عصری علوم کی ضرورت مدارس اسلامیہ کے نصاب میں

ایڈمن

ضمیر الحسن خان فلاحی، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی۔ علی گڑھ مدرارسکیا ہیں اور ان کا کیا مقصد ہے؟ اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ طے کرلیا جائے کہ مدارس کیا ہیں اور ان…

ضمیر الحسن خان فلاحی، ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی۔ علی گڑھ
مدرارسکیا ہیں اور ان کا کیا مقصد ہے؟ اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پیشتر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ طے کرلیا جائے کہ مدارس کیا ہیں اور ان کے قیام کے مقاصد کیا ہیں؟تاکہ بات اسی رخ پر آگے بڑھ سکے۔کسی مہذب ومتمدن سماج میں مدارس کی اہمیت وہی ہے جو جسم انسانی میں اعضائے رئیسہ کی ہوتی ہے۔ یہ مدارس ہی معاشرہ کو وہ طاقت وتوانائی فراہم کرتے ہیں جس سے سماج میں انسانی واخلاقی قدریں فروغ پاتی ہیں۔
ان مدارس کے قیام کا اولین اور اہم ترین مقصد ایسے مصلحین ودعاۃاور ایسے اسکالر س کی تیاری ہے جو ہر طرح کے چیلنجوں کا کمال جرأت وبے خوفی سے مقابلہ کرسکیں اور کفر والحاد کی ظلمت میں ڈوبی انسانیت کے سامنے کتاب اللہ اور سنت رسول ؐ کی مشعل فروزاں کرسکیں، اور یہ کام اسی وقت ممکن ومتوقع ہے جبکہ طلبہ مدارس معاصر حالات وافکار اور ان کے حقائق سے کما حقہ واقف ہوں، یہ مدارس ہی ہیں جو فکر ونظر کے زاویوں کو صحیح رخ پرڈھالنے اور ملک وقوم کی تعمیر میں نمایاں اور مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں ۔مگر افسوس کہ یہ اپنا کردار نہیں اداکرپارہے ہیں ۔ اس کے بہت سارے اسباب ہیں ان میں ایک اہم سبب مدارس کانصاب تعلیم ہے ۔ نصاب تعلیم دراصل مقاصد تعلیم کے حصول کے اہم ترین ذرائع میں شمار ہوتا ہے ۔کامیاب نصاب تعلیم وہ ہے جو فرد کی شخصیت کے ارتقاء ، اس کی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے اور انفرادی واجتماعی تمام مراحل زندگی میں اس کی رہنمائی کاکام انجام دے سکے۔ کسی انسٹی ٹیوٹ کا نصاب اس کے سوز دروں کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے، اور اس سے مستقبل کی راہیں متعین ہوتی ہیں۔
کسی قوم کو اس کے نصب العین سے غافل کرنے اور اس کے مشن سے دور کرنے کے لئے سب سے مؤثر ہتھیار یہی نصاب تعلیم ہوتا ہے، ہندوستان میں انگریزوں نے اپنے افکار ونظریات کے فروغ کے لئے ایسا نصاب تعلیم وضع کر کے اس کی ترویج کی جس سے وہ یہاں کے ذہنوں کو متأثر کر سکنے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال بھی کیا ،جسے دیکھ کر شاعر مشرق چیخ اٹھے ؂
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
اور اکبر الہ آبادی کو کہنا پڑا ؂
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی
نصاب تعلیم کی یہی اہمیت ہے کہ آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ پرست وفسطائی طاقتیں تبدیلی نصاب پرکمر بستہ ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ ہمارا دین اسلام ہے جس کی اساس اللہ کی کتاب اور رسول پاکؐ کی سیرت طیبہ ہے۔ مگر یہ طے کئے بغیر بھی چارہ نہیں کہ دین اسلام نے جس علم کی تحصیل کو فرض قرار دیا ہے ، وہ عصری ودینی دونوں علوم پر حاوی ہے ۔جس طرح عقل کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح علم بھی ناقابل تقسیم ہے ۔ اسلام چونکہ ایک مکمل نظام زندگی اورکامل دستور حیات ہے اس لئے ممکن نہیں کہ وہ زندگی کے کسی پہلو سے بیگانہ ہو ۔
اسلامی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے دور اقبال میں مسلمان ہی قافلہ علم کے سالار تھے، لیکن جیسے جیسے وہ اس علم سے کنارہ کش ہوتے گئے اور انہوں نے یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ اپنا اور اسلام کا تحفظ اسی میں ہے کہ علم کو تقسیم کرکے توجہ دینی علوم پر مرکوز کر دی جائے، اقبال مندی زوال وانحطاط میں تبدیل ہوتی چلی گئی ۔ اب ہماری ریت یہ ہے کہ ہم فرمودات باری تعالیٰ کے بالمقابل تقلیدکو ترجیح دیتے ہیں اور ماحول کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ ہمیں اپنی محرومی کا احساس تک نہیں ہے۔ سچ ہے کہ جو لوگ پس دیوار زنداں اپنی عمر کا ایک حصہ گزارلیتے ہیں انہیں روشنی ناگوار گزرتی ہے اور تازہ ہوا راس نہیں آتی۔
یہ بات باعث صد شکر وافتخار ہے کہ ہندوستان میں، بالخصوص آزادی کے بعد، مدارس نے حفاظت دین کے لئے قابل قدر خدمت انجام دی ہے لیکن اگر ان کے نصاب میں اصلاح راہ پا جاتی تو اس سے بڑی خدمت انجام دے سکتے تھے، اور طلبہ کے اندر یہ شعور عام کیا جاسکتا تھا کہ دینی اصول وعقائد کی روشنی میں بدلتے ہوئے حالات کے مسائل کے حل کا نام ہی دارصل استفتا ء ہے۔
آج جبکہ علوم حیرت انگیز طور پر ترقی کر چکے ہیں، یہ کہاں کا انصاف یا عقل مندی ہے کہ ہم اپنے طلبہ کو ان نئے اور ترقی یافتہ علوم کی ہوا تک نہ لگنے دیں، اس طرح ہم نے علم کا رشتہ حال ومستقبل کے بجائے ماضی سے استوار کرلیا، حالانکہ ماضی سے واقفیت اس لئے نہیں کی جاتی کہ ہم ماضی کے اسیر ہو کر رہ جائیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے اور یہی ہونا چاہیے کہ ہم حال کو بہتر کرسکیں اور مستقبل کاخاکہ بنا سکیں ۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ اگر ہمیں دینی مدارس کی زندگی عزیز ہے تو غور وتدبر اور حال ومسقبل سے ان کا رشتہ جوڑ نا پڑے گا، انہیں علوم کی پیش رفت سے ہم آہنگ اور ہم نوابنانا پڑے گا ۔اب تک ایسا کیوں نہیں ہوسکا ۔اس کے بہت سے اسباب ہیں ۔ سطور ذیل میں ان میں سے بعض اہم اسباب کا ذکر کیاجاتاہے:
(۱) اس سلسلے کی ایک بڑی دشوار ی یہ ہے کہ مدارس کو سخت مالی دشواری کا سامنا رہتاہے ۔ان کے اساتذہ کو معقول مشاہرہ نہیں مل پاتا، خاص طور سے عصر ی مضامین کے لئے جن اساتذہ کو رکھا جائے گا ، بازار میں ان کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ وہ ادارے جو اپنے اساتذہ کو قلیل تنخواہ بھی وقت پر نہیں دے سکتے ۔وہ بڑی تنخواہیں کیونکر ادا کر سکیں گے ۔ اگر بالفرض اس کا انتظام ہوبھی جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں دینی تعلیم اور دنیوی تعلیم دینے والوں کے درمیان شدید اختلاف ہوگا، اور مدارس کی پرسکون فضا مکدر ہو کر رہ جائے گی ۔
لہذا اگر سائنس ، ریاضی اور دوسرے سماجی علوم پڑھانا ہے، اور ظاہر ہے اس سے مفر ممکن نہیں تو مدارس کے مالی وسائل میں انقلابی تبدیلی ناگزیر ہے اور ہمیں کامل بھروسہ ہے کہ جو امت اپنے دین کے لئے سب کچھ قربان کرسکتی ہے ۔ وہ لازماََ اس خطرے کا احساس وادارک کرے گی ۔ کیونکہ مدارس کی تعلیم اگر جدیدتقاضوں سے بیگانہ ،اور ماضی کی اسیرہوکر رہ گئی تو وہ فرسودہ ہو گی ۔ اور ذہین طلبہ کے لئے اس کے اندر کوئی کشش باقی نہیں رہے گی جیسا کہ ہے موجودہ صورتحال ہے کہ مدارس کا رخ وہی طلبہ کرتے ہیں جو مالی یا ذہنی اعتبار سے انگریزی اسکولوں کا قصد کرنے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ کیا ایسے طلبہ فارغ ہونے کے بعد دین کی صحیح ترجمانی کرسکیں گے ؟ کیا ان کے ذریعہ اشاعت اسلام کا اہم کام نجام پاسکے گا ؟اور کیا وہ اعتماد اور پوری قدرت کے ساتھ دوسروں سے گفتگو کرنے کے قابل ہوسکیں گے، یہ سوچنے اور غور کرنے کی چیز ہے ۔
(۲) دوسری بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ملت کا مزاج اب تک سنجیدگی ، جفاکشی ،عرق ریزی سے آشنا نہیں ہوسکاہے ۔اس لئے یہ احساس عام ہوگیا ہے کہ ہمیں دینی تعلیم کے لئے اچھے اساتذہ میسر نہیں ہوں گے۔ عصری مضامین کی تدریس کے لئے ہم لائق اساتذہ کہاں سے لائیں، اس مزاج کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔
(۳) تیسری دشواری یہ گمان واحساس ہے کہ عصری تعلیم کا پیوند لگانے اور ایسے افرادکو جو ہوس پرست اور طمع آلود ہیں داخل کرنے کے نتیجہ میں مدارس کا سربستہ نظام بکھر جائے گا، اور اگر یہ ایک بار بکھر گیا تو دوبارہ اس کی شیرازہ بندی آسان نہ ہوگی ،وغیرہ۔
مذکورہ بالا دشواریوں اور خطرات کے ذکر کا مقصود یہ ہر گز نہیں ہے کہ مدارس کو عصری مضامین سے محروم رکھا جائے کہ خطرات تو ان مضامین کو شامل نہ کرنے کی صورت میں بھی ہیں۔مقصود صرف یہ ہے کہ ہم بلاتاخیر ان خطرات کی طرف دھیان دیں ،دشواریوں کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کریں اور اس داغ کو اپنی پیشانی سے دھونے کی سنجیدہ کوششیں کریں کہ دنیا کی ہماری نگاہ میں کوئی قدر اور وقعت نہیں ہے ۔اس سے من جملہ دوسرے فوائد کے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عصری اور دینی تعلیم کے فارغین کے درمیان جس فاصلے نے زمانہ سے ملت کو دولخت کر رکھا ہے وہ مٹ جائے گا۔
یہ بات ہمارے یہاں زبان زد خاص وعام ہے کہ دینی مدارس کا موجودہ نصاب ونظام تعلیم اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اس میں اضافی مضامین کے لئے گنجائش نکل سکے۔ اس لئے موجودہ نصاب کا احتساب کرنا لازمی ہے۔ دینی جزو کو محفوظ رکھتے ہوئے ان مضامین میں تخفیف بہر حال ہوسکتی ہے ۔جو عرصۂ دارز سے ہمارے نصاب میں شامل ہیں اور جو زمانے کی پیش رفت کاساتھ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے، نیز نصاب میں گھنٹے اور سال کے اضافے پر بھی غور ہوسکتا ہے ۔آج کے دور میں اس کے بعض اچھے نمونے بھی ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ مشاہدہ وتجربہ شاہد ہے کہ جولوگ دینی تعلیم کے ساتھ صنعتی ، تکنیکی اور پیشہ وارنہ علوم کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ روز مرہ کی زندگی، معاملات وتعلقات اور کار گزاری میں دوسروں سے بہتر اور معاشرہ کے انتہائی کارآمد رکن سمجھے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ رفتار زمانہ کا تقاضا ہے کہ دماغ کی بڑھتی ہوئی بالادستی کے باوجود دنیا پر تصرف ان ہی لوگوں اور ہاتھوں کا ہوگا جو صاحب ہنر اور جفاکش ہیں، اسی صورت میں فارغین مدارس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ غیرت، عزت نفس اور پورے اعتماد کے ساتھ سوسائٹی میں رہ سکیں، کیونکہ جب اعتماد مجروح ہوتا ہے تو صلاحیتیں خود بخود مسمار ہونے لگتی ہیں۔
نصاب کے ضمن میں یہ بات بھی ملحوط خاطر رہنا چاہیے کہ ہمارے اس دور کی ایک بڑی ضرورت اتحاد امت ہے، پہلے بھی اس کی شدید ضرورت تھی اور آج جب کہ ہم اکثریت کے درمیان اقلیت کے طور پر رہتے ہیں اس کی ضرورت دوچند ہوگئی ہے اس لئے عصر ی مضامین کوشامل نصاب کرکے اور کسی خاص مکتب فکر کی فقہ کے بجائے قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے فقہ مقارن کی تعلیم دے کرطلبہ کو زمانے کے تقاصوں سے قریب وہم آہنگ بھی کیا جاسکتا ہے اور اتحاد کے راستے کی ایک بڑی روکاوٹ کو بھی دور کیا جاسکتا ہے ۔ اس سے یقینََا یگا نگت کی راہ ہموار ہوگی اور امت ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسائل کے حل کے لئے سرگرم عمل ہوگی ۔ نتیجہ کے طور پر تخرب ،تعصب اور تشدد کی جگہ توسع و اتحاد کی فضا ہموار ہوگی ۔
اس کے علاوہ یہ تجویز بھی قابل عمل ہوسکتی ہے کہ مدارس اسلامیہ میں مندرجہ ذیل تین دھاروں کو رواج دیا جائے :
۱۔ خالص دینی تعلیم
۲۔ دینی وعصری تعلیم
۳۔ دینی وحرفتی تربیت
اور طلبہ کو اختیار دیا جائے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلیں اس طرح سے کچھ اچھی اور کارآمدصلاحیتیں سامنے آسکتی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ توازن ، اعتدال اور احتیاط کے ساتھ عصری مضامین کو بروئے کار لایا جائے، گنجائش یقینََا نکلے گی۔ ہاں یہ بہر حال ضروری ہے ان علوم کی اساس قرآن وحدیث پر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رخ پر سوچنے اور اپنے مسائل کا راست حل قرآن وسنت میں تلاش کرنے کی توفیق دے ۔ آمین ۔ email:[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں