غزہ میں جنگ بندی کا اعلان بلاشبہ حالیہ اسرائیلی ظلم و جبر کے درمیان ایک اہم مرحلہ ہے۔ ہم تمام لوگ جنہوں نے اس نسل کشی کا مشاہدہ کیا ہے یا اس کو دور سے دیکھا ہے، شدت کرب سے نڈھال ہوگئے ہیں اور دور سے اس کے لئے اپنی سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ یہ جنگ بندی ہمیں موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم گزرے ہوئے 15 مہینوں پر غور کریں۔مثلاً اس مقام تک پہنچنے کے لئے کیا کچھ ادا کرنا پڑا؟ کیا کامیابیاں ملیں؟ کیا نقصان ہوا؟ فلسطینی کاز کہاں ہے؟ اسلامی ممالک، بشمول عرب ممالک نے اس میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ اس کے نتیجے میں کیا کچھ تبدیلیاں اور اثرات مرتب ہوئے وغیرہ جیسے سوالات تجزیے کے طالب ہیں ۔سردست اس مضمون میں ہم بنیادی طور پر اسلامی ممالک کے موقف پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
اسلامی ممالک کے موقف اور کردار پر بحث سے پہلے عالمی نظام(سسٹم )کی بنیادی تفہیم ضروری محسوس ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس سسٹم کے بڑے کھلاڑیوں کے رول کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ انٹرنیشنل سسٹم کا مقامی معاملات پر اثر پڑتا ہے ،اسی طرح مقامی معاملات کا عالمی مسائل پر اثر پڑتا ہے۔ بین الاقوامی نظام کی اس تکوین کا یہ فہم بہت ضروری ہے۔ سیاسی دنیا ایک ہم مرکز دائرے (Concentric circle) کی طرح ہے جہاں پر کل اور جز باہم مربوط ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔
بین الاقوامی نظام (انٹرنیشنل آرڈر) یک قطبی (Uni-Polar)، دو قطبی (Bi-Polar) یا ،ہمہ قطبی (Multi-Polar) ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عالمی نظام میں یا تو ایک ہی سب سے طاقتور ملک ہوتا ہے جو عالمی قوانین اور مسائل کو حل کرنے میں سب سے کلیدی رول ادا کرتا ہے یا بہ یک وقت دو سب سے بڑی طاقتیں ہوتی ہیں یا کئی بڑی طاقتیں ہوتی ہیں۔ عالمی سیاست، عالمی قوانین یا عالمی مسائل کے سلسلے میں دنیا کے نظام کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سرد جنگ کا زمانہ (1945ء-1989ء) دو قطبی تھا، جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دنیا بٹی ہوئی تھی اور عالمی نظام کو دو متوازی طاقتور طاقتیں متاثر کرتی تھیں۔ اسی طرح سوویت یونین کے زوال کے بعد کا دور امریکہ کے تسلط اور یک قطبی عالمی نظام کا دور تسلیم کیا جاتا ہے جہاں عالمی نظم اجتماعی میں امریکہ کی برتری قائم ہوئی۔ لیکن پچھلی دہائی سے اس امریکی تسلط کو کچھ ابھرتی ہوئی سیاسی اور معاشی طاقتوں کا سامنا ہے۔ اس میں برکس (BRICS) ممالک خاص ہیں، جو عالمی نظام اور قوانین پر از سر نو غور کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اس میں چین اور ہندوستان جیسی معیشتوں کا رول اہم ہوجاتا ہے۔ اس وقت اگرچہ امریکہ کی طاقتور ترین حیثیت بہر حال قائم ہے لیکن دنیا کا نظام تیزی سے ہمہ قطبی رخ پر گامزن ہے۔ چین، ہندوستان وغیرہ کا عالمی اسٹیجز پر عالمی طاقت امریکہ کے مقابلے میں رولز کے از سر نو غور پر اصرار اور اس کو متاثر کرنے کی صلاحیت اس کا مظہر ہے۔
عالمی طاقتوں کا موقف
امریکہ، روس، چین، ہندوستان اور یورپی ممالک کا موقف
غزہ کی جنگ کے سلسلے میں امریکی موقف کیا ہے؟ ظاہر ہے امریکہ اسرائیل کا بہت ہی مضبوط حلیف ہے۔ دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے اسرائیل کی مدد امریکی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ اس پوری جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد بھی امریکی حکومت کی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جنگ کی شروعات کے وقت امریکہ نے اسرائیل کو غیر مشروط مدد کی یقین دہانی کرائی اور اس کے دفاع کے حق کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ جواز بھی فراہم کیا۔ ساتھ ہی امریکی حکومت نے اربوں روپئے مالی و عسکری محاذ پر اسرائیل کے لئے خرچ کئے۔ عالمی فورمز پر بھی امریکہ نے ہی اسرائیل کو ہمیشہ اپنی ویٹو پاورز کی طاقت سے معتوب ہونے سے بچائے رکھا۔
فلسطینی مسئلہ پر امریکہ ایک بڑے تضاد کا شکار ہے جس کا ذکر الن پاپے (Ilan Pappe) اور نوم چامسکی (Naom Chomsky) کی کتاب آن پیلسٹائن (On Palestine) میں بھی ہوا ہے۔ وہ یہ کہ فلسطینی کاز کے لئے کافی وقت سے امریکی عوام میں زبردست ہمدردی اور جوش خروش ہے۔ لیکن سیاسی اور معاشی اشرافیہ اسرائیل کے حق میں غیر متزلزل اور مستقل حمایتی پالیسی کی حامل ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں سوسائٹی میں فلسطینی کاز کو لے کر رائے عامہ مزید ہموار ہوئی ہے۔ امریکی کیمپسوں اور چوراہوں پر غیر معمولی یکجہتی کا مظاہرہ ہوا ہے، بی ڈی ایس تحریک کو خاصا فروغ ملا ہے۔ لیکن اس کے با وجود امریکی سیاسی اور معاشی اشرافیہ پر بہت زیادہ فرق نظر نہیں آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غالباً وہی ہے جسے مشہور ماہر سیاسیات جان میئر شائمر (John Mearsheimer) نے اپنی کتاب “یہودی لابی اور امریکی فارن پالیسی” میں ذکر کیا ہے۔ امریکی اشرافیہ صیہونی نظریہ کو صحیح سمجھتا ہے اور اس کو پوری قوت کے ساتھ سماج اور دنیا کے غالب اور صحیح نظریہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں مخالف بیانیہ پہلے کے مقابلے میں مضبوط ہوا ہے لیکن مستقبل قریب میں امریکہ کی اسرائیل اور فلسطین پالیسی میں بڑی تبدیلی آتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔
چین کا تعلق مڈل ایسٹ سے تیل کی درآمدات اور اپنی مصنوعات کی فروخت سے ہے۔ خطے میں مستقل امن چینی مفادات میں ہے۔ چین نے تاریخی طور پر اسرائیل فلسطین معاملے میں نیوٹرل رول اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن دی اٹلانٹک کے ایک تجزیہ کے مطابق اس غزہ جنگ کے موقع پر چین اپنے تاریخی موقف پر قائم نہیں رہ سکا اور طاقت کی کشمکش میں عالمی حریف ہونے کی حیثیت سے امریکی پوزیشن اس کی غزہ پالیسی پر اثر انداز ہوئی ہے۔ سعودی ایران مفاہمت اور مختلف فلسطینی گروپس کے درمیان مفاہمت کی کوششیں، ساتھ ہی ساتھ اکتوبر کے واقعے کی عدم تنقید اس چینی موقف کا واضح ثبوت ہے۔
ہندوستان تاریخی طور پر فلسطینی کاز کے لئے بڑا واضح موقف رکھتا تھا۔ ہندوستان کا وہ موقف، استعمار مخالف، آباد کاری مخالف، تیسری دنیا کے ساتھ ہمدردی جیسے مختلف عوامل کے ساتھ بہت سارے زمانی و مکانی ضرورتوں کے پیش نظر بھی تھا اور کچھ عالمی سسٹم، مغربی ایشیا میں ہندوستانی مفادات اور ہندوستانی قیادتوں کے مزاج کی وجہ سے بھی تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس جنگ کے موقع پر ہندوستانی موقف میں کوئی جوہری فرق نہیں آیا ہے بلکہ یہ پرانی غیر متصل /علیحدہ (De-Hyphenation) ہندوستانی پالیسی کا تسلسل ہے جہاں ہندوستان اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات علیحدہ طور پر رکھتا ہے اور فلسطینی کاز، دو ریاستی حل، امداد رسانی وغیرہ کی پالیسی پر کار بند ہے۔ پروفیسر سجاتا ایشوریہ نے بی بی سی کو دی گئی اپنی گفتگو میں یہی تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔
لیکن اس سلسلے میں ایک بہت دلچسپ کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب کا نام Hostile Homelands: The New Alliance Between India and Israel ہے اور اس کے مصنف آزاد عیسیٰ ہیں۔ اس میں دوسرے موقف کی ترجمانی ہے کہ اگرچہ ہندوستان اب تک فلسطینی مسئلے میں بظاہر دونوں طرف کے ساتھ اچھے تعلقات بحال کئے ہوئے ہے لیکن اس کے باجود بھی اس جنگ کے موقع پر ہندوستانی موقف اسرائیل سے بہت قریب رہا ہے۔ بعض ماہرین ہندتوا آئیڈیالوجی اور صیہونی نظریہ کے درمیان اسلاموفوبک تعلق کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستانی سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا نیریٹیوز، حکومتی بیانات اور اعلیٰ عہدیداران کی ٹویٹس وغیرہ کے تجزیہ سے یہ بات وضح ہوتی ہے اس جنگ کے موقع پر ہندوستان نے دہشت گردی اور اس طرح کے مسائل کو نمایاں کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ خصوصی ہمدردی کا بھی مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے ذریعے اسرائیل کو ہتھیار اور لیبر فورس فراہم کرنے کی بات بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے، کتاب میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹیجک تعلقات کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں یورپین یونین کے ممالک خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ امریکی سوسائٹی کی طرح یہاں بھی رائے عامہ بڑے پیمانے پر ہموار ہوئی ہے۔ بی ڈی ایس موومنٹ کو خاصا بڑھاوا ملا ہے لیکن حکومتی پالیسویں پر بڑا اثر نہیں ڈالا جا سکا۔ اس کے با وجود بھی اس پوری جنگ کے نتیجے میں سب سے زیادہ فلسطینی کاز کے لئے چیزیں یورپ سے ہی ہموار ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ آئرلینڈ اور اسپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ فرانس جیسے ملک نے ہتھیار بند کرنے کی بات کہی۔ اس طرح سے کئی اور یورپین ممالک میں مثبت تبدیلی کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔
علاقائی طاقتوں کا موقف
سعودی عرب، ترکیہ اور ایران
یہ تو رہی عالمی طاقتوں کی بات جو سیکورٹی کامپلکس میں بہر حال اس مربوط کل کو سب سے زیادہ متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ لیکن کسی خطے کے مسائل میں سب سے کلیدی رول اس خطے کی طاقتوں کا ہوتا ہے۔ وہ خطہ جس کو ہم مشرق وسطی ٰیا مغربی ایشیا کہتے ہیں، اس خطے میں چار سب سے اہم اور طاقتور ممالک ہیں: سعودی عرب، ترکی، ایران اور اسرائیل۔ اگر چہ تاریخی طور پر مصر کا رول اور حالیہ دنوں میں قطر جیسے ممالک کا رول بھی بہت اہم رہا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں شاید طاقت کی کشمکش میں مصر ایک مستقل فریق نہ ہوکر سعودی کی قیادت میں کام (Bandwagon) کرتا رہا ہے۔ قطر بھی بین سنی اختلافات میں عرب بہاریہ کے بعد ترکی کے ساتھ تحریکی حلقے کا سب سے خیر خواہ فریق بن کر ابھرا ہے اور اس نے اپنی ایک منفرد حیثیت کا لوہا منوایا ہے۔
سعودی عرب: مغربی ایشیا میں سعودی عرب کا رول سب سے اہم ہے۔ سعودی عرب دنیا کی اہم معیشتوں میں سے ہے۔ تیل کے عالمی بازار کا ایک اہم حصہ، دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز، دنیا کے سب سے مصروف اور اہم عالمی تجارات کی شاہراہ سے ملحق، اسٹریٹیجک جائے وقوع پر تین بر اعظموں کا سنگم ہونے کی وجہ سے خطے کی سیاست کا سب سے اہم کردار ہے۔ فلسطینی کاز کی سعودی عرب نے ہمیشہ حمایت کی ہے۔ دو ریاستی حل کے اپنے موقف اور اسرائیل کے 1967ء سے پہلے کی زمین پر جانے کا اعادہ کیا ہے، لیکن سعودی عرب بالآخر خطے میں امریکہ کا ایک اہم حلیف ہے۔ سیکورٹی کامپلکس کے آئیڈیا سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی ،سیکورٹی اور حکومت کا استحکام امریکی حمایت کا محتاج ہے۔ مزید یہ کہ 2011ء کے عوامی احتجاج کے بعد سے خاص طور پر سعودی عرب اپنے تخت کے استحکام کے حوالے سے مزید حساس ہوگیا ہے۔ جس کے نیتجے میں وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف کسی بھی قسم کی جدوجہد کو ناجائز، بغاوت اور انارکی خیال کرتا ہے۔ اسی تناظر میں وہ خطے کی تمام اخوانی اور ملحق تحریکات کو سیکیوریٹائز کر کے ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور ان کی سرکوبی کو اپنے استحکام کا خاص حصہ سمجھتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی حکومت کا وژن 2030ء معاشی اصلاحات اور بن سلمان کی قیادت میں کلچرل اصلاحات کی کوششیں بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ سعودی عرب مسلم امت کے سیاسی مسائل کے بجائے اپنے وطن اور قومیت پر زیادہ متوجہ ہے ساتھ ہی عالمی طور پر اپنی قوت ناعمہ (Soft Power) کے فروغ کے لئے ‘معتدل اسلام’ (Moderate Islam) کی تبلیغ کے لئے کوشاں ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی پرانی سخت گیر وہابی شبیہ کا ازالہ کرکے ایک جدید سعودی عرب کا نقشہ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فلسطینی کاز سے ہمدردی بس بیاناتی تنقید، امددادو تعاون تک محدود ہے۔ اس پالیسی میں موجودہ آل سعود قیادت میں مستقبل قریب میں کوئی خاص تبدیلی نظر آتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی ہے۔
ترکیہ: ترکیہ اور اسرائیل فلسطین مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ مغرب پرست کمال اتاترک کے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اول روز سے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ترکی کی حکومت رجب طیب اردگان کی قیادت میں عآق پارٹی کے پاس ہے۔ طیب اردوغان تاریخی طور پر ترکی میں اسلام پسندوں کے ہمنوا رہے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے میں اگر چہ ترکی کے تعلقات ابھی تک اسرائیل سے قائم ہیں لیکن بیانیہ (Narrative) کی سطح پر ترکیہ حکومت نے قابل قدر کوششیں کی ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی اسرائیل پر نسل کشی کے مقدمے کی ایک فریق کی حیثیت سے حمایت کی ہے۔ ترکیہ کی میڈیا خاص طور پر ٹی آر ٹی اور ڈیلی صباح وغیرہ نے صیہونی پروپیگنڈے کے مقابلے میں فلسطینی موقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ حماس اور عمومی مزاحمت کی قیادت ترکیہ پر نہ صرف اعتماد کرتی ہے بلکہ ان کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ ترکیہ عالمی فورمز، سرکاری بیانات اور میڈیا بیانیوں میں حماس اور مزاحمت کو نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ ہر لحاظ سے انہیں تقویت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
ترکیہ کی اسرائیل-فلسطین پالیسی میں بھی ایک تضاد ہے، وہ یہ کہ صدر اردوغان کے اسرائیل کے خلاف جارحانہ بیانات، سخت موقف، بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرنے اور عالمی فورمز تک مطعون کرنے کے بعد بھی ترکیہ آج بھی مختلف قسم کے سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں ترکیہ میں دیگر اسلام پسند گروپس صدر اردوغان کے ناقد ہیں اور فلسطینی مسئلے پر ان کے دوہرے رویہ پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں امریکی، یورپی اور اسرائیلی رسمی اور غیر رسمی اداروں کا تاثر یہ ہے کہ اسلام پسند رجب طیب ارغان کی قیادت میں ترکیہ دہشت گرد گروپ حماس کا نا صرف حامی ہے بلکہ انہیں ایک بڑا تعاون کرنے والا ملک ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ صدر اردوغان ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ لیکن ان کی اسلام پسندی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد مصر سے تمام تعلقات ختم کر لینا، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادتوں کے لئے ترکیہ کی سرزمین کھول دینا یہ سب ایسے اقدامات ہیں جن کے اگر چہ سیاسی مقاصد بھی ہیں لیکن اس کے پیچھے نظریہ اور اس کی قوت کا بھی دخل ہے۔
طیب اردوغان اسرائیل سے تاریخی تعلق کو ایک منٹ میں ختم کر لیں یہ کرنا آسان بھی نہیں محسوس ہوتا ہے، جبکہ ان کی حکومت کو زبردست معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کی سیکولر لابی پچھلے الیکشن مین ان کو تقریباً شکست دینے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر اداروں کا رول، ترکیہ کا تاریخی مزاج اور اس کا تسلسل، خطے اور عالمی نظم میں اس کا یورپین یونین، نیٹو اور امریکہ سے مربوط اور منحصر ہونا یہ کچھ ایسی وجوہات ہیں جو شاید ترکیہ کے لیے کوئی یک بیک بڑا فیصلہ لینے میں مانع ہیں۔ پھر بھی ہمارا خیال ہے کہ صدر اردوغان کی قیادت میں ترکیہ کی جدید تاریخ میں ترکیہ کی پالیسی فلسطینی قضیہ کے تئیں سب سے دو ٹوک ہے۔ حماس کی قیادت اور مزاحمت کارترکیہ کی اس پوزیشن کو شا ید بہت اچھے سے سمجھتے ہیں۔
ایران: ایران خطے میں محور مزاحمت کو قیادت فراہم کرنے والا ملک ہے۔ خطے کی سیاسی اور جغ سیاسی (Geopolitical) ماحول میں ایران امریکہ اور امریکہ حلیفوں کے درمیان واضح معاندانہ تعلقات جگ ظاہر ہیں۔ 7/ اکتوبر کے بعد کی اس پوری جدوجہد میں ایران نے مزاحمت کی بڑی مدد کی ہے، حزب اللہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف براہ راست اس جنگ کا حصہ بنا ہے۔ لیکن اس جنگ کے ختم ہوتے ہوتے شام میں بشار کے زوال،حزب اللہ کی پسپائی اور اپنے داخلی معاملات کی وجہ سے ایران اس وقت خطے میں کسی بڑے کردار کو ادا کرنے سے قاصر محسوس ہو رہاہے۔
حماس کے ساتھ ایران کے تعلقات یا فلسطینی قضیہ کی حمایت فکری نہ ہوکر اسٹریٹیجک بنیادوں پر محسوس ہوتی ہے۔ مشہور اسکالر مختار شنقیطی کے مطابق حماس اور ایران کا تعلق فکری بنیادوں پر کم جبکہ اسٹریٹیجک بنیادوں پر زیادہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شام کے معاملے میں حماس، ایرانی محور مزاحمت سے دستبردار ہوگیا تھا۔ شنقیطی کے مطابق ایک نیوکلئیر ایران، فلسطینی کاز کے لئے ایسے سرگرم نہیں رہے گا جیسے ابھی ہے اور اس کے بعد حماس اور ایران کے تعلقات ایک نئی شکل لینے کے قوی امکان ہیں۔ بہر حال اس پوری جنگ میں ایران نے حماس اور عمومی مزاحمت کی مدد کی ہے جس کا اعتراف تحریکات مزاحمت نے برملا کیا ہے۔
اسلامی ممالک کا کردار: او آئی سی، عرب لیگ وغیرہ کا موقف
مسلم منظمات اور تنظیمات اس دورانیہ میں بیانات جاری کرنے اور اسرائیلی جارحیت پر تنقید سے آگے نہیں بڑھ پائیں۔ ظاہر ہے، ان منظمات کی جو حیثیت اور طاقت ہے اس میں ان سے زیادہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی ہے، اگر چہ یہ پلیٹ فارمس اچھا موقع فراہم کرتے ہیں کہ مقامات مقدسہ، مقدس شخصیات، مذہبی مقامات کی حرمت کے سلسلے میں ایک منظم آواز اٹھائی جائے۔
انڈونیشیا اور ملیشیا کا موقف فلسطینی کاز کے لئے بہت سازگار رہا۔ ان ممالک میں بی ڈی ایس تحریک کو خاصی کامیابی ملی ہے۔ عوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا بھی زبردست مظاہرہ ہوا۔ اس سلسلے میں ملیشیا کے اسلام پسند وزیر اعظم انور ابراہیم کا ذکر دلچسپ ہے۔ انور ابراہیم حماس کو ایک دہشت گرد تنطیم نہیں مانتے ہیں۔ نا صرف اس کے مزاحمت کے حق کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں ان کی سرگرمیاں بھی قابل قدر اور مزاحمتی رہی ہیں۔ فیس بک کو حماس اور اس کی قیادت سے متعلق ان کے پوسٹ کوہٹانے کی وجہ سے سخت تنبیہ اور اس کی بحالی میں کامیابی، جرمنی کی قیادت کے سامنے فلسطینی قضیہ کی پرزور وکالت، حماس کی مزاحمت کا دفاع اور مغربی منافقت پر دو ٹوک تنقید کی وجہ سے وہ خصوصی طور پر سرخیوں میں رہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں بیشتر اسلامی ممالک سے فلسطینی قضیہ کو سپورٹ ملا۔ عوام کی سطح پر زبردست یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ ان ممالک کے موقف اور رول نے اس مسئلے اور موجودہ بحران کو مختلف پہلوؤں سے متاثر کیا اور اس کے مختلف اثرات و نتائج مرتب ہوئے جس پر ہم آئندہ گفتگو کریں گے۔
(مضمون نگار محمد علی جوہر اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)