صبر مومن کے لئے اللہ کا وہ انعام ہے جس کی دولت سے وہ جنت کا راستہ پالیتا ہے۔ انسان کی دوہی حالتیں ہوتی ہیں آرام وراحت یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الٰہی اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے استعانت کی تاکید ہے، صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ’’ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے دونوں ہی حالت میں اس کے لئے خیر ہے‘‘۔
صبر کے دو قسمیں ہوتی ہیں:
(۱) محرمات اور معاصی کے ترک اور اس سے بچنے پر اور لذتوں کو قربان کرنے اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر
(۲) احکام الٰہی کے بجا لانے میں جو مشقتیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر سے برداشت کرنا۔
اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا، چاہے وہ نفس پر کتنی ہی گراں ہوں، اور اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے بچنا، چاہے وہ خواہشات اور لذّت اس کو کتنا ہی اپنے طرف راغب کرلے۔ (ابن کثیر)
سورۃ البقرۃ آیت نمبر۱۵۵؍ میں اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’ہم کسی نہ کسی طرح ضرور تمہاری آزمائش کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان سے، اور پھلوں کی کمی سے اور ان پر صبر کرنے والوں کے لئے خوش خبری دے دیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ آزمائشیں جتنی سخت ہوں گی اتنا ہی بڑا انعام ملے گا، بشرطیکہ آدمی مصیبت سے گھبرا کر راہ حق سے بھاگ نہ کھڑا ہو، اور اللہ تعالیٰ جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو ان کو مزید نکھارنے کے لئے، مزید سنوارنے کے لئے اور صاف کرنے کے لئے آزمائشوں میں ڈالتا ہے، پس جو لوگ خدا کے فیصلہ پر راضی رہیں اور صبر کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوتا ہے‘‘۔ (ترمذی عن انسؐ)
کوئی شخص اس وقت تک صبر نہیں کرسکتا، جب تک کہ خدا پر اس کو اعتماد اور یقین نہ ہو، اپنے رب پر کامل بھروسہ نہ ہو، جب تک وہ یہ نہ سوچے کہ جو مصیبت میرے اوپر آئی ہے یہ اللہ کے اذن سے ہے اور ضرور میرے لیے اس میں میرے رب نے کوئی بھلائی رکھی ہوئی ہے، جب بندہ اپنی مصیبت پر صبر بھی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ بن جاتا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صبر سے زیادہ بہتر اور بہت سی بھلائیوں کو سمیٹنے ولی بخشش والی اور کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)
مومن کا سابقہ زندگی میں ہر قسم کے حالات سے پڑتا ہے، کبھی معاشی پریشانی، کبھی بیماریوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ، کبھی راہ حق میں آنے والی مصیبتیں، لیکن جو شخص ہر حال میں اور ہر مصیبت کا سامنا صبر کے ساتھ کرتا ہے وہ کامیاب وہ کامران ہوتا ہے، چاہے حالات کتنے ہی نا سازگار ہوں وہ راہ حق کی مصیبتوں سے نہ گھبراتا ہے، نہ معاشی بحران کے تعلق سے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کناں ہوتا ہے، کیونکہ وہ صبر کی طاقت سے اپنی جگہ مضبوطی سے جما رہتا ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن مردوں اور عورتوں پر وقتاً فوقتاً آزمائشیں آتی رہتی ہیں، کبھی خود اس پر مصیبت آتی ہے، کبھی اس کی اولاد پر آتی ہے، کبھی اس کا مال تباہ ہوجاتا ہے، اور وہ ان تمام مصیبتوں پر صبر اختیار کرتا ہے، اور اس کے قلب کی صفائی ہوتی رہتی ہے، اور برائیوں سے دور ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اللہ سے ملتا ہے تو اس حال میں ملتا ہے کہ اس کہ نامۂ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔(ترمذی عن ابی ہریرۃ) یہ وہ خوش خبری ہے جو کسی بھی مومن کے لئے باعث تسکین ہے، اس کے لیے اس بات سے بڑی سرشاری کی بات اور کیا ہوگی کہ وہ اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس کا نامۂ اعمال گناہوں سے پاک ہو۔
دنیا تو فانی ہے، کیوں نہ ہم صبر کا سہارا لے کر آخرت کو سنوار لیں، ہر مصیبت پر یہ سوچیں کہ اس کے ذریعہ اللہ ہمارے گناہ مٹانا چاہ رہا ہے، پھر دیکھیں کہ وہ مصیبت یا وہ آزمائش کی گھڑی ہمارے لئے باعث رحمت اور تسکین قلب کا باعث بن جاتی ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت نمبر۱۵۶؍ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:’ ’ جنھیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، چاہے وہ راہ حق میں آنے والی مصیبتیں ہوں، یا مال کا خسارہ ہو، یا کوئی جسمانی بیماری ہو، یا لوگوں کے تکلیف دہ روّیے ہوں، اللہ پاک ہر حال میں ہمیں صبر جمیل عطا کرے اور ہمیں اپنی رحمتوں میں داخل کرے اور ہمارا شمار اپنے ہدایت یافتہ بندوں میں کرے، آمین
ثمرین کا ظم،دبئی۔یو اے ای