتے ہیں، عید ملن کے لمبے چوڑے پروگرام تیار کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت وہ کسی تاریک گوشے میں پڑا اپنے رب کے حضور آہ و زاریاں کر رہا ہوتا ہے۔
اس موقع پر مجھے امیر المومنین خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کا ایک ایمان افروز واقعہ یاد آرہا ہے، سوچتا ہوں وہ واقعہ آپ کو بھی سنادوں۔
پانچویں خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کے بارے میں آتا ہے کہ خلافت سنبھالنے کے بعد پہلی بار ان کے گھر عید کی صبح طلوع ہوئی تو ان کے بچوں کے لیے نہ عید کے نئے نئے کپڑے سلے تھے اور نہ نئے نئے جوتے آئے تھے، بس وہی پرانے کپڑے تھے اور پرانے جوتے، چنانچہ اس روز جب بچوں کے سامنے وہی پرانے کپڑے آئے تو وہ رونے لگے، وہ نئے کپڑوں کے لیے مچلنے لگے، ظاہر ہے وہ بچے جو اب تک ناز و نعمت میں پلتے آئے تھے، جو ہر خوشی کے موقع پر ایک سے ایک قیمتی جوڑے پہنتے آئے تھے، آج وہ پرانے کپڑوں میں عید کرنے کے لیے کیوں کر تیار ہوسکتے تھے جبکہ ان کا باپ کوئی معمولی آدمی نہ تھا، وہ خلیفۂ وقت تھا، تمام مسلمانوں کا امیر و سربراہ تھا، وقت کی عظیم ترین سلطنت کا حکمراں تھا۔
غرض ماں جب بچوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گئیں تو انہوں نے سوچا چلیں امیر المومنین کے پاس چلیں، ان کے سامنے یہ صورت حال رکھیں، ہوسکتا ہے وہ کوئی انتظام کریں۔ مگر وہ امیر المومنین کے کمرے میں پہنچیں تو ہچکیوں، سسکیوں اور ٹھنڈی ٹھنڈی آہوں نے ان کا استقبال کیا، امیر المومنین کے ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں، امیر المومنین سجدے میں پڑے آہ و زاریاں کر رہے تھے، امیر المومنین اپنے رب سے دعا و مناجات میں مصروف تھے، امیر المومنین اپنے آقا کے قدموں میں سر ڈال کر اسے گرم گرم آنسوؤں کے نذرانے پیش کر رہے تھے، امیر المومنین رو رہے تھے اور ان کی زبان پر کچھ اس طرح کے فقرے لرز رہے تھے۔
’’خدایا! یہ تیری رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ آیا، یہ مہینہ آیا اور چلا بھی گیا، اس ناچیز بندے کو اس سے کیا ملا، یہ کچھ نہیں معلوم۔
خدایا! یہ تیری رحمتوں کی فصل بہار تھی، اس موسم بہار میں بھی اگر کوئی محروم رہ گیا تو اس کا ٹھکانا کہاں ہوگا؟
میرے آقا! یہ کچھ ٹوٹی پھوٹی نمازیں ہیں اور کچھ ٹیڑھے سیدھے روزے، تیری شان کریمی سے کیا بعید ہے کہ تو انہیں بھی قبول کرلے؟
میرے آقا! یہ گناہ گار، تیری رحمتوں کا بھکاری ہے تو اسے محروم و نامراد نہ لوٹا۔
یہ رقت انگیز منظر دیکھ کر اس نیک خاتون سے وہاں ٹھہرا نہ گیا اور وہ الٹے پاؤں واپس آگئیں۔
آہ! یہ تڑپ اور یہ بے قراری، یہ شکستگی اور یہ تضرع و زاری ہی روزے کا حاصل ہے۔ یہی اس کائنات کی سب سے قیمتی متاع ہے، یہ متاع بے بہا جسے مل گئی اسے دولت کونین حاصل ہوگئی، یہی وہ پونجی ہے جو آپ کے رب کو مطلوب ہے، یہی وہ سرمایہ ہے جو آپ کے آقا کو پسند ہے، یہی وہ پسندیدہ تحفہ ہے جو ایک ناچیز بندہ اپنے شہنشاہ کی بارگاہ جلال میں پیش کرسکتا ہے کہ وہ اسے شوق کے ہاتھوں سے لیتا، قدر کی نگاہوں سے دیکھتا اور عزت کے ایوانوں میں جگہ دیتا ہے۔
میرے عزیزو اور بزرگو! کیا آج یہ پسندیدہ تحفہ ہم اپنے آقا کی بارگاہ میں پیش کرسکتے ہیں؟ آہ! یہ ایک ایسا سوال ہے جو آنکھوں کو آنسوؤں اور دل کو سو ز و گداز سے بھردیتاہے۔
اے ہمارے آقا! ہم تیرے خطا کار اور ناچیز بندے ہیں، آج تیری بارگاہ میں آئے ہیں کہ تونے ہم کو جو اتنی عظیم نعمت عطا کی تھی۔ اس نعمت کا شکر ادا کریں اور اس سلسلے میں ہم سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اس پر معافی کے خواست گار ہوں، بلاشبہہ ہماری یہ نمازیں کیا حقیقت رکھتی ہیں اور ہمارے ان روزوں کی حیثیت ہی کیا، لیکن تیری شان کریمی سے کیا بعید ہے کہ تو ان ٹوٹی پھوٹی نمازوں اور ان ٹیڑھے سیدھے روزوں کو بھی قبول فرما لے۔
اے ہمارے آقا! تو ہی نیکیوں کی توفیق دینے والا ہے اور توہی نیکیوں کو شرف قبول عطا کرنے والا ہے، ہمیں توفیق دے کہ ہم تیری پسندیدگی کی راہیں اختیار کرسکیں اور آخرت میں تیری چاہتوں کے تخت و تاج حاصل کرسکیں، ہم انتہائی کوتاہ بندے ہیں، اگر تونے ہمیں اپنی توفیق سے محروم کردیا تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہوگا؟
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَصَلِّ اَللّٰھُمَّ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَ علٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔