عدنان شبیبی
اک چھوٹے سے شہر میں آج بڑی دھوم دھام مچی ہوئی تھی، اور ہوتی بھی کیوں نہ شہر کے با وقار اور باعزت گھرانے میں خوشی کا جو ماحول تھا۔ مرزا صاحب کے شجرے میں جتنے لوگ با حیات تھے سارے ہی لوگ موجود تھے۔ نہایت پر وقار مرزا صاحب اپنے بھتیجے کا دین مکمل کروانے جا رہے تھے۔
نکاح میں سارے با حیثیت لوگ موجود تھے سارے اس بات سے خوش تھے کہ باپ نہ ہونے کے باوجود مرزا صاحب نے کبھی اپنے بھتیجے کے سر سے شفقت اور محبت کا سایہ جانے نہیں دیا۔
نکاح کی محفل کے بعد فنکشن حال میں سارے ملاقاتی، مبارکباد دینے اور گلےملنے کیلئے بیچین لوگ بڑی کشمکش میں مبتلا تھے کیونکہ نکاح کی محفل ہوئے چار گھنٹے گزر چکے تھے نہ دلہے کا پتہ تھا نہ دلہے والوں کا۔
لڑکی اسی شہر کے اک استاد خان صاحب کی لاڈلی جسکی عمر اسکے سانولے پن نے بڑھا دی تھی اور اسی سانولے پن نے اسے نا چاہتے ہوئے اس رشتے پر مجبور کر دیا۔ مشرقی لڑکیاں اور وہ بھی اک با عزت گھرانے کی لڑکی کی کیا بساط کے وہ رشتے سے انکار کر دے۔
نکاح تو ہو چکا تھا اور فنکشن ہال میں دلہے کیلئے انتظار کی بھی ساری حدیں پار ہو چکی تھیں، پھر اک چھوٹے سے لڑکے نے آکر خبر دی کہ دلہے والے آ رہے ہیں، پھولوں سے سجی شاندار کار جب ہال کے سامنے رکی تب جا کر مہمانوں کے لئے کھانا پروسا گیا۔
کھانا کھاتے کھاتے اک ضعیف شخص نے اپنے پاس بیٹھے شخص سے کہا “اتنا انتظار کروانا کیا ضروری تھا”۔ تب پاس بیٹھے شخص نے نہایت فخر سے جواب دیا ” اجی انجینئر ہے دلہا ولایت سے پڑھائی کی ہے اب اگر وہ وقت پہ آجائیں تو کیا عزت رہ جائے گی”۔ وہ ضعیف شخص نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بوڑھے اور کمزور دانتوں میں رومالی روٹی کے ساتھ ساتھ اپنا غصہ بھی کچلتا رہ گیا۔
دلہے کو سب سے مہنگی اعلی درجے کی شیروانی پہنائی گی تھی جب لوگ دلہے کو گلے ملنے آتے تو پاس بیٹھا دلہے کا چچازاد بھائی کہتا ” آرام سے گلے ملنا پورے پچاس ہزار کی شیروانی ہے”۔ یہ سن کر دلہا مسکرا دیتا، اس مسکراہٹ میں تھوڑی شرم تھوڑا فخر اور گھمنڈ بھی جھلک جاتا۔
ادھر دلہن کے ارد گرد اسکی چچازاد، پھوپی زاد، مامازاد اور خالہ زاد بہنیں ایسے گھیری ہوتی جیسے ایک پھول کے گرد تتلیاں مچلتی ہیں اور اپنے کپڑوں پر بار بار نظر پھیرتی رہتیں تاکہ ہر نظر میں اپنا جوڑ دوسروں سے اچھا دکھنا چاہیے۔
ایک سے ایک اعلی درجے کے کپڑے اور زیورات کی چمک دھمک میں دلہن کی ماں کے چہرے پر چھائی مسکراہٹ کے پیچھے چھپے آنسو مدھم ہوجاتے کیونکہ کسی کے پاس وہ آنکھ نہیں کہ ان آنسؤں کو دیکھ سکے، کتنی مشکل اور پریشانیوں سے یہ شادی کا انتظام کیا تھا اپنی عمر کے پچاس سال مکمل کرنے کے بعد پیسے بچا بچا کر دلہن کی ماں نے اپنے لئے جو سونے کی چین لی تھی وہ شادی سے دو دن پہلے سب سے چھپاکر قریب کے سنار کے پاس بیچ آئی تھی کیونکہ نوشا نے کمرہ سجانے کے لئے تیس ہزار روپیہ سکہ رائج الوقت اپنی ساس سے ہنستے ہنستے مانگے تھے۔
شادی کے فنکشن میں بیٹھی ساری عورتیں دور سے دلہن کو دیکھتیں اور اس جگہ پر اپنی بیٹی کو تصور کرتیں اور اکیلے ہی اکیلے مسکرا دیتیں کہ میری بیٹی بھی اک دن ایسے ہی دلہن بنےگی۔
ہال میں کونے میں سب سے دور بیٹھی خستہ حال بڑھیا جسے اسلئے بلایا گیا تھا کیونکہ انہوں نے کبھی دلہن کے گھر کام کیا تھا، بڑھیا کا چہرہ نہایت سپاٹ اور محفل سے بے تعلق ضرور تھا لیکن دل ہی دل میں وہ اپنی پانچ کنواری بیٹیوں کی شادی کا حساب جوڑ رہی تھی۔
شادی دیر رات تک بڑے شور شرابے کے ساتھ چلتی رہی، ہر طرح کے رسم و رواج کئے گئے۔ وداعی کا وقت بھی آہی گیا لیکن وداعی کے وقت نہ دلہن کی ماں کے آنکھ میں آنسو تھے نہ ہی باپ کے، کیونکہ سارے آنسو ۔۔۔دلہے کی کار کے پیچھے چلنے والے جہیز کی ٹرک کے ساتھ جا چکے تھے۔