علامہ اقبالؔ ؒ کے نام سے منسوب اس جلسہ میں تاریخوں کا – تاریخ کا نہیں – عجب اتفاق ہے۔ اسی ماہ یعنی نومبر کی 9؍ تاریخ کو 136؍ سال قبل علامہ اقبالؔ پیدا ہوئے تھے، اور محرم کی 10؍ تاریخ یعنی یوم عاشورہ بھی اسی ماہ کی 4؍ تاریخ کو آیا ہے۔ آج سے 1376؍ سال قبل کربلا کے میدان میں سیدنا حضرت حسینؓ کی شہادت ہوئی تھی۔ اسی وقت سے عالم اسلام میں بحران کا آغاز ہوا۔ حضرت حسینؓ کی شہادت دراصل عالم اسلام کے بحران کو روکنے کی جاں توڑ کوشش کا نام ہے۔ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا مبارک دور ختم ہو کر ملوکیت کا آغاز ہورہا تھا، حضرت حسینؓ نے اپنی جان پر کھیل کر اُسے روکنے کی کوشش کی تھی۔ بحران رک نہ سکا، مگر حضرت حسینؓ کامیاب رہے۔ اپنی عظیم شہادت سے آپ نے جو درس دیا، اُس کو یاد رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی شدید ضرورت ہے
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادئ حیات کا یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر ترا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیو ں کی غلامی نہ کر قبول
ملوکیت کے دور کی تان بھی 1270؍ سال بعد ٹوٹ گئی جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سن 1920ء میں ترکی میں کمال اتاترک کی قیادت میں نادان ترکوں نے انگریزوں کے اشاروں پر خلیفہ کو معزول کردیا۔ مسلم دنیا پر اس سانحے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ بالخصوص ہندوستا ن میں مسلمانوں کے ذہنوں پر بجلی کوند گئی، مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ ہمتیں جواب دے گئیں۔ مسلم قیادت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔ جس نے پورے ملک میں بحالئ خلافت کی تحریک چلائی تھی۔ ملت افراتفری کا شکار ہو گئی۔ اتحاد بکھر گیا۔ مسلمان بے بسی، بے کسی اور بے چارگی میں مبتلا ہو گئے۔اکبرؔ الہ آبادی نے اس کیفیت کی عکاسی اس طرح کی
نہ لائسنس ہتھیار کا ہے ہم میں نہ زور
کہ ترکی کے دشمن سے جا کر لڑیں
تہہِ دل سے ہم کوستے ہیں مگر
کہ اٹلی کی توپو ں میں کیڑے پڑیں
عالم اسلام کا بحران تقریباً تین صدیوں سے چلا آرہا ہے۔حالانکہ خلافت راشدہ کے خاتمہ کے بعد ملوکیت کے دور میں بھی اسلام پھیلتا رہا، فتوحات ہوتی رہیں اور پورے ایک ہزارسال مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔ سیاست کے علاوہ علم، سائنس، صنعت،وغیرہ مختلف میدانوں میں بھی مسلمانوں کا طوطی بولتا رہا۔ لیکن اصل اسلامی طرز حکمرانی سے بلکہ اسلامی اسپرٹ سے مسلمان رفتہ رفتہ دور ہو تے چلے گئے۔ یہاں تک کہ سیاسی میدان میں بھی شکست کھا گئے۔ جس کے بعد ذہنی شکست خوردگی کے آنے میں دیر نہ لگی۔
یوں تو دونوں عالمی جنگیں عیسائی ملکوں کے درمیان ہوئیں مگر نتیجہ عجب نکلا کہ مسلم دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہوئی اور عیسائیوں نے مال غنیمت کی طرح ملکوں کے ملک آپس میں تقسیم کرلئے۔اپنی کالونیاں بنالیں۔ہندوستان میں اورنگ زیب ؒ کی وفات اور ٹیپو سلطانؒ کی شہادت کے بعد1857 ء کے سانحہ نے مسلمانوں کی کمر توڑدی۔ تقریباً 60؍ ہزار علماء کرام شہید کردئے گئے۔ دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر علماء کرام کو پھانسی دے کر ان کی لاشوں کو لٹکا یا نہ گیا ہو۔ ڈر، خوف اور مرعوبیت کا سیلاب امڈ آیا۔ عراق پر تاتاریوں کے حملوں سے بھی مسلمانوں کی ایسی ہی حالت ہوئی تھی۔ لیکن وہ وحشی قوم تھی، سیاسی فتح کے آگے اس کی کوئی سوچ نہیں تھی۔ مگر انگریز تعلیم یافتہ اور مہذب تھے۔ مذہبی انتقام کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی، لیکن سلیقہ منداور دور اندیش تھے۔ سیاسی فتح کے بعد مفتوح قوم کو ہر اعتبار سے غلام بنالیا۔اس سلیقے سے بنا یا کہ غلاموں کو اپنی غلامی پر کسی طرح کی بے چینی تو کجا اطمینان بلکہ فخر محسوس ہو نے لگا۔ اپنی شاندار تاریخ پر انہیں شرم آنے لگی، اپنا مذہب اور اپنی تہذیب اور زبان تک دقیانوس نظر آنے لگے ۔ان تمام چیزوں سے چھٹکارے میں اُنہیں ترقی کی راہیں کھلتی دکھائی دیں۔ زوال کی یہ انتہائی شکل تھی۔
علامہ اقبالؔ کی شاعری اور آپ کے فکر کا تیسرا دور تھا جب ترکی میں سقوط خلافت کا سانحہ ہواتھا۔ ادھر ہندوستا ن میں مسلمان منتشر حالت میں اغیار کی سازشوں کے نرغے میںآگئے، چنانچہ اقبالؔ پکار اٹھے
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ ،اوروں کی عیاری بھی دیکھ
تاریخ کے اس کرب ناک موڑ پر علا مہ اقبال ؔ نے تنِ تنہاحالا ت کامردانہ وار مقابلہ کیا۔ملت کی بے حوصلگی اور پست ہمتی کو دور کرنے کی علامہ اقبالؔ نے بھرپور کوشش کی
اگر ملک ہاتھوں سے جا تا ہے جائے
تُو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی
دینی اور عصری علوم میں یکساں درک رکھنے والا آپ کے برابر کوئی دوسرا رہنما ملت کو سہارا دینے والا موجود نہیں تھا۔ حالانکہ اس وقت جید علماء تھے، مگر وہ جدید علوم سے نا آشناتھے، جبکہ دوسری طرف عصری علوم کے دانشور تھے ، مگر وہ قرآن وسنت سے بے بہرہ تھے۔ وہ مغرب سے یا تومرعوب تھے یا متأثر۔ ملت کو ذہنی غلامی سے آزاد کرانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ بلکہ غلامی کے احساس سے بھی وہ عاری ہو چکے تھے۔ علامہ نے نہایت دکھ بھرے انداز سے اس صورتحال کی تصویر کشی کی ہے۔
شاعر بھی ہیں پیدا ،علماء بھی، حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ !
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ !
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھادیں رمِ آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ !
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ !
بلکہ بعض عاقبت نا اندیش اور کج فہم لوگوں کی جرأت پر علامہ اقبالؔ نے یو ں چوٹ کی
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
پھر اس کجروی پر بھی نشتر چلاتے ہیں
اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنا یا مہ و پرویں کا امیر
تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جا تا ہے قوموں کا ضمیر
اسی طرح کہتے ہیں
ترے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
علامہ اقبالؔ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی مومنانہ بصیرت سے نوازا تھا، جس کا آپ کو بجا طور پر احساس تھا
جو بات حق ہو وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدانے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر
آپ چونکہ اسلام اور مغرب کا گہرا مطالعہ کرچکے تھے، دونوں معاشروں کا قریب سے مشاہدہ بھی کیا تھا، تاریخ عالم پر اچھی نظر تھی، صحیح ڈھنگ سے حالات کا جائزہ لیا، نبض پہچانا اور نسخۂ کیمیا دے دیا،اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں
میں نہ عارف، نہ مجدد، نہ محدث ، نہ فقیہ
مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہا ں مگر عالمِ اسلام پہ رکھتا ہوں نظر
فاش ہے مجھ پر ضمیرفلکِ نیلی فام
آپ کے مطابق مغرب سے مرعوبیت اور سحرآلودگی عالم اسلام کا بہت بڑاالمیہ تھا ۔ آپ نے مغرب کا کچا چھٹا نکال کر رکھ دیا،اور اس کی ملمع کاری بے نقاب کردی
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کا ری ہے
اسی طرح ایک جگہ کہتے ہیں
کارگاہِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو
ایک جگہ کہتے ہیں
اقبالؔ کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیرِ کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
اسی طرح
یہ عیش فرواں ، یہ حکومت، یہ تجارت
دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادئ ایمن نہیں شایانِ تجلی
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیبِ جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی
اسی طرح
کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟
مرد بیکار و زن تہی آغوش
اسی طرح
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتو حات؟
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہے محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
اسی طرح
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
زندہ کرسکتی ہے ایران و عرب کو کیوں کر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اسی طرح
دیارِ مغرب کے رہنے والوخدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
ملت اسلامیہ کو جس مہلک بیماری نے بری طرح کمزور کردیاوہ تھی وطنی قومیت ۔ اچھے خاصے دیندار ، پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کو یہ روگ لگ گیا تھا۔ عرب وعجم کے جھگڑوں نے مسلم دنیا میں خون کی ندیا ں بہا دیں، ملت کے جسد واحد کے پرخچے اڑ گئے۔علامہ اقبال ؔ نے ڈٹ کر اس بد دماغی کا مقابلہ کیا
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز
ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے توکہ تیرا دل نہیں دانائے راز
آپ نے وطن پر ستی کے بت پر اس طرح کاری ضر ب لگائی
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے ، جم اور
ساقی نے بنائی روش لطف وستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
آپ نے فرزندانِ توحید کو سمجھا یا
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہو تا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
ملت اسلامیہ کی اصل حیثیت اور وطن کی حقیقت کو سمجھایا
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اسی طرح کہتے ہیں
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنا یا
بِنا ہمارے حصارِ ملت کے اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ
نمود ہر شئے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
آپ نے وحدت ملی کا شعور بیدار کیا
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
آپ نے بڑے درد سے بیان کیاکہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اس سے فارغ ہوئے توآپ نے ملت کی کمزوریوں کی جڑ پر توجہ کی۔تصور دین ہی میں کجی آگئی۔دین و دنیا کی تقسیم در آئی۔عافیت پسندی، گوشہ نشینی ، تسبیح و مراقبے نے جد و جہد اور جہاد کی جگہ لے لی تھی۔عزیمت کے بجائے رخصت کی راہ اور اس پر تقدیر کا بہانہ آگیا تھا۔اپنی تاریخ سے بیگانگی نے خود فراموشی اور خدا فراموشی میں مبتلا کردیا تھا، علا مہ نے پر سوز انداز سے جھنجوڑا
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
یا وسعت افلاک پہ تکبیرِمسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و منا جات
وہ مذہبِ مرد انِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا جمادات و نباتات
دین بیزاری اور بے اعتنائی پر آپ نے اس طرح خبردار فرمایا
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نو میدی!
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں!
بڑے درد سے آپ نے کہا
یہ بند گی خدائی، وہ بندگی گدائی
یا بندۂ خدا بن ، یا بندۂ زمانہ
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
حقیقی اسلامی شعور کے بغیر نہ مسلماں خدا کو پہچان پاتاہے نہ اپنے آپ کو، چنانچہ فرما یا۔
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے فقط ایک مسئلہ علم وکلام
روشن اس ضوسے اگر ظلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
جب ایمان دل سے رخصت ہو جائے، عرفان الہی سے مومن محروم ہو جائے، تو گویا وہ زندگی سے ہی محروم ہے۔ وہ بے روح بدن کے مانند ہے، جس کی نہ دنیا میں کوئی حیثیت اور نہ خدا کے نزدیک اس کا کوئی مقام
تیرا تن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نا رسا ہے
تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
بے روح عبادتوں کو دیکھ کر کہتے ہیں
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
علامہ نے بتا یا کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہی مسلمانوں کی دنیا و آخر ت کی کامیابی کا انحصار ہے۔ تقدیر کا مطلب ہاتھ پر ہا تھ دھرے مشیت ایزدی کا انتظار نہیں بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں جہد مسلسل ہے
پابندئ تقدیر کہ پابندئ احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مردِ خرد مند
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ابھی خورسند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الہی کا ہے پابند
اسی طرح کہتے ہیں
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
علامہ کی نظر میں ایسی ایک مضبوط اجتماعیت ناگزیر ہے جس کے ا فراد
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
آپ کا تجزیہ یہ بتا تا ہے کہ ایمان اور اخلاق و کردار کی قوت کے ساتھ عالم اسلام کے لئے سیاسی و عسکری قوت ناگزیر ہے
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا ؟
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
علامہ کہتے ہیں کہ آج بھی دنیا کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام کی سخت ضرورت ہے۔ اور زمانہ کے انہی تقاضوں سے مغرب خوف زدہ ہے کہ کہیں دنیا دوبارہ اسلام کی آغوش میں نہ چلی جائے، علامہ اقبالؔ نے ابلیس کی زباں سے کہلوایا ہے
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مغرب کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقا ضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر، آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ زن ، مرد آزما مر د آفریں
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لئے
نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بنا تا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
علامہ اقبالؔ ؒ کے فکر سے بلا شبہہ امت مسلمہ کے اندر ایک بیداری پیدا ہوئی۔ جذبہ عمل پیدا ہوا۔ لوگ حرکت میں آئے۔ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقہ پوری طرح الحاد اور بے دینی کی طرف جانے سے بچ گیا۔جو کچھ ہوا بر صغیر ہند و پاک تک ہوا۔ بہت بعد میں ایران میں علامہ کے کلام کے اثرات رو نما ہوئے۔ لیکن بقیہ عالم اسلام پر علامہ اقبالؔ کے فکر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔
آج عالم اسلام پر جب نظر ڈالتے ہیں تو علامہ کے فکر اور اس کے مطابق منظم اور منصو بہ بند کوششوں کی شدید ضرورت محسوس ہو تی ہے۔پورا مشرقِ وسطیٰ بری طرح مجروح ہے۔ سواسو کروڑ کی تعداد میں بسنے والی یہ امت جس کے پاس آزاد ملکو ں کی تعداد 60؍ کے قریب ہے، اور دنیا کی دولت اور خزانے اللہ نے وافر مقدار میں اسے عطا کئے ہیں، لیکن خس وخاشاک کے مانند ہو کر رہ گئی ہے۔علمی اور فکری اعتبار سے ایک شاندار تاریخ اور بہترین مواد کی حامل یہ قوم اپنے پاس عصائے موسیٰ رکھ کر رسیوں سے خوف کھا رہی ہے۔
بلاشبہہ ہر ملک میں اب تجدید و احیاء دین کی کوششیں چل رہی ہیں، خود ہندوستا ن میں بھی یہ کام ہو رہا ہے،تاہم ان کو منظم اور موثر بننے میں وقت لگ سکتاہے ۔ہم میں سے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری سمجھنا اور ادا کرنا چاہئے
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقد ر کا ستارہ
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کا فی ہے اشارہ
علامہ اقبالؔ کی یہ درد مند دعا دہرانے کی ضرورت ہے، خدا کرے کہ قبولیت کا شرف بھی حاصل ہو۔ آمین!
یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادئ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوق تماشا دے، پھر ذوقِ تقا ضا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورش محشر کر
اس محمل خا لی کو پھر شاہد لیلا دے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرما دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریا کر
خود دارئ ساحل دے، آزادئ دریا دے
احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے
آمین! ثم آمین!
محمد اطہر اللہ شریف، امیرحلقہ جماعت اسلامی ہند،کرناٹک
عالم اسلام کا موجودہ بحران اور فکر اقبال کی اہمیت
علامہ اقبالؔ ؒ کے نام سے منسوب اس جلسہ میں تاریخوں کا – تاریخ کا نہیں – عجب اتفاق ہے۔ اسی ماہ یعنی نومبر کی 9؍ تاریخ کو 136؍ سال قبل علامہ اقبالؔ پیدا ہوئے تھے، اور محرم کی 10؍…