ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ایڈمن

طلحہ منان رفیق منزل مارچ 2017 وہ چل پھر نہیں سکتے لیکن ان کی نگاہ رہتی ہے نظام شمسی میں ہونے والی تمام حرکتوں پر، وہ بول نہیں سکتے لیکن زمانہ ان کی باتوں کو خاموش ہو کر سنتا ہے،…

طلحہ منان

رفیق منزل مارچ 2017

وہ چل پھر نہیں سکتے لیکن ان کی نگاہ رہتی ہے نظام شمسی میں ہونے والی تمام حرکتوں پر، وہ بول نہیں سکتے لیکن زمانہ ان کی باتوں کو خاموش ہو کر سنتا ہے، حتی کہ وہ اپنے جسم کو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں سکتے لیکن ان کی خواہش ہے کہ وہ خلاء کے سبھی رازوں کو فاش کر سکیں۔ 8؍جنوری 1942 میں جب اسٹیفن ہاکنگ برطانیہ میں پیدا ہوئے، اس وقت کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ انہیں دنیا ایک عظیم سائنسداں کی شکل میں پہچانے گی۔
اسٹیفن ہاکنگ موجودہ دور کے مایہ ناز سائنسداں ہیں۔ انھیں گزشتہ صدی کا، آئنسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسداں قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کام بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی یعنی کونیات کے میدان میں ہے۔ ان کی ایک کتاب ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جسے ایک انقلابی حیثیت حاصل ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک نہایت اعلی پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری سے لیکر اعلٰی ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہ ایک خطرناک بیماری سے دو چار ہیں اور کرسی سے اٹھ نہیں سکتے، ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے حتی کہ بول بھی نہیں سکتے لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند ہیں اور بلند حوصلے کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہیں جو کہ ٹیکنالوجی کا ایک نایاب نمونہ ہے۔ وہ فالج کے شکار ہیں لیکن ان کے سیدھے ہاتھ کی کچھ انگلیاں حرکت کر سکتی ہیں۔ وہ کرسی پر لگی کمپیوٹر اسکرین کو صرف ایک بٹن سے قابو میں کرتے ہیں۔ بٹن دبانے سے اسکرین پر آئکن آتے ہیں اور کسی آئکن پر لے جا کر بٹن چھوڑنے سے وہ آئکن چالو ہو جاتا ہے. وہ اپنی کرسی ، گھر کے دروازے اور باقی تمام ضروری گیجٹس اسی طرح قابو میں کرتے ہیں. بات کرنے کے لئے بھی اسٹیفن یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ اسکرین پر بٹن دبا کر لفظ چنتے ہیں جنہیں انکا کمپیوٹر آواز میں بدل دیتا ہے۔ ان کی یہ بیماری ان کو تحقیق کرنے سے نہیں روک سکی۔

ایک ایسا شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز کیا ہے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہیں۔ ریاضی کے دوسرے طلبہ کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز کرلیا تھا ، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالب علم نہیں تھے۔ بظاہر انتہائی سنجیدہ ہونے کے باوجود ان کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے اور علم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔

اسٹیفن کا بچپن:
بچپن سے ہی انہیں ریاضیاتی طبیعیات کے مشکل سوالات کو حل کرنے میں مزہ آتا تھا اور ان کی یہی صلاحیت انہیں سائنس کے میدان میں لے گئی۔ انہیں جتنی لگن ریاضیاتی طبیعیات سے تھی، اتنی ہی زیادہ بے پرواہی دوسرے مضامین سے۔ ان کے والدین میڈیکل سائنس سے جڑے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ اسٹیفن ڈاکٹر بنیں لیکن کم نمبرات کی وجہ سے ان کا داخلہ میڈیکل کالج میں نہیں ہو پایا۔ کمال تو تب ہوا جب وہ دنیا کی سب سے مشہور یونیورسٹیوں میں سے ایک آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسکالرشپ امتحان میں بیٹھے اور کامیاب ہوئے۔ کالج کے زمانے میں ہی انہوں نے ایک LUCE نام کا کمپیوٹر بنا کر سبھی کو چونکا دیا تھا۔ آج ہم سبھی انہیں ایک ایسے ذہین سائنسداں کے طور پر جانتے ہیں جن کے نظریات ایک عام انسان کی سوچ سے پرے ہیں لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ بچپن میں انہیں پڑھائی سے زیادہ مزہ سائیکل چلانے اور موج مستی کرنے میں آتا تھا۔ انہیں گھر میں موجود گھڑیاں اور ریڈیو کھولنے میں بھی بہت مزہ آتا تھا اور ایک انٹرویو میں انہوں کہا تھا کہ یہ الگ بات ہے کہ میں انہیں جوڑ نہیں پاتا تھا اور اکثر والد کی ڈانٹ کھایا کرتا تھا۔ رات میں فرصت ملتے ہی وہ کمرے کی کھڑکی سے آسمان میں بکھرے ہوئے ستاروں کا بہت ہی غور سے مشاہدہ کرتے تھے۔ ان کا یہی لگاؤ انہیں ٹیکنالوجی اور خلاء کے مطالعے کی طرف لے گیا اور آج وہ خلائی سائنس کے سب سے چمکدار ستارے ہیں۔

وہ اسٹیفن ہاکنگ جن کی باتیں آج دنیا کان لگا کر سنتی ہے، بچپن میں کافی شرمیلے تھے۔ یہ جھجھک کالج کے دنوں میں بھی بنی رہی۔ اور اس کے پیچھے ایک معمولی وجہ ان کی عام قد کاٹھی بھی تھی۔ ایک مرتبہ ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے انہیں کالج کی باسکٹ بال ٹیم میں جگہ نہیں مل پائی تو انہوں نے اپنا نام کشتی رانی کی ٹیم میں لکھوا دیا۔ دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے وہ چپو نہیں چلا پاتے تھے اسی لئے انہیں کشتی سنبھالنے کا کام دیا گیا۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی طبیعیاتی صلاحیت کا استعمال کرکے ایک بوٹ کنٹرولر بنا ڈالا اور اسی وجہ سے دوستوں نے انہیں جدید دور کے آئینسٹائن کا لقب دے دیا۔

آزمائش کا دور:
1962 میں ان کی زندگی میں ایک نیا انقلاب آیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے سند حاصل کرنے کے بعد پہلی دفعہ انہوں نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے ان پر بجلی گرادی جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گئے ہیں اور یہ مرض ان اعصاب کو تباہ کر دے گا جو ان کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں، نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ شروع میں وہ اس خبر سے انتہائی دل گرفتہ تھے۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوتا جب انہیں جلد ہی مر جانا تھا؟

ایک دفعہ جب انہیں یہ جھٹکا لگ گیا تو پھر انہوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی توجہ ایک جگہ مرکوز کرلی، انہوں نے ریاضی کے انتہائی مشکل سوالات سے نمٹنا شروع کردیا۔ 1970 کی دہائی کے شروع میں ہی انہوں نے اپنے امتیازی مقالوں کے سلسلے کو شائع کروانا شروع کیا جس میں انہوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آئن سٹائن کے نظریہ میں “وحدانیت” (جہاں کشش ثقللامتناہی بن جاتی ہے ، جیسے کہ کسی بلیک ہول کے مرکز میں اور بگ بینگ کی ساعت کے وقت ہوا تھا) اضافیت کا ایک ناگزیر حصّہ ہے اور اس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا (جیسا کہ آئن اسٹائن سمجھتا تھا)۔ 1974 میں ہاکنگ نے اس بات کو بھی ثابت کر دیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر بلیک نہیں ہیں، وہ بتدریج شعاعوں کا اخراج کر رہے ہیں جس کو اب ہاکنگ کی اشعاع کہتے ہیں کیونکہ اشعاع بلیک ہول کے ثقلی میدان سے بھی گزر کر نکل سکتی ہیں۔ اس مقالے نے پہلی دفعہ کوانٹم نظریہ کے عملی اظہار کو نظریہ اضافیت پر برتری حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور یہ ابھی تک ان کا سب سے شاندار کام ہے۔

جس بات کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا وہی ہوا۔ ان کی بیماری نے آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ ، پیر اور زبان کو مفلوج کر دیا۔ لیکن بیماری کے اثر کی شرح اس سے کہیں سست رفتار تھی جتنی کہ ڈاکٹروں کو شروع میں امید تھی۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے کئی حیرت انگیز سنگ میل عبور کر لئے جو عام لوگ عام زندگی میں حاصل کرتے ہیں۔ مثلاً وہ تین بچوں کے باپ بن گئے ہیں۔ (اب تو وہ دادا بھی بن گئے ہیں۔)
ڈاکٹروں نے انہیں صرف 2 سال کا مہمان قرار دیا تھا لیکن وہ ارادہ کر چکے تھے کہ میں اس بیماری کو ہرا کر ہی دم لوں گا اور جتنا بھی برا وقت آیے گا اسے پوری زندہ دلی سے جیوں گا۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ حالانکہ یہ سب آسان نہیں تھا۔ ان کے جسم کے کے کئی اعضاء نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ دھیرے دھیرے زبان بھی بند ہو گئی۔ اب نہ تو وہ چل سکتے تھے اور نہ ہی کسی سے بول سکتے تھے۔ پڑھائی پوری کرنے کے بعد وہ 30 سال تک کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ جیسے جیسے ان کی جسمانی حالت نازک ہوتی گئی، کارناموں اور کامیابیوں کا سلسلہ بڑھتا گیا۔

خواب سچ ہوگیا:
2007 میں 65 سال کی عمر میں اسٹیفن ہاکنگ نے 40 سالوں میں پہلی بار اپنی وہیل چیر چھوڑی اور ایک غیر ملکی جیٹ طیارے میں جمناسٹوں کی طرح فضاؤں میں کرتب کیے۔ اس طیارے نے انہیں بے وزنی کی حالت میں فضاء میں بلند کیا اور یوں ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو گئی۔ دراصل وہ زیرو گریوٹی پروگرام میں شرکت کر رہے تھے اور اس پروگرام میں سائنسدانوں کو ایک خاص قسم کے طیارے میں بیوزنی کا تجربہ کرایا جا رہا تھا۔ ابان کا اگلا مقصد خلاء میں جانا ہے۔

آج تو وہ مکمل طور پر اپنی ویل چیئر پر مفلوج ہیں اور دنیا سے ان کا رابطہ صرف آنکھوں کے اشاروں سے رہتا ہے۔ اس مہلک بیماری کے باوجود وہ اب بھی مذاق کرتے ہیں، مقالات لکھتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں اور مختلف قسم کے سوالات میں الجھے رہتے ہیں۔

 

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کی پیدائش عظیم سائنسداں گیلیلیو کی وفات کے ٹھیک 300 سال بعد ہوئی۔ دونوں نے ہی خلاء کا گہرا مطالعہ کیا اور کء رازوں سے پردے اٹھائے۔ ان دونوں سائنسدانوں کے ساتھ محض تاریخوں کا اتفاق ہی نہیں جڑا ہوا ہے بلکہ سائنسی اصولوں کو چیلنج کرنے کی ہمت بھی جڑی ہوئی ہے۔ آج ہم سبھی جانتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن تقریباً 350 سال پہلے یہ بات ثابت کرنے والے گیلیلیو کو چرچ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح اسٹیفن ہاکنگ نے بھی 2010 میں شائع ہوئی انکی کتاب ‘دی گرینڈ ڈیزائن’ میں خدا نے کائنات نہیں بنائی لکھ کر دنیا بھر میں کھلبلی مچا دی تھی۔ حالانکہ 1998 میں شائع ہوئی انکی کتاب ‘وقت کی مختصر تاریخ’ میں انہوں نے خدا کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ خدا کا وجود سائنس مخالف نہیں ہے اور ہم اس کے وجود کا انکار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ہم پوری تھیوری تلاش کرسکے تو یہ انسانی دماغ کی سب سے بڑی جیت ہوگی اور تبھی ہم خدا کے وجود کو سمجھ سکیں گے۔

2008 میں اسٹیفن ہاکنگ کے خلاء پر غیر معمولی مطالعہ کو دیکھتے ہوئے امریکی خلائی ادارے ناسا نے انہیں اپنی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ‘دوسرے سیاروں پر زندگی’ عنوان پر بولنے کے لئے بلایا تھا۔ اسٹیفن نے یہ کہتے ہوئے سبھی کو چونکا دیا کہ اس کائنات میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ دوسرے سیاروں پر بھی زندگی ہے لیکن ہمیں ان سے تعلق قائم کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خطرہ حملے کا نہیں بلکہ ان سے پھیلنے والی بیماریوں کا ہو سکتا ہے۔ یہ اس لئے بھی جوکھم بھرا ہے کیونکہ شاید ان کی زندگی ڈی این اے پر منحصر نہیں ہوگی۔ اسٹیفن نے ڈسکوری چینل کے ایک پروگرام میں بھی یہ بات کہی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بہت ممکن ہے کہ خلاء میں رہنے والے انجان لوگ اپنے سبھی وسائل ختم کر کے دوسرے سیاروں پر قابض ہو جائیں۔

1990 میں ہاکنگ نے جب اپنے رفقاء کے مقالات کا مطالعہ کیا جس میں ٹائم مشین کو بنانے کا ذکر تھا تو وہ فوری طور پر اس بارے میں شک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کے وجدان نے ان کو بتایا کہ وقت میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مستقبل سے آیا ہوا کوئی بھی مسافر موجود نہیں ہے۔ اگر وقت کا سفر کرنا اتنا آسان ہوتا کہ جیسے کسی سیر و تفریح پر جانا تو مستقبل سے آئے ہوئے سیاح اپنے کیمروں کے ساتھ ہمیں تنگ کرنے کے لئے یہاں موجود ہوتے اور ہمارے ساتھ تصاویر کھنچوانے کی درخواست کر رہے ہوتے۔ ہاکنگ نے ایک چیلنج دنیائے طبیعیات کو بھی دیا۔ ایک ایسا قانون ہونا چاہئے جو وقت کے سفر کو ناممکن بنا دے۔ انہوں نے وقت کے سفر سے روکنے کے لئے قوانین طبیعیات کی طرف سے ایک “نظریہ تحفظ تقویم” (Chronology Protection Conjecture) پیش کیا ہے تاکہ “تاریخ کو مؤرخوں کی دخل اندازی سے بچایا جا سکے۔‘‘ انہوں نے چھ کتابیں لکھی ہیں۔ ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘، ’’ بگ بینگ سے بلیک ہول کی اور ‘‘، ’’دی گرینڈ ڈیزائن‘‘ ان کی کافی مشہور کتابیں ہیں۔ اپنی بیٹی لوسی کے ساتھ مل کر انہوں نے بچوں کے لئے ایک بہترین کتاب ’’جارجس سیکریٹ ٹو دی یونیورس‘‘ لکھی۔ یہ ایک چھوٹے بچے کی کہانی ہے جو اپنے پڑوسی سائنسداں کے ساتھ مل کر ایک سپر کمپیوٹر بناتا ہے اور یہ کمپیوٹر اسے خلاء کے مختلف راز سمجھاتا ہے۔ اسی سیریز میں انکی دوسری کتاب ’’جارجس کاسمک ٹریزر ہنٹ‘‘ بھی آئی۔

سال 2009 میں انہیں ’’پریسیڈنشیل میڈل آف فریڈم ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا جو کہ امریکہ کا سب سے بڑا شہری ایوارڈ ہے۔ اسٹیفن نے اپنے بلند حوصلے کے بل پر نہ صرف موت کو ہرایا بلکہ زندگی کی جنگ بھی جیتی۔ جن حالات میں لوگ موت کی آرزو کرتے ہیں، اسٹیفن ہاکنگ نے زندگی کے لئے دعائیں کیں۔ دنیا کے بڑے سے بڑے سوالوں کا جواب دینے والے اسٹیفن ہاکنگ خود بھی ایک سوال میں الجھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک سوال عام عوام سے پوچھا تھا کہ جس طرح کی معاشی، سیاسی، سماجی اور ماحولیاتی پریشانیوں سے ہم گزر رہے ہیں، آنے والے 100 سالوں میں ہم اپنا وجود کیسے قائم رکھ سکیں گے؟ ان کا یہ سوال بتاتا ہے کہ وہ ایک قابل سائنسداں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جذباتی انسان بھی ہیں۔ وہ دنیا کی فکر کرتے ہیں جسے وہ زبان سے بیان نہیں کر سکتے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں