گزشتہ دنوں، کئی جگہوں سے متواتریہ خوش خبریاں ملیں کہ ایس آئی او سے وابستہ اور ایس آئی او کے حمایت یافتہ طلبہ نے ملک کے مختلف مقامات پر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے یونین انتخابات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلبہ یونین ، ملک کی نہایت ممتاز اور بااثر طلبہ یونینوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی چند یونیورسٹیاں جہاں کے طلبہ اپنی سیاسی بیدارمغزی اور حرکیت کے لئے مشہور ہیں ، ان میں سے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی ہے۔ یہاں ایس آئی او سے وابستہ ایک صالح فکر طالب علم برادرم عبداللہ عزام کی کامیابی اور صدر یونین کے باوقار عہدہ کے لئے بھاری اکثریت سے انتخاب، بلاشبہہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس کے بعد تریوندرم (کیرلا) اور ملک کے کچھ اور مقامات سے بھی اس طرح کی خبریں موصول ہوئیں۔
یہ یقیناًبڑی مسرت کی بات ہے اور ہم اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایس آئی او کی فکر صالح کو طلبہ میں قبول عام حاصل ہورہا ہے اور اس کے افراد پر طلبہ اپنی قیادت کے لئے اعتماد کرنے لگے ہیں۔ بے شک ایک صالح فرد ، معاشرہ کی قیمتی متاع ہوتا ہے لیکن اگر آپ پورے معاشرہ کو صالح بنانا چاہیں تو صرف صالح افراد کافی نہیں ہوتے بلکہ ایسے افراد درکار ہوتے ہیں جن کے اندر صالحیت اور صلاحیت کا امتزاج ہو۔ جن پر سوسائٹی اپنی قیادت اور نمائندگی کے لئے اعتماد کرسکے۔ اور جن کی کرشماتی شخصیتیں سوسائٹی پر اثر انداز ہوسکیں۔ ایس آئی او کا مقصد ایسے ہی صالح اور باصلاحیت افراد کی تیاری ہے۔ میں ان کامیابیوں پر ایس آئی او کو، اس کی قیادت کو اور اپنے اُن طالب علم بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے ان کامیابیوں سے ہم سب کے حوصلے بلند کئے ہیں اور امید کی نئی شمعیں ہمارے دلوں میں روشن کی ہیں۔ اللہ تعالی ان سب دوستوں کی صلاحیتوں میں مزید برکت عطا فرمائے۔ انہیں ان کے صالح مقاصد میں، ووٹرز کی امیدوں سے کہیں بڑھ کر ،کامیابی عطا فرمائے۔ اور ایس آئی او کے لئے کامیابیوں کے اس سلسلہ کو دراز سے دراز تر فرمائے۔ آمین۔
طلبہ یونینوں کا آغاز، یورپ میں طلبہ کی مجالس مباحثہ Debating Societies کے طور پر ہواتھا۔ مقصد یہ تھا کہ طلبہ دور طالب علمی ہی سے ملک، سماج اور انسانیت کے اہم مسائل پرغور وفکر کے عادی بنیں، صحت مند مباحثوں کی عادت پیدا ہو اور جمہوری مزاج پروان چڑھے۔ بیسویں صدی عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد اور سیاسی نظریات کی صدی تھی۔ چنانچہ اکثر ملکوں میں طلبہ یونینیں اپنے اپنے معاشروں کے سیاسی رجحانات سے بھی متاثر ہوئیں اورہمارے ملک سمیت کئی ملکوں میں طلبہ یونینوں نے آزادی کی جدوجہد میں قومی قائدین کے شانہ بشانہ سرگرم حصہ لیا۔ چین میں کمیونزم کے عروج اور بالآخر کمیونسٹ حکومت کے قیام میں طلبہ یونینوں کا اہم رول تھا۔بعد میں جب سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں تو انہوں نے بھی طلبہ یونینوں پر اثر اندا زہونے کی کوشش کی،اور یہیں سے بگاڑ شروع ہوا۔
آج صور ت حال یہ ہے کہ طلبہ کی سیاست ان سب مہلک بیماریوں کی شکار ہے جو ہماری قومی سیاست کی خصوصیات بن چکی ہیں۔ قومی سیاست کی طرح، غنڈہ گردی طلبہ سیاست کی بھی اہم ترین پہچان ہے۔ دادا گیری ، ہفتہ وصولی، دھونس اور دھاندلی کے بغیر جس طرح قومی سیاست ناممکن سمجھی جاتی ہے طلبائی سیاست بھی ناممکن سمجھی جانے لگی ہے۔ جس طرح سیاستدان رشوت ستانی اور بدعنوانی کے ذریعہ اپنا اور اپنی سیاست کا خرچ چلاتے ہیں ، طلبہ قائدین نے بھی اسی طرزپر یونیورسٹیوں اور کالجوں کو دلالوں کا بازار بنادیا ہے۔ خون خرابہ اور فتنہ و فساد سیاست دانوں کا آسان ترین حربہ ہے تو طلبہ قائدین نے بھی کیمپس میں طرح طرح کے بہانوں سے خون بہانے کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔اور ذات پات، فرقہ و علاقہ کے تعصبات تو ہندوستانی سیاست کا نمایاں ترین عنوان ہیں۔ طلبہ سیاست اس سے کیسے بچ سکتی تھی؟ چنانچہ علم و دانش کے مراکز تعصبات اور تفریقات کے مکروہ نعروں سے گونج رہے ہیں۔
اس صورت حال پر سنجیدہ لوگوں کی تشویش بجا تھی۔ چنانچہ پارلیمنٹ اور اسمبلی سے لے کر، عدالتوں تک ہر جگہ طلبہ سیاست پر بحثیں شروع ہوئیں۔ کئی ترقی پذیر ملکوں میں مطلق العنان ڈکٹیٹروں نے جمہوری سیاست کے بگاڑ کو اپنے لئے وجہ جواز بنایا تھا۔ ٹھیک اسی طرح طلبہ سیاست کی خرابیوں کا بہانہ بناکر ملک کی کئی ریاستوں نے طلبہ سیاست اور یونینوں پرپابندیاں لگادیں۔ لنگدوہ کمیٹی نے یونینوں پر پابندی کی تو سفارش نہیں کی لیکن یونیورسٹیوں کو اتنے اختیارات دے دیئے اور طلبہ کی سرگرمیوں پر ایسی بندشیں لگادیں کہ یونین کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔
ان حالات میں طلبہ یونینوں میں ، ایس آئی او کے نمائندوں کا انتخاب، پورے ملک کے لئے خوش آئند ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ طلبہ، یونین تو چاہتے ہیں لیکن اب وہ قومی سیاست کی خرابیوں کو سمجھنے لگے ہیں۔ اور کیمپس میں ایک متبادل سیاست کے فروغ کی طرف مائل ہیں۔ایس آئی او ، اور اس کے حمایت یافتہ یونین عہدہ داروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مطلوب متبادل طلبہ سیاست اور طلبہ یونین کا عملی نمونہ ملک کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کہ کس طرح اقدار پر مبنی طلبہ سیاست اور ایک بامقصد طلبہ یونین نہ صرف طلبہ اورتعلیمی اداروں کے لئے مفید ہوتی ہے بلکہ قومی سیاست کی اصلاح میں بھی اہم رول ادا کرتی ہے۔
طلبہ یونین کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ مستقبل کی عملی ذمہ داریوں کے لئے طلبہ کو تیار کرتی ہے۔ طلبہ، کلاس روم میں اپنے مخصوص شعبہ علم کی معلومات اور مہارت حاصل کرتے ہیں اور یونین کے پلیٹ فارم پر وہ اپنی صلاحیتوں کو معاشرہ کے لئے عملاً استعمال کرنے کی خاطر تیار ہوتے ہیں۔ یونین کا پلیٹ فارم انہیں سوسائٹی اور اس کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہاں ان کی قائدانہ صلاحتیں پروان چڑھتی ہیں۔ کمیونکیشن، پیش قدمی، مشاورت ، بحث و مباحثہ، فیصلہ سازی، نفاذ،مسائل و مشکلات کے حل، مزاحمت، وغیرہ کے آداب اور سلیقہ ان کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ ایک اچھی یونین طلبہ کا کیرکٹر بھی بناتی ہے اور ان کے اندر حوصلہ مندی، جرأت، حق گوئی و بے باکی، ظلم کے مقابلہ، پامردی، جیسے ان اخلاقی اوصاف کی بھی نشوونما کرتی ہے جو ایک تعلیم یافتہ شہری کے اندر ضروری ہیں اور ہر سطح کے قائدین کے لئے ناگزیر ہیں۔
طلبہ یونین بحیثیت ایک مجلس مباحثہ Debating Society
طلبہ یونینوں کا اصلاً آغاز اسی حیثیت سے ہوا تھا۔یونین کے پلیٹ فارم پر طلبہ اور ان کے قائدین ملک کے اہم مسائل پر مباحثے کرتے ہیں۔ ان مباحثوں سے طلبہ کو مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مسائل کے سلسلہ میں جو مختلف نقاط نظر ہوسکتے ہیں ان سے واقفیت ہوتی ہے۔ تعمیری بحث اور ٹھوس دلائل کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مخالف خیالات کو سننے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی جمہوری اسپرٹ پروان چڑھتی ہے۔ آج ہمارے ملک کے تقریباً تمام معروف سیاسی و پارلیمانی مناظرین Debaters، مثلاً سیتا رام یچوری، ارون جیٹلی وغیرہ طلبہ یونینوں کے تربیت یافتہ ہیں۔
جواہر لال یونیورسٹی یونین کے مباحث، پبلک ایکشن فورم اور مختلف ہاسٹلوں کے پوسٹ ڈنر سیشن پورے ملک کے دانشورانہ منظر نامہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ آکسفورڈ یونین کے مباحث کی تو بین الاقوامی اہمیت ہے۔
اس وقت ہمارے ملک کی فضا کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ تعمیری مباحث ، تنقید اور سوالات کھڑے کرنے نیزافکار و خیالات کے تنوع کی ہمت شکنی ہورہی ہے۔ سرمایہ داروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا گٹھ جوڑ، کسی بھی ایسے خیال کی اشاعت کا روادار نہیں ہے جو اس گٹھ جوڑ کے مفاد کے خلاف ہے۔ میڈیا خیالات کی چند مخصوص دھاراؤں تک پورے ملک کو محدود کرنے کے درپے ہے۔یہ صورت حال ہمارے ملک کی جمہوریت کے لئے سخت مہلک ہے۔ طلبہ یونینیں، اس صورت حال کو ختم کرسکتی ہیں۔ ملک کے مسائل پر کھلی گفتگواور مختلف خیالات کو سننے اور ان پرغور کرنے کی آزاد فضا، خود طلبہ کی شخصیتوں کے آزاد ماحول میں ارتقا کے لئے ضروری ہے اور اس فضا سے وہ ملک کی مجموعی فضا کو بھی متأثر کرسکتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ یونین کے صالح فکر عہدہ دار اپنی اپنی یونینوں میں اس ماحول کو پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ اس وقت ہمارے ملک کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کے گوناگوں اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے طرح طرح کے متبادلات پر غور وفکر اور مباحثے ہوں ۔ میڈیا کے تشکیل دےئے ہوئے چھوٹے اور تنگ باکس سے باہر Out of Boxسوچا جائے۔ نئے اور انوکھے آئیڈیاز پیش ہوں۔ ایس آئی اوسے وابستہ افراد بھی ان بحثوں میں سرگرم حصہ لیں اور اپنا نقطہ نظر اور اسلام کی حیات بخش تعلیمات کو دلائل کے ساتھ پیش کریں۔
یونین اور تعلیمی ادارہ کا کلچر
ہر تعلیمی ادارہ کا اپنا کلچر اور روایات ہوتی ہیں۔ اسے تشکیل دینے اور محفوظ رکھنے میں بھی طلبہ یونینوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بعض تعلیمی ادارے اپنے اعلی تعلیمی معیار، علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور اپج و تخلیقیت کے لئے معروف ہیں۔ بعض تعلیمی ادارے ملک کے بہترین کھلاڑی پیدا کرتے ہیں۔ بعض تعلیمی اداروں کا ماحول جہد کاری و فعال سماجی سرگرمی سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلہ میں کئی تعلیمی ادارے ریگنگ کے لئے بدنام ہیں۔بعض تعلیمی اداروں میں مستقل طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان کشمکش کا ماحول رہتا ہے اور اس کشکمش میں وہ سال کا بیشتر حصہ گزار دیتے ہیں۔بعض اداروں کی فضا ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہاں لوگوں کو سیکھنے سکھانے سے دلچسپی کم ہوتی ہے اور لوگ وقت گزاری ، تفریح یا عیاشی کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ اداروں کی ان ساری شناختوں میں طلبہ کا اور ان کی اجتماعی سرگرمیوں اور یونینوں کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔
کلچر کا ایک اہم حصہ اداروں کی روایات ہوتی ہیں۔ طلبہ یونینوں کو اپنے ادارہ میں صالح روایات کو فروغ دینے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ ریگنگ، لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ، اساتذہ سے بدتمیزی، ہنگامے اور تشدد وغیرہ جیسی روایتوں کو ختم کرنا چاہیے۔اور ایسی روایتوں کو فروغ دینا چاہیے جن سے طلبہ کی تعلیمی عمل میں دلچسپی بڑھے۔ مطالعہ اور تحقیق و جستجو کا شوق پروان چڑھے۔ تخلیقی سرگرمیاں فروغ پائیں۔تفریقات اور تعصبات باقی نہ رہیں۔ اساتذہ ، انتظامیہ اور طلبہ میں تال میل اور ہم آہنگی پیدا ہو۔ طالبات کا احترام ہو۔اور بالآخر ایسا کلچر پروان چڑھے جو مثبت رخ پر طلبہ کے ہمہ جہت ڈیولپمنٹ میں معاون ہو۔اگر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں صالح کلچر پروان چڑھے گا تو یہ کلچر بالآخر پورے معاشرہ کا کلچر بنے گا۔
یونین بحیثیت ایک رفاہی ادارہ
طلبہ یونین کی ایک اہم حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کا ادارہ بھی ہے۔مغربی ملکوں میں طلبہ یونینیں یہ کردار بہت سرگرمی کے ساتھ ادا کرتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں دور دراز کے ممالک سے آنے والے طلبہ بھی آسانی سے ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں۔مثلاً طلبہ کی مشاورتی سروس Student Advise Serviceاکثر مغربی ملکوں کے یونینوں کا مستقل فیچر ہے۔یہ سروس مقامی اور بیرون ملک کے طلبہ کو ہر قسم کی رہنمائی اور مدد فراہم کرتی ہے اور ایک فون کال کے ذریعہ طلبہ ہر طرح کے مسائل میں مشورہ ، رہنمائی اور مدد حاصل کرتے ہیں۔بعض یونینیں طلبہ کے بعض گروپوں (مثلاً طالبات، بیرون ملک کے طلبہ، اپاہج طلبہ وغیرہ) کے لئے مخصوص خدمات بھی فراہم کرتی ہیں۔بعض یونینیں داخلہ کے بعد طالب علم کے آنے سے پہلے اس کی رہائش کا انتظام کردیتی ہیں۔
ہمارے ملک کے کئی تعلیمی اداروں میں نئے طلبہ کا استقبال ریگنگ کی اذیت ناک اور وحشیانہ رسم سے ہوتا ہے۔نئے طلبہ کی سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت، نئے ماحول میں ان کی رہنمائی اور ان کی ہمت افزائی اور خلوص و محبت کے ماحول کی فراہمی ہے۔ یونین کو پورے اخلاص اور گرمجوشی کے ساتھ یہ ذمہ داری نبھانی چاہیے۔پھر نئے طلبہ کو رہائش کی فراہمی، کھانے کے مناسب انتظام، یونیورسٹی کی دفتری کارروائیوں کی تکمیل وغیرہ میں سخت دشواری اور الجھن پیش آتی ہے۔ طلبہ یونین ان سب مسائل کو حل کرنے کا انتظام کرسکتی ہے۔
طلبہ یونینیں طلبہ کے درمیان مناسب تال میل اور ربط پیدا کرکے طلبہ کے بہت سے مسائل حل کرسکتی ہیں۔ وہ ذہین اور کمزور طلبہ کو باہم ملاسکتی ہیں۔ سینئر طلبہ کی معلومات اور ان کے ریسورسیز (مثلاً ان کے نوٹس، ان کا کمپیوٹر ڈاٹا وغیرہ) سے جونیئر طلبہ کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔
طلبہ کا ایک بہت اہم اور پیچیدہ مسئلہ ان کی معاشی ضروریات کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ملک میں بعض طلبہ یونینیں اسکالرشپ کی رہنمائی اور مدد، کو آپریٹیو اسٹورز کے قیام وانتظام وغیرہ کے علاوہ اہل خیر تنظیموں اور افراد اور طلبہ کے درمیان ربط کا کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔ اگر ہماری طلبہ یونینیں یہ سب کام اپنے ہاتھ میں لیں تو وہ پورے تعلیمی عمل کو نہایت آسان اور خوشگوار بناسکتی ہیں۔
ان کاموں کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ ان سے طلبہ کے مسائل حل ہوتے ہیں اور یونین اور اس کے قائدین صحیح معنوں میں طلبہ کے قائد بن جاتے ہیں، وہیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ طلبہ اور ان کی قیادتوں کے اندر انسان دوستی، غریب پروری، اور خدمت کا مزاج پروان چڑھتا ہے۔ آج ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے زیادہ تر ایسے خود غرض اور مفاد پرست تعلیم یافتہ افراد تیار کررہے ہیں جن کی واحد دلچسپی اپنی ذاتی آسودگی اور مالی منفعت ہوتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست سے لے کر تعلیم تک اور بیوروکریسی سے لے کر میڈیا تک ،ہر جگہ صرف مادی مفاد کی دوڑ ہے اور معاشرہ کی فلاح و بہبود سے کسی کو دلچسپی نہیں ۔ طلبہ یونینیں یہ صورت حال بدل سکتی ہیں۔
یونین اور طلبہ کی نمائندگی
طلبہ کی نمائندگی اور احتجاجی سیاست ، اب ہمارے ملک میں ایک بہت ہی حساس موضوع بن چکا ہے۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے کارندے، اپنے سیاسی مفادات کے لئے مسائل اور احتجاج کے نام پر طلبہ کا استحصال کررہی ہیں۔ اور حقیقی ومصنوعی، جائز و ناجائز مطالبات کو لے کر طلبہ کو مستقل احتجاج کی فضا میں رہنے پر مجبور کررہی ہیں۔ یہ احتجاج اکثر پر تشدد ہوجاتے ہیں۔ طلبہ کی تعلیم کا بھی حرج ہوتا ہے اورجانی و مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے بالمقابل دوسری طرف وہ عناصر ہیں جو طلبہ کوخاموش تماشائی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے کہ وہ سوسائٹی سے اختلاف و احتجاج کی تمام صورتیں ختم کردینا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ صرف اپنی ضرورتوں اور تعیشات سے غرض رکھیں اور اجتماعی معاملات میں ان کی معلومات، بیداری، اور دلچسپی کم سے کم ہو۔
ہماری یونینوں کو دیگر معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ نہ طلبہ کا ہر مطالبہ لازماً جائز و منصفانہ ہوتا ہے اور نہ ہر جائز و منصفانہ مطالبہ پر احتجاج اور مہماتی کام ضروری ہوتا ہے۔ اور نہ ہی یہ بات ملک و سماج کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ طلبہ اپنے حقوق اور جائز مطالبات و امنگوں سے دستبردار ہوکر انتظامیہ کے بے زبان خادمین بن کر رہیں۔
یونینوں کو دانشمندی کے ساتھ اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں الجھ کر بے شک طلبہ کے وقت اور تعلیم کے ضیاع کا سبب نہیں بننا چاہیے لیکن جن مسائل کا تعلق ان کی تعلیم، ان کے مستقبل اور ان کی بنیادی جائز ضرورتوں سے ہے، ان سے غافل بھی نہیں رہنا چاہیے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر مسئلہ احتجاج سے ہی حل نہیں ہوتا۔ بے شک نعرے، جلسے، جلوس اور ہنگامے نوجوان قائدین کو اپنی قیادتیں چمکانے کا موقع فراہم کرتی ہیں لیکن اگریونین اور اس کے قائدین کو اپنی قیادت چمکانے سے زیادہ طلبہ کے مسائل کے حل میں دلچسپی ہے تو انہیں متبادل طریقوں کو بھی ڈھونڈنے کی فکر کرنا چاہیے۔ بہت سے مسائل بغیر شور شرابہ کے، ذمہ داروں سے بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعہ حل ہوجاتے ہیں۔بعض مسائل سماج کے بزرگ رہنماؤں کی مداخلت سے آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔اور بعض مسائل عدالتوں کے ذریعہ حل کرائے جاسکتے ہیں۔
یہ ہمارے ملک، سماج اور ملت کی بھی ضرورت ہے کہ احتجاج رُخی قیادت Protest Oriented Leadership کے مقابلہ میں ہمیں حل رُخی قیادت Solution Oriented Leadership کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت اسی وقت پوری ہوگی جب پہلے طلبہ کی قیادتوں کا یہ رخ ہوجائے۔
یونین اور طلبہ کی کردار سازی
قیادت کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ کردار بناتی ہے۔ کالج کے ماحول میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا وہ قیمتی دور گزارتا ہے جو اس کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں جہاں تعلیمی نظام کے دیگر اجزا یعنی نصاب تعلیم، اساتذہ وغیرہ کا رول ہوتا ہے وہیں بڑا اہم رول اس کے ہم جولیوں peer group کا ہوتا ہے۔ اوراس کی نمائندگی یونین کرتی ہے۔ ایک مؤثر یونین طلبہ کی محفلوں پر، اس میں ہونے والی گفتگو اور مباحث پر، طلبہ کے باہمی تعلقات پرہر جگہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ہماری یونینوں کو اپنے اس اثر ورسوخ کا طلبہ کی کردار سازی کے لئے استعمال کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
کردار سازی سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جسے آج کل Moral Policingکہا جاتا ہے۔ یہ قدروں کی ترویج کا بڑا سطحی اور ناقص طریقہ ہے اور اکثر ناکام ہی ہوتا ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ یونین کے عہدہ دار اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ، یونین کی سرگرمیوں کے ذریعہ، اس کے مباحث کے ذریعہ ایسا ماحول بنائیں کہ اس ماحول میں خداترسی، ایمانداری ،سچائی، انسان دوستی، قانون کا احترام، انصاف پسندی، سچائی کے لئے جدوجہد کا داعیہ ، ایثار و قربانی، کمزوروں اور محروموں کے تئیں سچی ہمدردی، عورتوں کا احترام، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام جیسی اعلی قدریں پروان چڑھ سکیں۔یونین کے ذمہ داران کی تقریریں، ان کے پروگرامز اور ان کے عنوانات، مسائل حل کرنے کا ان کا انداز، ان کی تہذیب اور رکھ رکھاؤ، یہ سب امور طلبہ کے کردار پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ ان سب معاملات میں اگر طلبہ قائدین رول ماڈل بننے کی فکر کریں تو وہ اپنی قیادت کو اور یونین کو ایک کردارساز ادارہ میں بھی بدل سکتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند