طلبہ میں خودکشی کا بڑھتارجحان: اسباب اور ہماری ذمہ داریاں

ایڈمن

گلزار صحرائی زندگی کے بارے میں حضرت انسان بہت تلوّن مزاج واقع ہوا ہے۔ کبھی تو اسے یہ زندگی اتنی عزیز ہوتی ہے کہ اس کے فانی ہونے کی حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی وہ اسے زیادہ سے زیادہ…

گلزار صحرائی

زندگی کے بارے میں حضرت انسان بہت تلوّن مزاج واقع ہوا ہے۔ کبھی تو اسے یہ زندگی اتنی عزیز ہوتی ہے کہ اس کے فانی ہونے کی حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی وہ اسے زیادہ سے زیادہ پر لطف انداز میں گزارنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے ،بلکہ بسا اوقات وہ مرتبۂ انسانیت سے بھی گرجاتاہے اور کبھی وہ اس سے اتنا بے زار اور دل برداشتہ ہو جاتاہے کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے میں بھی اسے تأمل نہیں ہوتا۔انسانی مزاج کے اس تلوّن کا اثر یوں تو ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگوں میں پایا جاتاہے لیکن نوجوان نسل، خصوصاً طلبہ میں اس کا کچھ زیادہ ہی اثردیکھنے میں آتاہے۔

کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے ، کیوں کہ اسی نوجوان نسل پر اس کے مستقبل کا دارومدا ر ہوتاہے،اسی سے اس کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اگر یہی نوجوان نسل یاس وقنوط کا شکار ہوکر حوصلہ ہار بیٹھے، مسائل کا بہادری اور حوصلہ مندی سے سامنا کرنے اور انھیں حکمت ودانش سے حل کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرنے لگے، حتیٰ کہ یاسیت کی اس انتہا کو پہنچ جائے کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رجحان اس میں پنپنے لگے تو یہ کسی بھی قوم کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہے۔

ہم آئے دن اخبارات میں اس طر ح کی خبریں پڑھتے ہیں کہ فلاں طالب علم یا طالبہ نے امتحان میں ناکام ہونے ،یا مطلوبہ پوزیشن حاصل نہ کر پانے کے سبب خودکشی کر لی۔میڈیا کے مطابق ہندستان میں ہر گھنٹے میں ایک طالب علم خودکشی کرلیتا ہے، اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ بھارت میں 2015ء کے دوران8934طلبہ نے خودکشی کی۔اسی طرح2011ء سے 2015ء کے دوران39775 طلبہ نے اپنی زندگی کا خود خاتمہ کیا۔ ایک ادارے لینکٹ کی 2012ء کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ15 سال سے ہندستان میں29 سال تک کے نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔یہ اس وقت ہے جب کہ ہندستان کو نوجوانوں کی طاقت کا ملک کہا جاتاہے اور یہاں کی تقریباً دو تہائی آبادی 35 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔آبادی میں جوانوں کا یہ تناسب یقینا خوش کن ہونا چاہیے لیکن اس نوجوان طبقے میں یاس و قنوط اور خودکشی کا بڑھتا رجحان اس خوش فہمی کو کم کردیتاہے۔

نئی نسل میں یہ مایوسی کیوں؟:

سوال یہ ہے کہ نئی نسل میں اس رجحان کے پنپنے کی وجہ کیاہے؟اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں انسانی نفسیات کو سمجھنا ہوگا ،خصوصاً آج کے دور کے انسان کی نفسیات کو۔ ہم جانتے ہیں کہ آج کا دور پوری طرح مادہ پرستی کا دور ہے۔آج کے انسان کے پیشِ نظر صرف اور صرف اسی دنیا کی رنگینیاں ہیں ،جن سے وہ ہر حال میں لطف اندوز ہونا چاہتاہے۔اس سے آگے سوچنے کے لیے نہ اس کے پاس وقت ہے نہ وہ اس کی ضرور ت محسوس کرتاہے۔مذہبی اقدار اور خدا کے سامنے جواب دہی کا تصور تقریباً مدھم پڑچکاہے۔اگر کہیں مذہب کا تصور ہے بھی تو وہ صرف انسان کی ذاتی زندگی تک محدودکر دیا گیا ہے۔یعنی مذہب کا انسانی زندگی میں صرف یہ کردار ہے کہ انسان کچھ مذہبی رسوم کی پابندی کر لے ،اور ایسا بھی شعوری طورپر نہیں کیا جاتا ،بلکہ یہ بھی اس فطری جذبے کے تحت ہوتا ہے جو اسے کسی نہ کسی غیبی طاقت کے آگے سر جھکانے پر مجبور کرتاہے،خواہ وہ زبان سے اس کا کتنا ہی انکار کرے۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب اور خدا کے سامنے جواب دہی کا تصور انسان کی عملی زندگی سے تقریباًخارج ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں اس فانی دنیا کی چند روزہ زندگی انسان کے لیے انتہائی قیمتی قرار پانا ایک قدرتی امر ہے۔ایسے میں لازم ہو جاتاہے کہ جتنی جلدی اور جتنا زیادہ ممکن ہو اس فانی زندگی کی آسائشیں سمیٹ لی جائیں ،کیوں کہ کو ن جانتاہے کہ کب موت کا وقت قریب آجائے اور تمام مطلوبہ خواہشیں اور تمنائیں پوری ہونے سے ر ہ جائیں۔لہٰذا عقل مندی اسی میں ہے کہ جیسے بھی ہو اس فانی دنیا کے زیادہ سے زیادہ مزے لوٹ لیے جائیں۔مرنے کے بعد کا حال کو ن جانتاہے؎ بابر عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

اس خالص دنیوی اور مادہ پرستانہ طرزفکر نے انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ایک زمانہ تھا جب تدریس کے پیشے کو ایک سماجی خدمت کا رتبہ حاصل تھا اور استاد اور شاگردکا رشتہ انتہائی مقدس رشتہ مانا جاتاتھا۔مگر مادہ پرستی کے کلچر نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے ساتھ ساتھ استاد اور شاگرد کے رشتے کو بھی محض ایک کاروباری تعلق بناکر رکھ دیا ہے۔اب جہاں اساتذہ کے لیے یہ صرف حصول زر کا ایک ذریعہ رہ گیا ہے ،وہیں طالب علم کے لیے بھی حصول علم کا اگر کوئی مقصد ہے تو وہ بس بہتر سے بہتر ملازمت یا روزگار کا حصول ہے۔

تعلیمی اداروں میں مسابقت اور 100فی صد نمبرات کے حصول کا ہدف:

اسی طرز فکر نے دیگر شعبہ ہائے حیات کی طرح اس شعبے میں بھی مسابقت اور تکاثر کو جنم دیا۔ مسابقت فی نفسہٖ کوئی بری چیز نہیں،بلکہ بعض اوقات وہ ضروری ہوتی ہے،اور اس کے بغیر ترقی کا تصور ممکن نہیں،لیکن جب مسابقت اپنی انتہا پر پہنچ جائے اور تکاثرکی شکل اختیار کرلے تو یہ انتہائی خطرناک ہو جاتی ہے۔ آج تعلیمی اداروں میں اس مسابقت نے جو شکل اختیار کر لی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔تعلیمی اداروں کو بچوں کے مستقبل سے زیادہ اپنی ساکھ کی فکر رہتی ہے۔اور ہر ادارہ چاہتا ہے کہ اس کا تعلیمی ریکارڈ دوسروں سے بہتر رہے۔ظاہر ہے ا س کا پریشر شعوری یا غیر شعوری طورپر طلبہ ہی کو برداشت کرنا پڑتاہے۔

ایک زمانہ تھا جب 60فی صد نمبر لانے والے طلبہ کو فرسٹ ڈویژن کی کٹیگری میں رکھا جاتا تھا اور باعث اطمینان تصور کیا جاتاتھا۔اس سے زیادہ نمبر لانے والوں کوتو فرسٹ ،سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن کا مستحق قرار دیا جاتا تھا۔مگر اب60۔70فی صد کا تو ذکر ہی کیا،90۔95فی صد نمبربھی قابل اطمینان تصور نہیں کیے جاتے،بلکہ طلبہ کے سامنے 100فی صد کا ہدف ہوتاہے،جس کا حصول کوئی آسان کام نہیں۔ظاہر ہے اس ہدف کومحض ایک دو فی صد طلبہ ہی حاصل کرسکتے ہیں۔دیگر طلبہ لاکھ کوششوں کے بعد بھی اس مطلوبہ معیار کو حاصل نہیں کرپاتے۔اور یہیں سے مایوسی کا آغاز ہوتاہے۔کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ حصول تعلیم کے بعد مارکیٹ میں بھی ان ہی طلبہ کی مانگ ہوتی ہے جو 100 فی صد یا 98۔99 فی صد سے کامیاب قرار پائے ہوتے ہیں۔ دیگرطلبہ لاکھ کوششوں کے باوجود ’فالتو‘ کے زمرے میں آجاتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ ’فالتو‘ کہلانا کوئی پسند نہیں کرتا۔

والدین کی طرف سے ذہنی دباؤ کا سامنا:

بات یہیں تک محدود ہوتی تو بھی سہا جا سکتاتھا۔جیساکہ ابتدا ء میں عرض کیاگیا کہ مادہ پرستی پر مرکوز طرزفکر سے ہر طبقہ متاثرہواہے ،تو والدین اس سے کیسے اچھوتے رہ سکتے ہیں۔فی زمانہ والدین کے نزدیک اولاد کی تعلیم کا مقصد وحید بھی اس کے سوا کچھ نہیں رہ گیا ہے کہ اولاد جلد سے پڑھ لکھ کر کمانے کی مشین بن جائے۔اس طرز فکر نے والدین کو حد درجہ خود غرض بنا دیا ہے،جن کے لیے اولاد کا وجود ایک درخت سے زیادہ نہیں ہے ، جسے کھاد پانی دے کر محض اس لیے بڑا کیا جاتا ہے کہ آگے چل کر وہ محض سایہ ہی نہیں ،بلکہ رسیلے پھل بھی دے سکے۔اب اگر وہ درخت بے ثمر ثابت ہو تو یہ انتہائی مایوسی کی بات ہوگی۔چنانچہ والدین کی جانب سے بچوں پر انتہائی پریشر ڈالا جاتاہے کہ انہیں ہر حال میں مطلوبہ ہدف پورا کرناہے۔اس کے برخلاف نتیجہ آے پر انھیں اپنی امنگوں اور خواہشوں پر پانی پھرتامحسوس ہوتا ہے،اور ردِ عمل میں اس اولاد کو سخت وسست اور حوصلہ شکن کلمات سننے کو ملتے ہیں ،جو پہلے ہی تمام کوشش کے باوجود مطلوبہ ہدف حاصل نہ کرپانے کا کرب برداشت کر رہی ہوتی ہے۔ایسے میں اگر اسے اس قسم کے نازیبا کلمات سننے کو ملیں—’’کیا فائدہ ہوا اتنا پیسہ برباد کرنے سے؟‘‘،’’اتنے کم نمبروں پر بھلا کہاں ایڈمیشن ہوگا؟‘‘،’’پڑھ لکھ کر بھی نوکری پانے کے قابل نہ ہوسکے تو تعلیم دلانے کا کیا فائدہ؟‘‘—تو یاس وقنوط کا طاری ہونا فطری بات ہے۔

ایک تو مسابقت سے بھری دنیا کا ٹینشن ہی کیا کم تھا،اس پر ان والدین اور قریبی عزیزوں کی طرف سے ،جن کاکام ایسے وقت میں حوصلہ دینے اور ہمت بندھانے کا تھا ،حوصلہ شکن کلمات سن کر بھلا کون دل برداشتہ نہ ہوگا۔اور پھر نوجوانی کا دور تو ویسے بھی بہت نازک اور حساس دور ہوتا ہے۔اس عمر میں مزاج کاتلون بھی پورے شباب پر ہوتاہے ،کچھ کر گزر نے کی چاہ اور آسمان پر کمندیں ڈالنے کی خواہش جتنی تیزی سے پروان چڑھتی ہے،نامساعد اوردل شکستہ حالات میں مایوسی بھی اتنی ہی تیزی سے حملہ آور ہوتی ہے۔ایسے میں اگر جذباتی طورپر کوئی سہار ا نہ ملے ،بلکہ اس کی جگہ طعنے تشنے اور حوصلہ شکن باتیں ہی سننے کو ملیں تو یہ مایوسی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ،جس کا نتیجہ بسا اوقات خودکشی کی شکل میں سامنے آتاہے۔

موجودہ طرزِ فکر کی اصلاح:

سب سے پہلے تو یہ طرزفکر بدلنی چاہیے کہ تعلیم کا واحد مقصد محض روزگار ،خصوصاً نوکری کا حصول ہے۔ظاہر ہے کہ کالجوں، یونیورسٹیوں کی سیٹیں بھی محدود ہوتی ہیں،اور نوکریاں بھی خواہ کتنی ہی ہوں،بہر حال سب کے لیے کفایت نہیں کر سکتیں، اس لیے بہت سے طلبہ کو اس سلسلے میں بہر حال مایوسی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔تو کیوں نہ پہلے سے ہی اس کے لیے تیار رہا جائے۔

یہاں والدین اور طلبہ دونوں کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ علم حاصل کرنا بہرحال ضروری ہے ،خواہ ملازمت کرنا مقصود ہو یا نہ ہو، پھر یہ کہ علم کبھی رائگاں نہیں جاتا۔اہل علم اپنی قدر منواکر رہتا ہے،بس سچی لگن اور حوصلے کی ضرورت ہے۔زندگی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں محض نامور تعلیمی اداروں کی ڈگریاں کام نہیں آتیں ،بلکہ وہاں اصل امتحان قابلیت اور صلاحیت کا ہوتاہے۔خودروزگار اور ذاتی کاروبار میں ظاہر ہے صلاحیت اور قابلیت ہی کی اہمیت ہوتی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسکول کالج میں کم تر پوزیشن سے کامیاب ہونے والے طلبہ بھی اپنی ذہانت اور صلاحیت سے کاروباری دنیا میں انتہائی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔

لہٰذا دوران تعلیم اپنی پسند کی ملازمت کا خواب ضرور دیکھیں،لیکن اسے واحد اور آخری ہدف(Goal) ہر گز نہ بننے دیں،بلکہ مختلف آپشنز(Options) ضرور ذہن میں رکھیں۔ یاد رکھیں ،زندگی صرف ایک خواہش نہیں کہ وہ پوری نہ ہوئی تو اسے ختم کر لیا جائے، بلکہ ایک راستہ بند ہو تو دوسرے کئی راستے ہمارے سامنے کھلے ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے مقصدکولے کر ہم اتنے خود مرتکز ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اس کے سواآس پاس کچھ نظر نہیں آتا۔
زندگی کے بارے میں صحیح طرزِ فکر: اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات بہت مددگار اور حوصلہ افزا ثابت ہوتی ہیں۔اسلام کی روسے یہ دنیا دارالجزا نہیں ،بلکہ دارالعمل ہے،اور اصل دارالجزا اخروی زندگی ہے۔ اسلام کے نزدیک اس فانی دنیا کی عارضی کامیابی یا ناکامی بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھتی،بلکہ اس کے نزدیک اصل کامیابی یا ناکامی اخروی زندگی میں ملنے والی کامیابی یا ناکامی ہے۔بے شک اسلام انسان کوسعی و جہد پر ابھارتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ

حوصلہ بخش اصول بھی دیتاہے:

’’اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی۔‘‘ (سورۃالنجم:۳۹)
یعنی خدا کے نزدیک اصل اہمیت انسان کی صحیح سمت میں کی جانے والی سعی وجہدہے۔اگر کوئی سعی وجہد کا حق ادا کردیتاہے تو خدا کی نظر میں وہ کامیاب ہوگا،خواہ دنیوی حیثیت میں وہ کیسا ہی ناکام کیوں نہ ثابت ہواہو۔یہ حکم صرف آخرت کے لیے کیے گئے اعمال پر ہی چسپاں نہیں ہوتا،بلکہ دنیوی معاملات میں بھی ہم دیکھیں تو ہمیں اس سے بڑی رہنمائی ملتی ہے۔

کوئی طالب علم اس کے سوا بھلا اور کر بھی کیا سکتاہے کہ پوری محنت اور لگن سے پڑھائی کرے،اس کے باوجود اگر کسی وجہ سے وہ امتحان میں کسی اور کے مقابلے کم نمبرحاصل کر پاتا ہے تو بھلا اس میں اس کا کیا قصور ہے؟کیوں کہ سعی وجہد کا حق تو اس نے ادا کیا ہی۔پھر محض اس وجہ سے کہ وہ کسی اور سے پیچھے رہ گیا،اس کی سعی وجہد کی قدر کرنے کے بجائے اسے موردِ الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟اور وہ خود بھی اپنے آپ کو قصوروار کیوں سمجھے؟ظاہر ہے اپنی مرضی کے مطابق نتیجہ پانا تو اس کے دائرۂ اختیار میں نہیں تھا،پھر اس کے لیے اس کو لعنت وملامت کیوں کی جائے؟

والدین کی ذمہ داری مادہ پرستانہ طرز فکر سے متاثر موجودہ مسابقتی کلچر کو بدلنا بھلے ہی کوئی آسان کام نہ ہو ،لیکن والدین اپنا طرزفکر تو تبدیل کر ہی سکتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں سے امیدیں ضرور لگائیں،لیکن نہ تو ان امیدوں کے پورا نہ ہونے پر انھیں بلاوجہ موردِ الزام ٹھہرائیں،نہ ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کریں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچوں کا رجحان کچھ اور ہوتا ہے اور والدین انھیں کچھ اور بنانا چاہتے ہیں،اس کا بھی بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑتاہے اور بسا اوقات ذہین طالب علم ،اپنی مرضی کے خلاف اختیار کیے گئے مضمون کی وجہ سے تعلیم پر وہ توجہ نہیں دے پاتاجو مطلوب ہوتی ہے اور اس وجہ سے بھی وہ تعلیم میں پچھڑ جاتا ہے۔اس پر ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ بجائے اس کے کہ والدین اولادکے اس جذبۂ فرماں برداری کی قدر کریں،اور اس کا حوصلہ بڑھائیں،الٹے اسے لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں کہ اس نے ان کی امنگوں پر پانی پھیر دیا۔

اولاد کے سلسلے میں ماں باپ کا نہ تویہ رویہ درست ہے کہ انھیں محض اپنی جائداد سمجھیں اور ہر حال میں اپنی مرضی کا پابند بنائیں، نہ یہ درست ہوگاکہ انھیں اس معاملے میں بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنا کیرئر جس لائن میں بھی بنانا چاہتے ہوں، بنائیں۔ کیوں کہ علم ِغیر نافع اور مذہبی اعتبار سے ناجائز نیزمخرب اخلاق پیشوں کی طرف جانے سے اولادکو بچانا بھی بہرحال ان ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر بچوں کا رجحان کسی ایسے پیشے کی طرف ہو تو اس سے انھیں ضرور روکیں،لیکن محض اپنی امنگوں اور آرزوؤں کی خاطر ان کے جذبات ورجحانا ت کا خون ہر گز نہ کریں۔اگر والدین بچوں کو اپنی امنگوں کا دشمن مان کر ان کو لعنت ملامت کرنے کے بجائے ،ان کے دوست بن کر ان کے مسائل کوسمجھیں،ان کے جذبات واحساسات کی قدر کریں ،تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی طالب علم، امتحان میں ناکام ہونے یا مطلوبہ ہد ف پورا نہ کر پانے پر،خود کو تن تنہا محسوس کر کے خودکشی کی طرف راغب ہوں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں