(مضمون نگار شاہ بابو جونیر کالج میں فزکس کے لکچرر ہیں اور ایجوکیشنل وکیریئر گائیڈنس کے میدان میں مہارت رکھتے ہیں۔)
پچھلے چند سالوں سے تعلیمی میدان میں بڑھتے ہوئے مقابلے کی وجہ سے ایڈمیشن ، کوچنگ، مینجمنٹ سیٹس وغیر ہ میں بدلاؤ آئے ہیں اور آج کل یہ سمجھا جانے لگاہے کہ میڈیکل کورسیز، انجینئرنگ اور خاص طور سے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جیسے نامور اداروں میں ایڈمیشن کے لیے ہونے والے انٹرنس ٹسٹ، CET،PMTاور JEE۔IIT وغیرہ میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بڑے شہروں میں نامور کوچنگ کلاسس یاٹیوشن کلاسس لگانا ضروری ہے ۔ ہرعام وخاص کایہ پختہ یقین ہوچکاہے کہ بغیر ٹیوشن یاکوچنگ کے ان امتحانوں میں کامیابی ممکن ہی نہیں ہوتی۔
لیکن اس تصو کو غلط ثابت کرنے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق (بحوالہ روزنامہ مراٹھی لوک ستہ مورخہ ۷؍ اکتوبر) ۱۴۔۲۰۱۳ کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IIT) میں داخلے کے لیے منعقد کیے جانے والے انٹرنس امتحان (JEE)میں بغیر کسی کوچنگ اورٹیوشن کے صرف اپنے بل بوتے خود کی پڑھائی(Self Study) کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے والوں کی تعداد ۵۰؍ فیصد سے زیادہ ہے یعنی کل ایڈمیشن حاصل کرنے والوں میں آدھے سے زیادہ طلبہ نےSelf Study کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔
یہ معلومات کوچنگ اورٹیوشن کے نام پر طلبہ اور سرپرستوں کو بھاری بھرکم فیس کے ذریعے لوٹنے والے ایجوکیشنل مافیاؤں کے لیے یقیناًمایوسی کا باعث ہوگی۔ کیونکہ اس گروپ نے طلبہ، سرپرستوں اور سماج میں یہ بات عام کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ بغیر کوچنگ اور ٹیوشن کے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کے امتحانات آج سے ۲۰؍ سال پہلے بھی ہوتے تھے مگر اس وقت اسکول وکالج کی روزانہ پڑھائی کرکے ہی گاؤں ، شہر، ہر جگہ کے طالب علم ان امتحانات میں کامیابی حاصل کرتے تھے۔ لاکھوں روپے فیس کی ٹیوشن اور کوچنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ تعلیم کے صاف وشفاف عمل میں تجارتی ذہنوں نے اسے مالداروں اور پیسہ خرچ کرنے والوں کے لیے مخصوص کرنے کی غرض سے پچھلے ۲۰ سے ۲۵سالوں میں یہ بات عام کروائی کہ کوچنگ اورٹیوشن نہایت ضروری ہے ۔ پرانے زمانے میں تعلیم صرف بادشاہوں ، نوابوں اور حکمرانوں کے لیے مخصوص تھی۔ عام انسان صرف حکمرانوں کے خدمت گزار کی حیثیت سے کام انجام دیتے تھے ۔ گرودروناچاریہ کا واقعہ بھی اسی بات کی تصدیق کرتاہے کہ عام نوجوان ایکلویہ اگرتیر اندازی کی ٹریننگ لینا چاہتا ہے تووہ اسے اس کام سے منع کرتے ہیں اور پھر بعد میں اس کے انگوٹھے کاٹنے کو گرو دکشنا میں مانگتے ہیں تاکہ راجہ ارجن کے مقابلے کا کوئی دوسرا میدان میں نہ رہے۔
بالکل یہی ذہنیت آج کے ترقیاتی دور میں بھی کام کررہی ہے ۔ دیہاتی ، غریب ، پچھڑے طبقات کو اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ترقی کرکے، حکمرانی کرنے والوں یاچند طبقات جن کی اجارہ داری چلی آرہی ہے، اُن کی برابری کرنے سے روکنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ اس گروپ نے عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات اپنے اشتہارات اور اپنے کاموں کے ذریعہ بٹھادی ہے کہ سائنس کی اعلی تعلیم ، میڈیکل کورسس، انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم ، آئی آئی ٹی وغیرہ کے کالجوں میں ایڈمیشن کے لیے کوچنگ، وہ بھی بڑے شہروں کی مہنگی فیس والی کوچنگ اور ٹیوشن ضروری ہے ۔ یہ بات عام لوگوں کو باور کروانے کے لیے پچھلے کچھ سالوں میں اس طرح کے امتحانات میں صرف کچھ مخصوص کوچنگ والوں ہی کو خصوصی اور بڑی تعداد میں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ آئی آئی ٹی (Indian Institue of Technology)کے ماہر پروفیسرس اور ڈائریکٹرس کے تجربات اور سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ۱۹۹۰ کی دہائی تک اس طرح کوچنگ اورٹیوشن کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ طالب علم اپنے اپنے کالجوں اور اسکولوں میں اپنے اساتذہ کی رہنمائی اور خود آموزی (Self Study) کے ذریعہ ہی ان امتحانوں کی تیاری کرکے کامیابی حاصل کرتے تھے۔ ۱۹۹۰ کے بعد کے زمانے میں تعلیم میں تجارتی ذہنیت ، بے ایمانیاں، اجارہ داری وغیرہ کی وجہ سے اور ساتھ ہی دیہاتی ، غریب ، اور پچھڑے طبقات کے ترقی کرکے آگے بڑھنے کے ڈرسے اس طرح کی حرکتیں شروع ہوئی ہیں۔
۱۹۹۰ سے پہلے اس طرح کی کوچنگ اور ٹیوشن کا بالکل چلن نہیں تھا، اس کے بعد کے عرصے میں کسی وقت راجستھان کے کوٹہ شہر کی کوچنگ کلاس کے طلبہ کا ممبئی IITمیں بڑی تعداد میں ایک ساتھ داخلہ ہونا جیسے واقعات سے طلبہ اور سرپرستوں میں یہ بات پہنچی کے آئی آئی ٹی کے داخلے کے لیے کوچنگ ہی ضروری ہے ۔ اسی طرح کی باتیں میڈیکل اور دوسرے کورسیس جیسے ڈگری کالجوں میں نوکریوں کے لیے ہونے والے ٹسٹ(SET/NET) وغیرہ میں بھی عام ہیں۔
آئی آئی ٹی کے داخلہ امتحان (JEE)میں فارم میں طلبہ سے یہ معلومات لی جاتی ہیں کہ اس داخلہ امتحان کے لیے انہوں نے اپنی تیاری کس طرح کی ہے، جیسے خود پڑھائی ( Self Study) کرکے ، پرائیوٹ کوچنگ ، Distance Coaching ، مشق اور ٹسٹ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح اپنے درخواست فارم میں اس تعلیمی سال میں داخل ۵۰ فیصد سے زائد طلبہ نے کہاکہ انھوں نے تیاری Self Study سے کی ہے۔ طلبہ کے ذریعہ دی گئی معلومات کی بنیاد پر Self Study کے ذریعہ ملک کے مختلف شہروں کے آئی آئی ٹی (IIT) میں ۲۰۱۳۔۲۰۱۴ میں داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد اور فیصد ذیل میں دیاجاتاہے :
۲۰۰۷ میں اس طرح کے طلبہ کا فیصد ۶۰؍تھا اور ۲۰۰۸ میں ۴۵؍ فیصد تھا۔ آئی آئی ٹی اداروں نے اپنا محاسبہ کرنے کے لیے ۲۰۰۵ میں وزیراعظم کے اس وقت کے شعبہ سائنس کے مشیر جناب سی ۔ این ۔ آر ۔ راؤ کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی تھی، جس کے مطابق کئی طلبہ ا س طرح کے داخلہ امتحانوں کی تیاری کے لیے دو دو یا تین تین مرتبہ کوچنگ اور ٹیوشن کے ذریعہ تیاری کرکے (IIT-JEE)امتحان کو Repeat کرتے ہیں اور داخلہ حاصل کرتے ہیں مگر بعد میں انہی طلبہ کو آگے کی پڑھائی مشکل لگتی ہے۔ اس لیے ہرطالب علم کو IIT-JEE امتحان کے صرف دومواقع (Chance) ہی ملنے چاہئیں ۔ تعلیمی میدان میں ریسرچ کرنے والے کئی ماہرین تعلیم جو تعلیم کو تجارت بننے سے روکنا چاہتے ہیں، وہ اعلیٰ تعلیمی کورسس میں شہری اوراعلیٰ طبقے کے طلبہ کے ساتھ ساتھ دیہاتوں اور پچھڑے طبقات کو بھی مواقع فراہم کرنے کی غرض سے اس طرح کی کوچنگ اور ٹیوشن کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے بجائے طلبہ کے صحیح انتخاب کے لیے سال بھر کی تعلیمی کارکردگی کی بنیاد پر ہونے والے بورڈ کے امتحانات کے نمبرات کو بھی پیمانہ بناناچاہیے۔ کوچنگ اور ٹیوشن کے تجارتی طریقے ہراس طالب علم اور اس کے سرپرستوں کو جوایسی کلاسس کی بھاری بھرکم فیس ادا کرسکتے ہیں یہ خواہش اور امید دلاتے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کو ڈاکٹر اورانجینئر بنانے کی حد تک تیاری کرادیں گے ۔ اس کے بجائے انتخاب کا صحیح طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ کی دلچسپی (Interest) ، قابلیت (Aptitude) ، ذہانت (Intelligence) کو خاص طور سے مدنظر رکھ کر ان کورسس کاانتخاب کرنا چاہیے ۔
خان قمرالزماں، اکولہ۔ مہاراشٹر۔ ای میل: [email protected])