روہیت ویمولا کی خودکشی پر احتجاج کرتے ہوئے ایف ٹی ٹی آئی پونے کی طالبعلم یشسوی مشرا نے بجا طور پرکہا کہ ’’ ہم روہت رومیلا کی موت جیسے افسوسناک واقعہ کو منظم قتل سمجھتے ہیں۔ جس نظریہ کے سبب یہ سانحہ رونما ہوا اس سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب متحد ہیں اور طلباء برادری نسلی و طبقاتی امتیاز سے پاک معیاری تعلیم کی خاطر جدوجہدکررہی ہے‘‘۔یہ سانحہ گوکہ دوماہ پرانا ہوچکا ہے لیکن اس کی گونج اب بھی رک رک کر سنائی دیتی ہے اور ہر ہفتہ کسی نہ کسی حوالے سے یہ ذرائع ابلاغ پر چھا جاتا ہے۔ اس کی ابتداء گزشتہ سال یکم اگست کو اکھل بھارتیہ ودیا پریشد کے انتہا پسندوں نے کی۔ انہوں نے مظفر نگر فساد پر دکھلائی جانے والی دستا ویزی فلم کی نمائش کے دوران حملہ کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اے بی وی پی کو اس فلم پر اعتراض کیوں تھا ؟ اس سوال کا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ اس میں بی جے پی کے فسطائی چہرے کی نقاب کشائی ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ بی جے پی رہنماوں کا فسادی کردار منظر عام پر آتا ہے۔
بی جے پی ایک جانب تو ان فساد کے مجرمین کو انتخابی ٹکٹ دیتی ہے اور ان میں سے جو منتخب ہو جاتا ہے مثلاً ڈاکٹر مہیش شرما تو اسے مرکزی وزیر ثقافت وسیاحت کا اہم قلمدان تھما دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شرما کے تعارف میں ان کی ویب سائٹ پریہ درج ہے کہ وہ آرایس ایس کے کٹّر حامی ہیں۔ مہیش شرما جس تہذیب وثقافت کے علمبردار ہیں اس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ میں قرآن و بائبل کا احترام توکرتا ہوں مگر وہ رامائن اور گیتا کی مانندبھارت کی روح سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ روہت ویمولا کی خودکشی اس بیان کی تائید کرتی ہیں۔ روہت جس ورن آشرم کے جبرکا شکار ہوا ہے اس کی حمایت وتوثیق قرآن و بائبل میں نہیں بلکہ گیتا اور رامائن میں قدم قدم پر نظر آتی ہے۔ شرما جی نے اورنگ زیب روڈ کا نام ڈاکٹر عبدالکلام کے نام پررکھتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالکلام مسلمان ہونے کے باوجودانسانیت نواز اورقوم پرست تھے۔ اس طرح گویا انہوں نے مسلمانوں کو من حیث القوم انسانیت اور قوم کا دشمن قرار دے دیا اور اپنی دیش بھکتی کے عوض ڈاکٹر عبدالکلام کی رہائش گاہ پر قابض ہوگئے جبکہ اس کے قومی میوزم بنانے کا اعلان ہو چکا تھا۔ دیش بھکتی اگر اس قدر فائدہ بخش ہوتو کون دیش دروہی بسنتی چولہ اوڑھنے سے گریز کرے گا؟
اے بی وی پی کی مذکورہ غنڈہ گردی کے خلاف امبیڈکر ایسو سی ایشن نے ۳ اگست کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے بعد اے بی وی پی کے صدر سشیل کمار نے اپنے فیس بک صفحے پر لکھا کہ احتجاج کے دوران غنڈہ کہے جانے سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس عجیب وغریب مطالبے کے معنیٰ تو یہ ہیں کہ صدیوں سے چلی آرہی پرمپرا کے مطابق ہماری دھاندلی کو بلا چوں چرا برداشت کرلیا کرو۔ اس کے خلاف اگر کوئی صدائے احتجاج بلند کرے گا تو ہمارے جذبات مجروح ہوں گے۔ یعنی ہمارے لئے تو مسلح حملہ کرنا بھی مباح ہے مگر تم اس کے خلاف زبان نہیں کھول سکتے۔ اس واقعہ کے بعد اے بی وی پی کے صدر نے مقامی انتظامیہ کے سامنے تحریری معافی نامہ لکھ کر اپنی جان کی خلاصی پائی لیکن دوسرے دن اس کی نیت بدل گئی اور وہ ایک نجی اسپتال میں داخل ہو گیا۔اس کے بعد کمارنے اے ایس اے پراس کو زد و کوب کرنے کا جھوٹا الزام لگا دیا۔ اپنے بہتان کی حمایت میں اس نے اپنڈکس آپریشن کے کاغذات جمع کرائے حالانکہ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ اپنڈکس کا مارپیٹ سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اس ناٹک کا پردہ باآسانی گر جاتا اگر بی جے پی کے رکن ِ دستور ساز کونسل رامچندر راؤ درمیان میں نہ کودتے۔ انہوں نے وائس چانسلر اپا راؤ سے ملاقات کرکے دلت طلباء کو قوم دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت اقدام کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد بے قصور طلباء کو سبق سکھانے کیلئے سابق وائس چانسلر آر پی شرما نے پروفیسر آلوک پانڈے کی قیادت میں ایک تفتیشی کمیٹی تشکیل دی۔ اس دوران آرایس ایس کے منظورِ نظر مرکزی وزیر بندارو دتاترے کا زعفرانی خون جوش مارنے لگا اور انہوں نے فروغ انسانی وسائل کی وزیر سمرتی ایرانی کو خط لکھ کر خبردارکیا کہ حیدرآباد یونیورسٹی قوم دشمن ، نسل پرست انتہا پسندوں کا اڈہ بن چکی ہے اس لئے فوراً سخت ترین تادیبی کارروائی کی جائے۔ اس واردات کوفرقہ وارانہ رنگ دینے کی غرض سے یہ افواہ اڑائی گئی کہ دلت طلبہ یعقوب میمن کی دستاویزی فلم دیکھ رہے تھے۔ چونکہ ایسی کسی فلم کا وجود ہی نہیں ہے اس لئے بعد میں کہا گیا کہ یعقوب میمن کی نماز جنازہ ادا کی گئی تھی۔ جس دن دلت طلباء یعقوب میمن کی نماز جنازہ ادا کریں گے اس روز دتاترے جیسے لوگوں پر دل کا دورہ پڑ جائیگا۔ اس لئے کہ اس مبارک دن کو پانچ ہزار سالہ نسلی استحصال کا نظام زمین دوز کرکے دلت سماج صدیوں پرانے آہنی شکنجے سے آزاد ہوجائیگا۔
بندارودتاترے کی آرایس ایس سے قربت کے سبب سمرتی ایرانی ڈر گئی اورانہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ بنانے کیلئے اپنے دفتر سے یکے بعد دیگرے پانچ خط لکھوائے، جس کے نتیجے میں آلوک پانڈے کی کمیٹی کو،جس نے ان طلباء کو پہلے بے قصور ٹھہرا دیا تھا اپنا فیصلہ تبدیل کرناپڑا۔ اس طرح روہت سمیت ۵ بے قصور طلباء کو ہاسٹل سے نکال باہر کیا گیا ۔نیز کینٹین اورعمومی مقامات پر داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس زیادتی کے بعد پانچ ماہ کا طویل عرصہ روہت نے یونیورسٹی کے صدر دروازے سے قریب ایک عارضی خیمہ میں گذارا۔ اس نے اس ظلم وناانصافی کی جانب توجہ مبذول کرانے کیلئے یہ تک لکھ دیا کہ وائس چانسلر ان کیلئے زہر کی پڑیا یا پھانسی کی خوبصورت سی رسی ّ مہیا فرما دیں لیکن حکومت اور انتظامیہ کے کان پر جوں نہیں رینگی۔
روہت نے جب خودکشی کرلی اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تو سمرتی ایرانی نت نئے جھوٹ گھڑنے لگیں۔ مثلاً اس قومی بہو نے پہلے تو یہ انکشاف کیا کہ یہ دلت اور غیر دلت کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ روہت ویمولا دلت تھا ہی نہیں اور پھر یہ بتایا کہ جس کمیٹی نے روہت اور اس کے ساتھیوں کو ہاسٹل خالی کرنے کا حکم دیا اس میں دلت موجود تھے۔ یہ تینوں باتیں خلاف حقیقت تھیں۔ سمرتی کو پتہ نہیں ہے کہ کمیٹی کے ارکان کا نام جاننے کیلئے گوگل پر انگلی کی ایک جنبش کافی ہیاور کون نہیں جانتا کہ شرما اور پانڈے براہمن ہوتے ہیں۔ وزیر صاحبہ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ دلت طلباء کیلئے ریزرو سیٹ پر داخلہ لینا لازم نہیں ہے۔ روہت نے چونکہ عام نشست پر داخلہ لیا تھا اس لئے ایرانی نے انہیں غیر دلت قرار دے دیا۔ اس کی دادی کے غلط بیان کو اچھالہ گیا جو دلت نہیں بلکہ دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتی ہیں لیکن روہت کی والدہ دلت ہیں۔ روہت کے والد نے بچپن ہی میں اپنی اہلیہ اور بچوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا ممکن ہے وہ بھی وزیراعظم کی مانند سنگھ سیوک بن گیا ہو۔
سمرتی ایرانی سے لے کر سشما سوراج تک ہر کوئی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ یہ دلت و غیر دلت معاملہ نہیں ہے۔ اگر اس غلط منطق کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس جبر و استحصال کے لئے ان کے پانچ خطوط کا دباو ذمہ دار نہیں ہے؟ اگر ہے تو وہ اس کی ذمہ داری قبول کرکے سمرتی استعفیٰ کیوں نہیں دیتیں یا وزیراعظم انہیں برخواست کیوں نہیں کرتے؟ وہ زمانہ لد گیا کہ جب اخلاقی ذمہ داری قبول کرکے وزراء استعفیٰ دیا کرتے تھے آج کل کے بداخلاق سیاستدانوں کا تو یہ حال ہے کہ جان جائے مگر کرسی نہ جائے۔ روہت کی خودکشی کے خلاف جب ملک بھر میں احتجاج جاری تھا تووزیراعظم کمبھ کرن کی نیند سو رہے تھے لیکن اچانک سبرامنیم سوامی خواب سے بیدار ہوکر حسب عادت بھونکنے لگے ۔ انہوں مظاہرین کو آوارہ کتے کہہ کر آگ میں گھی ڈال دیا اور ثابت کردیا کہ وہ بھی ہریانہ کیاندر حراست میں مرنے والے دلت نوجوان کو کتے کی موت قرار دینے والے وی کے سنگھ سے کم نہیں ہیں۔
سنگھ پریوار کو یہ خوش فہمی تھی کہ روہت رومیلا کی خودکشی کا معاملہ بہت جلد رفع دفع ہوجائیگا اور لوگ بھول جائیں گے کس نے کہاں اور کیوں خودکشی کی تھی ؟ لیکن بظاہر اس کے آثار کم ہیں اس لئے کہ یہ تحریک ٹھنڈی آنچ پر چل رہی ہے۔ عام طور نوجوانوں اور طلباء کو احتجاج کے دوران مشتعل کرکے تشدد پر مجبور کردیا جاتا ہے اور پھر توڑ پھوڑ کا بہانہ بنا کر تحریک کوکچل دیا جاتا ہے۔ ابھی تک چونکہ تحریک کے رہنماؤں نے انتظامیہ کواس کا موقع نہیں دیا اس لئے سرکار اپنے آزمودہ نسخے کااستعمال نہیں کرسکی ہے۔ خوش قسمتی سے تلنگانہ کی ریاستی حکومت مرکز کی باجگذار نہیں ہے اور جہاں مرکزی حکومت ان مظاہروں سے پریشان ہے وہیں صوبائی حکومت اس کی پشت پناہی کررہی ہے۔ حیدرآباد کے بلدیاتی انتخاب میں ٹی آرایس کو اس کابھرپور فائدہ ملا اور اس کے کاونسلرس کی تعداد ایک سے بڑھکر ۹۹ پر پہنچ گئی جبکہ بی جے پی ۴ پر سمٹ گئی۔ پولس چونکہ مرکز کے بجائے ریاستی حکومت کے تحت ہے اس لئے وہ مقامی رہنماؤں کے تابع و فرمان ہے۔اس طرح کی صورتحال کا بھرپور فائدہ خود مودی جی گجرات میں اٹھا چکے ہیں۔
کسی بھی تحریک کی حوصلہ افزائی میں مرحلہ وار کامیابیاں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سابق وائس چانسلر اپاراؤکی غیر میعادی چھٹی، ان کے قائم مقام سریواستو کااچانک روہت کی سالگرہ والے احتجاج سے قبل چار دن کی چھٹی لے لینا، طلباء کے ساتھ دلت اساتذہ کا برسرِ جنگ ہوجانا اور دیگر معطل شدہ طلبہ کی بحالی سنگھ پریوار کے خیمے میں بوکھلاہٹ کا بین ثبوت ہے۔ روہت کے پسماندگان کی استقامت بھی قابلِ تعریف ہے کہ وہ نہ دھونس دھمکی کے آگے جھکے، نہ جذباتی استحصال کا شکار ہوئے اور نہ انہیں دھن دولت کا لالچ اپنا شکار بنا سکی۔ مستقل مزاجی کے ساتھ چلنے والی اس تحریک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس دوران ذرائع ابلاغ کے اندر حکومت کی جانب سے پھیلائی جانے والی ساری غلط فہمیوں کی تردید نہایت مدلّل انداز میں ثبوت کے ساتھ کی گئی ہے۔ جس کے سبب رائے عامہ پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ اس تحریک پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
اس تحریک کے اور روہت کے مزاج میں بلا کی یکسانیت ہے جس کااندازہ روہت کے آخری خط سے لگایا جاسکتا ہے۔ روہت نے اپنے خط کی ابتداء صبح بخیر کے ساتھ کی اور آگے لکھا ’’ جس وقت آپ لوگ یہ خط پڑھ رہے ہوں گے میں آپ کے آس پاس نہیں ہوؤں گا۔ مجھ پر غصہ نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگوں نے میرا بے حد خیال رکھا، مجھ سے محبت کی اور میرے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ یہ (شکایت) تو ہمیشہ ہی خود مجھ سے رہی ہے ۔ میرے اپنے مسائل رہے ہیں۔ میں اپنی روح اور جسم کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کو محسوس کرتا ہوں۔ میں ایک آسیب بن چکا ہوں۔ میں ایک مصنف بننا چاہتا تھا۔ کارل سگن کی مانند سائنس کا ادیب۔ بالآخرمیں یہی ایک خط لکھ سکا ہوں‘‘
روہت جیسے دلیر نوجوانوں کی نفسیات کو اس خط کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ جب روہت جیسا ہونہار طالبعلم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر خودکشی کے قریب پہنچ جاتا ہے تو وہ سارا الزام خود اپنے سر لے لیتا ہے۔ اپنے آپ کو ایک آسیب سمجھنے لگتا ہے اور اس کیلئے روح و جسم کے درمیان بڑھنے والے فاصلے کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے جس بدھ مت کو اپنی قوم کا نجات دہندہ مذہب سمجھ کر قبول کیا وہ روح کا منکر ایک ملحدانہ دین ہے۔ وہ خدا اور آخرت کا انکارکرتاہے یہی وجہ ہے کہ بظاہر امن سکون کے علمبرداراس دین کے حاملین روحانی سکون سے محروم ہوتے ہیں نیز برماا ور چین میں اس کے بھکشو بھی بدترین سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو طرز حیات انسان کی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی مطالبات کو مخاطب نہ کرے اس کے ماننے والوں کے اندر اس حد تک مایوسی کے بڑھ جانے کا امکان موجود ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کر بیٹھیں۔ ہندوستان کے اندر شدید ترین مصائب میں گرفتار ہونے کے باوجود مسلمان توکل اللہ کے سبب اس لعنت سے محفوظ و مامون ہیں۔
روہت اپنے خط میں آگے لکھتا ہے’’ مجھے سائنس ، ستاروں اور فطرت سے محبت تھی لیکن پھر لوگوں سے یہ جانے بغیر محبت کرنے لگا کہ وہ کب کے فطرت کوطلاق(انحراف) دے چکے ہیں۔ ہمارے احساسات دوسرے درجہ (سیکنڈ ہینڈ)کے ہیں۔ ہماری محبت ایک خاص انداز میں ڈھلی ہوئی (کنسٹروڈ) ہیں۔ ہمارے عقائد رنگ آلود ہیں۔ ہماری انفرادیت مصنوعی فن کے ذریعہ عیاں ہوتی ہے۔ دل برداشتہ ہوئے بغیر محبت کرنا واقعی محال ہوگیا ہے۔ ‘‘ اس پیراگراف کا ہر لفظ ہیرے موتی کی مانند روہت کی قلبی کیفیت کا غماز ہے۔وہ آگے یوں رقمطراز ہے’’ انسان کی قدروقیمت اس کے اولین تشخص اور قریب ترین امکان تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ووٹ کی حد تک ، تعداد کی حدتک اور کسی چیز تک۔ انسان کو اس کے ذہن سے نہیں پرکھا جاتا۔ اس طرح ایک تابناک شئے کو ہر جگہ ، تعلیم میں ، سڑکوں پر ، سیاست میں ، زندوں میں اور مردوں میں ،تارے کی دھول بنادیا گیا ہے‘‘
اس نہایت حقیقت پسندانہ اور پر مغز تجزیہ کے بعد روہت لکھتا ہے کہ ’’ میں اس طرح کا خط پہلی مرتبہ لکھ رہا ہوں۔ پہلی باراور آخری خط۔ اگر اس میں کوئی معنٰی و مفہوم نہ نظر آئے تو معذرت چاہتا ہوں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص حالات کی ایسی معرفت رکھتا تھااس نے خودکشی کیوں کی جبکہ وہ خود آگے چل کر تسلیم کرتا ہے کہ لوگ اِسے بزدلی ، خودغرضی اور حماقت خیز قرار دیں گے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ حقائق کی سنگینی کے ادراک کے بعد ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے جس عقیدے کی ضرورت ہے اور جوعملی نمونہ انسان کو درکار ہے روہت اس سے ناواقف تھا۔ کاش کے اس کے سامنے رسول اللہ ؐکا اسوۂ حسنہ ہوتا جو اس سے کہیں زیادہ مشکل حالات سے گذرتے ہوئے حزن و ملال کا شکار ہونے کے بجائے انہیں یکسر بدل کر رکھ دینے کی قوت فراہم کرتا۔
روہت نے اپنے آخری خط میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’ ہو سکتا ہے میں اس دنیا کو سمجھنے میں غلطی کررہا ہوں یعنی محبت ، درد ،زندگی اور موت کو سمجھنے میں۔ کوئی جلدی نہیں تھی لیکن میں ہمیشہ دوڑتا رہا۔ زندگی کی ابتداء کیلئے بے چین رہا۔ کچھ لوگوں کیلئے یہ زندگی بذات ِخود ایک عذاب ہے۔ میری پیدائش ہی ایک جان لیوا حادثہ تھا۔میں اپنے بچپن کی تنہائی سے کبھی ابھر نہیں سکا۔ ایک ناپسندیدہ بچے کا ماضی۔ ‘‘ روہت کو جن حالات سے گذرنا پڑا اس طرح کے مصائب سے کروڑوں بچے دوچار ہوتے ہیں لیکن وہ غورو فکر نہیں کرتے۔ روہت کا امتیاز یہ تھا کہ وہ سوچتا تھا۔اسباب و علل پر غور کرتا تھا۔ بدقسمتی سے اس کو غوروفکر کیلئے درست خطوط کار نہ مل سکے ورنہ روہت کا شمار بھی دنیا کے بڑے دانشوروں میں ہوتا۔
الہامی رہنمائی کے بغیر جولوگ زندگی اور موت کی حقیقت کو جاننے کوشش کرتے ہیں۔ روح و جسم کے فاصلوں کو عبور کرنا چاہتے ہیں ان میں سے اکثر گمرہی کی بھول بھلیوں میں کھوجاتے ہیں اور کبھی کبھار حزن ویاس کا شکار ہوکر موت کو ازخود گلے لگا لیتے ہیں۔ روہت بھی ان بدنصیب لوگوں میں سے ایک تھا۔ اسلئے بقول خود وہ’’موت کے بعد کی کہانیوں پر ، بھوت اور روح پر یقین نہیں رکھتا ‘‘ تھا۔ اس نے لکھا تھا ’’اگر میں کسی چیز میں ایمان رکھتا ہوں تو وہ یہی ہے کہ میں ستاروں کا سفر کرسکتا ہوں اور دوسری دنیا کے بارے میں جان سکتا ہوں۔ اپنی اسکالر شپ کی باقیماندہ رقم کے بابت وصیت کرنے بعد روہت نے اپنے خط کے اختتام پر لکھا ’’ اس وقت نہ میں دل برداشتہ ہوں اور نہ غمگین ہوں۔ میں بس خالی ہوں۔ اپنی ذات سے غیر متعلق۔ یہ افسوسناک ہے اور اسی لئے میں یہ (اقدام ) کررہا ہوں۔ میری آخری رسومات خاموشی اور سکون کے ساتھ ادا کی جائیں۔ میرے متعلق اس طرح کا رویہ اختیار کیا جائے کہ گویا میں بس نمودار ہوا اور چلا گیا۔ میرے لئے آنسو نہ بہائے جائیں۔ جان لو میں زندہ رہنے سے زیادہ مرکے خوش ہوں ‘‘۔ ایک ناقص نظریۂ حیات کس طرح ایک ذہین اورجرأتمند نوجوان کو اندر ہی اندر سے توڑ کر رکھ دیتا ہے اس کی نہایت واضح مثال روہت کی خودکشی ہے۔
روہت ان لوگوں میں سے ایک تھا جو تحریک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی زندگی کی آخری سانس تک بس اسی کا خیال رہتا ہے۔ اپنی طلباء تحریک سے زبردست لگاؤکا اظہار روہت نے خط کے آخری جملے میں کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسے سب سے زیادہ عزیز تھی۔ روہت کے درد انگیز الفاظ ملاحظہ فرمائیں ’’ای ایس اے (امبیڈکر ایسو سی ایشن) کے ساتھیو آپ سب کو مایوس کرنے کیلئے میں معذرت خواہ ہوں۔آپ نے مجھے بہت محبت دی۔ مستقبل کیلئے میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ آخری بار جئے بھیم ‘‘۔ روہت نے اپنا خط ختم کرنے کے بعد یہ اضافہ کیا کہ مجھے اس اقدام کیلئے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ میں خود اس کیلئے ذمہ دار ہوں اور اس کیلئے میرے کسی دوست یا دشمن کو تنگ نہ کیا جائے۔ دوستوں کے ساتھ دشمنوں کو بھی شامل کرکے جاتے جاتے روہت نے کمال کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا۔
روہت کی کہانی دراصل سرزمین ہند کی ۵ ہزار سالہ استحصالی داستان کا ایک دردناک باب ہے۔ ہندوستان کی دلت اکثریت صدیوں سے براہمنوں کے جبر و استحصال کا شکار رہی ہے جس کو مذہبی تقدس کا جامہ پہنا کر خوشنما بنایا گیا ہے۔ اس لئے ہندوتو وادیوں سے انصاف کی امید کرنا ایسا ہی جیسے کوئی سمندر سے پیاس بجھانے کی توقع کرنا۔ بدقسمتی سے اپنی نجات کیلئے دلت سماج یا تو بودھ مذہب کی جانب دیکھتا ہے یا مغربی فلسفۂ حیات کی جانب راغب ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں ملحدانہ افکار کے حامل ہیں۔ اللہ ، رسول اور آخرت کے عقائد سے بے بہرہ ان نظریات پر جب کوئی سوچنے سمجھنے والا شخص غورو خوض کرتا ہے تو اس کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ اور نہیں آتا۔ روہت کے ساتھ یہی ہوا۔
روہت کی خودکشی کے اندر یہ پیغام عبرت ہے کہ دلت سماج اپنی حقیقی نجات کیلئے بودھ مت اور مغربی مادیت سے علی الرغم متبادل تلاش کرے۔ اگر وہ منووادی ورن آشرم سے نکل کر مغربی نظریات کے دام میں پھنس جائے تو اس کی حالت آسمان سے گرنے کے بعد کھجور میں اٹکنے جیسی ہوجائیگی۔ اس پس منظر میں امت مسلمہ کردار نہایت اہم ہے بشرطیکہ وہ اپنے مقصدِ وجود سے واقف ہو۔ اپنے فرض ِ منصبی کو ادا کرنے کیلئے خود کو تیارکرے اور دعوت و تبلیغ کی راہ میں ضروری قربانی پیش کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ امت کا ایک طبقہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ دلت سماج کو اگر منوواد کے چنگل سے آزادکر دیا جائے تو وہ اپنے آپ اسلام کے دامن رحمت میں آجائیگا۔یہ کام ایسا آسان بھی نہیں ہے۔ اس راہ کی اولین رکاوٹ دلتوں کے اندر پائی جانے والی مغرب کی مرعوبیت ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ منوواد کی مخالفت تو ہر دلت دانشور کرتا ہے مگر مغرب پر تنقید کرنے والا دلت مفکر نظر نہیں آتا۔ ہندوتوا کی مخالفت دلتوں کا دل جیتنے میں تو مددگار ہو سکتی ہے لیکن ان کے سامنے متبادل پیش نہیں کرتی اور اس کے ساتھ اگر سیکولرزم اور جمہوریت کا ضمیمہ بھی موجود ہو تو اسلامی نظام حیات پس پشت چلا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ خوداعتمادی کے ساتھ عالم ِانسانیت کی نجات دہندہ بن کر اٹھے۔ یہ نہ صرف انسانوں کی سب بڑی خدمت ہے بلکہ ہماری اپنی دنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت بھی ہے۔
از: ڈاکٹر سلیم خان