علم اور تعلیم: چند باتیں

ایڈمن

کچھ علم اور تعلیم پر: علم کیا ہے؟ جب بھی علم اور تعلیمی نظام پر گفتگو ہوتی ہے تو ابتدا یہیں سے ہوتی ہے، کیونکہ جب تک یہ بنیادی سوال حل نہیں ہوجاتا، اس پر مبنی عمارت پر بحث نہیں…

کچھ علم اور تعلیم پر:
علم کیا ہے؟ جب بھی علم اور تعلیمی نظام پر گفتگو ہوتی ہے تو ابتدا یہیں سے ہوتی ہے، کیونکہ جب تک یہ بنیادی سوال حل نہیں ہوجاتا، اس پر مبنی عمارت پر بحث نہیں کرسکتے ۔کہا جاتا ہے کہ تعلیم انسان کو انسان بناتی ہے لیکن یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ دنیا کا جائزہ لیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ خواندگی اس سے پہلے اتنی عام نہیں تھی۔ پھر بھی ’پڑھی لکھی‘ دنیا کی حالت سے تو سبھی واقف ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا قول کے مطابق علم کے کیا معنی اور مصرف ہیں؟
سورۂ التین میں اللہ کا فرمان ہے کہ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔‘‘ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان اپنا حقیقی مقام اسی وقت حاصل کرسکتا ہے، یعنی انسان اسی وقت صحیح انسان بن سکتا ہے جب وہ اللہ پر ایمان لائے اور عملِ صالح کرے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ آیا یہ ایمان اور عملِ صالح کیا ہے۔
انسان کو زندگی گزارنے اور آخرت کا توشہ کرنے کے لیے ایک طرز فکر(outlook of life) کی ضرورت ہے، جسے اسلام ایمان کہتا ہے اور انسانی اعمال کے لیے اس کو شرط لازم قرار دیتا ہے۔ اس ایمان کی بنیاد علم پر رکھی گئی ہے، اور اس کے ذریعہ انسانی عمل (Human activity) کی بھی۔ چونکہ اسلام میں ایمان علم کی بنیاد پر ہے اور عمل صالح ایمان سے مشروط، اس لیے اسلام میں علم کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس وجہ سے اسلام میں علم کاایک جامع (comprehensive) تصور ہے۔ اس میں روحانی پہلو کو مادی پہلو سے الگ کیا جاتا ہے نہ کسی ایک کو مسترد۔ اسی طرح انسانی معاملات کو بھی اس قسم کی تفریق سے بالاتر رکھاگیا ہے۔
دراصلعلم کے دو حصے ہیں:
الہی ہدایات(Divine knowledge)
کسبی علم(Acquired knowledge)
پہلا علم منجملہ زندگی گزارنے کے لیے بنیادی اور رہنما اصول فراہم کرتا ہے جس سے انسان اور انسانی زندگی کے لیے طرز فکر (outlook of life) ساخت پاتی ہے اور جس سے انسان صحیح معنوں میں انسان بن پاتا ہے ۔ دوسرا علم انسانی زندگی کو ترتیب بخشتا ہے، اسے منظم کرتا ہے اور آسان بناتا ہے۔ یہ علم کسبی طور پر انسان مشاہدے، تدبر، تفکر اور تخلیق کاری کے ذریعہ تجربات، ضروریات اور مشکلات سے سیکھتا ہے ۔
ایک معاشرے کا سب سے اہم جزو عدل وانصاف یا عدل اجتماعی ہے۔ یہ اتنا اہم ہے کہ معاشرہ کا وجود اس سے وابستہ ہے۔ اللہ کا فرمان ہے ’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘ ۔ (الحدید: ۲۵) عدل اجتماعی کے لیے صحیح بنیاد فراہم کرنا انسان کے بس کے باہر ہے، کیونکہ عدل اجتماعی مساوی حقوق پر مبنی نہیں ہے بلکہ مختلف عناصر کے، ان کی اہمیت اور افادیت کے مطابق، تناسبی حقوق پر ہے۔ اب یہ فیصلہ کہ کس کی کیا اور کتنی اہمیت ہے، اور کس کا معاشرے میں کیا حقیقی مقام ہے، صرف اور صرف اللہ ہی کرسکتا ہے۔ اسی لیے یہ رہنما اصول الہی ہدایات کی شکل میں انسانوں کو دیئے گئے ہیں۔ رہا معاملہ زندگی گزارنے کے علم کا، تو وہ انسانوں کو تلاش کرنے کے لیے دے دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کسبی علم کی بنیاد بھی عدل اجتماعی پر ہونی چاہئے۔ اس کسبی علم کو اگر الٰہی ہدایت سے منسلک کردیں تو نتیجہ کے طور پر حقیقی فلاح و بہبود اور عدلِ اجتماعی کا قیام ہوگا، اور اگر اس کسبی علم کو الٰہی ہدایت سے منقطع کردیں تو نتیجہ کیا ہوگا، اس کی عملی تصویر آج کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔
ایک مسلمان کی زندگی کا طرز فکر خدا پر ایمان اور اس کے احکامات کی پابندی پر ہوگا۔ چنانچہ کسبی علم کے ضمن میں اس کی کوششیں بھی الہی ہدایات کی پابند ہوں گی اور نتیجہ میں ظاہر ہونے والا علم رفاہِ عام اور عدل اجتماعی پر مبنی ہوگا، جس سے حقیقی ترقی، اور فلاح وبہبود سارے معاشرے کے حصے میں آئے گی۔ بالفاظِ دیگر الٰہی ہدایات ہی انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناسکتی ہیں۔ چنانچہ اقبالؒ ؔ نے کہا ہے ؂
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقائدکی بنا پر تعمیر
یہاں لفظِ عقائد طرز فکر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
ایک عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ زیادہ توجہ کا مرکز الٰہی ہدایت کو بنایا جاتا ہے اور اس کے برخلاف کسبی علم کی اہمیت کم کردی جاتی ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو دونوں کا متوازن امتزاج ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الٰہی ہدایت سے انقطاع کا نتیجہ لازماً ہلاکت ہے اور مروجہ طرز فکر )مادہ پرستی( غلط ہے، لیکن اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ یہ دنیا مادی وجود رکھتی ہے اور ٹھوس مادی اور طبعی قوانین کی پابند کردی گئی ہے۔ دراصل علم کے معاملے میں تواز ن نہایت اہم ہے۔ اگر الہی ہدایات کو نظرانداز کریں گے تو ہلاکت لازمی ہے اور اسی طرح اگر کسبی علم سے لاپرواہی برتی جائے تو بھی بربادی ہے۔ اسی طرح اگر دونوں میں سے کسی ایک کو بے جا اہمیت اور توجہ دی جائے تو بھی خطرہ ہے۔چنانچہ یہ سارا معاملہ لطیف توازن پر قائم ہے اور اس کا ادراک نہایت ضروری ہے۔ اس کے نہ سمجھنے سے بہت ساری الجھنیں جنم لیتی ہیں۔
الجھن کہاں ہے؟
رائج نظامِ تعلیم اور اس کے ضمنی مسائل جیسے Careerism, Commercialization of Education وغیرہ پر گفتگو کرتے وقت ہم ایک اہم بات سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ کسی مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد سمجھنا ضروری ہے۔ ہم issueاور non-issuesکے فرق کو سمجھ نہیں پاتے او ر ان میں خلط ملط کربیٹھتے ہیں۔ نتیجتاً مسئلہ سلجھنے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہم نتیجہ کو دیکھ کر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ کوئی چیز بنیادی طور پر صحیح ہے یا غلط، مثلاً مروجہ نظامِ تعلیم، سیاسی اور اقتصادی ادارے وغیرہ کے اثرات کو دیکھ کر ان کے صحیح یا غلط ہونے پر فیصلہ کرنا، حالانکہ دونوں حالات )صحیح یا غلط ہونے کے( میں ایسا کرنا صحیح ہے نہ مناسب، کیونکہ انسانی عمل اور اس کے نتائج کئی ایک عوامل پر منحصر ہیں، جن میں:
(۱) کون سا نقطۂ نظر یا طرزِ فکر اپنایا گیا ہے۔
(۲) کون سا آلہ یاادارہ (جو کہ طبعی بھی ہوسکتا ہے غیر طبعی بھی) استعمال کیا گیا ہے اور کیسے استعمال کیا گیا ہے۔
(۳) کوشش: کیفیت اور کمیت دونوں کے اعتبار سے۔
(۴) مختلف عوامل یا حالات کا ساز گار ہونا۔
(۵) حالات پرکھنے میں غلطی کرنا۔
انسانی عمل یا کوششوں کے تین اجزاء ہوتے ہیں:
* پہلا یا بنیادی جزو نقطۂ نظر یا طرزِ فکر ہے، جس کو بنیاد بناکر کوئی عمل یا کوشش سمت پاتی ہے۔
* دوسرا جزو آلہ ہے، جسے استعمال کرکے کوششوں کو روبہ عمل لایا جاتا ہے۔
* تیسرا جزو نتیجہ ہے۔ نتیجہ کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ براہِ راست پہلے دو حصوں کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔
اس کو عینک کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ عینک ایک آلہ ہے جو نظر کی کمزوری دور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر عینک پہننے کے بعدافادہ نہیں ہوا تو اسے عینک کی ناکامی نہیں قرار دیں گے اور نہ ہی عینک کو مسترد کریں گے۔ بلکہ عدسہ (Lens) بدلیں گے یہاں تک کہ شفافیتِ نظر (clarity of vision) میسر ہو۔ یہاں عدسہ طرزِ فکر یا نقطۂ نظر ، عینک آلہ اور شفافیتِ نظر نتیجہ ہے۔ جس طرح شفافیتِ نظر متأثر ہونے پر عدسہ بدل کر صحیح نتیجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اسی طرح اگر کسی چیز کانتیجہ غلط ہو تو ہم آلہ کی ناکامی مراد نہیں لیں گے بلکہ نقطۂ نظر کی تصحیح کی کوشش کی جائے گی تاآنکہ صحیح نتیجہ برآمد ہو۔ آلہ کس طرح صحیح ہوتا ہے یا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے۔
ہم معاصر دنیا کے چیلنجز کا سامنا نہایت غیر حقیقی انداز میں کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات ہے۔ انسانی معاشرہ کے کسی بھی ’آلہ‘ یا ادارہ (طبعی اور غیر طبعی دونوں) کے دو پہلو ہوتے ہیں:
* بنیادی یا Fundamental
* ہیئتی یا Structural
یہ ایک دقیق فرق ہے لیکن نہایت کلیدی۔ ان ہی کی مناسبت سے مسائل یانقائص بنیادی یا ہیئتی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ بنیادی طور پر ہی غلط یاناقص ہے تو اس کو کلی طور پر مسترد کردیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ادارہ میں ہیئتی اعتبار سے مسئلہ ہو تو اس کی تصحیح کی جاسکتی ہے اور فی الواقع یہ ہمیشہ جاری رہنے والا عمل ہے کیونکہ انسانی معاشرہ سدا ارتقاء پذیر رہتا ہے، اس لیے ادارے ہیئتی اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ بات یہاں علم اور تعلیم کی ہورہی ہے۔ اسی کی ایک مثال لے لیجیے۔ کریئرزم ایک روگ ہے، جس میں اکثر طلبہ مبتلا ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا، انہیں نکھارنا، اپنی زندگی کا کوئی ہدف متعین کرنا اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس کی دھن میں لگ جانا کوئی برا فعل نہیں ہے۔ اصل مسئلہ تو وہ طرزِ فکر ہے جس کی بنیادپر یہ آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر طرزِ فکر صحیح ہو تو آلہ کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور نتیجہ بھی مثبت۔ اگر اسی کریئرزم کو صحیح طرز فکر کے ساتھ مثبت طور پر استعمال کیا جائے تو لوگ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں گے، انہیں نکھاریں گے اور ان کا صحیح استعمال کرکے عوام الناس کو فائدہ پہنچائیں گے، کیونکہ ان کے پیش نظر رفاہِ عام اور عدل اجتماعی کا قیام ہوگا نہ کہ کسی بھی طرح دولت کمانا ۔
چونکہ معاصر دنیا مادہ پرستی پر تکیہ کیے ہوئے ہے، اس لیے تمام ہی آلات اور اداروں کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ جس سے جملہ شعبہ ہائے زندگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جیسے خودغرضی، استحصال، جرائم کا فروغ، انسانی اقدار کا خاتمہ وغیرہ۔ تعلیمی نظام سمیت معاصر دنیا کے اکثر اداروں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ طویل انسانی کوششوں کے نتیجے میں آج ایک شکل میں وجود پذیر ہیں، جس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ اکثر بنیادی طور پر غلط نہیں ہیں، بلکہ ان کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔ اس لیے ان سے منفی نتائج ظاہر ہورہے ہیں۔یہ بجا طورپر کہا گیا ہے کہ ؂
آزادیِ نسواں ہو کہ جمہورِ عوام
یا بنک کہ جس کے ہیں یہ پنجہ میں تمام
یہ دور ہے دجال کا سب کچھ ہے دجل
اس دور میں دولت کے پجاری ہیں تمام
اس رباعی میں تین اعلیٰ تصورات، پہلا سماجی، دوسرا سیاسی اور تیسرا اقتصادی مذکور ہیں، جو فی نفسہٖ غلط نہیں ہیں بلکہ طرزِ فکر کاغلط ہونا، ان ’آلات‘ کاغلط استعمال اور بالآخر منفی نتیجہ مرتب کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہیئت کے اعتبار سے بہت کچھ اصلاح درکار ہے۔ جب ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم حقیقت پسندی سے کام لیں نہ کہ رومانی تصورات کے سراب کے پیچھے دوڑیں۔ اصلاحی کام کے اہداف قابلِ حصول ہوں۔ اس طرح اصلاح وترقی کا معاملہ قابلِ عمل ہو گا۔
دوسری طرف ’روحانیت‘ سے چمٹے رہنے کی وجہ سے عوام جذباتیت اور جہالت کا شکار ہوہتے ہیں اور ان میں زندگی کے تئیں لا تعلقی اور لاپرواہی پائی جاتی ہے۔اور نتیجہ کے طور پر یہ معاشرہ مشکل کا سامنا کامیابی سے کرپاتا ہے نہ اپنی ضرورتوں کو پورا۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہوتا ہے جس میں یکجہتی ہوتی ہے نہ امن۔ سارا معاشرہ انتشار اور تفرقہ کا شکار ہوتا ہے، جس کے فرقے باہم دست وگریباں ہوتے ہیں، جس کے پاس کوئی نصب العین ہوتا ہے نہ مستقبل۔ جو شکوہِ رفتہ میں بندہوتا ہے اور مستقبل سے مایوس۔ ایسا معاشرہ بالآخر برباد ہوجاتا ہے۔
یہ بحث یہاں اس لیے چھیڑی گئی ہے کہ معاصر دنیا کے متعلق ہمارا رویہ غلط نہج پر ہے۔ ہماری ذہنیت کوئی ہزار سال پہلے کے زمانے میں معلق ہوکر رہ گئی ہے اور ہم جدید دنیا میں رہنا تک نہیں جانتے، کجا کہ ہم دنیا کو بدلنے اور ایک معیاری نظام دینے کی بات کریں۔ ہم بے جا طور پر اپنے ماضی سے رومانیت میں مبتلا، اور حقیقت سے بہت دورہیں۔ یہی فرق ہے ہم میں اور ہمارے اسلاف میں۔ وہ قرآن کو مرکزِ توجہ بناکر ایجادات اور دریافتیں کرتے تھے، اور آج یہ کام دوسرے کررہے ہیں اور ہم ان پر صرف ’تصدیق‘ کی مہر لگاتے ہیں کہ فلاں دریافت تو قرآن یا حدیث میں پہلے سے ہی مذکور ہے ۔
اسلامی نظام کے متعلق بھی ہمیں واضح طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام ہمیں ٹھوس اور پائیدار بنیادیں فراہم کرتا ہے تاکہ اسلامی نظام کے تحت جملہ ادارے نہ صرف بنیادی سطح پر صحیح نہج پر ہوں گے بلکہ باہم مل کر مربوط انداز میں عدلِ اجتماعی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں گے اور اسے قائم بھی رکھیں گے (یعنی وقتی معاملہ نہیں ہوگا بشرطیکہ انھیں اصولوں پر کاربند ہوں) البتہ جہاں تک ہیئت کا تعلق ہے، تو اس میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق انسانی معاشرہ کی ضروریات، مشکلات اور تجربات سے ہے اور ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے یہاں کسبی طور پر اصلاح و ترقی کا معاملہ سدا جاری رہے گا۔ کہیں یہ مغالطہ نہ ہو کہ اسلامی نظام تمام تر مسائل سے یکسر خالی ہوگا، بلکہ مسائل کی نوعیت، کیفیت اور کمیت مختلف ہوگی۔ یہ نظام بنیادی نقائص سے پاک رہے گا اور اس میں عدلِ اجتماعی خطرے میں نہیں پڑے گا۔ اس طرح اسلامی نظام کے قیام او ر اصلاح وترقی کا کام کرنے کے لئے علم درکار ہے۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ انسانی دنیا کی سماجی، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور تکنیکی ترقی کسبی علم سے وابستہ ہے اور کسی قوم کا مستقبل اس کی کارکردگی اور performance پرمنحصر ہے۔ اللہ کا فرمان ہے \”اور یہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی ) ہراعتبار سے( کی ہے\” )النجم ۳۹(۔ یہ بات افراد پربھی صادق آتی ہے اور قوموں پر بھی۔ اس کے لئے قوم کے مجموعی طرز فکر میں یگانگت کا ہونا ضروری ہے۔ تبھی جاکر معاشرہ مؤثر طور پر سمت پائے گا اورترقی کی راہ پر قابلِ ذکر پیش رفت کرپائے گا۔ چونکہ اس سارے معاملہ کی بنیاد علم پر ہے اس لئے علم کا صحیح تصور ہونا نا گزیر ہے۔
کرنے کے کام:
اس پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:
(۱) سب سے پہلے ہم اپنی بنیاد صحیح کریں۔ اپنا طرزِ فکر اسلامی بنائیں، اور بنیاد اور ہیئت کا فرق ملحوظ رکھتے ہوئے چیزوں کا جائزہ لیں اور پرکھیں۔
(۲) اس کے لیے وسعتِ فکر اور توازن کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے اہداف اور کوششیں حقیقت کے مطابق اور قابلِ عمل وحصول ہونی چاہئیں۔
(۳) اس دورِ تخصص میں بحث تمحیص اور حل تلاش کرنے کے لیے مہارت شرطِ لازم ہے۔ مختلف میدانوں میں مہارت کے ذریعے اپنا مقام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
(۴) تخلیقی اور تعمیری انداز میں اصولی بحثوں کو عملی حل میں تبدیل کریں۔
حرفِ آخر:
دنیا مختلف افکار و نظریات کا تجربہ کرکے نالاں و پریشاں اور حقیقی فلاح و بہبود کے لیے تشنہ لب ہے۔اب وہ مناسب وقت آگیا ہے کہ ہم اسلام کو فقط واحد حل کے طور پر پیش کریں۔یادر کھیں اسلام ایک متبادل نظام نہیں ہے۔ متبادل وہ چیزیں ہوتی ہیں جن میں ایک کو دوسرے سے بدل دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسلام موجودہ نظام کا متبادل ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس برباد دنیا اور سسکتی انسانیت کا فقط واحد حل ہے۔ اس بات کو ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ اس صورت میں یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ اسلام کو ایک عملی نمونے اور نظام کے طور پر دنیا کے آگے پیش کریں۔
سید احمد مذکر، چنئی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں