نِعَمَّا باِلمَالِ الصالِح ِ لِلرِّجْلِ الصَّالِحِ۔ (عن عمرو بن العاص، رواہ احمد)
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مہم پر جانے کا حکم دیتے وقت کہا کہ انہیں اس میں فتح کے ساتھ مال غنیمت بھی حاصل ہوگا۔ انھوں نے جواب دیا کہ : اے اللہ کے رسولؐ ہجرت مال ودولت کے لئے نہ تھی۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب دیا وہ اوپر درج ہے۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:نِعماَ باِلمَالِ الصالِح ِ لِلرِّجْلِ الصَّالِحِ۔ پہلی روایت کا مفہوم ہے کہ اچھا مال اچھے شخص کے لئے کیا ہی خوب ہے۔ دوسری روایت کا مفہوم ہے کہ اچھا مال اچھے شخص کے لئے اچھا ہے۔
مال کے سلسلے میں میں ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا بَاسَ بِالغِنیٰ لِمَنِ التَّقیَ اللہْ عَزَّوجَلَّ (احمد ، ابن ماجہ) جس کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل کا تقویٰ رکھنے والے کے لئے مالدار ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں مال کا حاصل ہونا شرنہیں ہے بلکہ خیر ہے بشرطیکہ مال اچھا (صالح) ہو اور وہ جس شخص کے پاس ہو وہ بھی اچھا (صالح) ہو۔ مذکورہ بالا آخری حدیث میں صالح شخص کی تعریف بیان کردی گئی ہے یعنی وہ شخص جو اللہ عزوجل کا تقویٰ رکھتا ہو۔ وہ شخص جو کسی بھی کام کرنے سے قبل اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اس سلسلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی کیا ہے اور اسے یہ بات ذہن نشیں رہے کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کام کرنے کے عواقب (نتائج) کیا ہیں۔
صالح اور غیر صالح انسان کی طرح مال بھی صالح اور غیرصالح ہوتا ہے۔ جو چیزیں کسی مال کو صالح یا غیر صالح بناتی ہیں وہ اس کا حاصل کرنا، استعمال کرنا اور صرف کرنے کے طریقے ہیں۔ یہ سب اگر پاک اور صاف ہوں یعنی شریعت کے منشاء کے مطابق ہوں تو ایسا مال پسندیدہ ہے۔ اور ان میں سے کہیں بھی کھوٹ ہے تو مال ناپسندیدہ بن جائے گا۔
اسلام کی نگاہ میں مال زمین پر حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو بسایا اور اس میں اس کی زندگی کا سامان فراہم کردیا۔ اب یہ انسانوں کے لئے لازم ہے کہ اس معاش (زندگی گزارنے کے ذرائع) کو حاصل کریں۔ ایک حدیث میں کسبِ معاش کو (عبادات میں) فرائض کے بعد سب سے بڑا فریضہ قرار دیاگیا ہے۔ قرآن وسنت میں جائز طریقے سے مال حاصل کرنے کو بہت سادہ طرح سے بتا دیاگیا۔جو چیزیں ناجائز ہیں ان کی وضاحت کردی گئی اور بقیہ تمام چیزوں کو جائز قرار دے دیاگیا۔ اب اس جائز طریقے سے کسی کے پاس بہت زیادہ مال جمع ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس شخص کو اجازت ہے کہ اس مال کو جائز طریقے سے خرچ کرے اور اگر اس کے بعد بھی بچ جائے تو جمع کرلے۔ البتہ خرچ کرنے اور جمع کرنے کے معاملے میں جن باتوں کا لحاظ کرنا ہے اسے بھی صاف صاف بتا دیاگیا۔
خرچ کے سلسلے میں میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے۔ ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا مال کو برباد کرنا ہے اور ضرورت کے باوجود خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ قرآن واحادیث کی تعلیمات دونوں سے باز رہنے کو کہتی ہیں۔ خرچ اپنی ذات پر کرنا، والدین ، اہل خانہ اور دیگر عزیز و اقارب پر کرنا لازم ہے اور اس سلسلے میں جس شخص کے حصے میں جتنا مال آیا ہے اسی کے مطابق مال کا استعمال ہوناچاہئے۔ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اس حال میں آئے کہ اپنے لباس سے غریب لگتے تھے، لیکن ان کے پاس مال تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی کہ ان کی وضع قطع اور لباس میں ان کے مال کا استعمال یعنی اظہار ہوناچاہئے۔ اور پھر اپنی ذات اور اقربا سے آگے بڑھ کر دوسرے ضرورتمندوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ ایک صالح اور متقی شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے مال میں مسائل و محروم کا حق ہے۔ ایک صحابی جو قوی بھی تھے اور مالدار بھی ان سے حضور ؐنے فرمایا: ھَل تْنصَرْونَ وَ تْرزَقْونَ اِلاَّ بِضْعَفَا ئِکْم (عن مصعب بن سعد،بخاری)اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں مدد اور رزق محض تمہارے کمزوروں اور ناداروں کی وجہ سے ملتا ہے۔ مطلوب مقاصد میں خرچ کرنے کے لئے فی سبیل اللہ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کے مفہوم میں تمام کارخیر بشمول دین حق کی سربلندی کی غرض سے مال صرف کرنا شامل ہے۔
مال جمع کرنے کی اجازت ہے البتہ اس سے متعلق زکوٰۃ و عشر کے احکام موجود ہیں۔ آدمی اپنے جمع شدہ مال کو مزید مال کمانے کے لئے بھی استعمال میں لاسکتا ہے۔ بہرحال ایک فرد کے لئے یہ سب کام کے مواقع زمین پر اس کی حیات تک ہی ممکن ہے۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا سے جاتے وقت اپنی چھوڑی ہوئی دولت کا کوئی مفید مصرف سمجھتا ہے تو وہ ایک تہائی مال تک وصیت کرتا ہے۔ بقیہ مال قرآن وسنت کے احکام کے مطابق اس کے ورثے میں ازخود تقسیم ہوجائے گا۔ وراثت کی اس تقسیم میں اس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوگا کیونکہ اس کے تفصیلی احکامات بیان کردیے گئے ہیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مال کے سلسلے میں اسلامی رویہ مثبت ہے۔ صالح مال کی پیدائش اور تونگری کے ان فطری اصولوں پر عمل ہوجائے تو یہ زمین جنت نظیر بن جائے گی۔ انشاء اللہ۔
(ڈاکٹر وقار انور، مرکز جماعت اسلامی ہند)