سکریٹری جماعت اسلامی ہند جناب محمد احمد صاحب سے ایک ملاقات
جناب محمد احمد صاحب سکریٹری جماعت اسلامی ہندمظفرنگر فساد کے بعد ایک وفد کے ہمراہ اس علاقے میں تشریف لے گئے، اور وہاں کے حالات کا بہت ہی قریب سے جائزہ لیا، ذیل میں موصوف سے ہوئی گفتگو کے چند اہم نکات پیش ہیں۔
مظفر نگر کے حقیقی حالات اب کیسے ہیں؟
مظفر نگر کے حالات میں برابر بہتری آ رہی ہے۔ جو مسلمان خوف کی وجہ سے دوسرے مقامات پر ہجرت کر گئے تھے ان کی دیکھ بھال مقامی افراد کر رہے ہیں اور ان کی حفاظت کے ساتھ کھانے پہننے کا نظم بھی یہ مقامی افراد کر رہے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وافر تعداد میں راشن موجود ہے، کپڑے مو جود ہیں۔سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ جو لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں، انھیں گاؤں والوں نے اپنا بانا لیاہے، ایک ایک گھر میں چار چار پانچ پانچ افراد موجود ہیں، جن کی وہ دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ریاستی و مرکزی سرکار کے رویے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
میں دونوں ریاستی اور مرکزی سرکاروں کواس کے لیے ذمہ دار سمجھتا ہوں، اس لیے کہ ۲۷؍ اگست کے بعد سے ہی وہاں فرقہ پرست طاقتوں نے اپنا کام شروع کردیا تھا، اگر ریاستی حکومت اور انتظامیہ الرٹ ہوتی تو اس فساد کو روکا جاسکتا تھا۔ مرکزی حکومت کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا، لیکن بڑے پیمانے پر جانی و مالی تباہی ہوگئی تب جاکرحکو متوں کو ہوش آیا۔
کیا ایسا نہیں کہ یہ سب کچھ ۲۰۱۴ ء کے انتخابات کی تیاری کا حصہ ہے؟
یہ بات صحیح ہے کہ ۲۰۱۴ ء کے انتخابات کے پیش نظر فرقہ وارانہ ماحول عام کیا جارہا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ہزاروں لوگوں کا قتل کروادیتے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی جمہوریت کا یہ تاریک ترین پہلو جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔.
اس سلسلے میں جو بل مرکزی حکومت کے پاس ایک عرصے سے پینڈنگ میں ہے، آپ اس کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
’’ انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل ‘‘جو مرکزی حکومت کے پاس ایک عرصے سے پینڈنگ میں ہے، اور یوپی اے کی موجودہ حکومت کچھ اپوزیشن کے دباؤ میں اور کچھ اپنی پالیسیوں کے نتیجہ میں اسے پاس کرانے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ اگر اس بل کے مشمولات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو فساد بھڑکاتے ہیں اس کی زد میں ضرور آجائیں گے۔ اس لیے اپوزیشن پارٹیاں بالخصوص بی جے پی اس کی مخالفت کررہی ہے، اس بل میں ان لوگوں کی گرفت کی گئی ہے جو سماج میں فرقہ واریت اور زہرپھیلانے کا کام کرتے ہیں۔
آپ کی نظر میں مظفر نگر علاقے کے عام مسلمانوں کی صورتحال کیا ہے؟ کیا وہ مایوس ہیں؟
میں نے جو کچھ بھی مظفر نگر کا مشاہدہ کیا ہے اس سے اطمینان ہوتا ہے۔ وہاں کے لوگ مایوس ہیں اور نہ خوف زدہ ۔ ان میں حوصلہ اور ہمت پائی جاتی ہے، البتہ جن گاؤں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہے وہاں کے لوگ خوف محسوس کرتے ہیں۔ جماعت کی جانب سے جو منصوبہ بندی ہورہی ہے اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ایسے گاؤں کے پردھانوں اور دیگر ذمہ داران سے ملاقاتیں کی جائیں گی، اور حکومت سے بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ ایسے تمام لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت لے جو اقلیت میں ہیں اور کمزور ہیں، حکومتوں کی اپنے شہریوں کے تعلق سے ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے ان کی جان و مال کی حفاظت کرے۔
ملک میں فرقہ پرست عناصر جس طرح حالات خراب کر رہے ہیں اس کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟
میرا خیال ہے کہ مسلم تنظیموں کو مل کر اس سلسلے میں منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور سیکولر ذہن رکھنے والے برادران وطن کو بھی اپنے ساتھ لیکر ملک گیر مہم چلائی جانی چاہئے، اور اس ملک کے عوام کو یہ بات بتائی جائے کہ فرقہ پرستی اور فساد اس ملک کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں، یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ برادران وطن اس کی مضرت سے ناواقف ہیں اور ان کو اس کی خطرناکی کا ادراک نہیں ہے۔ ان کے درمیان اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، البتہ یہ مسلم بات ہے کہ فرقہ پرستی سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوگا، اور اس کے مسلمانوں پر دور رس منفی اثرات پڑیں گے ۔