امتیاز اقبال
علم کا حصول دینی و دنیاوی دونوں نقطہ نظر سے اہمیت کا حامل ہے۔ہندوستان کے موجودہ حالات اور ان حالات میں اہل ااسلام کی صورت حال کے پیش نظر علم کے حصول کی اہمیت سہ گنی ہوگئی ہے۔اپنی عرفی و قومی حیثیت کو منوانے کے لیے بھی حصول علم وفن کی سخت ضرورت ہے۔ہماری ہم وطن قوم کا ایک حصہ مسلمانوں کو علم دشمن سمجھتا ہے۔یہ سچ ہے کہ اس کے پیچھے غلط پروپیگنڈوں کا کردار بھی ہے،لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ تعلیم کے حوالے سے ملت کا اجتماعی مظاہرہ بھی اس غلط فہمی کا کسی نہ کسی حد تک ذمہ دار ہے۔ہمارے طلبہ اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن میدان عمل میں بلاخوف و خطر اترنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔اس لیے قوم و ملت کے زعماء و نقباء کی ذمہ داری ہے کہ راستے کی مشکلات کا حل طلبہ کے سامنے رکھتے ہوئے ان کوپیش قدمی کا موقع فراہم کریں۔ طلبہ کے آگے نہ بڑھ پانے کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب بڑھتا ہوا ذہنی دباؤ (Depression) ہے جو طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے لیے سدراہ بن چکا ہے۔ زیر نظر تحریر کی غرض یہی ہے کہ ماہرین تعلیم اور تجربہ کار معلمین کی رایوں کی روشنی میں ڈپریشن کے اسباب اور اس کے حل کا جائزہ لیا جائے۔
1) ڈپریشن کے اسباب میں ایک سبب جید اور ذی استعداد اساتذہ کی عدم دستیابی ہے۔ نااہل ٹیچروں کی تقرری سے طلبہ کو حددرجہ پریشانی کا سامنا ہے۔وہ اساتذہ جو کلاس روم میں مکمل وقت نہ دے پاتے ہوں، جوطلبہ کے مزاج سے واقف ہوئے بغیر تدریسی میدان میں قدم رکھ چکے ہوں، طلبہ ان سے کیسے استفادہ کریں گے؟ اسی طرح وہ اساتذہ جو تدریسی صلاحیت میں نقص کی وجہ سے طلبہ کو مطمئن نہ کرسکتے ہوں ،ظاہر ہے وہ طلبہ کے اطمینان کا سبب بننے کی بجائے الجھنوں کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی میں اس کا سدباب موجود ہے۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ــ’’اساتذہ کی بھرتی مستحکم عمل کے ذریعے کی جائے گی…اساتذہ کی لیاقت کی جانچ کو ازسر نو ترتیب دیا جائے گا ۔ 2022 تک پیرا ٹیچر کے رواج کو ملک بھر سے ختم کیا جائے گا…ریاستیں ٹکنالوجی پر مبنی ایسا نظام اپنائیں گی جن سے انتخاب پر پیشہ وارانہ ترقی کی سہولت مل سکے، اور ہراستاذ کی لیاقت کا پتہ چل سکے …ہراستاذکے لیے لیے بلارکاوٹ تدریس کا ماحول ہرحال میں مہیا کرایا جائے گا۔‘‘(مسودہ قومی تعلیمی پالیسی 2019 صفحہ 18،17) اس میں اساتذہ کرام کے کردار اور کارکردگی کے لچک دار ہونے کا تذکرہ بھی ضروری ہے، اساتذہ کو معتدل طریقہ کار اپنانے پر زور دینا چاہیے۔
2)مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان میں تعلیم کو بھی ڈپریشن کے اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ غیرمادری زبان میں تعلیم حصول علم کو نہ صرف مشکل بناتی ہے بلکہ کئی دشوار گذار مراحل میں تقسیم کردیتی ہے۔ جیسے پہلے زبان سیکھیں، پھر تعلیمی مراحل طے کریں۔نئی تعلیمی پالیسی میں اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے : ’’نصابی، ہم نصابی، اور معاون ہم نصابی شعبوں کو علیحدہ کرنے میں شدت نہیں برتی جائے گی…کم از کم درجہ 5 تک تعلیم مقامی زبان /مادری زبان میں ہوگی، بلکہ ترجیحاً درجہ 8 تک ہو، اس کے ساتھ جہاں ضروری ہو زبان کے لچک دار فارمولہ (دولسانی) کو اپنایا جاسکتا ہے…ضرورت کے مطابق مقامی زبانوں میں اعلی معیار کی نصابی کتب دستیاب کرائی جائیںگی…مقامی اساتذہ اور ان افرادکو ترجیح دی جائے گی جو مقامی زبان میں مہارت رکھتے ہیں۔‘‘(مسودہ قومی تعلیمی پالیسی)
3)بار بار طریقہ تدریس اور نصاب میں تبدیلی بھی الجھنوں اور دباؤ کا سبب ہوتی ہے۔ اس کا حل طویل مدتی تعلیمی پالیسی کا اجراء اور بنیادی کورسیس کا استحکام ہے۔
4)غلط رہنمائی اور نامناسب ڈائریکشن بھی ڈپریشن کا سبب ہے۔ اس لیے کہ ہرطالب علم کی ذہنی استعداد، صلاحیت، اور کام کرنے کی قوت میں فرق ہوتا ہے۔ ہرایک کا فطری رجحان مختلف ہوتا ہے۔ اس اختلاف رنگ و بو کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے اور تمام طلبہ کی رہنمائی کے لیے ایک ہی لگے بندھے طریقے کو اختیار کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ بہت سارے طلبہ کو خاطر خواہ کامیابی نہ ملے اور بالآخر وہ ڈپریشن کا شکار ہوجائیں۔
5)منزل کا عدم تعین یا منزل کا مبہم تصور بھی ڈپریشن کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ طلبہ کسی بھی پروفیشنل کورس میں داخلہ تو لے لیتے ہیں لیکن یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ آگے کے مرحلے میں ہمیں کس شعبے میں جانا ہے۔ منزل کا تعین کیے بغیر کوئی سفر نہیں کرسکتا تو ہمارے طلبہ منزل کو متعین کیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ یہی مسئلہ آگے چل کرذہنی دباؤ کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ منزل کا تعین پہلے ہی کرلیں، جیسے مثال کے طور پرملازمت کریں گے، یا نجی کاروبار شروع کرکے تجارتی میدان میں اپنی صلاحیت آزمائیں گے یا سول سروس کے امتحانات کی تیاری کریں گے۔
6)پروفیشنل کورس مکمل کرنے کے باوجود طلبہ میں مطلوبہ معیار کی صلاحیت پیدا نہیں ہوپاتی۔پڑھائی میں طلبہ کی عدم دلچسپی یا پڑھائی کے حوالے سے غیر سنجیدگی اس کا سبب ہے۔ اس کا حل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ طلبہ پوری دلچسپی،سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔ اس کے لیے ہرچہارجانب سے توجہ ہٹانے کی جدوجہد کریں اور صرف پڑھائی پر توجہ دیں۔
7)بیروزگاری اور سروس کے مواقع فراہم نہ ہونا بھی ڈپریشن کا بڑا سبب ہے۔اس لیے کہ ایک بڑی تعداد میں طلبہ جدوجہد اور محنت سے پڑھائی کرتے ہیں لیکن روزگار کے مواقع فراہم نہ ہونے کی صورتحال کا خیال کرکے ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اورنوکری نہ ملنے کی وجہ سے دباؤ بڑھتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ پڑھائی کے وقت پوری محنت اور یکسوئی سے کام لیں۔ اپنے آپ کو لائق و فائق ثابت کریں۔ اس کے بعد اللہ کی ذات عالی پر توکل کریں۔اللہ تعالی راستہ کھولیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اپنے حصے کا کام یکسوئی سے کریں، مستقبل کی فکر میں اپنے حال کو برباد نہ کریں۔
8)اچھے ساتھی اور اچھے دوست بھی ڈپریشن دور کرنے میں بہترین تعاون کرسکتے ہیں ۔اس کے برخلاف بُری صحبت یا لاابالی دوستوں کا ساتھ متعدد الجھنوں کے پیدا ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لیے اچھے ساتھی کا انتخاب کریں، اور اچھی صحبت اختیار کریں۔
9)مستقبل میں سماج اور معاشرے کے لئے مؤثرکردار ادا کرنے کا عزم نہ ہونا نیز ملک کے لیے کام آنے کا کسی قسم کا حوصلہ نہ ہونا راہ کی بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ طلبہ ابھی سے قوم و ملت کے لیے کچھ کرگزرنے کا حوصلہ رکھیں، نگاہ اور عزائم بلند ہونے چاہئیںورنہ داخلی (گھریلواور معاشی) اور خارجی تفکرات (ملکی اور سیاسی حالات) اور الجھنیں زندگی خراب کردیں گی۔ طلبہ کو چاہیے کہ وہ بلند حوصلگی کا مظاہرہ کریں۔اور پورے سماج یا ملک کے لیے پروجیکٹ بنا کر اسے مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔
10)موبائل فون اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی ڈپریشن کے اہم اسباب میں سے ہے۔اس لیے کہ موبائل فون کا غلط یا بلاضرورت استعمال ذہن کو پراگندہ کرتا ہے۔ یہ بے حیائی اور فحاشی کی افزائش کا سبب ہے۔شہوانی جذبات کے بے موقع ابھرنے کا سبب ہے۔طالب علمی کے زمانے میں موبائل فون کے کثرت استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھر بیٹھے موبائل پر عشق و محبت کے راستے استوار کرلیے جارہے ہیں۔پہلے جن مراحل کو طے کرنے میں مہینوں لگ جایا کرتے تھے، آج موبائل کے ذریعے سے وہ ناجائز مقاصد گھنٹوں اورمنٹوں میں حاصل کرلیے جاتے ہیں۔بظاہر طالب علم کلاس روم میں ہوتا ہے لیکن ذہنی اور دماغی طور پر وہ کہیں اور موجود ہوتا ہے۔ فحش مناظر دیکھ دیکھ کر جذبات بے قابو ہوئے چلے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ زنا کاارتکاب ایک عام بات ہوتی جارہی ہے۔بدنظری کی وجہ دل سیاہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے خیر سے محرومی ہوجاتی ہے۔ تعلیم سے طلبہ کادل اچاٹ ہوگیا ہے۔ یہ تمام کیفیات ڈپریشن اور دباؤ کا سبب بنتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ موبائل کے استعمال کو ناگزیرضرورت کے دائرے میں لایا جائے۔طلبہ کو خاص طور پر اسمارٹ فون سے حتی الامکان بچنے کی ضرورت ہے۔
11)چھوٹے اور کم عمر طلبہ کے لیے اساتذہ کا دوستانہ رویہ، کھیلنے کے مواقع، حوصلہ افزائی کی عادت، انعامات کی تقسیم اور عملی سرگرمیوں میں شرکت و معاونت ڈپریشن کے خاتمہ کا ذریعہ ہے۔
12) ڈپریشن کے خاتمے کا اہم اور بنیادی علاج اللہ، خالق کائنات و معبود حقیقی کی یاد کا دلوں میں موجزن ہونا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’اَلَا بِذِکْرِاللَّہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوب‘‘(ترجمہ: آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں،سورہ الرعد،آیت 28) ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کا عقیدہ ہے کہ دنیا فانی ہے۔دنیا میں انسان کو اللہ کی بندگی کے مقصد سے بھیجا گیا ہے۔دنیا نفسانی خواہشات پوری کرنے کی جگہ نہیں بلکہ اعمال صالح انجام دے کر اللہ تعالٰی کوراضی اور خوش کرنے کی جگہ ہے۔ اصل زندگی آخرت کی ہے، جس میں اللہ کے بندوں کی خواہشات کو پورا کیا جائے گا۔ جو شخص بھی دنیا میں خواہشات پوری کرنے کی کوشش میں لگے گا، اللہ کی نظروں سے گر جائے گا۔ ایمان والا ہونے کے باوجود اللہ کی یاد بالکلیہ اس کے دلوں سے نکل جائے گی، تو شیاطین کا تسلط اس کے دل و دماغ پر ہوجائے گا ۔جس کے نتیجے میں وہ ڈپریشن اورزبردست ذہنی دباؤ کا شکار ہوجائے گا۔ شیطان تر نوالہ سجھ کر ہر جگہ اس کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے تیار ہوگا۔ایسی صورت میں اللہ کے احکامات یعنی شریعت،اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یعنی سنت، یہی دو رخت سفر ہیںجنہیں اختیار کرنے کے بعد کارواں انسانیت بجائے جہنم کے، جنت کی جانب رواں دواں ہوگا۔ شریعت و سنت کو چھوڑ کر سکون قلبی حاصل نہیں ہو سکتا۔
اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ وہ شریعت و سنت سے بے نیاز ہوکر بھی ایک کامیاب اور خوش حال زندگی گزار سکتا ہے ،تویہ خیال’’خیال است، محال است و جنوںاست‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ عہدجدید کے طلبہ کو دنیا کی رنگینیوں میں اپنا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ وہ افراد جن کا مطمح نظر محض دنیا ہے، اور دنیا ہی کے لیے جن کی ساری تگ و دو ہے،جب طلبہ ان کی زندگیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے انہیں اپنا مقام ہیچ معلوم ہوتا ہے۔ دنیا کے عہدے طالب علم کے سامنے آتے ہیں۔ وہ عزت و شہرت کو آسمان کی بلندیاں چھوتا ہوا دیکھتا ہے تو دنیا کی زندگی ہی اسے اصل زندگی معلوم ہونے لگتی ہے۔پھر اسی طرز زندگی کو اختیار کرنے کی دھن میں حلال و حرام کی تمیز جاتی رہتی ہے۔ نتیجتاً دوراہے پر طلبہ الجھ جاتے ہیں۔ مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آج کل کرنے کا کام یہی ہے کہ ہمارے نوجوان ذہنی الجھن کی وجہ سے آزمائش کا شکار ہیں۔ یعنی وہ جو دیکھ رہے ہیں اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے لیے انتہائی مضر ہے۔ فرماتے ہیں وہ شخص زمانے کا مجدد ہوگا جو نئی نسل کو دنیا کی بے ثباتی کا قائل کرکے اس کی سوچ اور طرز فکر کواسلامی بنادے۔ اس کی ذہنی الجھن کو ختم کرکے اس کی تمناؤں اور آرزوؤں کو دین کی سربلندی کے ساتھ وابستہ کردے۔بقول علامہ اقبالؒ مرحوم کے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تمنا پوری ہو میں یہ چاہتا ہوں کہ ان کی آرزو بدل جائے۔ طلبہ اگر اپنی آرزوؤں کو دنیا کی بجائے دین سے وابستہ کرلیں گے تو ان کے ڈپریشن کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے لیے انہیںشریعت و سنت کو اپنی مشعل راہ بنانا ہوگا۔ اپنے آپ کو شیطان و طاغوت کے راستے سے بچاکر اللہ و رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے راستے پر ڈالنا ہوگا۔ یہی اصل ہے اور یہی بنیاد ہے جس سے ڈپریشن کا خاتمہ ہوگا اورراہ کی تمام دشواریاں دور ہوں گی ، منزل قریب سے قریب تر ہوجائے گی۔
IMTEYAZ IQBAL
Chief Editor Naved-e-Shams Weekly
Malegaon, Dist. Nasik, Maharashtra
Email:[email protected]