کتاب: دَ رائچِس مائنڈ
مصنف: پروفیسر جوناتھن ہائیڈٹ
تبصرہ : شہاب خان
فرض کیجیے کہ کسی آدمی نے بازار سے چکن خریدا، لیکن گھر جا کر اسے پکانے سے پہلےاس نے مردہ چکن کے ساتھ مباشرت کی اور پھر اسے پکایا ۔ کیا اس شخص کا عمل اخلاقی اعتبار سے درست تھا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اس شخص نے کسی پاک چیز کو ناپاک کردیا، اور آپ کا جواب نہ ہے تو آپ قدامت پسند کہلائیں گے۔ اس کے برعکس اگر آپ کہیں کہ چکن مردہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کی طرف سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا ، اس لئے ا س معاملے میں کوئی اخلاقی برائی شامل نہیں ہے، تو اس صورت میں آپ کو لبرل کہا جائے گا۔ لیکن جب یہ سوال لبرل رجحان رکھنے والوں سے پوچھا گیا تو اخلا قی اعتبار سے ا س شخص کے عمل میں کوئی برائی نہ ہونے پر اتفاق ہونے کے باوجود ان لوگوں کی جانب سے اس عمل کو انتہائی گھناؤنا قرار دیا گیا۔ مزید یہ کہ کئی لبرل ذہن والوں نے وجدانی طریق پر اس عمل کو غیر اخلاقی قرار دیا۔ لیکن جب کسی کے نقصان نہ پہنچنے والی بات پر زور دیا گیا تو ان لوگوں نے بہانے تلاش کیئے اور اپنی بات کی وضاحتیں پیش کرنے لگے۔ کچھ نے کہا کہ اس عمل کی وجہ سے اس شخص کو بیماریاں ہو سکتی ہیں، تو کچھ نے کہا کہ پڑوسیوں پر اس کام کا برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جونا تھن ہائڈٹ کی کتاب د رائچِس مائنڈ میں اس طریقے کے تجربات کئے گئے ہیں جو دو باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اول، انسانی اخلاقیات صرف راحت و تکلیف پر منحصر نہیں ہیں۔ دوم ، اخلاقیات کی تشکیل بنیادی طور پر وجدان سے ہوتی ہے اور اس ہی وجدان کی وضاحت کے لئے عقلیات کا استعمال ہوتا ہے۔ اس دوسری کیفیت کو مصنف نے ہاتھی اور اس کے سوار کی مثال سے سمجھایا ہے۔ ہاتھی اخلاقی وجدان ہے، جو ہر سماج اور تہذیب میں مختلف ہے۔ہاتھی کا سوار انسان کی عقل ہے، یہ عقل جو بظاہر قیادت کرتی نظر آتی ہے وہ دراصل ہاتھی کی حرکات کے مطابق اشارے کررہی ہوتی ہے۔ اس تفریق کی بنیاد پر مصنف نے اپنی علمی زندگی میں متعدد تجربات کئے جو چند بنیادی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ان کی کوشش ہے۔ جن بنیادی سوالوں پر مصنف نے جواب دینے کی کوشش کی ہے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:انسانی اخلاقیات کی کیا بنیادیں ہیں؟ ان اخلاقیات کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ نیک نیت رکھنے والے ‘اچھے ‘ لوگو ں کے درمیان سیاست اور مذہب کے سوالوں پر نا اتفاقی کیوں ہے؟
مصنف کی ان جیسے سوالات کے جوابات تک رسائی کی تگ و دو اس کتاب پر منتج ہوئی ہے۔ اپنی تحقیق سے مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کی فطری طور پر انسانی اخلاقیات کی پانچ بنیادیں ہیں، جسے جدول میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اول، فائدہ و نقصان، دوم، انصاف و دھوکہ دہی، سوم، وفا و بے ایمانی، چہارم، اقتدار و بغاوت، پنجم، تقدس و تنزل۔ مصنف نے اس فہرست میں مزید تحقیق کے بعد آزادی اور ظلم کو بھی شامل کیا ہے۔ فائدہ اور نقصان کی بنیاد انسانی فطرت کے آفت و تکلیف سے نفرت کی نمائندگی کرتی ہے۔ انصاف اور دھو کے کی بنیاد سماجی، سیاسی اور معاشی معاملات میں انسانی حس کی نمائندگی کرتی ہے۔ وفا اور بے ایمانی کی بنیاد اس حس کی طرف اشارہ کرتی ہے جو انسان کو اس کے خاندان، سماج اور ملک سے متعلق اپنے عزائم کو لےکر سنجیدہ بناتی ہے۔ اقتدار و بغاوت کی بنیاد صاحب اقتدار اور محکوم کے درمیان تعلق کی حساسیت کی نمائندگی کرتی ہے۔اصحاب اقتدارجب اپنے منصب کے شایان شان کام نہیں کرتے،تب ان سے انسان اس بنیاد پر عناد رکھتا ہے۔ تقدس و تنزل کی بنیاد کو مصنف اخلاقی قوت مدافعت قرار دیتے ہیں جو انسان کو پاکی اور صداقت سے قریب اور ممنوع کاموں سے دور کرتی ہے۔ آخر میں آزادی اور ظلم کی بنیاد انسان کی بد معاش اور ظالم لوگوں کے خلاف بغاوت اور فرد اور سماج کی آزادی کی حفاظت کے مزاج کی نمائندگی کرتی ہے۔
فرض کیجیے کہ کسی آدمی نے بازار سے چکن خریدا، لیکن گھر جا کر اسے پکانے سے پہلےاس نے مردہ چکن کے ساتھ مباشرت کی اور پھر اسے پکایا ۔ کیا اس شخص کا عمل اخلاقی اعتبار سے درست تھا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ اس شخص نے کسی پاک چیز کو ناپاک کردیا، اور آپ کا جواب نہ ہے تو آپ قدامت پسند کہلائیں گے۔ اس کے برعکس اگر آپ کہیں کہ چکن مردہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کی طرف سے کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا ، اس لئے ا س معاملے میں کوئی اخلاقی برائی شامل نہیں ہے، تو اس صورت میں آپ کو لبرل کہا جائے گا۔ لیکن جب یہ سوال لبرل رجحان رکھنے والوں سے پوچھا گیا تو اخلا قی اعتبار سے ا س شخص کے عمل میں کوئی برائی نہ ہونے پر اتفاق ہونے کے باوجود ان لوگوں کی جانب سے اس عمل کو انتہائی گھناؤنا قرار دیا گیا۔ مزید یہ کہ کئی لبرل ذہن والوں نے وجدانی طریق پر اس عمل کو غیر اخلاقی قرار دیا۔ لیکن جب کسی کے نقصان نہ پہنچنے والی بات پر زور دیا گیا تو ان لوگوں نے بہانے تلاش کیئے اور اپنی بات کی وضاحتیں پیش کرنے لگے۔ کچھ نے کہا کہ اس عمل کی وجہ سے اس شخص کو بیماریاں ہو سکتی ہیں، تو کچھ نے کہا کہ پڑوسیوں پر اس کام کا برا اثر پڑ سکتا ہے۔
جونا تھن ہائڈٹ کی کتاب د رائچِس مائنڈ میں اس طریقے کے تجربات کئے گئے ہیں جو دو باتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اول، انسانی اخلاقیات صرف راحت و تکلیف پر منحصر نہیں ہیں۔ دوم ، اخلاقیات کی تشکیل بنیادی طور پر وجدان سے ہوتی ہے اور اس ہی وجدان کی وضاحت کے لئے عقلیات کا استعمال ہوتا ہے۔ اس دوسری کیفیت کو مصنف نے ہاتھی اور اس کے سوار کی مثال سے سمجھایا ہے۔ ہاتھی اخلاقی وجدان ہے، جو ہر سماج اور تہذیب میں مختلف ہے۔ہاتھی کا سوار انسان کی عقل ہے، یہ عقل جو بظاہر قیادت کرتی نظر آتی ہے وہ دراصل ہاتھی کی حرکات کے مطابق اشارے کررہی ہوتی ہے۔ اس تفریق کی بنیاد پر مصنف نے اپنی علمی زندگی میں متعدد تجربات کئے جو چند بنیادی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی ان کی کوشش ہے۔ جن بنیادی سوالوں پر مصنف نے جواب دینے کی کوشش کی ہے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:انسانی اخلاقیات کی کیا بنیادیں ہیں؟ ان اخلاقیات کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ نیک نیت رکھنے والے ‘اچھے ‘ لوگو ں کے درمیان سیاست اور مذہب کے سوالوں پر نا اتفاقی کیوں ہے؟
مصنف کی ان جیسے سوالات کے جوابات تک رسائی کی تگ و دو اس کتاب پر منتج ہوئی ہے۔ اپنی تحقیق سے مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کی فطری طور پر انسانی اخلاقیات کی پانچ بنیادیں ہیں، جسے جدول میں ظاہر کیا گیا ہے۔ اول، فائدہ و نقصان، دوم، انصاف و دھوکہ دہی، سوم، وفا و بے ایمانی، چہارم، اقتدار و بغاوت، پنجم، تقدس و تنزل۔ مصنف نے اس فہرست میں مزید تحقیق کے بعد آزادی اور ظلم کو بھی شامل کیا ہے۔ فائدہ اور نقصان کی بنیاد انسانی فطرت کے آفت و تکلیف سے نفرت کی نمائندگی کرتی ہے۔ انصاف اور دھو کے کی بنیاد سماجی، سیاسی اور معاشی معاملات میں انسانی حس کی نمائندگی کرتی ہے۔ وفا اور بے ایمانی کی بنیاد اس حس کی طرف اشارہ کرتی ہے جو انسان کو اس کے خاندان، سماج اور ملک سے متعلق اپنے عزائم کو لےکر سنجیدہ بناتی ہے۔ اقتدار و بغاوت کی بنیاد صاحب اقتدار اور محکوم کے درمیان تعلق کی حساسیت کی نمائندگی کرتی ہے۔اصحاب اقتدارجب اپنے منصب کے شایان شان کام نہیں کرتے،تب ان سے انسان اس بنیاد پر عناد رکھتا ہے۔ تقدس و تنزل کی بنیاد کو مصنف اخلاقی قوت مدافعت قرار دیتے ہیں جو انسان کو پاکی اور صداقت سے قریب اور ممنوع کاموں سے دور کرتی ہے۔ آخر میں آزادی اور ظلم کی بنیاد انسان کی بد معاش اور ظالم لوگوں کے خلاف بغاوت اور فرد اور سماج کی آزادی کی حفاظت کے مزاج کی نمائندگی کرتی ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ اخلاقیات کی ان بنیادوں کو سمجھنے سے خیالات کو سمجھنا اور سمجھانا آسان ہو سکتا ہے۔ بد قسمتی سے اکثر سماج اور گروہ اپنے سے بڑی حد تک مشابہ اخلاقی بنیادیں رکھنے والے افراد سے ہی تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔ جب کہ نوع انسانی کو اپنے اخلاقی اصولوں کے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر گفتگو کے اس رویے کو اختیار کرنا چاہئے جس میں دوسروں کے اخلاقی بنیادوں کا احترام شامل ہو۔
ایک مدلل کتاب ہونے کے باوجود پرفیسرجوناتھن کےاس کام میں دو کمیاں ہیں، اول یہ کہ اخلاقی نفسیات کی جڑیں علمی انداز میں تلاش کرنے کے بجائے مصنف نے متعدد دفعہ اپنے خیالات کی ترسیل کیلئے امریکی سماجی و سیاسی سیاق کا استعمال کیا ہے۔ یہ بات جہاں اس کتاب کو پڑھنے کیلئے آسان بناتی ہے وہیں دوسری طرف متنازعہ بناتی ہے پرفیسرجوناتھن کی آراء سے اتفاق نہ رکھنے والے لوگوں کے لئے ۔ دوم یہ کہ اس کتاب میں نظریہ ارتقاء پر مبنی علم الانسان اور علم نفسیات کے پیراڈائم کا استعمال ،ان چھ اخلاقی بنیادوں کو سمجھانے کے لئے کیا گیا ہے۔ سائنس میں تسلیم شدہ پیراڈائم ہونے کے باوجود اس پر منحصر خیالات حتمی حیاتیاتی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بڑی حد تک چیلنج کئے جا سکتے ہیں۔
ان کمیوں کے باوجود یہ کتاب خیالات کو جھنجوڑنے والی دلچسپ کتاب ہے۔یہ کتاب علمی نوعیت کےمطالعہ سے بھری ہوئی ہے، لیکن پروفیسر جوناتھن کا دلچسپ انداز کتاب کو واضح اور پر لطف بناتا ہے۔ مصنف متعدد مرتبہ استعاروں کا استعمال کرتے ہوئے تنقیدی موضوعات پر واضح انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ کئی قارئین اس کتاب کو پیراڈائم تبدیل کرنے والی کتاب قرار دیتے ہیں۔ یہ کتاب ہندوستان کےمسلم مخالف ماحول میں اپنے سماجی و سیاسی مسائل کی نمائندگی کے لئے مؤثر زبان کے متلاشی مسلمانِ ہند کے لئے معاون ہوسکتی ہے۔