محمدفراز احمد
“عشق” کے متعلق بعض افراد نے ایک غلط فہمی پیدا کردی ہے اور عشق کو محض صنفِ نازک تک ہی محدود کردیا، ایک صاحبِ تشریح نے عشق کی تشریح میں یہاں تک لکھ دیا کہ جس محبت میں شہوانی جذبات موجود ہوں وہ عشق کہلاتا ہے، اس قسم کی غلط تشریح اس کی پاکیزگی کو ختم کردیتی ہے. اگر موصوف کے حساب سے مان بھی لیا جائے تو اردو لغت میں عشق کے synonyms میں “محبت” بھی آتا ہے، گویا محبت اور عشق میں کوئی فرق نہیں رہا. عشق دراصل ایک عربی لفظ ہے جو محبت کے بلند ترین درجہ کیلئے بولا جاتا ہے اور یہی عشق ناممکن کو ممکن میں تبدیل کردیتا ہے.
عشق کو عورت کے ساتھ مخصوص کرنے سے یہ نقصان ہوا کہ لوگوں نے لفظ عشق کو شجر ممنوعہ سمجھ لیا، عشق عورت سے بھی ہوتا ہے، اور یہی عشق معشوقہ کے لئے جان نچھاور کرنے کا محرک بھی بنتا ہے، عشق ایک فطری عمل ہے یقیناً یہ عورت اور مرد کے درمیان لازمی طور پر ہوتا ہے، لیکن اکثر عشق سوائے جنسی تسکین کے کسی اور چیز کو نہیں سمجھا جاتا، جس عشق میں تعظیم اور احترام ہو تو اس عشق میں حیا اور پاکیزگی آجاتی ہے. اور جس انسان میں حیا اور پاکیزگی آجائے تو وہ کوئی ناجائز عمل کی طرف نہیں بڑھتا.
لیکن عشق صرف عورت سے ہی نہیں ہوگا، عشق ساری کائنات سے ہونے والی شئے ہے. علامہ اقبال کے خودی کے فلسفے کے بعد جو سب سے اہم فلسفہ ہے وہ فلسفہ عقل و عشق ہے، جس میں اقبال نے عشق کی اہمیت کی وضاحت کی اور عشق کو اصل محرک عمل قرار دیا. اقبال نے عشق کو حیات عالم کا آئین کہہ کر اس کی اہمیت واضح کی ہے:
عشق آئین حیات عالم است
امتزاج سالمات عالم است
عشق خدا سے بھی ہوتا ہے. اور اصل عشق تو خدا سے ہی ہونا چاہیے، جب انسان خدا سے عشق کرتا ہے تو پھر وہ اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، عموماً ہمارے معاشرے میں بچپن ہی سے بچوں میں خدا کا خوف پیدا کیا جاتا ہے، اور ہر گناہ پر اللہ کی سزاؤں کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچوں کے ذہن میں اللہ سے خوف ہی کا تصور بیٹھ جاتا ہے.
خدا کا خوف گناہوں سے جبری طور پر تو بچا سکتا ہے لیکن وہ جزوقتی ہوتا ہے، خدا کی محبت اور عشق میں انسان تاحیات نیکیوں پر قائم رہتا ہے اور گناہوں سے بچا رہتا ہے. ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کو اللہ سے عشق اور محبت کی ترغیب دیں، اللہ سے محبت پر اعمال کو ترتیب دینے کی کوشش کرائیں، تب ہی اس کے اندر اللہ سے محبت جاگزیں ہوگی اور وہ عمل پر آمادہ ہوگا.
جب انسان اللہ سے عشق کرنے لگتا ہے تب وہ ساری دنیا سے عشق کرتا ہے، چونکہ ساری کائنات اور اس کی تخلیق اللہ کی ہے، تب وہ اس مخلوق سے بھی محبت سے پیش آتا ہے، انسانیت کا درد اس کے اندر پیدا ہوتا ہے. جس کی وجہ سے خود غرضی جیسے معاملات ختم ہونے لگتے ہیں، انسان دوسروں کے لیے جینے لگتا ہے.
عشق اپنے مقصد سے بھی ہوتا ہے، عشق مقصد کے حصول کے لئے انسان کو جنونی اور پاگل بھی بنا دیتا ہے. جب تک انسان اپنے مقصد سے عشق نہیں کرے گا اور اس مقصد کے حصول میں جنونی حد تک کوشش نہیں کرے گا تب تک وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگا. نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی بہترین مثال ہمارے سامنے موجود ہے، وہ اللہ سے عشق ہی تھا جو آپ صلعم کو ایک غار کی تنہائی سے نکال کر میدانِ کارزار میں رسوا کرنے لاکھڑا کردیا، گالی اور پتھر کھانے پر مجبور کردیا، غالب نے ٹھیک کہا کہ
یہ عشق نہیں آسان، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کہ جانا ہے
نا صرف رسول صلعم بلکہ سارے صحابہ اکران کی زندگیاں اس آگ کے دریا میں جلی ہیں.
عشق میں جلنے، تپنے اور پھر کامیاب ہونے والوں کی بہت سی مثالیں ہیں. اقبال نے ابراہیم علیہ السلام کے عشق الہی کو کچھ اس طرح بیان کیا.
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
ابراہیم علیہ السلام کی یہ قربانی ان کا خدا اور مقصد کے تئیں عشق کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک مومن اور دین کے علمبردار کا اپنے معبود اور مشن کو لیکر کس طرح کا عشق ہونا چاہیے. اقامت دین کے علمبرداروں کے لئے تو یہ بات مزید قابلِ غور ہوگی کہ ان کا عشق خدا اور مشن سے کتنا ہے، جتنا زیادہ اور جتنا حقیقی عشق ہوگا اتنا ہی نتیجہ خیز اس کا عمل ہوگا.
عشق درحقیقت مومن کا ہتھیار ہے، اقبال نے خوب کہا کہ
عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاںگیر تری
ماسِوَی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
اقبال نے عشق الہی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا اور عشق ہی کو عمل کا اصل محرک قرار دیا،
قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر مرد مومن کو اللہ سے محبت پر ابھارا گیا ہے، تفصیل کے بجائے ایک آیت جو اس اہمیت کو واضح کرتی ہے وہ پیش خدمت ہے، سورۃ البقرہ میں اللہ نے ارشاد فرمایا. وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ .
ترجمہ: اور ایمان والےتو اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔
اس آیت میں لفظ “اشد” کا استعمال کیا گیا ہے جو اس محبت کی شدت کا اظہار کرتا ہے، “عشق” تو نام ہی ہے شدید محبت اور محبت کے اعلٰی ترین درجہ کا، اور اللہ ہم سے اسی قسم کی شدید محبت چاہتا ہے. یہ وہ عشق ہے جو انسان کو بے نیاز کردیتا ہے. وہ سوائے اللہ کے کسی اور طرف نہیں بڑھتا، اس کے حدود کو توڑنے کا خیال بھی نہیں کرتا، جب انسان اللہ سے اتنی محبت کرتا ہے تو اللہ بھی انسان سے اس سے کئی گنا زیادہ محبت کرتا ہے، انسان سراسر اسکی نگرانی میں آجاتا ہے، ایک حدیث قدسی ہے:
“اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی وہ سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی وہ بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے.”
یہ وہ بہترین پھل ہے جو اللہ سے عشق کی بنیاد پر ملتاہے اور کون نہیں چاہتا کہ اللہ اس کا دست و بازو نا بنے؟ اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور عشق کرنا سیکھنے کی ضرورت ہے. عشق کرنا سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں.