پروفیسر غازی شاہ نواز،
شعبہ علم نفسیات،
جامعہ ملیہ اسلامیہ
علم نفسیات محض ایک مطالعہ کا موضوع نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے طرز حیات کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔درحقیقت، اگر آپ علم نفسیات کی عینک سے دیکھیں تو آپ اسے اپنے آس پاس ہرجگہ موجود پائیں گے۔ انسانی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانا علم نفسیات کا بنیادی ہدف ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام کے ذہنوں میں اس موضوع سے متعلق متعدد غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جب آپ کے کسی رشتہ دار یا دوست کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس علم نفسیات کی ڈگری ہے تو وہ آپ سے ڈھیروں قسم کے سوالات پوچھ سکتے ہیں ۔شاید وہ آپ کو ان کے ذہن کا مطالعہ کرنے سے بھی منع کردیں۔ میں نے خود ذاتی طور پر اس طرح کی صورتحال کا کئی بار سامنا کیا ہے اور اب اس میدان سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں کافی ماہر ہوچکا ہوں۔ جب تک کوئی فرد ایک مدت تک کسی کی شخصیت کا معائنہ نہ کرے، وہ کسی کے برتاؤ اور رویے کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔
انسانی رویہ یہ اتنا وسیع اور پیچیدہ موضوع ہے کہ اس کی ابتدا اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالنا ایک بحر ناپیدا کنار میں شناوری کے مصداق ہے۔علم نفسیات ایک ایسا وسیع اور شاندار موضوع ہے جو انسانی رویوں اور انسان کے شعور و آگہی (انسان کی داخلی دنیا یا داخلی تعاملات) سے بحث کرتا ہے اور یہ انسانی ذہن کے معموں کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ علم نفسیات کے گوناگوں اصول ہیں جنہیں ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً جب پڑھائی پر توجہ نہ دینے پر ہم کسی بچے کو ڈانٹتے ہیں یا جب ہم کسی مجمع کے سامنے اسٹیج پر کوئی کارکردگی دکھانے سے گھبراتے ہیں، جسے علم نفسیات میں ہم anxiety کہتے ہیں، اور اسٹیج پر کسی بھی قسم کی ہزیمت سے بچنے کے لئے ہم ہر چیز کی باریک بینی سے مشق کرتے ہیں یا جب ہم کسی اجنبی سے گفتگو کرتے ہیں اور اسے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، تو ہم ان مثالوں میں بالترتیب سزا(Punishment)، تنظیم ذات (Self Management) اور تاثر سازی (Impression Formation) جیسے اصولوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرف تنظیم ذات اور تاثر سازی علم نفسیات کے اصولوں کا اچھا استعمال ہے، دوسری طرف سزا، علم نفسیات کا برا اطلاق ہے۔ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ سزا کا اثر وقتی ہوتا ہے، کسی غلطی کی تلافی کردینا یا مدد فراہم کرنا، رویوں میں مطلوبہ تبدیلی لانے کا زیادہ بہتر طریقہ ہے۔
ذہانت(Intelligence)، قوت مدرکہ(Perception)، تحریک و ترغیب(Motivation)، جذبہ(Emotion)، سیکھنے کا عمل(Learning) وغیرہ علم نفسیات کے کچھ دلچسپ تصورات ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ذہانت کا تعلق مختلف موضوعات مثلا انگریزی، سائنس اور ریاضی وغیرہ کے ہمارے علم سے ہے۔بلاشبہ یہ سب بھی ذہانتیں ہیں مگر بہت ہی محدود قسم کی، انہیں لسانی، منطقی اور ریاضیاتی ذہانت کہا جاتا ہے۔ذہانت کی اور بھی کئی اقسام ہیں ۔فنکار، معمار، گلوکار، نیچرلسٹ، تزئین کار اور رقاص وغیرہ دوسری قسم کی ذہانت رکھتے ہیں اور یہ سب یکساں طور پر اہم ہیں۔ جب رقص کرنے والے اور جمناسٹس (gymnasts) غیر معمولی حرکات اور کرتب کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ ایک خاص قسم کی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ ذہانت اس ذہانت سے کسی درجے میں کمتر نہیں ہے جو امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
جب ہم اپنے گرد و پیش کی دنیا کا ادراک کرتے ہیں تو ہم قوت مدرکہ کے اصولوں کا استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم کسی سیاہ شئے کو سیاہ دیوار پر نہیں دیکھ سکتے، یا ہم عام طور پر بلیک بورڈ پر سفید چاک سے ہی کیوں لکھتے ہیں؟ قوت مدرکہ کا ایک اصول ساخت(منظر) اور سطح (پس منظر) ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ منظر پس منظر سے مختلف ہونا چاہئے ورنہ ہم اس کا ادراک نہیں کرسکیں گے۔ ہم پڑھائی کیوں کرتے ہیں یا ہم کام کیوں کرتے ہیں؟ جب ہم ’’کیوں‘‘ کے رویے کا جواب دیتے ہیں تب دراصل ہم ترغیب کے اصول کا استعمال کررہے ہوتے ہیں ۔کچھ لوگوں کے پڑھائی یا کام کرنے کی وجوہات داخلی ہوتی ہیں ۔مثلاًکسی کو کام کرنے میں مزہ آتا ہے یا کام کرنے سے زندگی کا معنی و مقصد حاصل ہوتا ہے۔ جب کہ بعض دوسرے افراد کی وجوہات خارجی ہوتی ہیں۔ مثلاً دولت یا اقتدار کے حصول کے لئے وہ کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کون صحیح ہیں اور کون غلط؟ اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ لیکن ان لوگوں کے مقابلے میں جو خارجی تحریک کی بنا پر کام کرتے ہیں، داخلی تحریک کے سبب کام کرنے والے لوگوں کی زندگیوں کے خوش حال ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ جب ہم خوش، اداس اور پریشان ہوتے ہیں تو یہ جذبات زندگی کے خاکے میں رنگ بھرتے ہیں۔
جذبات کا تعلق محض ہمارے ذریعے ان کے اظہار سے نہیں ہے، اس کا تعلق محض ہنسنے اور رونے وغیرہ سے بھی نہیں ہے کیوں کہ جذبات کا تعلق ظاہری مظاہر سے نہیں ہے۔ جذبات کے تین پہلو ہیں؛ اول، داخلی جسمانی تبدیلیاں جیسے حرکت قلب میں کمی یا بیشی، ضغط دم وغیرہ؛ دوم، ذہنی کیفیات یعنی ذاتی تجربات جنہیں ہم جذبات کا نام دیتے ہیں،سوم، اظہاری رویے یعنی اُن داخلی ردہائے عمل کا خارجی اظہار۔ سیکھنے کا عمل بھی ایک ایسا محاذ ہے جس نے طویل عرصے تک ماہرین نفسیات کو حیرت و استعجاب میں مبتلا رکھا۔ اب سیکھنے کے ایسے اصول دریافت ہوچکے ہیں جو سیکھنے کے عمل کو ممکن یا اس عمل کو دیرپا بناتے ہیں۔ جب ہم مشکل تصورات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہدایت دی گئی ہے کہ انہیں چھوٹے چھوٹے ضمنی موضوعات میں منقسم کرلیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ محض مشاہدہ سے ہم بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں یا یہ کہ جب ہم چیزوں کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں تو سیکھنے کا عمل بالکل اچانک انجام پا جاتا ہے، اور بہت دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ سیکھنے کے لئے ہمیں دانستہ شعوری کاوشیں کرنی پڑتی ہیں۔ جب ہم ماضی کی کسی چیز کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بعض چیزیں فوراً یاد آجاتی ہیں جبکہ بعض دوسری چیزوں کو یاد کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم ذہن کی مشق کے لحاظ سے کتنے بہتر ہیں، اگر ہم نے مشق کے ذریعے ذہن کو صیقل کیا ہوگا تو گزری ہوئی چیزوں کو یاد کرنا سہل تر ہوگا۔
آج کل ماہرین نفسیات خوشی کو ایک اصول کے طور پر دیکھنے اور یہ پتہ لگانے میں بہت زیادہ دلچسپی اورشوق کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو لوگوں کو خوش بناتی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ کس چیز نے فلاں دن آپ کو خوش کیا تھا؟ ہم خوش رہ سکتے ہیں کیوں کہ ہمارے تجربات میں منفی جذبات(تناؤ، اداسی، خوف و گھبراہٹ اور بے چینی وغیرہ) کے مقابلے میں مثبت جذبات (جیسے لطف، جوش، فخر، اثر پزیری، طاقت و قوت وغیرہ) زیادہ آتے ہیں۔ ہم اس وقت بھی خوش ہوتے ہیں جب ہم اپنی زندگی اپنے مقصد کے مطابق گزارتے ہیں یا طویل مدتی اہداف رکھتے ہیں یا بین الانسانی روابط رکھتے ہیں۔ ہم اس وقت بھی خوش ہوتے ہیں جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم بھی سماج کا حصہ ہیں۔
علم نفسیات ایک ایسا وسیع موضوع ہے جو اپنی مختلف شاخیں رکھتا ہے۔ علم نفسیات کے تحت آنے والے چند ضمنی موضوعات حسب ذیل ہیں؛
1۔ مطبی اور مشاورتی علم نفسیات (Clinical And Counselling Psychology)
2۔ ترقیاتی علم نفسیات(Developmental Psychology)
3۔ تنظیمی / ادارہ جاتی علم نفسیات(Organizational Psychology)
4۔ سماجی علم نفسیات( Social Psychology)
5۔ صحت اور مثبت علم نفسیات(Health And Positive Psychology)
عام افراد جب علم نفسیات کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ زیادہ تر ذہنی مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں، حالانکہ کہ یہ علم نفسیات کا صرف ایک شعبہ ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ علم نفسیات کے دوسرے شعبوں سے موازنہ میں زیادہ تر ماہرین نفسیات اسی شعبے میں اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ جذباتی یا نفسیاتی تجربات مثلاً ناقابل توجیہ خوف، دباؤ، حقیقت کے احساس کو کھو دینا، تناؤ اور رشتوں میں مسائل وغیرہ کی علامات کا مشاہدہ کررہے ہیں تو آپ کو مطبی اور مشاورتی ماہر نفسیات کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا آپ کا بچہ طبعی طور پر نشوونما پارہا ہے یا نہیں؟ یا جب آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بچہ کند ذہن ہے یا یہ کہ بچہ دوسروں سے تعلقات بنانے میں مسائل کا شکار ہے تو آپ کو ترقیاتی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہئے۔ صحت سے متعلق علم نفسیات ایک ظہور پذیر شعبہ ہے جو لوگوں کے جسمانی مسائل کے حل پر زور دیتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ابتدائی دور کے برخلاف، عصر حاضر میں زیادہ تر افراد ان مسائل کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں جنہیں طرز زندگی کی وجہ سے پیدا شدہ امراض (Life Style Disease) کہا جاتا ہے؟ مثلاً امراض قلب، شدید ذہنی تناؤ، سرطان، زیابیطس، موٹاپا وغیرہ۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایسی زندگی گزارتے ہیں جس میں چلت پھرت کم اور بیٹھے رہنے کا کام زیادہ ہوتا ہے۔ہم بازاری کھانا کھاتے ہیں، ورزش کم کرتے ہیں، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی وغیرہ کرتے ہیں، یہ سب ہمارے جدید طرز زندگی کی وجہ سے ہے۔پرانے زمانے کے لوگ مختلف متعدی بیماریوں جیسے ہیضہ، چکن گنیا، بلیک فیور وغیرہ کی وجہ سے ہلاک ہوتے تھے۔ صحت کے ماہرین نفسیات ایک صحتمند زندگی گزارنے میں ہماری مدد کرتے ہیں تاکہ ہم طرز زندگی کی وجہ سے پیدا شدہ امراض کا شکار نا ہوجائیں۔
اسی طرح سے سماجی ماہرین نفسیات ہمیں سماجی رویوں مثلاً مختلف قسم کے تعصبات، باہمی مطابقت، مزاحمت،جنگ،فرقہ وارانہ فساد وغیرہ کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم ایک سے زائد شناختیں رکھتے ہیں جیسے بیٹا/بیٹی، دوست، طالب علم، ماں/ باپ، ملی قائد وغیرہ؟ سماجی دنیا کا ہمارا تصور کیسے تشکیل پاتا ہے؟ کیوں ہم اجنبیوں سے موازنہ میں اپنے اہل خانہ میں خود کو زیادہ خوش اور صحتمند محسوس کرتے ہیں؟ یہ سب علم نفسیات کے میدان ہیں۔ ہم سب صنعت میں یا مختلف اداروں مثلاً اسپتال، اسکول، کارخانے، شاپنگ مال میں کام کرتے ہیں اور کام کے دوران ہم اچھا یا برا دونوں محسوس کرسکتے ہیں۔ علم نفسیات کا ایک شعبہ ہے جو ان مسائل سے بحث کرتا ہے،اسے ادارہ جاتی یا تنظیمی علم نفسیات کہتے ہیں۔ چوں کہ ہماری روزمرہ کی زندگی کا بیشتر حصہ ان اداروں میں کام کرتے ہوئے گزرتا ہے، اس لئے یہ شعبہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
علم نفسیات کی رسمی طور پر ابتدا چوں کہ 1879 میں ہوئی لہذا دوسرے علوم کی بہ نسبت یہ ایک نیا میدان علم ہے۔ حالانکہ عہد قدیم اور عہد وسطیٰ کی کتابوں جیسے اُپنشد، گیتا، قرآن، حدیث اور بائبل وغیرہ میں انسانی رویوں، تحریک و ترغیب اور جذبات کے حوالے سے کافی علمی ذخیرہ موجود ہے۔ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ماہرین نفسیات اب ان کتابوں سے بھی استفادہ کررہے ہیں ۔علم نفسیات کی جڑیں علم حیاتیات اور فلسفہ میں بھی موجود ہیں ۔علم نفسیات میں چوں کہ انسانی رویوں کو سمجھنے کے لئے متعدد طریقہ کار اور سائنٹفک فریم ورک کا استعمال ہوتا ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ علم نفسیات محض شعور عامہ کو سمجھنے اور انسانی رویوں کی وضاحت کرنے کا نام ہے۔ ہم کام کیوں کرتے ہیں، ہم کالج کیوں جاتے ہیں، کیوں اور کب ہم خوشی محسوس کرتے ہیں، ہم کسی سے محبت یا کسی سے نفرت کیوں کرتے ہیں، ہم امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں، ہم والدین کی فرمانبرداری یا نافرمانی کیوں کرتے ہیں، ہم کسی چیز کو یاد کیسے کرتے ہیں، افراد کیوں ایک گروہ یا طبقہ کی شکل میں اکٹھا رہتے ہیں، اگر ہم (سماج میں) تنہا رہ جائیں تو کیا ہوگا؟ یہ سب انتہائی معقول سوالات ہیں اور ماہر نفسیات بہت سارے طریقے اپنا کران سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ کچھ طریقوں کی جڑیں جیسے تجربات، علوم طبیعیات(Physical Sciences) میں ہوتی ہیں اور جب یہ تجربات کئے جاتے ہیں تب علوم طبیعیات کے طریقہ کار کے تمام اصولوں مثلاً چالاکی (Manipulation)، تسلط (Control) اور رد جواب (Replication) وغیرہ کا مکمل لحاظ کیا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات تحقیقات کے لئے سروے بھی کرتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا ایک دلچسپ گروہ خود کو بین الثقافتی ماہر نفسیات (Cross Cultural Psychologist) کہتا ہے جن کی کوشش انسانی رویوں میں بین الثقافتی مماثلتیں قائم کرنا ہوتی ہے۔ ان کی دلچسپی اس قسم کے سوالات میں زیادہ ہوتی ہے کہ کیوں دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے الگ الگ خیالات کے حامل افراد ایک ہی تحریک و ترغیب محسوس کرتے ہیں؟ جے ہاف سیڈے نے ایک بہت مشہور تحقیق کی تھی جس میں انہوں نے اقدار عمل (Work Values) کے حوالے سے پچاس سے زائد ممالک کے افراد کا موازنہ کیا تھا۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ تمام اقدار عمل کی پانچ وسیع تر موضوعات میں درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ ماہرین نفسیات انسانی تجربات کے گہرے معانی دریافت کرنے کے لئے کیفیاتی طریقہ (Qualitative Methods) مثلاً انٹرویو، موضوعاتی مطالعہ اور آپ بیتی کا تجزیہ (Narratives)بھی استعمال کرتے ہیں ۔کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ان مریضوں کا مزاج کیسا ہوتا ہوگا جو جوڑوں میں ورم (Athritis) یا ہڈیوں کے سرطان (Bone Cancer) میں مبتلا ہیں؟ کچھ ماہر نفسیات اس پر کام کر رہے ہیں ۔کچھ ماہر نفسیات زیادہ پختہ نتائج تک پہنچنے کے لئے طول بلدی طریقہ (Longitudinal Method) کا استعمال کرتے ہیں۔ صحت سے متعلق علم نفسیات کی چند تحقیقات سے گروپ میں عارضہ قلب (Heart Attack) کے زیادہ مواقع کی بات سامنے آئی۔ یہ تحقیق پچاس سالوں تک باقی رہی۔ بعض ماہرین نے طمانیت عمل (Job Satisfaction) یعنی کام کرنے پر حاصل ہونے والی خوشی اور اس کے عوامل کی بھی تحقیق کی۔ ان تمام (تحقیقات) میں ماہرین نفسیات انسانی رویوں کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے کے لئے مختلف طریق ہائے کار کا استعمال کرتے ہیں۔
علم نفسیات پر گفتگو کرنے کے بعد اب میں علم نفسیات کی تعریف کرنا اور اس کے وسیع تر اغراض و مقاصد کو بیان کرنا چاہوں گا۔
Psychology is the science of behaviour and cognitive process.
’’علم نفسیات رویوں اور شعوری عمل کے علم کا نام ہے‘‘۔ ‘رویہ سے ہماری مراد انسانوں کے قابل مشاہدہ، عمل اور رد عمل ہیں۔ اسی طرح ‘شعوری عمل سے ماہرین نفسیات ہماری ذہنی صلاحیت کا ہر پہلو مثلاً ہمارے خیالات، یادداشتیں، ہم کیسے سوچتے ہیں، ہم کیسے فیصلے کرتے ہیں وغیرہ مراد لیتے ہیں۔ الغرض ماہرین نفسیات قابل مشاہدہ رویوں اور ذہنی صلاحیت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ علم نفسیات کا بڑا مقصد انسانی رویوں کی تحلیل و تجزیہ کرنا، بیان کرنا، تشریح کرنا اور اسے بہتر بنانا ہے۔گوکہ ماہرین نفسیات کے موضوعات مختلف ہوتے ہیں لیکن سب کا ایک مشترک مقصد بہتر زندگی گزارنے میں لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔کچھ ماہرین اس کام کو اس طور پر انجام دیتے ہیں کہ وہ ہمیں، لوگ کیسے سوچتے، محسوس کرتے اور برتاؤ کرتے ہیں، اس کی بنیادی سمجھ فراہم کرتے ہیں۔ دیگر ماہرین حقیقی زندگی کے مسائل، جو ہماری روزمرہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، حل کرنے کے لئےاطلاقی و تطبیقی طور پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح علم نفسیات انسانی زندگی کے ہر پہلو پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔