نصاب اور درسی کتابوں میں ہونے والی تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جسے وقفہ وقفہ سے منظم طور پر انجام پذیر ہونا ہوتا ہے چونکہ یہ چیز تعلیمی سمورتی فہرست میں شامل ہے،لہذا اس موضوع کا تعلق مرکز و ریاست دونوں کا ہے۔اس جہت میں کام کرنے کیلئے ہمارے ملک میں قومی سطح پر این سی آر ٹی اور صوبائی سطح پر متعدد خود مختار ادارے موجود ہیں۔ہر پانچ سالوں میں منظم طور پر ان تبدیلیوں اورموجودہ نصاب و درسی کتابوں کے تجزیہ کا ایک باقاعدہ اصول ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ عمل کیسے ہوگا؟ کن بنیادوں پر ہوگا؟ سماج اور طلبہ پر اس کے کیا مثبت اور منفی اثرات پڑیں گے؟ اس عمل میں کس حد تک سیاست کا عمل دخل ہوگا اور کیوں؟ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر ہم گزشتہ کچھ سالوں میں مختلف صوبوں کے نصاب اور درسی کتابوں میں ہوئی تبدیلیوں پر غور کریں تو براہ راست یا بالواسطہ سیاست کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ اس سیاق میں بھی متعدد سوالوں پر غور و خوض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ آخر درسی کتابوں میں سیاسی جماعتوں کے دلچسپی لینے کی کیا وجہ ہے؟ درسی کتابوں سے ہم کیا امید کرتے ہیں؟ درسی کتابوں کا مقاصدِ تعلیم سے کیا ربط ہے؟ کیا یہ طلبہ کو تعلیم کے اصل مقاصد تک پہونچانے میں کارگر ثابت ہو رہی ہیں؟
ایسے ہی کچھ سوالوں کا جواب تلاش کرنے کیلئے سی ای آر ٹی(سینٹر فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ) کے زیر اہتمام ہندوستان کے چار صوبوں ( راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات اور کرناٹک) کی نئی وارد درسی کتابوں کا سروے کیا گیا جوکہ قومی نصاب کی آوٹ لائن ۲۰۰۵؍ کی بنیادوں پر منحصر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔لیکن جب ہم نے اس موضوع سے متعلق حاصل کردہ نتائج کو سمجھنا چاہا تو یہ دعویٰ بلکل بے بنیاد اور بغیر سر پیر کا نظر آیا۔ ان سبھی صوبوں کے نصاب میں کہیں نہ کہیں ایسے موضوعات شامل ہیں جو این سی ایف کے ذریعہ جاری کردہ ہدایات کے پابند نہیں ہیں اور خاص طور پر ایک نظریہ کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔راجستھان کے کورس میں شامل درجہ پنجم کی کتابوں میں جگہ جگہ ایسی خلاف ورزیاں نظر آتی ہے۔کہیں بچوں کو سوریہ نمسکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، کہیں پیڑوں کی پوجا کا ذکر کیا گیا ہے،تو کہیں عظیم شخصیات کے نام ایک مخصوص نظریہ کے ماننے والوں کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح صوبہ گجرات کی درسی کتابوں میں حکمرانوں کو ایک مخصوص مذہبی رنگ میں رنگنے اور ایک خاص مذہب کے خلاف نفرت کا ماحول تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ این سی ایف کی ہدایات کے بلکل خلاف ہیں۔مدھیہ پردیش کی درسی کتابوں کا تجزیہ کرنے پر بھی کچھ ایسی ہی چیزیں سامنے آئیں۔درجہ ششم میں پڑھائی جانے والی سماجی علوم کی کتاب میں بھی ایک خاص مذہب کو بڑھاوا دینے اور اسلام کا تشخص ایک غیر ملکی حملہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ درجہ ہفتم کی کتاب کے پہلے ہی سبق میں کہا گیا ہے کہ مال و دولت کی لالچ تھی جو مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا ۔جا بجا ایک خاص مذہب کے خلاف موضوعات تیار کئے گئے ہیں ، کہیں نشہ کو بڑھاوا دیا گیا ہے تو کہیں مذہبی دہشت گردی کی بات کہی گئی ہے۔ اسی طرح کرناٹک کی شوسل سائنس کی کتاب بالقصد ان ترقی پسند تنظیموں کے خلاف تیار کی گئی ہے جو درسی کتابوں کے زعفرانی رنگ میں رنگے جانے کے خلاف مسلسل اپیل کرتی رہتی ہیں۔ آغاز سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سماجی علوم کی نصابی کمیٹی نے جان بوجھ کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف موجود قدامت پسند تصورات کو طاقت بخشی ہے۔
این سی ایف ۲۰۰۵؍ کے اصولوں اور اس کے مطابق تعلیم کے اہداف پر غور کرنے بعد پہلا سوال جو کسی بھی شخص کے دماغ میں آتا ہے کہ کیا ہمارے ملک کے مختلف صوبوں میں نصاب کے اندر پڑھائی جانے والی کتابیں این سی ایف ۲۰۰۵؍ کے ان ہدایات کی پیروی کرتی ہیں؟ کیا وہ ان ہدایات کو سمجھ پائی ہیں؟ دعویٰ تو ہر صوبہ کرتا ہے کہ وہ تعلیم کو معیاری بنانے کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے، لیکن ان کے دعووں اور یہ کہ وہ این سی ایف ۲۰۰۵؍ کے ہدایات کے پابند ہیں یا نہیں، انہی باتوں کی سچائی جاننے کیلئے سینٹر فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے چار صوبوں ( راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات اور کرناٹک) کی سماجی علوم اور آرٹ سے متعلق کتابوں کا تجزیہ کیا ۔ اس تجزیہ سے ماخوذ نتائج حیران کر دینے والے ہیں۔ انہیں نتائج کی بنیاد پر دستیاب تحقیقاتی رسالوں کو جمع کر کے سینٹر فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے” یووا ویچاروں کا وش کرن” نامی ایک کتاب شائع کی ہے ۔اس کتاب میں مندرجہ بالا چاروں ریاستوں کے نصاب میں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔