صبورا حورین
ظلم، بربریت، فساد، فتنوں، مکاری عیش پرستی، نا انصافی ‘دھوکا’جھوٹ’ بد عنوانی، مادہ پرستی، بے حیائی، بے ایمانی، حسد، بغض، ہر وہ گناہ جو ممکن ہے ظلمت سے تعبیر کیا گیا ہے.
جب سے دنیا بنی تب ہی سے اچھا اور برای دو طاقتیں تختہ زمین پر موجود ہیں، اور قیامت تک موجود رہینگی- برائ کو ظلمت اور اچھائ کو نور کہا گیا.
برسوں سے قتل و غارت گری، غنڈاگردی، لوگوں کے حق مارے جانا’ظلم و ستم زیادتیاں کرنا، وغیرہ چلے آ رہے ہیں..آپ صل اللہ علیہ و سلم کے دور سے پہلے سخت ظلم پھیلا ہوا تھا.. جسے دورجہالت سے تعبیر کیا جاتا ہے. ہر انسان فساد اور فتنے میں ملوس’شراب پینا عام تھا..ظلم وجبر’ہوتا لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے.. اور عورتوں پر سخت ظلم ہوتا.. اور سخت برائیاں پھیل چکی تھی..
تب آپ صل اللہ علیہ و سلم تشریف لاۓ اور وقت کو بدل ڈالا.. جہالت کے ورق کو پھاڑ دیا گیا..اور امن ہر طرف چھانے لگا
اس کے بعد یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر اللہ نے ڈال دی.آنے والی ہر ظلمت اب ہم پر یعنی امت مسلمہ پر ہے.. جس سے ہمیں یک جٹ ہو کر لڑنا ہوگا.
شاید وقت نے اپنے آپ کو پھر بدل ڈالا اور آج پھر وہی ظلم پلٹ رہا ہے.
١:-برماں :مسلمانوں پر ظلم
٢:-فلسطین:مسلمانوں پر
٣:-شام:مسلمان پر ظلم
٤:-امریکہ:کالے لوگوں پر ظلم
٥:-چینا کے یوگھر مسلمان جہاں نماز پر پابندی، مسجدوں کو نا آنے دینا وغیرہ. کو سہ رہے ہیں. وہ ظلم جو سہا نہیں جا سکتا. یوگھر پر کیۓ جا رہے ہیں..
٦:- ہندوستان :-مسلمانوں پر ظلم…عورتوں پر ظلم، شہریوں پر ظلم..
ایسے ظلم جو بیان نہیں کیا جا سکتا..دنیا میں کیۓ جا رہے ہیں…
لیکن “ظلم کو سہنا ظلم کرنے کے برابر ہے” اگر ظلم ہو رہا ہے تو چپ چاپ سہنا بھی ظلم ہے.. اگر ظلم کے خلاف نہیں اٹھے تو ہم نے ظلم کیا..
اگر سماج میں ظلم جیسے، برائی، ناانصافی،لڑائ جھگڑے، ہو رہے ہے.. اور ہم سہتے گۓ تو ہم نے ظلم کیا.
ہر دور میں جب ظلم ہوا تو ظلم کو مٹانے چراغ جلے ہاں ان چراغوں سے شمع تو جلی.. لیکن ظلمت نے اس شمع کو بجھا دیا. اس لیے وقت کے ظلم کے ساتھ لڑنے کے لۓ صرف چراغ نہیں بلکہ سورج کا طلوع ہونا ضروری ہے.. یعنی ظلم کو ختم ہونے کے لیے پوری قوم کا اٹھنا انقلاب برپا کرنے کے مانند ہوگا.
اگر ہم ظلم سہتے گے تو مظلوم بڑھتے جائیں گے اور فساد ہوتا رہے گا. اور ہم بھی خود ظالم کہلایئں گے…
بے شک راہ تو دشوار ہو گی لیکن کہتے ہیں نا کہ
“راہ کی دشواریاں منزل کے قیمتی ہونے کی علامت ہوتی ہے”
شیخ سعدی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ!
میں زندگی میں دو انسانوں کو تلاش کرنے پر بھی تلاش نہیں کر سکا.
١:-پہلا وہ جس نے خدا کی راہ میں دیا ہو اور غریب ہو گیا ہو.
٢:-دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور خدا کی پکڑ سے پچ گیا ہو.
ہر زمانے نے ظلمت کی شب دیکھی ہے اور اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہی ہے. ہم ہماری مسندوں پر ایک ان پڑھ جاہل شخص کو بٹھا دیتے ہیں اور فیصلہ اس پر چھوڑ دیتے ہیں تو آپ سوچیں کے ہم کتنے بڑے ظالم ہے. اور ہم نے کتنا بڑا ظلم کیا۔
آج اگر ہم باہر نکلتے ہیں تو سمجھ آتا ہے دھوکا دھاڑی کس بلا کا نام ہے۔اگر ہم دھو کا کھاتےہوئے بھی چپ رہے تو ہم نے ظلم کیا۔
اگر ہم اپنے کام کے لیے رشوت دیتے ہیں تو ہم نے ظلم کیا۔
اگر ہم مہنگائی پر انگلی نہیں اٹھاتے تو ہم نے ظلم کیا۔
اگر ہم سماج کے بے جا رسومات کو دیکھ کر بھی ان دیکھا کرتے ہیں تب بھی ہم نے ظلم کیا۔
“حضرت امام حسین رضی یااللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ظالموں کےساتھ زندہ رہنا خود ایک ظلم ہے”
۲:-ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے اتنی قربانیاں دینی پڑھے گی۔
اگے بڑھو اور لڑؤ۔
اگر ایک نئ صبح کے منتظر ہو تو ظلم کومٹاؤ۔
قوموں کے زوال کی وجہ ظلم کے خلاف دبے رہنا ہے۔قرآن ظلم کے خلاف لڑنے کا حکم دیتا ہے۔
ظلمت کے راستے تو بڑے ہے مشکل،
ان کو پار کرنا ہے صبر سے۔
ظلم کبھی ٹکا نہیں ہے۔
حضرت نوح علیہ سلام نے فرمایا کے “ظلم اور غرور کی سزا دنیا میں ضرور ملتی ہے۔
شیخ علامہ اقبال رحمۃ علیہ کہتے ہیں کہ!
اس دور کی ظلمت ہیں ہر قلب پریشاں کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرماں دے.