ناانصافی اور ظلم وزیادتی انسانی سماج کی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔ ہر دور میں طاقتور گروہ نے کمزوروں پر اپنے سماجی، سیاسی، معاشی اورنفسیاتی غلبہ کے لیے کوشش کی ہے۔ اس عمومی رویہ کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بالکل عیاں ہے کہ ظلم وستم اور ناانصافی کی میعاد بہت طویل نہیں ہوتی ہے۔ ظلم کرنا ظالم کی فطرت ہے تو اس پر قدغن لگانا مظلوموں کے رویے پر منحصر ہے۔ ظالم کی جانب سے سنائی جانے والی داستانِ الم کا مقصد خوف و ہراس کی فضا قائم کرنا ہوتا ہے تو مظلوموں کی جانب سے سنائی جانے والی داستانِ الم میں اتحاد، حوصلہ، خواب، یقین اور حکمت عملی بنانے کی صلاحیت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ظالموں کی کہانیوں میں پروپگنڈا، جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا جاتا ہے تو مظلومین کی کہانیوں میں حقیقت، شفافیت اور روشنی چھپی ہوتی ہے۔ کہانی ایک ہے، کہانی بیان کرنے والے مختلف ہیں اور کہانی کے اثرات و نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہے، البتہ ایک چیز جو مسلّم ہے وہ ہے کہانی کا رقم کیا جانا۔ مستقبل کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کہانی رقم کرنے والا ظالم ہو تو ظلم واستبداد کا دور طویل ہوتا جائے گا، مظلوم ہی اصل قصور وار ٹھہرایا جائے گا اور اگر کہانی رقم کرنے والے خود مظلومین ہیں تو ظالم کا کردار، ظلم کی شدت اور حقیقت سامنے آئے گی، اور امن و امان کی راہ کا آغاز یہیں سے ہوگا۔
ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل کے لیے ظلم کا خاتمہ اور عدل کا قیام بنیادی اساس ہے۔ عدل کے قیام اور ظلم کے خاتمے کے لیے ان واقعات کو رقم کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ ماضی کے واقعات جو دستاویزی شکل میں محفوظ نہ ہوں وہ لوگوں کی یادداشت سے غائب ہوجاتے ہیں۔ سماج اور ادارے انہی واقعات کو حقیقی مانتے ہیں جن واقعات کے دستاویزی ثبوت فراہم کیے جاسکیں۔ دستاویزات(ڈاکومنٹیشن) کے ذریعہ نہ صرف حقیقی تصویر پیش کرنا ممکن ہوتا ہے بلکہ عدل وانصاف قائم کرنے اور خود کو بااختیار بنانے کا راستہ بھی یہی ہے۔ جب ایک معاشرے میں ہر سطح پر افراد کو امتیازی سلوک اور ناانصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کی قدر اور وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ان سنگین چیلنجز کے درمیان ایک طاقتور ہتھیار دستاویز سازی ہے۔ امتیازی سلوک کے واقعات کو ریکارڈ کرنے کا عمل صرف گواہی اور شہادتیں پیش کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ یہ تبدیلی کا محرک ہے۔ مصیبت زدہ لوگوں کے لیے یہ عمل امید کی کرن ہے۔ اس سنجیدہ اور صبر آزما عمل کے ذریعہ اپنا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ الگ الگ ہونے والے واقعات وتجربات کو ایک اجتماعی آواز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ دستاویزات اپنے حقوق کا مطالبہ اور اہل اقتدار کو جواب دہ بنانے کا اہم ذریعہ ہیں۔
1950ء اور 1960ء کی دہائی کے دوران امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کو منظم بھید بھاؤ اور علیحدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ تصاویر، خبروں کے کوریج اور شہادتوں جیسی دستاویزی کوششوں کے ذریعے شہری حقوق کی تحریک نے زور پکڑا۔ مونٹگمری بس بائیکاٹ، واشنگٹن پر مارچ اور الاباما کے شہر سیلما میں پرامن مظاہرین پر وحشیانہ کریک ڈاؤن جیسے واقعات کو بڑے پیمانے پر دستاویزی شکل دی گئی۔ جس کے نتیجہ میں اس تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ بالآخر، ان کوششوں کے نتیجے میں شہری حقوق ایکٹ 1964ء اور ووٹنگ رائٹس ایکٹ 1965ء تشکیل پائے۔ جنوبی افریقہ میں 1995ء میں قائم، ٹی آر سی (Truth and Reconciliation Commission)کا مقصد نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینا تھا۔ اس کمیشن نے متاثرین کو اپنے تجربات کو شئیر کرنے اور انصاف کے حصول کی جدوجہد کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ ظلم و زیادتی کی ان دستاویزات نے نہ صرف نسلی امتیاز کی ہولناکیوں کو بے نقاب کیا بلکہ معاشرہ کے نفسیاتی علاج اور امن کا ذریعہ بنیں۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود، ایل جی بی ٹی کیو + افراد کی کوششیں اس ضمن میں مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ جنہوں نے 1969ء میں اسٹون وال اِن میں پولیس کی کارروائیوں کے خلاف لڑائی لڑی۔ اگرچہ اس واقعے کی دستاویزات محدود تھیں، لیکن بعد میں ذاتی کہانیوں، مضامین اور دستاویزی فلموں سمیت ایل جی بی ٹی کیو+ کمیونٹی کے تجربات اور تحریک کو دستاویزی شکل دینے کی کوششوں نے جدید ایل جی بی ٹی کیو+ حقوق کی تحریک کو آج ایک سرگرم ترین تحریک بنا دیا، جس نے بری طرح سے معاشرتی اصولوں کو چیلنج کیا۔
ہندوستانی سماج میں بھید بھاؤ اور ظلم و زیادتی اپنی مذہبی و فلسفیانہ بنیادوں کے ساتھ جڑ پکڑے ہوئے ہے۔ یہاں دلتوں کے خلاف ظلم وستم کی تاریخ صدیوں سے جاری ہے اور منظم ادارہ جاتی سطح پر قائم ہے۔ جس کی جڑیں ذات پات کے نظام سے جڑتی ہیں۔ قدیم زمانے سے لے کر برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی اور اس سے آگے تک دلتوں کو امتیازی سلوک، تشدد اور سماجی اخراج کا سامنا کرنا پڑا۔ دلتوں پر ہونے والے مظالم کی دستاویزات منظم ناانصافیوں کو بے نقاب کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک موثر ہتھیار کے طور پر کام کرتی ہیں۔ تشدد، امتیازی سلوک اور سماجی بائیکاٹ جیسے واقعات کی باریک بیں ریکارڈنگ کے ذریعے دلتوں کے استحصال کی شدت کو پیش کرتے ہوئے آزاد ہندوستان میں ایس سی ایس ٹی ایکٹ بنایا گیا۔ عالمی سطح پر یہودیوں نے اپنی معمولی تعداد کے باوجود ڈوکومنٹیشن کے بل پر اپنی اہمیت منوائی۔ ہولو کاسٹ جیسے سنگین قتل عام کے بعد ’نیومبرگ ٹرائل‘ ہوئی جس میں یہودیوں نے تین ہزار ٹن آرکائیوز کے ذریعہ اپنے اوپر ہورہے ظلم وستم کو پیش کیا۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے عالمی سطح پر ایسے قوانین بنائے گئے جو انہیں تحفظ فراہم کرسکیں۔
آج خصوصا 9/11 کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور نفرت انگیز واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا، افریقہ، افغانستان، عراق، یمن، شام اور دوسرے مسلم اکثریتی ممالک میں قتل کیے گئے مسلمانوں کی تعداد بے شمار ہے۔ یورپ میں اسلاموفوبیا سے متاثرین کی تعداد بھی بہت ہے۔ سنگین بات یہ ہے کہ اعداد و شمار کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں کی ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم، دنیا مانتی ہے کہ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والے تشدد اور عدم استحکام کا ایک سنگین خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا ہے۔ لیکن دنیا کا محض ماننا اور ان مظالم کو تسلیم کرکے تحفظ فراہم کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
البتہ ماضی قریب میں ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر مسلمانوں پر ہورہے امتیازی سلوک کے متعلق ڈاکیومنٹیشن کی مثالیں ملتی ہیں۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) جیسی تنظیموں نے امریکہ میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو دستاویزی شکل دینے اور رپورٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سی اے آئی آر مسلم مخالف واقعات پر سالانہ رپورٹ شائع کرتا ہے، جس میں ملک بھر میں مسلمانوں کو درپیش نفرت انگیز جرائم، امتیازی سلوک اور ہراسانی کے اعداد و شمار مرتب کرتا ہے۔ یہ رپورٹیں بیداری پیدا کرنے، پالیسی کی سطح پر تبدیلیوں کی نشاندہی اور متاثرہ افراد کو مدد فراہم کرنے کا کام کرتی ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ میں سرکاری ایجنسیوں نے مسلمانوں کی نگرانی شروع کردی۔ تحقیقاتی صحافت اور دستاویزی فلموں جیسے “The Newburg Sting” نے مساجد، کمیونٹی سنٹرز اور افراد کی سرکاری نگرانی کے واقعات کو بے نقاب کیا ہے اور قومی سلامتی اور انفرادی حقوق کے درمیان توازن پر بحث کا آغاز کیا۔ برطانیہ میں Tell MAMA (Measuring Anti-Muslim Attacks) اور امریکہ میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں Bridge Initiative جیسی تنظیمیں دستاویز سازی کے ذریعہ رواداری کے فروغ کی وکالت کرتی ہیں۔
آج ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات کا اپنی انتہا کو پہنچ جانا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ماب لنچنگ، امتیازی سلوک، ادارہ جاتی سطح پر بھید بھاؤ، ہیٹ کرائمس، سیاسی، سماجی ومعاشی بائیکاٹ اور مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر معذور بنا دینے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ مسلمانوں کو ہر جگہ خوفناک دشمن بنا کر پیش کیا جانے لگا، ان کی شبیہ دہشت گرد قوم کی بنا دی گئی۔ ملک میں مسلمانوں کےساتھ جو امتیازی سلوک برتا جارہا ہے، اسے تسلیم تو پوری دنیا کرتی ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس قدر نازک حالات تک پہنچ جانے کے باوجود آج بھی کسی ملی تنظیم، گروہ یا فرد کے ذریعہ ان حالات کا منظم طور پر نوٹس نہیں لیا جارہا ہے۔ کتنے واقعات ہیں جو نہ رپورٹ کیے گئے نہ ان پر کسی کی جوابدہی قائم کی گئی۔ ان واقعات کی منظم دستاویز سازی کے ذریعہ ایڈوکیسی کے راستے سے اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ، تو بہت دور کی بات ہے۔
حالانکہ ماضی میں مسلمانوں میں دستاویزات تیار کرنے کی شاندار روایت رہی ہے۔ پوری تاریخ میں مسلم اسکالرز نے واقعات، حکمرانوں اور معاشرتی ترقیوں کو دستاویزی شکل دی۔ مثال کے طور پر ابن خلدون کی کتاب “مقدمہ” جو تاریخ، سیاست اور معاشروں کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔ ابن بطوطہ کا سفرنامہ، جو تاریخی واقعات اور مختلف ادوار میں مسلم معاشروں کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی حرکیات کو سمجھنے کے قیمتی ذریعہ کے طور پر موجود ہے۔ مسلم تہذیب فکری اور علمی وادبی کوششوں کا مرکز رہی ہے جس کے نتیجے میں لائبریریوں اور آرکائیوز میں بے شمار مخطوطات اور متون محفوظ ہیں۔ مثلا مغربی افریقہ میں تِمبَکتو کی لائبریریاں شامل ہیں، جہاں فلکیات سے لے کر شاعری تک کے موضوعات پر ہزاروں مخطوطات موجود ہیں، اور قرون وسطی کے مسلم اسکالرز جیسے اندلس کے ابن رشد اور بغداد کے ابن سینا کی لائبریریاں شامل ہیں۔ یہ نسخے فلسفہ، سائنس، طب، سماجیات، سیاسیات اور الہیات سمیت علم کے مختلف شعبوں کے انمول ذرائع تھے۔ وہ گروہ جس نے دنیا کی علمی و فکری قیادت کرتے ہوئے دستاویز سازی کا کام انتہائی توجہ اور خوش اسلوبی سے انجام دیا آج اپنی ہی کہانی کو دستاویزی شکل دینے میں سست رفتاری کا شکار ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ڈاکومنٹیشن کی کمی سے پوری طرح مسلمان غافل ہیں بلکہ یہ کوششیں مختلف سطحوں پر جاری ہیں، البتہ ان کوششوں کو منظم اور تیز رفتار کرنے کی اجتماعی کوششوں سے یکسر غفلت برتی جارہی ہے۔
کچھ لوگ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ امتیازی سلوک اور ظلم کے واقعات کے بیان سے صرف مظلومیت کے جذبات کو تقویت ملے گی اور متاثرہ افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ یہ دعویٰ بیانیہ سازی میں موجود طاقت کو نہ پہچاننے کا نتیجہ ہے۔ جب ہم اپنے تجربات کو دستاویزی شکل دیتے ہیں تو ہم تبدیلی کے دعویدار بن جاتے ہیں اور امتیازی سلوک وناانصافی کی جدوجہد میں مضبوط کردار ادا کرتے ہیں۔ دستاویزات کے ذریعے ہم نہ صرف اپنے لیے انصاف چاہتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے زیادہ منصفانہ اور روادار معاشرے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ظلم و ستم کے واقعات کو نظر انداز کرنا یا حقیقت سے منھ موڑنا ایک خطرناک جرم ہے۔ اس غیر حقیقی رویہ سے حالات سنگین تر ہوتے جائیں گے۔ دانش وحکمت کا تقاضا یہ ہے کہ بیدار ذہن کے ساتھ وژن اورینٹڈ اقدامات کیے جائیں۔
دستاویز سازی کا ایک اہم مقصد قانونی چارہ جوئی اور قانون سازی کے ذریعہ تحفظ کی فراہمی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ہجومی تشدد کے واقعات کی بڑی تعداد، بشمول لنچنگ کے واقعات، ان کی روک تھام اور ان کو جرم قرار دینے کے لیے ایک قانونی فریم ورک تیار کرنے کا سبب بنے ہیں۔ یہ فریم ورک تحسین پونا والا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مبنی ہے، اور اس کا اثر مغربی بنگال، راجستھان اور جھارکھنڈ سمیت ہجومی تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ریاستی اسمبلیوں کے ذریعہ منظور کردہ متعدد قوانین میں نظر آتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سزاؤں میں شدت کے ساتھ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے پولیس اور انتظامی عہدیداروں کے لیے خصوصی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں تاکہ اس مسئلہ سے نمٹا جاسکے۔ تاہم، اسے محض امن و امان کے مسئلے تک محدود کردیا گیا ہے۔ نتیجتاً، بلا روک ٹوک نفرت انگیز بیانات و تقاریر، اشتعال انگیزی اور نفرت پر مبنی جرائم کے اثرات کو سمجھنے میں اور اس سے مقابلہ کرنے میں ناکامی ہاتھ آ رہی ہے۔ مثلاً متعدد ریاستوں کی جانب سے ہجومی تشدد کی روک تھام اور اس پر مقدمہ چلانے کے لیے نوڈل افسروں کی تقرری کے باوجود ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
موجودہ فریم ورک کی ناکامیوں کے ذریعہ اس حقیقت کو قانونی طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ ہجومی تشدد کے واقعات میں زیادہ تر مخصوص شناختوں اور پسماندہ گروہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ذات پات کی بنیاد پر اقلیتوں کو ایس سی/ ایس ٹی ایکٹ کے تحت ایک خاص تحفظ حاصل ہے، لیکن مذہبی اقلیتوں کو ایسا کوئی تحفظ نہیں دیا گیا۔ مذہبی اقلیتوں کو ایک محفوظ زمرے کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے پہلے سے ہی ایک آئینی بنیاد موجود ہے اور ساتھ ہی قومی اقلیتی کمیشن کے تحت ایک قانونی فریم ورک بھی موجود ہے۔ تاہم، کمیشن کے اختیارات اور ڈھانچہ، جیسا کہ اس وقت موجود ہے، اور ساتھ ہی مذہبی اقلیتوں کو جن مخصوص جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے سلسلہ میں قانونی فریم ورک کا فقدان پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مخصوص قانون سازی کی تجویز پیش کرتے ہیں جو امتیازی سلوک، نفرت انگیز تقاریر اور تشدد سے متعلق مسائل سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اس محدودیت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کسی خاص کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناانصافی کو دور کرنے کے لیے قانون سازی بلا شبہ ایک لازمی قدم ہے، لیکن یہ اپنے آپ میں کافی نہیں ہے۔ اگرچہ قوانین امتیازی سلوک اور ناانصافی سے نمٹنے کے لیے ایک قانونی فریم ورک فراہم کرتے ہیں، لیکن ان کی تاثیر اور ان کا موثر نفاذ اداروں کی شفاف کوششوں، معاشرتی رویوں اور اتحاد واتفاق پر منحصر ہے۔ امتیازی سلوک کی مثالوں کو ریکارڈ کرکے اور ان کی تشہیر کے ذریعہ پالیسی کی سطح پر تبدیلی، متاثرہ افراد کی مدد، ان میں بیداری اور کے سلسلہ میں قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ ایک منصفانہ معاشرے کی تشکیل کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
ظلم و ناانصافی کے خلاف دستاویز سازی اور قانونی فریم ورک
ناانصافی اور ظلم وزیادتی انسانی سماج کی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔ ہر دور میں طاقتور گروہ نے کمزوروں پر اپنے سماجی، سیاسی، معاشی اورنفسیاتی غلبہ کے لیے کوشش کی ہے۔ اس عمومی رویہ کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی…