سماجی مسائل سے متعلق طلبہ مدارس کا مطلوبہ موقف کیا ہونا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک کے تناظر میں جہاں مسلمان ایک اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزاررہے ہیں،اس سوال کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ظاہر ہے ہندوستان کے کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی معاشرے کا اپنا ایک مزاج ،اپنی کچھ روایات واقدار اور اپنی حساسیتیں اور نزاکتیں ہیں۔ یہاں ایسے بہت سے سماجی مسائل سے دن رات کا سابقہ ہے جو مسلم اکثریتی ممالک میں پائے نہیں جاتے یا اپنی نوعیت کے لحاظ سے وہ اس قدر سنگین نہیں ہیں۔
ہمارے دینی مدارس نے علم کی اشاعت اور اسلامی فکر کی وراثت کو آگے بڑھانے میں جوگراں مایہ خدمات انجام دی ہیں اوردے رہے ہیں؛ وہ ایک واضح حقیقت ہے۔ اس کی توضیح کی ضرورت نہیں۔ہر انصاف پسند اس کا معترف ہے اور ہر صاحب عقل وفہم کواس کا اعتراف کرنا چاہیے۔لیکن اس میں شک نہیں کہ آج مدارس کی اکثریت کی سرگرمیاں محض معمول کی سرگرمیاں لگتی ہیں جواپنے لگے بندھے نظام کے تحت یک سرے پن کے ساتھ جاری ہیں جس میں نہ کوئی جدت ہے نہ تنوع، نہ ارتقاء ہے نہ اس کی فکر۔ایسے مدارس نے خود کوبہت حد تک اپنی ذات میں محصور کرلیا ہے۔ اورفی زمانہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے وہ سماج سے کٹتے اورسکڑتے جارہے ہوں۔حالانکہ مدارس کوزیادہ سے زیادہ سماج رخی ہونا چاہیے۔انہیں ہر لحظہ اس پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ ان کے سماجی دائرہ کار اور اثرات میں اضافہ ہو۔پہلے مساجد کے کردار میں کمی آئی۔ چنانچہ اب اس کا کردار صرف نماز کی ادائیگی تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اب اسلام کا دوسرا بڑا ادارہ یعنی مدارس کا کردار بھی سکڑتاجارہا ہے۔
دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبہ مدارس کے اندر سماجی شعور بیدار کریں تاکہ وہ آج کے اجتماعی مسائل کواقدامی سطح پر اپنے فکر وتخیل کا موضوع بنا سکیں۔ہمارے اہم سماجی مسائل کیا ہیں؟ ان کی تعیین ضروری ہے۔ان کی تعیین میں مختلف مواقف ہوسکتے ہیں۔ ایک سماجی مسئلہ ہمارے ہم فکر لوگوں کے نزدیک انتہائی اہمیت کا حامل ہوسکتاہے لیکن ہماری یہ توقع بے جا ہوگی کہ دوسرے تمام لوگوں کے نزدیک بھی اس کی اہمیت وہی ہو۔ اور وہ بھی اس کو اسی طرح قابل غور وفکر تصور کرتے ہوں۔اس میں ترجیحات کا اختلاف ہوسکتاہے۔ لیکن ظاہر ہے اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ہمارے بہت سے ایسے پیچیدہ اور سنگین سماجی مسائل ہیں جن کو ہمارے طلبہ وفضلائے مدارس کے لیے غوروفکر کا موضوع بننا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔بصورت دیگر ہم نظری بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہیں گے ۔سماج کا انتشار بڑھتارہے گا۔ اور دوسروں کواس پراعتراض کا موقع ملتا رہے گا کہ ہماری اسلامی فکر موجودہ دورسے ہم آہنگ نہیں ہے اور اس کی ازسر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ یا یہ کہ مدارس کے طلبہ وفضلاء کی نظر وفکر یا تحریک وعمل کا کل سرمایہ معمول کی نوشت وخواند اور تقریریں یا انفرادی سطح پرتلقین اور نصیحتیں ہیں۔
ہم نے اپنی اس مختصر گفتگو کے لیے چند مسائل کا انتخاب کیا ہے۔ ظاہر ہے تمام یا اکثر سماجی مسائل کا احاطہ نہ ممکن ہے اور نہ ضروری۔ ان مسائل میں بعض فکری اور بعض عملی نوعیت کے ہیں۔ فکری نوعیت کے مسائل میں ہندوستان کے تناظر میں شاید سب سے اہم سماجی مسئلہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات ومعاملات کا ہے۔ سوال ان کے حدود اور نوعیت کا ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اس سے متعلق ہمارے دینی و فکری حلقوں کے درمیان کنفیوژن پایا جاتاہے۔ ملک میں فسادا ت، خصوصاََ بابری مسجد کے انہدام اور اس کے بعد ہونے والے ملک گیرفسادات اورگجرات کی نسل کشی کے واقعے کے بعد مسلمانوں کے اندر مخلوط آبادی سے ہٹ کر علیحدہ مسلم آبادی میں سکڑنے اور سمٹنے کا رجحان پیدا ہواہے۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بہت سے اہم علماء اور اہل قلم نے اس رجحان کی نہ صرف تائید کی بلکہ شدت کے ساتھ اس پرزوردیا اور اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں وہ حدیثیں پیش کیں جن میں مشرکین کے درمیان رہنے کی وعید آئی ہیں۔مثلاََ:انا بریء من کل مسلم یقیم بین اظہر المشرکین( ترمذی :۱۶۰۴)’’میں ایسے مسلمانوں سے بری ہوں جو غیر مسلموں کے درمیان رہ رہے ہیں‘‘۔حالانکہ یہ یا اس طرح کی دوسری حدیثیں ہجرت کا حکم نازل ہونے کے بعد مکہ میں رہ جانے والے لوگوں سے متعلق ہیں جن پر ہجرت فرض تھی، جن کی جان سے زیادہ ایمان کووہاں شدید خطرات لاحق تھے۔ظاہر ہے ہندوستان جیسے ملک میں ایسا کرنا دعوتی، معاشی ہر لحاظ سے شدید نقصان دہ اور تبا ہ کن ہے۔سماجی سطح پر اشتراک عمل کو بڑھانے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلموں کے ساتھ باہمی سماجی تعامل کے فقہی احکام میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔غیر مسلم تقریبات میں شرکت ،تہواروں پر انہیں مبارک باد،سلام دعا،عیادت وتعزیت، تحائف کا تبادلہ وغیرہ امور میں قدیم فقہی اقوال کی روشنی میں مسلمانوں کے اندر تحفظات پائے جاتے ہیں۔اس اعتبار سے فقہ الاقلیات کی روشنی میں ان مسائل میں دوبارہ غوروخوض کرکے وسعت نظر پر مبنی رویہ اختیار کیا جانا وقت کی ضرورت اور مصلحت شرعی کا تقاضا ہے۔ غیر مسلموں سے تشبّہ کے مسئلے میں بھی بہت زیادہ غلو پایا جاتا ہے۔علامہ ابن تیمیہ نے جو اس معاملے میں علمائے سلف میں سب سے زیادہ شدیدموقف کے لیے مشہور ہیں ،اس طرح کے احکام کے تعلق سے مسلمانوں کے تہذیبی غلبے والی حالت اور مغلوبیت والی حالت میں یا مسلم اور غیر مسلم ممالک کی حالت میں فرق کیا ہے۔ اور ظاہری طور طریقوں (الہدی الظاہر) میں ان کے ساتھ شرکت کودینی مصالح کے تحت مناسب اور بسا اوقات ضروری قراردیا ہے وہ لکھتے ہیں:
’’غیر مسلموں کی مشابہت سے بچنے اوران سے امتیاز کا حکم صرف دین کے ظہور و غلبے کے بعدکی حالت میں ہے۔جب مسلمان شروع میں کمزور تھے اس وقت اس کا حکم نہیں دیا گیا۔پھر جب دین کو غلبہ اور قوت حاصل ہوگئی تو اس کا حکم دیا گیا۔اسی طرح آج دارالحرب اور دارالکفر کے مسلمان غیر مسلموں سے ظاہری امتیاز برتنے کے حکم کے پابند نہیں ہیں اس لیے کہ اس صورت میں ضرر کا اندیشہ ہے۔بلکہ بسا اوقات مسلمان کے لیے مناسب یا ضروری ہوگا کہ وہ ان کے ظاہری طور طریقوں میں شریک ہو، اگرایسا کرنا دین کی مصالح یا صالح مقاصد کے تحت ہو‘‘۔(اقتضاء الصراط المستقیم ص:۷۷۔۱۷۶)
اسی سے جڑا ہوا ایک مسئلہ موالات یعنی غیر مسلموں کے ساتھ دوستی کا ہے۔قرآن میں مختلف مقامات پر کفار ومشرکین اور یہود ونصاری سے دوستی کی ممانعت کی گئی ہے۔(آل عمران :۳۴،الممتحنہ:۱ وغیرہ)
آل عمران کی مذکورہ آیت کی تشریح میں مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:’’کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:موالات یعنی دوستی،مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی اور مواسات یعنی احسان و نفع رسانی‘‘(بیان القرآن 1/217) ان کے مطابق:’’موالات تو کسی حال میں جائز نہیں ….اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے۔ایک دفع ضرر کے واسطے ۔دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقع ہدایت کے واسطے ۔تیسرے اکرام ضیف کے لیے‘‘ ۔
مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن (ج:1 پارہ:3ص:134-7 ) میں اسی تشریح کو اختیار کیا ہے۔البتہ غیر مسلمین کے ساتھ تعلقات کا ایک چوتھا درجہ معاملات کا انہوں نے اضافہ کیا ہے،جوان کے بقول: ’’ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے بجزایسی حالت کہ ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو۔مفتی محمد شفیع صاحب نے موالات کی تعبیر’’ قلبی اور دلی دوستی ومحبت ‘‘سے کی ہے۔ (ایضا،ص:(135
مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا شفیع نے جس موقف کا اظہار کیا ہے ،اکثر علماء کا موقف یہی رہا ہے۔لیکن یوسف قرضاوی اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے حضرات کا اس تعلق سے موقف مختلف ہے اوروہی صحیح ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی ’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:’’کفار کو دوست اور حلیف بنانا اسی حالت میں ممنوع ہے جب یہ مسلمانوں کے بالمقابل ہو۔اگریہ صورت نہ ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے‘‘۔(2/412)
آل عمران کی آیت 28 کی تشریح میں لکھتے ہیں:’’ فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کافروں کو اپنا ولی بنائیں لیکن اسی کے ساتھ’’ من دون المؤمنین‘‘ کی قید ہے۔یعنی کافروں کے ساتھ صرف اس قسم کی موالات ناجائز ہے جو مسلمانوں کے بالمقابل اور ان کے مفاد اور مصالح کے خلاف ہو‘‘۔(ایضا ص:67) یہی بات یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب من فقہ الدولۃ فی الاسلام (ص،۱۹۶) میں لکھی ہے۔ طلبہ کواس میں فکری غلو سے بچتے ہوئے جس سے ہندوستان جیسے ممالک میں شدید مسائل پید اہوتے ہیں،اسلام کی شبیہ خراب ہوتی ہے، ایک متوازن اورشریعت کے مجموعی مزاج سے ہم آہنگ موقف اختیار کرنا چاہیے۔
ایک اہم سماجی مسئلہ مسلم خواتین کے سماجی کردار کا ہے۔ہمارے علماء کی اکثریت کی نگاہ میں خواتین اپنے گھر کی ملکہ ہیں ۔انہیں اس پر راج کرتے ہوئے باہر کے امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے جومردوں کے دائر ہ کار میں آتے ہیں۔ کیونکہ اس سے فساد پھیلتا اور معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عورتوں کی شخصیت بہت حساس ہے اور سماج کی خوبی اورخرابی کا بہت کچھ دارومدار عورتوں پر ہے ۔اسلام نہ تو مغربی فریم ورک میں عورتوں کی آزادی کا قائل ہے اور نہ مشرق کے روایتی طرز عمل کے مطابق قیدو بند کا۔اسلام کا صحیح رویہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان مخصوص حدود وشرائط کے ساتھ عورتوں کوسماجی سطح پر آزادی دینے کا ہے۔عہد نبوی اور عہد صحابہ میں خواتین پر اس قسم کی بندشیں نہیں تھیں۔حضرت عمر نے شفا بنت عبداللہ العدویہ کوبازار کا نگراں یا محتسب بنایا تھا۔اس رخ پرمتوازن مطالعے کے لیے یوسف قرضاوی کی فتاوی معاصر ہ اور عبدالحلیم ابو شقہ کی تحریر المرأۃ فی عصر الرسالۃ(ان دونوں کا ترجمہ اردو میں بھی ہوچکا ہے) کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ہمارے طلبہ اور فضلائے مدارس کو خواتین کے تعلق سے افراط تفریط سے بچتے ہوئے ایسا موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر مسلم خواتین کی صلاحیتوں سے اسلامی معاشرہ فائدہ اٹھا سکے۔
اسی تعلق سے ایک اہم مسئلہ مساجد میں خواتین کی نماز کی ادائیگی کا ہے۔صورت حال یہ ہے کہ متدین اور نمازی خواتین بازاروں میں گھومتے ہوئے اپنی نمازیں قضا کردیتی ہیں لیکن وہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کرنے کی جرأت نہیں کرپاتیں۔عورتوں کے چہرہ ڈھکنے ،اعلی تعلیم کے حصول ،ملازمت وغیرہ کے تعلق سے طلبہ وفضلائے مدارس کا موقف اسلامی معاشرے کی وسیع تر مصلحتوں ،زمان ومکان کے تغیر کی بنیاد پر فتاوی میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ،وسیع النظری پر مبنی ہونا چاہیے۔
ایک اہم سماجی مسئلہ جس کا براہ راست تعلق فضلائے مدارس سے ہے؛ وہ مسلکی کشمکش کا مسئلہ ہے۔مسلکی کشمکش کے اس مسئلہ نے پاکستان کو تشدد کا جہنم زار بنا رکھا ہے۔ مسلکی کشمکش کی روایت نئی نہیں ہے لیکن شدت پسندی کا رویہ اختیار کرنے والے مختلف حلقوں کے مدارس نے اس کی شدت کو بڑھانے میں اہم رول اداکیا ہے ۔ضرورت ہے کہ ہمارے طلبہ وفضلائے مدارس کا رویہ اس تعلق سے تعمیری ہو، تخریبی نہ ہو۔ حنفی، اہل حدیث ،دیوبندی ،بریلوی ہر طرح کے مدارس کے طرز تدریس میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کہ خاص طور پر حدیث وفقہ کے ابواب مسلکی تنازعات اور شدت پسندی کی نظریاتی مشق کاذریعہ نہ بنیں۔طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مخالف نقطہ نظر کوبرداشت کرنے کا مزاج پیدا کریں۔ اور مخالف نقطہ نظر سے متعلق تکفیر وتفسیق کی زبان استعمال کرنے سے احتراز کریں۔
ایک اہم سماجی مسئلہ ذات پات اور طبقاتی کش مکش سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ موجودہ دور میں اس کو جس طرح بعض مسلم مخالف حلقوں کی طرف سے پروجیکٹ کرنے اوراس کے حوالے سے اسلام اور علمائے اسلام کو نشانہ تنقید بنانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی جڑ میں سراسر تعصب کی کارفرمائی شامل ہے۔ تاہم اس حقیقت سے نظر بچانا مشکل ہے کہ شادی کے مسئلے میں لڑکی اورلڑکے کے درمیان کفو یا کفالت کی بحث نے خاص طور پر ہمارے دور آخر کی فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جوشکل اختیار کرلی ہے،وہ اسلام کے نظریہ مساوات وسماجی عد ل کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ہمارے فضلائے مدارس اور علماء کی نئی نسلوں کو اس مسئلے میں وہی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جو امام مالک کا موقف ہے کہ کفاء ت کا اعتبارصرف دین میں معتبر ہے۔
ایک مسئلہ جو بہت سوں کی نظر میں شایدسماجی مسائل کی فہرست شامل نہ ہو،صفائی کا ہے ۔مسلم محلوں اور علاقوں کے تعلق سے اس نے بلاشبہہ ایک بڑے سماجی مسئلے کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس سے صحت کے مسائل پید ا ہوتے ہیں،اور دوسری اقوام کے افراد کا تأثر خراب ہوتا ہے۔اگریہ کمی دینی اداروں کے تعلق سے مشاہدے میں ہو تو اس کی افسوس ناکی مزیدبڑھ جاتی ہے۔نیویارک ٹائمس کی ایک نامہ نگار سیلیاڈبلیو دگر نے کچھ سال قبل دیوبند کا دورہ کرنے کے بعد مذکورہ اخبارمیں ایک مضمون اس عنوان سے لکھا تھا:Brothers in Islam But not in Politics’’دیوبند سے ایک میل سے کم کی مسافت پر واقع ’’لبکری‘‘ نامی ایک مسلم اکثریت والا گاؤں ہے۔ اس کے باشندے دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن دارالعلوم کے علماء کی پیش کردہ اسلامی عمل کی پاکیزگی و طہارت اس کے قریب ترین گاؤں تک بھی نہیں پہنچ پائی ہے‘‘۔(نیویارک ٹائمس ۲۶فروری ۲۰۰۲)(یہ مضمون نیٹ پر موجود ہے)
ان مسائل کے علاوہ جس کی جڑیں بہت گہرائی کے ساتھ ہمارے بہت سے سماجی مسائل میں پیوست ہیں؛ کچھ مسائل وہ ہیں جن کے تعلق سے ہمارے طلبہ وفضلائے مدارس کا مطلوبہ رویہ اقدامیت ،جرأت، اشتراک کار،تنظیم اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے جیسی صفات کے ساتھ حرکت وعمل کا ہونا چاہیے۔اس وقت ہندوستان کا سماج بہت سی ایسی خرابیوں اوربیماریوں کی زد میں ہے جن سے اس کا تانا بانا کمزور ہوکر اور بکھر کر رہ گیا۔ناخواندگی ،منشیات کا پھیلاؤ ،فرقہ وارانہ فسادات ،جرائم کی کثرت ؛ اسی طرح ماحولیات کے مسائل ہیں۔طلبہ مدارس کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس طرح کے مسائل میں ان کا عملی رویہ کیا ہونا چاہیے؟ وہ اس طرح کے مسائل کا اسلام کی روشنی میں کیا حل دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں؟اسلام میں خدمت خلق کوجو اہمیت حاصل ہے اس کے دلائل کویہاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ مشہور عام ہیں ۔مسلمانوں میں خدمت خلق کے جذبے اورکوششوں کو پروان چڑھانے میں اور یہ توقع کرنے کے لیے کہ خدمت خلق کے ادارے ضروری تعداد میں مسلمانوں میں بھی قائم ہوسکیں خود ہمارے طلبہ اور فضلائے مدارس کو آگے آنے کی ضرورت ہے جس کا سبق ہمیں حلف الفضول کے واقعے میں بھی ملتا ہے۔طلبہ وفضلائے مدارس کو برادران وطن کے ساتھ مل کر ایسی تحریکیں اور تنظیمیں وجود میں لانی چاہئیں جوان کے مسائل کے حل میں معاون ہوں۔ قدرتی آفات ومصائب کے مواقع پر ہمارے طلبہ وفضلائے مدارس کا مطلوبہ رویہ اہل سیاست کی طر ح محض اظہارغم اور بیان بازی کے بجائے خود عملی طور پر درد مندی کے اظہار اور غم کو بانٹنے کا ہونا چاہیے۔ انسانی نفسیات پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔برادران وطن کے درمیان مدارس کی شبیہہ کو بہتر بنانے اور ان کی اہمیت کواجاگر کرنے کا یہ ایک اہم وسیلہ ہے۔ ہم سب کواس حقیقت کا علم ہے کہ عیسائی مشنریز کے تبلیغی کاموں کی سب سے اہم بنیاد سماجی مسائل سے ان کی وابستگی اور ان کے حل میں ان کی نمایاں حصہ داری ہے۔وہ بیماری ،غربت اور ناخواندگی جیسے مسائل کا شکار لوگوں کواپناشکار بناتے ہیں۔بالواسطہ جبر واکراہ اور استحصال کی اس طرح کی صورتوں سے احتراز کرتے ہوئے طلبہ وفضلائے مدارس کو ایسے لوگوں سے قریب ہونے اور اگر د امے ،درمے نہ ہوتوقدمے اور سخنے ہی سہی! ا ن کی مدد اوردست گیری کی کوشش کرنی چاہیے کہ بسا اوقات سالوں کی زبانی نصیحت وتلقین کی جگہ ایک لمحے کا عملی تعاون دل کی دنیا کوبدل کررکھ دیتا ہے۔اس کی مثالوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
سماجی مسائل میں کچھ مسائل وہ ہیں جو منکرات کی قبیل سے ہیں۔جن کے ازالے کی فکر ہمارے ایمان کے مقتضیات میں سے ہے۔جیسے بے حیائی وفحاشی کا بڑھتا ہوا سیلاب، محرمات کی اشاعت، دین کے نام پربد دینی کے ارتکاب کی مختلف شکلیں ،بہت سی قبیح سماجی رسوم وعادات، خدا کے بندوں پردوسروں کی طرف سے ظلم کی شکلیں، ان تمام امور میں طلبہ کواستطاعت کی شرط کوملحوظ رکھتے ہوئے جوحدیث من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ وان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ(مسلم)میں مذکور ہے، طلبہ وفضلائے مدارس کو حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ علامہ ابن قیم نے منکر کے چار درجات قرار دئیے ہیں:
ا۔ ازالہ منکر کی کوشش سے یا تو وہ منکر زائل ہوجائے اور اس کی جگہ معروف اور خیر قائم ہوجائے
۲۔ یااس منکر میں کمی واقع ہوجائے۔
۳۔ایسے ہی کسی منکرکے پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔
۴۔ ازالہ منکر کی صورت میں کوئی دوسرا اس سے بڑا منکر پیدا ہوجائے۔
پہلی اوردوسری شکل جائز اور تیسری محل اجتہاد ہے۔ غور وفکر کے ذریعے عملی اقدام کی صورت طے کی جائے گی۔ جبکہ چوتھی بالکلیہ حرام وممنوع ہے۔طلبہ کا رویہ ایسے معاملات میں اجتماعی غوروخوض کے بعدشریعت کی اجتماعی مصلحتوں کوسامنے رکھ کرحکمت عملی طے کرنے کا ہونا چاہیے۔بعض مسائل کے حل میں طلبہ وفضلا کو خود بہترین عملی نمونہ فراہم کرنا ہوگا، جیسے شادی بیاہ میں لین دین سے بالکلیہ احتراز وغیرہ۔
بہرحال یہ چند سماجی مسائل ہیں جن کو طلبہ کے فکر ونظر کا موضوع بننا چاہیے۔ طلبہ مدارس کا رویہ ایسے تمام مسائل کے تعلق سے نہایت سنجیدگی اور توازن پر مبنی ہونا چاہیے کہ ہمارے ان ہی طلبہ کوآنے والے دنوں میں مذہبی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔
ڈاکٹروارث مظہری،شعبہ اسلامک اسٹڈیز مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد ، ای میل:[email protected]