امام غزالیؒ نے علم کو دو خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک علم دنیا، دوسرے علم آخرت۔ فقہ کو انھوںنے دنیاوی علوم میں شمار کیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک فقہ سیاست کا معاون علم ہے۔
قرآن مجید میں’’تفقہ فی الدین‘‘کا لفظ آیا ہے(سورہ توبہ:۱۲۲) جو دین میں فہم وبصیرت حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔ اور اس کا مقصداپنی قوم کو انذار یا آخرت کا خوف دلانا ہے۔ اس سے دین، علم دین اور اس کی تعلیم کے مفہوم کا تعین ہوتا ہے۔
چنانچہ علم آخرت کا مطلب اللہ کے حضور پیشی کا خوف رکھنے اور اپنے اعمال کے لیے خود کو جواب دہ سمجھنے کے ہوں گے۔ قرآن مجید نے اسے تقوی سے تعبیر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کے حاملین اپنے ہر عمل کے سلسلہ میں ہمیشہ چوکنا رہتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بڑے اور اچھے برے سارے کام ایک دن ان کے سامنے آئیں گے۔ اسی وجہ سے وہ اہل علم اور اہلِ بصیرت کہلاتے ہیں۔
یہ علم دوسرے تمام علوم کے مقابلہ میں زیادہ ضروری اور زیادہ نفع بخش ہے۔ بلکہ اصل علم یہی ہے۔ اسی وجہ سے اس سے ناواقف ہونے کو جہل کہا گیا ہے کیونکہ ساری خرابیاں اس سے بے بہرہ ہونے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیسا کہ سورہ قصص(۷۶۔۷۸) میں قارون کی سرگزشت میں مذکور ہے۔ آگے آیت(۷۹۔۸۰) میں دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے تقابل سے واضح کیا ہے کہ آخرت کو ترجیح دینا ہی اصل علم ہے۔
فرمایا ہے:فَخَرَجَ عَلَی قَوْمِہِ فِیْ زِیْنَتِہِ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُونَ الْحَیَاۃَ الدُّنیَا یَا لَیْْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِیَ قَارُونُ إِنَّہُ لَذُو حَظٍّ عَظِیْمٍo وَقَالَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَیْْلَکُمْ ثَوَابُ اللَّہِ خَیْْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً وَلَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الصَّابِرُونَo
نیز بتایا ہے کہ جو لوگ دنیوی فوائد حاصل کرنے ہی کو اپنا مقصد زندگی بنالیتے ہیں وہ اللہ کی یاد سے غافل، اصل علم سے محروم اور عقل سے خالی ہوتے ہیں،’’اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَلَہْوٌ وَزِیْنَۃٌ وَتَفَاخُرٌ بَیْْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِیْ الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْْثٍ أَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہُ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرَاہُ مُصْفَرّاً ثُمَّ یَکُونُ حُطَاماً وَفِیْ الْآخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (سورہ حدید: ۲۰)اسی بنا پر فرمایا ہے ’’ فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّی عَن ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ إِلَّا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَاo ذَلِکَ مَبْلَغُہُم مِّنَ الْعِلْمِ (سورہ نجم: ۲۹- ۳۰)۔ سورہ قصص (۶۰) میں ہے ’’وَمَا أُوتِیْتُم مِّن شَیْْء ٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُہَا وَمَا عِندَ اللَّہِ خَیْْرٌ وَأَبْقَی أَفَلَا تَعْقِلُونَo
چونکہ اہل دنیا اپنی عقل کو صرف دنیا کے کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں اس لیے ان کی عقل کا دائرہ تنگ اور محدود ہوجاتا ہے اور اسی لحاظ سے ان کا علم بھی محدود ہوتا ہے۔ وہ آگے کی طرف نہیں دیکھ پاتے۔ نہ اپنے خالق اور رب کو پہچانتے ہیں اور نہ اپنے انجام اور عاقبت کی ان کو فکر ہوتی ہے۔ اپنے وقتی فائدہ کے لیے وہ جیتے اور مرتے ہیں۔ یہ چیز ان کے اندر تنگ نظری اور نفس پرستی پیدا کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے نفع نقصان سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے غلط صحیح وہ کچھ نہیں دیکھتے اور ہر چیز سے اندھے بن جاتے ہیں۔ سورہ نمل (۴) میں ہے: إِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ زَیَّنَّا لَہُمْ أَعْمَالَہُمْ فَہُمْ یَعْمَہُونَo
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آخرت کی کامیابی کے لیے زینہ بنایا ہے اور جو دنیاوی نعمتیں ہمیں ملی ہیں ان میں دوسروں کا حق رکھا ہے اور ان کی حصہ داری مقرر کی ہے جو خود کے حصہ سے بہت کم ہے۔ اور مقصد اس کا دل سے مال کی محبت کو ختم کرنا اور نفس کو پاک صاف کرنا بتایا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ہم مالی قربانی کے لیے تیار رہیں جس طرح جان کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں خوبیاں ہمارے اندر رکھنے کے بعد ہی اللہ تعالی نے ہم سے اپنی اطاعت کا عہد لیا تھا جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت(۱۱۱) سے واضح ہوتا ہے ’’إِنَّ اللّہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْْہِ حَقّاً فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ مِنَ اللّہِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَیْْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo
یہی وجہ ہے کہ جن کے دل میں ایمان اور تقوی راسخ ہوتا ہے وہ دنیا ہی میں آخرت کو دیکھنے لگتے ہیں اور ان کی دنیا کی زندگی آخرت کی زندگی بن جاتی ہے کیونکہ ایمان وہ چیز ہے جو نامشہور کو مشہور بنادیتی ہے اور غائب کو حاضر کردیتی ہے، اور تقوی ایمان کی استقامت کے لیے ہے۔ گویا ایمان، تقوی اور علم آخرت ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور باہم دگر مربوط ہیں۔ تمام اچھی صفات ان ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔
آخرت سے غفلت دنیا کی محبت یا حب جاہ ومال کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں انہماک جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی آخرت سے غفلت ہوگی۔ پیغمبروں اور آسمانی صحیفوں کے بھیجنے کی اصل غرض وغایت یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں میں آخرت کی فکر پیدا ہو۔ ]پیغمبر دراصل بشیر اور نذیر بناکر بھیجے گئے ہیں جو عبارت ہے دنیا وآخرت میں جزاوسزا کی خبر دینے سے۔ قرآن مجید میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے۔ آغاز وحی میں فرمایا ہے ’’ یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنذِرْo ] (مولانا حمید الدین فراہیؒ۔ القائد الی عیون العقائد)
رہے شریعت کے احکام تو وہ اسی کی تفصیل ہیں جیساکہ نماز کے متعلق فرمایا ہے:’’ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَo الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاۃِ فَاعِلُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَo إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَo فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاء ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ o وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونo (سورہ مومنون:۱-۹) اسی طرح زکوٰۃ و صدقات کے بارے میں فرمایا ہے ’’وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَo (سورہ مومنون: ۶۰)
قرآن مجید نے آخرت کی فلاح و کامرانی کو ایمان اور تقوی کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ اسی لیے دنیا کے تمام کاموں میں آخرت کو پیش نظر رکھنے کی نصیحت کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ اس سے وہ دنیا میں بھی خسارہ نہیں اٹھائیں گے بلکہ فائدہ میں رہیں گے۔ فرمایا ہے: وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرَی آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرْضِ (سورہ اعراف:۹۶)
کوئی بھی شخص اپنی دانست میں نقصان اٹھانے کے لیے کوئی کام نہیں کرتا اس لیے وہ کبھی نہ چاہے گا کہ دنیا میں تو اسے تمام طرح کے فوائد حاصل ہوں اور آخرت میں اس کے ہاتھ کچھ نہ لگے۔ پھر ہر شخص ذاتی تجربہ اور بار بار کے مشاہدہ سے جانتا ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں اسے اور دوسروں کو ملی ہیں وہ ایک دن یا تو ختم ہوجائیں گی یا چھن جائیں گی، اس لیے عقلمندی اسی میں ہے۔ ان کا استعمال دنیوی فائدہ کے ساتھ ساتھ آخرت کے فائدہ کے لیے بھی ہوتا کہ یہاں کا فائدہ وہاں کے خسارہ میں نہ بدل جائے۔
یہی سبب ہے کہ شریعت کے احکام کے بیچ بیچ میں بار بار تقوی کا ذکر آیا ہے۔ کیونکہ دین وشریعت کا تمام تر مدار اسی پر ہے اور ہماری زندگی میں اس کی حیثیت روح کی ہے۔ اگر یہ وصف ہمارے اندر نہیں ہے تو ہمارا وجود بے معنی اور ہمارے سارے اعمال اکارت ہیں۔
سورہ مومنوں کے شروع میں نماز کے ساتھ خشوع کی جو بات کہی گئی ہے وہی اس کی اصل ہے کیونکہ نماز اگر اللہ کی طرف پورے جھکاؤ اور اس کے خوف سے خالی ہے تو وہ اللہ سے قریب کرنے والی نہیں ہوسکتی جو اس کے مفہوم میں شامل اور اس سے مقصود ہے۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے کسی اور جذبہ اور مقصد سے انفاق کرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں نا مقبول ہے جیسا کہ’’ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (سورہ مائدہ: ۲۷) سے واضح ہے۔
اس سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ جو مال اللہ تعالیٰ کو قبول نہ ہو اسے ہدیہ یا خیرات میں لینا دینا جائز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ناجائز مال کی نہ تو زکوٰۃ ہوتی ہے اور نہ اسے استعمال کرنا جائز ہوسکتا ہے۔ فرمایا ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ (سورہ بقرہ :۲۶۷)
اس سے ایک تو کسب حلال کا فرض ہونا ثابت ہوتا ہے، دوسرے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صرف پاک مال کا استعمال جائز ہے اور اسی میں خیروبرکت ہے۔
نیزیہ کہ پاکباز لوگوں کے عطیہ اور صدقہ کو اسی جذبہ سے صرف کرنا چاہیے جس جذبہ سے وہ دیتے ہیں (سورہ مومنون:۶۰) معاملہ سخت ہے اور اس گھاٹی کو پار کرنا مشکل۔ اس میں ہم سب کے دین وایمان اور عقل واخلاق کی آزمائش ہے۔ صرف آخرت کا علم رکھنے والے یا اپنے ہر معاملہ میں اللہ سے ڈرنے والے اس آزمائش میں پورے اترسکتے ہیں۔
از: عبید اللہ فہد فراہی