ملک میں تعلیم کے مسئلہ کو لے کر سب سے زیادہ بحثیں کی گئی ہیں، اور خاص کر پچھڑے علاقوں کے تعلیمی مسائل کو لے کر۔آزادی کے بعد ملک کی ترقی کے لئے مختلف شعبوں کے لئے پالیسی ترتیب دی گئی۔ پالیسی کی بنیاد ہمارا دستور بنا، دستور کے بغیر کوئی پالیسی نہیں بنائی جا سکتی ہے، دستور کی اصل روح کو پالیسی کا مرکز بنایا گیا اور ملک کے پچھڑے ، غریب اور سماج کے سب سے نچلے طبقے کو دھیان میں رکھتے ہوئے ترقی کا ماڈل طے کیا گیا۔ دستور جب بنااس وقت تعلیم کو سر فہرست رکھا گیا، سبھی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ بغیر تعلیمی ترقی کے ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے، لہذا اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کافی غور و خوض کے بعد اس پر ایک مکمل لائحہ عمل تیار کیا گیا۔دستور میں تعلیم کو حصہ ۴ اور حصہ ۳ کے زمرے میں رکھا۔ حصہ ۳ میں بنیادی حقوق ہیں ، حصہ ۴میں دستوری ہدایات ہیں جو ریاست کو دی گئی ہیں۔ ملک کا تعلیمی نظام جس تعلیمی پالیسی پر کاربند ہے وہ ۵۰؍ صفحات ، ۱۲؍ ابواب ۱۵۹؍ نکات اور لگ بھگ دس ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس میں تعلیم کی روح اور کردار کو فوکس کرتے ہوئے تعلیم برائے مساوات پر زور دیا گیا۔ پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہماری قومی سوچ کے لحاظ سے تعلیم کو سب کے لئے آسان ہونا چاہئے تاکہ اس کے ذریعہ ہم ملک کی ہمہ جہتی ترقی کے خواب کو پورا کر سکیں اور ایک تعلیم یافتہ ملک کی بنیاد ڈالی جاسکے۔ اس لئے یہ بات طے کی گئی کہ ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی ورثہ انسانی مساوات کا نظریہ، جمہوریت، سیکولرزم،جنسی مساوات، ماحول کا تحفظ، سماجی رکاوٹوں کا انہدام، غریب، پچھڑے اور ملک کے مختلف حصوں میں رہنے بسنے والے لوگوں کی متنوع تہذیبوں کا اور سماجی رسموں کا احساس پیدا کیا جائے گا اور ملک کی تعلیمی پالیسی بنائی جائے گی۔لہذا اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ۱۹۴۸ ء میں رادھا کرشنن کمیٹی کی تشکیل کی گئی، یہ کمیشن حالانکہ اعلی تعلیم کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا تھا لیکن اس نے تعلیم کے کچھ بنیادی اصول طے کرکے ایک لائحہ عمل تیار کیا۔۶۶۔ ۱۹۶۴ ء میں تعلیم کا ہمہ گیر جائزہ لینے کے لئے کوٹھاری کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ ۱۹۶۸ ء میں پیش کی گئی۔۱۹۸۶ ء میں تعلیمی حالات کا احاطہ کر کے نئی تعلیمی پالیسی بنائی گئی۔ اس پالیسی کا بڑا مقصد تعلیمی نظام کی افادیت ، اطلاق اور نفوذ میں جو فرق راہ پائے ہوئے ہیں انھیں دور کرنا تھا تاکہ اس کا فیض منصفانہ طریقہ سے عام ہو جائے۔ اسی دوران آپریشن بلیک بورڈ مہم چلائی گئی تاکہ دور درازعلاقوں میں تعلیم عام ہو اور بچوں کو تعلیم کی طاقت سے آراستہ کیا جائے۔
مسلمانوں کے تعلیمی مسائل:
ہندوستانی مسلمان کئی مسائل سے گھرے ہوئے ہیں، ان میں سب سے اہم تعلیم کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کی مسلم مخالف پالیسی ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ حل نہ ہوگامعاشی اور سیاسی ترقی مشکل ہے۔کیونکہ تعلیم وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ اپنے آپ کو اور سماج کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
تعلیم کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جو اس علاقے میں رہتی بستی ہے وہ معاشی اعتبار سے بہت پیچھے ہے، لہذا بڑی تعداد تعلیم کی طرف بہتر انداز میں توجہ نہیں دے پاتی، غربت انھیں اسکول کی جگہ چائے کے ہوٹلوں ، سائیکل کی دوکانوں میں یا روزانہ کی مزدوری کے ذریعے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بڑے شہروں میں بچہ مزدوری کرنے والوں کی بڑی تعدادیوپی، بہار، بنگال اور جھارکھنڈ جیسے علاقوں سے ہی آتی ہے۔نجی تعلیمی اداروں میں فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب لوگ اس کو برداشت نہیں کر پاتے وہیں سرکاری اسکولوں میں خستہ حالی کے سبب اچھی تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کی راہ میں دوسری رکاوٹ ان کی ذاتی بے حسی،جدو جہد کی کمی اور جہالت ہے، اس کی وجہ سے امت میں تعلیمی انقلاب کا جذبہ جس انداز سے ہونا چاہئے وہ حاصل نہیں ہو پا رہاہے۔ تعلیمی اور معاشی پسماندگی دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلم امت خود بیدار ہو، اور اسے اپنا اہم مسئلہ سمجھ کر جدو جہد کرے۔
شمالی ہندوستان میں دینی مدارس بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان میں بڑے مدارس کے ساتھ ساتھ سیکڑوں چھوٹے مدارس بھی ہیں ان مدارس سے طلبہ کو بنیادی تعلیم دینے کا نظم کیا جاتا رہا ہے، ان دینی تعلیمی اداروں نے مسلمانوں کا بنیادی تعلیم کا مسئلہ تو کچھ حد تک حل کر دیا لیکن جو امیدیں ان تعلیمی اداروں سے وابستہ رہی ہیں وہ اب بھی پوری نہیں ہو پائی ہیں۔یوپی، بہار، بنگال، راجستھان میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے دینی مدارس میں بنیادی سہولیات کی کمی، معاشی تنگی، نصاب اور انفرا سٹرکچرکے مسائل سے دو چار ہے۔
مسلمانوں میں عصری اور دینی تعلیم کے سلسلے میں ایک خاص ذہنیت کار فرما ہے، مدارس اور کالج کی اس بحث میں کوئی بھی پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا۔عصری تعلیم یافتہ طبقے کو یہ شکایت رہی ہے کہ روایتی مدارس میں تعلیم پانے والے علماء نہ صرف جدید دور کے تقاضوں سے یکسربے بہرہ ہیں بلکہ موجودہ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر معاشرے سے کٹ کر وہ الگ تھلگ پڑ گئے ہیں ۔ جدید فنی اور تکنیکی ترقیات سے انھیں نہ واقفیت ہے اور نہ ان سے وہ کسی طرح واسطہ رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ جدید تعلیم کو حاصل کرنے میں اتنا مصروف ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی شعار کو ہی کھو دیتا ہے، ان کے سامنے صرف دنیا حاصل کرنے اور کیرئر بنانے کی فکر ہوتی ہے، فکر آخرت اور دین کے غلبے کے لئے جدوجہد کرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ ا ن دونوں طبقوں کی پوری صورت حال کا مطالعہ کرنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ دونوں ہی دو الگ الگ انتہا پر ہیں۔ اس بحث میں الجھنے کے بجائے ہمیں معاشرے کے اہم مسائل کو حل کرنے، اسلام کو غالب کرنے، تعلیمی ترقی اور نئی نسل میں علمی و فکری پختگی پیدا کرنے کے لئے جدو جہد کرنی چاہئے۔
شمالی ہند کی سیاسی اور سماجی صورتِ حال
شمالی ہند بالخصوص بہار، جھارکھنڈ، اور اترپردیش سماجی اور سیاسی طور پر ملک کی سیاست کو متأثر کرتا رہا ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کا راستہ ان ہی ریاستوں سے ہو کر گزرتاہے۔ یوپی ، بہار نے آزادی اور آزادی سے قبل بھی ملک کی سیاسی اور سماجی زندگی پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ ۸۰؍ لوک سبھا اور ۳۱؍ راجیہ سبھا سیٹ والی یوپی ہمیشہ سے سیاست کا مرکز رہی ہے۔ یوپی اور بہار کے سیاسی اور سماجی اشوزہمیشہ سے ملک کی سیاست کو متاثر کرتے رہے ہیں، بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملکی سیاست میں جو تبدیلی رو نما ہوئی اس نے نہ صرف سیاست کو متاثر کیا بلکہ ملک میں سماجی اور معاشرتی نظام کو بھی تبدیل کر دیا، نفرت کی سیاست کی شروعات اور فسطائی طاقتوں کی اقتدار میں حصہ داری نے ملک کے سماجی اور سیاسی ماحول کو پرا گندہ کر دیا۔ بہار اور یوپی میں ذات برادری، غنڈہ گردی، جن بل اور دھن بل ہمیشہ سے سیاست کا حصہ رہی ہے۔مسلمانوں کی آبادی شمالی ہند میں ملکی آبادی کے تناسب میں ہے، ان کی سیاسی بے وقعتی نے انہیں سیاسی میدان میں بے وزن بنا دیا ہے۔ مسلم سیاست ابھی اپنے شروعاتی مرحلے میں ہے ، اس لئے چند مسلم سیاسی پارٹیاں مسلم اشوز پر ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔یہاں کا سماج روائتی اور قدیم رہا ہے۔
شمالی ہند کے تعلیمی اشوز
تعلیمی ترقیاتی رپورٹ کے مطابق نارتھ انڈیا کی تین اہم ریاستیں یوپی، بہار اور جھارکھنڈ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں ۔ملک میں تعلیم کی مجموعی شرح جہاں 74.04فیصدہے( 2011 کے سروے رپورٹ کے مطابق) وہیں یوپی کی تعلیمی شرح 69.7،بہار 63.8 اور جھارکھنڈ 67.6 فیصد ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ان تین ریاستوں میں سے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں تعلیمی شرح 50فیصد سے بھی کم ہے۔ ان علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی صورت حال کافی خراب ہے۔ سیشن کی شروعات میں بچوں کا داخلہ تو لے لیا جاتا ہے لیکن ایک دو ماہ ہوتے ہی بچے اسکول چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ورلڈ بینک کے ذریعہ چلنے والی اسکول چلو مہم صرف کاغذوں پر ہی دکھائی دیتی ہے۔شمالی ہند میں طلبہ کا ڈراپ آؤٹ تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ASER 2012 کی رپورٹ نے کئی چونکادینے والے اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ اس کے مطابق بہار کے کئی اسکولوں کے درجہ ششم اور ہشتم کے طالب علم دوسری اور تیسری جماعت کی کتابوں کو بھی نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ پرائمری تعلیم کا مقصد صرف مڈ ڈے میل تک ہی رہ گیا ہے، اور اس میں بھی بد عنوانیوں کا ایک انبار ہے۔ چھپرہ میں مڈ ڈے میل کا حالیہ حادثہ اس کی واضح مثال ہے۔
سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ایک مستقل مسئلہ ہے۔ سینکڑوں اسکولو ں میں اساتذہ کی نششتیں خالی ہیں، جہاں ایک طرف وہ اساتذہ ہیں وہیں وہ غیر تدریسی کاموں میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ حکومت اساتذہ کی بحالی کرنے کی جگہ ٹھیکے پر غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی بحالی کر رہی ہے۔ شکچھا مِتر، پارا ٹیچر کی بحالی کم تنخواہ میں ا ور کم مدت کے لئے Contract Base پر کی جا رہی ہے۔ وہ آئے دن اپنی مانگوں کو لے کر احتجاج اور مظاہروں میں ہی مصروف رہتے ہیں۔ بہار میں اساتذہ کے ذریعہ چلائے جانے والے احتجاج اور مظاہروں نے سیاسی روپ اختیار کرلیا ہے۔
شمالی ہند میں تعلیم کا اشو ایک سیاسی اشو ہے اور اسے سیاسی جدو جہد کے ساتھ ہی حل ہونا چاہئے۔تعلیم کی پوری ذمہ داری حکومت کی ہے، ریاست میں سب کو بہتر تعلیم کا نظم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔لیکن تعلیمی میدان میں عدم توجہی، کرپشن، دھونس دھاندلی، بے ایمانی کی وجہ سے لاکھوں طلبہ تعلیم کے بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔حکومت کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ کی وجہ سے ان علاقوں میں تعلیم کا تجارتی کرن اور نجی کاریPrivatisation and Commercialisation) ( کا عمل بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
یہ نجی کاری معیا ری تعلیم کی آڑ میں اب ایک ابھرتی ہوئی تجارت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اونچی فیس اور ڈونیشن کے ساتھ مہنگے انٹرنیشنل اسکول میں بچے کا داخلہ کرانا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔
شمالی ہندوستان میں جو بھی تعلیمی ادارے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ان علاقوں میں اچھے تعلیمی اداروں کے فقدان کے سبب طلبہ کی ایک بڑی تعداد دوسری ریاستوں میں جانے کو مجبور ہو جاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق صرف جھارکھنڈ سے ہر سال بیس ہزار طالب علم انجینئرنگ، میڈیکل اور مینجمنٹ کی پڑھائی کے لئے جنوبی ہند کی تین ریاستوں، تمل ناڈو، کرناٹک اور آندھرا پردیش جاتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں Admission Consultancy Centreکھل گئے ہیں، جو ہزاروں روپیہ لے کر داخلہ دلاتے ہیں۔ دوسری طرف اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے اور کمپٹیشن کی تیاری کے لئے کوچنگ سینٹرس کا جال سا بچھ گیا ہے۔ پٹنہ، رانچی، کانپور، الہ آباد، کوٹا میں کوچنگ سینٹرس ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے جہاں لاکھوں روپیہ دے کر طلبہ کوچنگ لیتے ہیں اور کروڑوں روپیہ کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ راجستھان کا کوٹا شمالی ہندوستان میں کوچنگ انڈسٹری کا سب سے بڑا مرکز مانا جاتا ہے، ٹائمس آف انڈیا کے ایک سروے کے مطابق کوٹا میں لگ بھگ تین ہزار کوچنگ سنٹر س کے ذریعہ ہر سال تقریب ایک ہزار کروڑ روپیہ کا کاربار کیا جاتا ہے، کوچنگ سنٹرس کو حکومت سبسڈیز میں کم قیمت پر زمین مہیا کرانے کے ساتھ ساتھ دیگر سہولتیں بھی فراہم کرتی ہیں۔بہار اور یوپی کے بڑے کوچنگ سنٹر س سیاسی سورماؤں کے بہترین تجارتی مرکز ہیں۔
نارتھ انڈیا ایجوکیشن مومنٹ
ان تمام مسائل کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ علاقہ تعلیم کا مرکز رہا ہے۔ نالندہ کی قدیم یونیورسٹی جو ماضی میں دنیا کی تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے اور آج بھی مشہور ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی ، بی ایچ یو، آئی،آئی، ٹی کانپور و روڑکی ،آئی ایس، ایم دھنباد و غیرہ ایسے ادارے ہیں جنہوں نے کچھ حد تک معیاری تعلیم کے مسائل کو حل کیا ہے۔ یہاں کے تعلیمی مسائل کو لے کر نہ صرف ملت میں ایک بے چینی ہے بلکہ دیگر عوام بھی فکر مند ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے اشو پر کام کرنے والے تمام گروپس، این، جی اوز، تحریکات، انجمن، سماجی اور طلبہ تنظیمیں مل جل کر شمالی ہندوستان کی تعلیمی صورتحال کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لیں اور اسے ایک سیاسی سوال بنا کر موومنٹ کھڑی کی جائے۔ یہ کام صرف ایک ہفتہ واری مہم یا وقتی طور پر چند پروگرامس کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک دیر پا چلنے والی سرگرمی ہونی چاہئے، اس میں مسلمانوں کے مسائل کے علاوہ دیگر دبے کچلے ، دلت، آدی واسی اور پچھڑے لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ہم مکمل طور پر تبدیلی لا سکتے ہیں۔
2n2
شارق انصر، نئی دہلی
(سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا)