طرزِ زندگی اور صحت مند زندگی

ایڈمن

ڈاکٹر عدنان الحق خاں بلند نصب العین رکھنے کے لئے فرد کو طاقت و قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بندۂ مومن کے سامنے خوشنودیٔ رب اور حصولِ جنت کے اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ مزید وہ اس دنیا میں اللہ…

ڈاکٹر عدنان الحق خاں

بلند نصب العین رکھنے کے لئے فرد کو طاقت و قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بندۂ مومن کے سامنے خوشنودیٔ رب اور حصولِ جنت کے اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ مزید وہ اس دنیا میں اللہ کے نائب (خلیفہ) کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور کائنات کے بے شمار موجودات اس بندۂ مومن کے لیے مسخر ہوتے ہیں۔ اس لیے اُسے طاقت و قوت والا ہونا چاہیے۔ طاقت و قوت کا تعلق انسان کی صحت سے ہوتا ہے۔ چونکہ انسان کا جسم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سوال بھی کرے گا۔ انسانی جسم کے بندے پر حقوق ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان ساری وجوہات کی رو سے جسم و دماغ کو صحت مند رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا دین کا تقاضا ہے۔ اللہ کے نبی حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ ’’اللہ کی نظر میں ایک قوی مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اور پسندیدہ ہے۔(گو ان میں سے) ہر ایک میں خیر ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب القدر، جلد پنجم)

ایسےپسندیدہ قوی مومنین میں سے ہی ہمارے انبیاء علیہ السلام تھے۔ حضرت موسیؑ ایک وجہیہ انسان تھے اور بھرپور طاقت و قوت رکھتے تھے۔ جس کا مظہر ہمیں قبطی کی موت کے واقعہ میں ملتا ہے۔ موسیؑ نے ایک گھونسا مارا اور قبطی وہیں ڈھیر ہوگیا۔ مدین میں حضرت شعیبؑ کی صاحبزادیوں کے جانوروں کو کنویں سے پانی پلانے کے وقت بھی ہمیں یہ طاقت و قوت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ حضرت شعیبؑ کی صاحبزادی نے موسیٰؑ کی سفارش اپنے والد کے پاس یوں کی کہ ’’بے شک بہتر نوکر جسے آپ رکھنا چاہیں وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔‘‘ (القصص:۲۶)

آنحضرتؐ کے بارے میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم آپس میں گفتگو کرتے تھے کہ آپؐ کو تیس آدمیوں کی قوت عطا ہوئی ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الغسل)۔ اسی طرح حضرت شموئیل نے جب حضرت طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا اور بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو حضرت شموئیل ؑنے حضرت طالوت کی جو خصوصیات بتائیں وہ ذہنی اور جسمانی قوت ہی تھی فرمایا: ’’بے شک اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو (طالوت) کو منتخب کیا ہے اور علمی و جسمانی قوتیں فراوانی کے ساتھ دی ہیں۔ اللہ اپنی سلطنت جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت والا اور علم والا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۴۷)

اس واقعہ سے یہ بھی استدلال نکلتا ہے کہ امامت و قیادت کا تعلق حسب نسب یا مال سے نہیں بلکہ ذہنی و جسمانی طاقت و قوت سے ہے۔دراصل ذہنی و جسمانی قوت اور طاقت کا راست تعلق صحت سے ہوتا ہے۔ انسان کا جسم و دماغ صحت مند ہوگا تو پھر طاقت و قوت کے سارے فوائد دیکھنے کو ملیں گے۔ اللہ کے نبیؐ فرماتے ہیں کہ ’’صحت و تندرستی اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے دولت سے بھی بہتر ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، ابواب البخارہ، مسند احمد) اسی طرح آپؐ نے فرمایا صحت کو غنیمت جانو، بیماری (مرض ) سے پہلے۔ (حاکم، شرح السنہ) ایک اور جگہ فرمایا کہ ’’دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں پڑے رہتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور فرصت۔‘‘ (عن عبداللہ بن عباسؓ، بخاری، کتاب الرقاق، ترمذی، ابواب الزہد) حالتِ صحت میں نیکی و عبادت کا ثواب بھی زیادہ ہے۔ حدیثِ رسولؐ ہے کہ تم اس وقت صدقہ کرو جب تمھیں صحت و تندرستی حاصل ہو۔ (مسلم، بخاری، کتاب الزکوۃ)

صحت و تندرستی:

صحت و تندرستی ہی فرد کو یکسوئی مہیا کرتی ہے۔ اسے بلند مقاصد کے لیے سوچنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ورنہ بیمار انسان اپنی بیماری کے باہر سوچ ہی نہیں پاتا۔ صحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ہیں۔

تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے

انسان اللہ کا خلیفہ ہے اور مرکب ہے جسم اور روح کا۔ جب انسانی جسم صحت مند ہوگا، مضبوط ہوگا تب ہی وہ روح کے ارتقا کو یقینی بناسکے گا۔صحت کی تعریف WHOنے 1946میں اس طرح بیان کی ہے:
“Health is a state of complete physical, mental & social well being and not merely the absence of disease or infimity”. (Premeable to the constitution of WHO 1946)
یعنی صرف جسمانی بیماریوں کا نہ ہونا صحت و تندرستی نہیں ہے۔ بلکہ جسمانی، ذہنی اور سماجی تندرستی بھی ضروری ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر روحانی، نفسیاتی اور جذباتی آسودگی یا تندرستی بھی صحت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔اس لیے اگر کوئی شخص صحت مند و تندرست رہنا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ جسمانی بیماری پیدا کرنے والے عوامل سے دور رہے۔ ذہنی اور نفسیاتی طور سے مضبوط رہے۔ سماجی برائیوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ اپنے اخلاق و اعمال کو درست رکھے۔ خدا سے تعلق کو مضبوط کرے اور اپنے قلبی احساسات و جذبات کو پاک رکھے۔ تب ہی وہ شخص جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، سماجی، روحانی، قلبی و جذباتی تمام پہلوؤں سے تندرست اور مضبوط ہوگا۔

لائف اسٹائل اور صحت:

موجودہ وقت میں امراض کی ایک قسم وہ بیماریاں ہیں جو لائف اسٹائل (طرزِ زندگی) کی خامیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے خون کا دباؤ، ذیابیطس(Diabeties)، دل کا دورہ (Heart Attack)، فالج (Stroke)، موٹاپا (Obesity) اور تیزابیت (Acidity) وغیرہ۔ ایک ریسرچ کے مطابق طرزِ زندگی سے جڑی بیماریوں سے لڑنے کے لیے ہندوستان ہر سال $6 Billionڈالر کی رقم خرچ کرتا ہے۔ (ہارورڈ یونیورسٹی اور WHOکی مشترکہ ریسرچ)۔اسی ریسرچ میں Public Health Foundation of Indiaکے صدر جناب ڈاکٹر کے سری ناتھ ریڈی کے بیان کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’زیادہ تر طرزِ زندگی سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے فرد اپنی Productive Ageمیں متاثر ہوتا ہے۔‘‘اس لیے طرزِ زندگی کے سلسلے میں جب بھی بات ہوتی ہے، صحت ایک اہم نکتہ ہوتا ہے۔

عام طور پر اخبارات میں طرزِ زندگی (Life Style)کے کالمس میں غیر سنجیدہ اور غیر اہم موضوعات پر بات کی جاتی ہے جیسے کپڑوں، زیورات وغیرہ کے لیے مشورے دیے جاتے ہیں۔ پر ان کالمس کا استعمال صحت کے لیے مشورہ دینے کے لیے کیا جانا چاہیے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوستان اور پوری دنیا میں Life Style Diseaseاموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔2015میں IHDیعنی دل کی بیماری کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں، ہر دس میں سے ایک فرد کو دل کی بیماری ہے اور ذیابیطس(Diabeties)میں تو ہندوستان دنیا میں سب سے آگے ہے۔ یعنی اسے Diabeties Capital of the Worldکہتے ہیں۔ ہندوستان کی 31%آبادی موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہے، یعنی ہر ۵ میں سے ایک۔ دنیا میں موٹاپے میں ہندوستان کا تیسرا نمبر ہے۔
ہماری طرزِ زندگی (Life Style)میں بہت سی خامیاں، بے اعتدالیاں اور نقائص ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری صحت متاثر ہوتی ہے اور ہمیں Life Style Disordersہوجاتے ہیں۔ جیسے تعیش پسندانہ طرزِ زندگی، سستی کاہلی، متوازن غذا کا فقدان، Junk Food کا بے پناہ استعمال، ذہنی اضطراب (Stress)، منشیات کا استعمال، طہارت و نظافت کا خیال نہ رکھنا، ان ساری طرزِ زندگی کی خامیوں کی وجہ سے یہ بیماریاں ہوتی ہیں۔ ان سارے عوامل کو ختم کرکے ہم نہ صرف ایک صحت بخت زندگی گزارسکتے ہیں۔ بلکہ صحت کے لیے ہم کچھ وقت نکال کر ایک قوی مومن بن سکتے ہیں۔

صحت مند طرز زندگی کے خدوخال

غذا:

غذا کے سلسلے میں قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ فرمایا: ’’اے لوگو! کھاؤ جو کچھ زمین پر حلال اور پاک ہے۔‘‘ (البقرۃ:۱۶۸)
حلال اور طیب اشیاء کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ اور دنیا کی تمام اشیاء حلال کی گئی ہیں سوائے معدودے چند کے جس کی فہرست اس طرح بیان کی گئی ہے۔ مردار، خون، خنزیر، غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ (البقرۃ:۱۷۳، النحل:۱۱۵) اسی طرح غذا کے سلسلے میں اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی۔ (الاعراف: ۳۱) اور غذا جیسی عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انگریزی کا ایک مقولہ ہے: You are what you eat. یعنی غذا پر ہی ہماری شخصیت اور ہماری صحت کا دارومدار ہوتا ہے۔ متوازن غذا کی تعریف ہم یوں بیان کرسکتے ہیں کہ صحت مند غذا، مناسب وقت پر اور مناسب مقدار میں کھائی جائے تو اسے صحت بخش غذا کہیں گے۔
(۱) مناسب غذا: ہماری غذا میں خاص طور پر تین چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ Carbohydrate,fatsاور پروٹین اس کے علاوہ غذا کے ذریعہ ہمیں وٹامین، معدنیات اور پانی بھی حاصل ہوتا ہے۔

ہماری غذا میں ایسی چیزیں شامل ہونی چاہیں جو ہمارے جسم کی سبھی ضروریات کو پوری کریں۔ جیسے میٹھی چیزوں میں کاربوہائیڈریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ گوشت اور دالوں میں پروٹین۔ اسی طرح چربی، تیل اور گھی میں چربی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس لیے سبھی قسم کے کھانے ہماری غذا میں شامل ہونی چاہئیں۔ لیکن کسی بھی چیز کی زیادتی نہ ہو۔ کیونکہ ہر چیز کی کمی بھی ہمارے جسم کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کی زیادتی بھی۔ ایک عام آدمی کے لیے ہر دن ۱۵۰۰ سے ۳۰۰۰ کلو کیلوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ کیلوری اگر ہماری غذا میں ہوتی ہے تو وہ جسم میں شکر اور چربی کی صورت میں جمع ہوجاتی ہے۔ جو ہمارے جسم کے لیے نقصاندہ ہے۔ آج کل Junk Foodکا رواج چل نکلا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کی صحت متاثر ہورہی ہے۔ جنک فوڈ میں دراصل شکر، چربی اور کیلوری کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور پروٹین، معدنیات، بہت کم ہوتی ہیں یا نہیں پائی جاتی۔ جنک فوڈ کے استعمال کی وجہ سے ہی طرزِ زندگی میں ذکر کیے گئے بے شمار بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ سموسہ، برگر، Pizza، پانی پوری وغیرہ وغیرہ یہ سبھی جنک فوڈ ہیں۔ جنک فوڈ ہی کی طرح Cold Drinksبھی ہوتی ہیں۔ جن کا استعمال ہمارے نوجوان فخر کے ساتھ کرتے ہیں پر یہ ہماری صحت کے لیے سمِ قاتل ہے۔

(۲) مناسب وقت:

کھانے کے وقت کی بڑی اہمیت ہے۔ پچھلا کھانا ہضم ہونے کے بعد اور بھوک لگنے کے بعد ہی کھانا کھائیں۔ ماہرین تغذیہ ۴ وقت کھانا کھانے کی صلاح دیتے ہیں۔ صبح اٹھنے کے بعد ناشتہ، دوپہرمیں کھانا، شام کے وقت پھر ہلکا ناشتہ کریں اور پھر رات کا کھانا کھائیں۔
(۳) مناسب مقدار:کھانا اپنے جسم اور معدے کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ضرورت سے کم کھانا کھانے کی وجہ سے آپ کے جسم کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی اور وزن کم ہوگا۔ آپ کا جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف غذا کی زیادتی بھی بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے۔موٹاپا اور اس سے جڑی بیماریاںاور بدہضمی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیںاور پیٹ سے جڑے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے نبی حضرت محمدؐ نے بھی شکم سیری ہوکر کھانے کو منع فرمایا ہے، آپؐ فرماتے ہیں کہ ’’آدمی نے پیٹ کے (برتن) سے برا کوئی برتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھی رکھ سکے۔ اگر بہت ضروری ہو تو ایک تہائی اس کے کھانے کے لیے، ایک تہائی اس کے پینے کے لیے اور ایک تہائی اس کے سانس لینے کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘ (ترمدی، ابن ماجہ) عام طور سے ہم صبح ہلکہ ناشتہ کرتے ہیں پھر دوپہر میں بھرپیٹ کھانا کھاتے ہیں اور پھررات میں جبکہ ہمیں سونا ہوتا ہے بہت زیادہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ترتیب یوں ہونا چاہیے کہ ناشتہ زیادہ مقدار میں کھائیں پھر دوپہر میں کچھ کم اور رات میں بہت کم۔ انگریزی میں بڑی اچھی کہاوت ہے.Do breakfast like a king ,lunch like a labour,and dinner like a begger….
اسلیے ماہر تغذیہ کا مشورہ لیںاورDiet Chart کے مطابق غذا کا استعمال کریں۔کھانے کے آدھے گھنٹے بعد پانی کا استعمال کریں۔ پانی کا بھرپور استعمال بہت سی بیماریوں کی روک تھام اور بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے ضروری ہے۔ پانی کے زائد استعمال کی وجہ سے صحت میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان کی جلد تروتازہ رہتی ہے۔ اکثر اطباء گرم پانی پینے کی صلاح بھی دیتے ہیں۔

٭ ورزش اور کھیل کود:

محنت کا فقدان اور تعیش پسندانہ طرزِ زندگی ہی دراصل بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اسلام نے صحت مند کھیل کود اور ورزش پر کافی زور دیا ہے۔ حضرت محمدؐ نے تیر اندازی، تیراکی، کشتی کے مقابلے اور گھڑ سواری کی ترغیب اپنے قول وعمل سے دی۔ ایک موقع پر آپؐ اور حضرت عائشہ سفر پر تھے۔ آپ دونوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ ہوا جس میں آنحضرت ؐ جیت گئے۔ دوسری مرتبہ مقابلہ ہونے پر ام المؤمنین حضرت عائشہؓ جیت گئیں۔ اس طرح دورِ نبویؐ میں کھیل کود کے مقابلے منعقد کیے جاتے تھے۔ اور آپؐ جیتنے والے اصحاب کو انعامات سے بھی نوازتے تھے۔ دراصل انسان کو محنت و مشقت کا عادی ہونا چاہیے ورنہ اگر وہ سست رہے تو اسے ڈھیروں قسم کی بیماریاں آلیتی ہیں۔ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ورزش (Excercise)نہایت ناگزیر ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر فرد کو ہفتہ میں ۱۵۰ منٹ کی درمیانہ درجے کی ورزش نہایت ضروری ہے۔ ورزش میں Walkingاور Trademillدل کے لیے مفید ہوتے ہیں جبکہ پٹھوں کی مضبوطی کے لیے اور وزن کو منضبط کرنے کے لیے Heavy Exerciseکی جاتی ہے جس میں جم خانے جاکر باقاعدہ وزرش شامل ہے۔ ایک عام فرد اپنے گھر بھی مختلف طریقوں سے ورزش کرسکتا ہے۔ رسّی کو دنا بھی ایک اچھی ورزش ہوسکتی ہے۔ اسی طرح صبح اور رات میں سونے سے قبل چہل قدمی بھی صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔

تناؤ سے نجات :

تیز رفتار زندگی میں آج ہر شخص تناؤ سے بھری زندگی گزار رہا ہے۔ اللہ پر توکل کی کمی کی وجہ سے انسان اپنے رزق، اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ اور کچھ نہیں تو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جدوجہد کی وجہ سے بھی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ تناؤ سے بھری زندگی ہی دراصل بلڈ پریشر، ذیابیطس، دل کی بیماری اور موٹاپے جیسے جسمانی امراض اور بے شمار ذہنی اور نفسیاتی امراض کا موجب ہے۔ تناؤ کو کم کرنے کے لیے اللہ پر توکل بہترین علاج ہے۔ جبکہ ماہرین مراقبہ کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوچکی ہے کہ اسلامی عبادات اور خاص طور پر خشوع کے ساتھ ادا کی گئی نماز سے بھی توکل پیدا ہوتا ہے اور تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جب انسان تناؤ میں ہوتا ہے تو قرآن کی تلاوت بھی مفید ثابت ہوتی ہے۔ اکثر قرآن کا مطالعہ کرنے والے اپنا تجربہ بتاتے ہیں کہ ’’جب ہم کسی وجہ سے تناؤ کی کیفیت میں تھے اور قرآن پڑھ رہے تھے تو قرآن کی آیات میں ہمارے لیے دلاسہ اور راہِ عمل تھی جس کی وجہ سے ہمارا ذہنی تناؤ (stress)کم ہواــــــــ۔تناؤ سے بچنے کے لیے مناسب نیند بھی نہایت ضروری ہے۔ دوپہر میں قیلولہ کرنے کی سنت بھی نہایت مفیدثابت ہوسکتی ہے۔

طہارت و نظافت:

قرآن طہارت وپاکیزگی کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطہرین (البقرۃ: ۲۲۷) ’’بے شک اللہ پاک رہنے والوں اور توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ آپؐ کا قول مبارک ہے کہ ’’الطہور شطر الایمان‘’ (مسلم کتاب الطہارۃ)’’پاکی نصف ایمان ہے۔‘‘ اسی طرح اسلامی عبادات میں بھی آپ کو پاکی و صفائی کی تلقین اور اس کے عملی نمونے دیکھنے کو ملیں گے۔ ہمارے جسم کی اور ہمارے آس پاس کے ماحول کی طہارت ہی دراصل ہمیں صحت مند رکھتی ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے روز نہائیں، سر میں تیل لگائیں، ناخن تراشتے رہیں،موئے زیر ناف اور بغل کے بال وقتاً فوقتاً اکھاڑیں۔ کم سے کم ۲ مرتبہ مسواک کا استعمال کریں۔ (صبح اور رات میں سوتے وقت) ہمیشہ وضو سے رہنے کی کوشش کریں۔

اخلاقی بگاڑ:

موجودہ دور میں جنسی بے راہ روی اور اخلاقی بگاڑ کی وجہ سے بھی جسمانی اور نفسیاتی صحت متاثر ہوتی ہے۔ جنسی بے راہ روی کی وجہ سے بے شمار Sexually Transmitted Disease (STD’s)، AIDSاور اعصابی بیماریاں عام ہوئیں ہیں۔ اخلاق میں بہتری اور روحانیت کے ذریعہ ان بیماریوں کو روکا جاسکتا ہے۔ اسی طرح شراب، بیڑی، سگریٹ، تمباکو اور دیگر نشہ آور ادویات کا استعمال بھی موجودہ لائف اسٹائل کا حصہ بن چکی ہے۔ جس کی وجہ سے بے شمار بیماریوں نے انسانوں کو گھیر لیا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں