ڈاکٹر سلیم خان
مراقش اور مصر کے بعد عوامی مزاحمت نے سوڈان کے اندر ایک سیاسی انقلاب برپا کر دیا۔ عوامی مظاہرے تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں مثلاً امریکہ کے اندر وال اسٹریٹ پر ہونے والا زبردست احتجاج یا ہندوستان کے اندر چلنے والے انا ہزارے کی غیر معمولی تحریک لیکن اس کے نتیجے میں اقتدار پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عوام کچھ دن چیختے چلاتے ہیں اور پھر تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کانگریس کے خلاف انا ہزارے کے شانہ بشانہ تحریک چلانے والے اروند کیجریوال اقتدار میں آنے کے باوجود لوک پال کا تقرر نہیں کرتے۔ انا ہزارے کی حمایت کرنے والا سنگھ پریواراقتدار پر قابض ہونے کے بعد ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے۔لیکن صرف مسلم دنیا کا امتیاز ہے کہ وہاں عوامی مزاحمتیں بار آور ہوتی ہیں۔ اسلامی ممالک کے لوگ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے ہیں تو حسنی مبارک اور عمر البشیرجیسے حکمرانوں کو چلتا کردیاجاتاہے۔ اس حوالے سے سوڈان کے لوگ قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے کسی جذباتی مسئلہ یا خیالی دشمن کے خلاف نہیں بلکہ مہنگائی اور معیشت کی بہتری کے بنیادی مسائل کو اٹھا کر 30 سالہ اقتدار کو اکھاڑ پھینکا۔
سوڈان کے حالیہ احتجاج19دسمبر 2018سے شروع ہوا۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ اور بگڑتی ہوئی معیشت کے خلاف مظاہرے پچھلے چار ماہ سے بغیر رکے جاری رہے اور سابق صدر عمر البشیر کے 30سالہ اقتدار کے لیے طاقتور چیلنج بن گئے۔ ان سے گھبرا کر عمر البشیر نے مرکزی حکومت کو برطرف کر دیا اور ریاستوں کے گورنروں کوہٹا کر ان کی جگہ سکیورٹی عہدیداران کاتقرر کیا۔جیسا کہ جموں اور کشمیر میں کیا گیاتھا۔ اندرا گاندھی کی طرح ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔عام لوگوں کو دہشت زدہ کر نے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان کے ذریعہ بلا اجازت عوامی اجتماع پر روک لگائی گئی۔پولیس کے اختیارات میں توسیع کی تاکہ بغاوت کو کچلا جاسکے۔لیکن یوگی کی مانند انکاونٹر کی کھلی چھوٹ نہیں دی۔ ان اقدامات سے عوام خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ ان کے غم وغصہ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ان کا جوش اور ولولہ سردہونے کے بجائے بڑھنے لگا۔ آگے چل کرگرفتاریاں کاسلسلہ شروع ہوا تو خواتین بھی میدانِ عمل میں آگئیں۔ اس کے نتیجے میں عمر البشیر کے ارادے پسپا ہوگئے اور پچھلے ماہ یوم خواتین کے موقع پر انہوں نے حراست میں لی جانے والی ساری خواتین کی رہائی کا حکم دے دیا، لیکن لوگ نہیں مانے یہاں تک کہ انہیں استعفیٰ دے کر رخصت ہونا پڑا۔
سوڈان کو ہندوستان کے نوسال بعد برطانوی سامراج سے آزادی ملی۔اس کے دوسال بعد 1958 میں چیف آف سٹاف میجر جنرل ابراہیم آبود نے ایک خونیں بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا۔لیکن وہ زیادہ دنوں تک حکومت نہیں کرسکے۔ 1964میں ایک عوامی بغاوت نے فوج کو اقتدار چھوڑنے پر مجونر کر دیا۔ یہ تجربہ دیرپا نہیں قائم نہیں رہ سکا پانچ سال بعد 1969میں کرنل جعفر نمیری کی سربراہی میں ایک اور بغاوت کے بعد اقتدار پر پھر سے فوج قابض ہوگئی۔ 1985 کے اندر بالکل اسی طرح کی صورتحال میں جنرل عبد الرحمان سوار الدحاب کی سربراہی میں نمیری کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔جنرل الدحاب نے ایک سال کے اندر انتخابات کروا کر تمام اختیارات عوام کے نمائندوں کو سونپ دیئے۔ اس طرح نہایت پر امن طریقہ سے صادق المہدی کے ہاتھوں میں ملک کا اقتدار آگیا۔
سوڈان کی باگ ڈور فی الحال جنرل عبدالفتح البرہان کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کو عسکری عبوری کونسل کا صدر منتخب کیا گیا ہے امید ہے۔وہ بھی جنرل عبد الرحمٰن الدحاب کی طرح ملک کااقتدار جلد ہی عوامی نمائندوں کے حوالے کردیں گے۔عبوری فوجی کونسل کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ عمر زین العابدین نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ”ملکی بحران کا حل فوج نہیں، بلکہ عوام تجویز کریں گے۔“انہوں نے اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم عوامی مطالبات کے محافظ ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے یہ ذمہ داری ہمارے سپرد کی ہے۔“ ان کے اس بیان سے عوام جھوم اٹھے کہ ”ہم یعنی فوج اقتدار کی حریص نہیں ہے۔“زین العابدین کا یہ بیان بھی خوش آئند ہے کہ ”عبوری فوجی کونسل کے پاس سوڈان کو درپیش بحرانی کیفیت کا حل نہیں ہے بلکہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کی راہ مظاہرین ہی سجھائیں گے۔ عبوری کونسل موجودہ بحران کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کا خیرمقدم کرتی ہے۔ ہم لوگوں پر اپنی طرف سے کچھ مسلط کرنے کے بجائے مذاکرات کے لئے ساز گار فضا تیار کریں گے۔“
سوڈان کے فوجی سربراہ جس طرح کی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کررہے ہیں ایسی پختگی اور سنجیدگی تو دیگر ملک کے سیاستدانوں میں بھی ناپید ہے۔ زین العابدین نے توقع ظاہر کی کہ ”اقتدار کی منتقلی کا کام زیادہ سے زیادہ دو برسوں میں مکمل ہو جائے گا، تاہم اگر یہ بغیر افراتفری کے ہوجائے، تو اس کے لئے ایک ماہ کی مدت بھی کافی ہے۔“ حکومت کی اس بڑی تبدیلی کے باوجود سوڈان کے اندر جو خوشگوار ماحول ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ عمر البشیر کو اقتدار سے محروم کردینے کے باوجود ان کی سیاسی جماعت نیشنل کانگریس پارٹی کوآئندہ انتخاب میں شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔30سال قبل صادق المہدی کی غیر مستحکم حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عمر البشیرنے یہ سیاسی پارٹی بنائی اور تین مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے 30سال حکومت کی لیکن عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئے تو انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ سوڈان کے اندر ایسا نہیں ہوا کہ ہر محاذ پر زبردست نا کامی کے باوجود قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے سہارے پھر سے اقتدار پر فائز ہونے کی کوشش کی گئی۔
سوڈان کا احتجاج اس وقت بامِ عروج پر پہنچ گیا جب ہزاروں مظاہرین نے خرطوم میں وزارت دفاع کے دفتر اور عمر البشیرکی رہائش گاہ کے باہرڈیرے ڈال دیے۔ ان کو منتشر کرنے کے لیے حفاظتی دستے سامنے آئے تو فوج نے ان کو روک دیا۔ اس تصادم میں جب کہ فوجی اہلکار مظاہرین کی حفاظت کررہے تھے 11 لوگوں کی ہلاکت ہوئی جن میں 6 فوجی اہلکاربھی شامل تھے۔ اس کے باوجود راجدھانی خرطوم میں ہزاروں مظاہرین جوق در جوق جمع ہوتے رہے۔ اس دوران یہ خوشخبر ی آئی کہ عمر البشیراپنے منصب سے سبکدوش ہو گئے ہیں اور ان کے قریبی سمجھے جانے والے 100 سے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خرطوم کے ہوائی اڈے کو پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے تاکہ ان میں سے کوئی نیرو مودی اور وجئے ملیا کی طرح ملک کی دولت لوٹ کر فرار نہ ہونے پائے۔
عمر البشیر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا کام عبوری فوجی کونسل کے سربراہ اور وزیر دفاع محمد احمد عوض بن عوف نے اس اعلان کے ساتھ کیا کہ ”دو برس تک ملکی امور فوج کی نگرانی میں عبوری سیاسی سیٹ اپ چلایا جائے گا، جس کے بعد قومی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔“عمر البشیر کو ہٹانے کے بعد سابق وزیر دفاع عوض بن عوف نے ملک میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ملک کے آئین کو عارضی طور پر معطل کردیا۔ عوض بن عوف چوں کہ عرصہ دراز سے عمر البشیر کے دست راست تھے اس لیے مظاہرین مطمئن نہیں ہوئے اور احتجاج جاری رہا۔ چنانچہ اپنی کرسی سے چپکنے کے بجائے انہوں نے بھی ایک دن کے اندر استعفیٰ دے کر جنرل عبدالفتح البرہان کوعبوری کونسل کا صد ر بنا دیا۔ اس پر عوام نے خوشی کا اظہار کیا۔ جنرل عبدالفتاح البرہان نے اس خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے کرفیو منسوخ کرکے ہنگامی حالت کے قانون کے تحت گرفتار شدہ تمام قیدیوں کی رہا ئی کا حکم دے دیا۔
سابق صدر عمر البشیر پر امریکہ نے1993میں اسلامی عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگا کر دہشت گردی کی امداد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کردیا تھا۔چار سال بعد واشنگٹن نے سوڈان پر پابندیوں کا اعلان کرکے اسے تنہا کرنے کی کوشش کی اور2003کے اندر جرائم کی عالمی عدالت میں عمر البشیر پر سوڈان کے دارفور علاقہ کی بغاوت میں نسلی کشی کے الزامات بھی عائد کرکے مجرم قرار دے کر حراست میں لینے کا وارنٹ جاری کردیا۔عمر البشیرکے دور میں دارفور کے معاملے کا چرچہ تو مغرب خوب کرتا ہے لیکن جنوبی سوڈان کی پر امن علٰحیدگی کی بات کوئی نہیں کرتا۔ جنوبی سوڈان میں عیسائیوں کی اکثریت ہے اور وہاں تیل کے کنوئیں ہیں۔ وہ علاقہ ہمیشہ سے انتشار کا شکار رہا اور قتل و غارت گری جاری رہی۔ مغرب اس تشدد کو ہوا دیتا رہا یہاں تک شمالی سوڈان کی عمر البشیر حکومت نے جنوبی سوڈان کو زور زبردستی سے اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے الگ کردیا۔ علٰحیدہ حکومت قائم ہوجانے کے بعد بھی جنوبی سوڈان میں قتل و غار ت گری کا ننگا ناچ بند نہیں ہوا۔
ابھی حال میں سوشیل میڈیا پر ایک ویڈیوخوب چل رہی تھی جس میں عیسائی مذہبی پیشوا پوپ جنوبی سوڈان کے رہنماوں کی قدم بوسی کرکے ان کو امن و امان کے ساتھ رہنے کی درخواست کررہے ہیں۔ امن اس طرح قائم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے عدل قائم کرنا پڑتا ہے اور ضرورت پڑنے پر عوامی تحریک چلا کر نااہل حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنا پڑتا ہے جیسا کہ سوڈان کے اندر ہوا ہے۔ سوڈان کے شمال اور جنوب کے درمیان کا یہ فرق اسلامی تہذیب و ثقافت کے سبب ہے کہ جس نے شمال کے مسلمانوں کو عدل و انصاف کے لیے ایثار و قربانی دینے والی جری قوم بنا دیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس بات کی توقع کررہا تھا کہ مغرب کی خوشنودی کے لیے نئے سربراہ عمر البشیرکو دشمنوں کے حوالے کرنے پر تیا ر ہو جائیں گے۔لیکن عبوری فوجی کونسل کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ نے معزول صدر کی کسی دوسرے ملک حوالگی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان پر زیادہ سے زیادہ سوڈان ہی میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسے اختلاف اور رقابت کا فرق کہتے ہیں بقول اقبال
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
DR SALEEM KHAN
Vice President
Idara-e-Adab-e-Islami Hind,
Author & Political Analyst, Mumbai
Email:[email protected]