’’اذا جاء رمضان فتحت ابواب الجنۃ‘‘۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ خوشخبری سنائی ہے کہ جب رمضان آجاتا ہے تو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جو شخص بھی جنت میں داخلے کا متمنی ہے اس کے لیے ماہ رمضان ایک سنہری موقع ہے۔ اس ماہ رمضان کے تقاضوں کی تکمیل کرکے اور اس ماہ کی مخصوص عبادات اور متوقع صفات کو اختیار کرکے رب کریم کی رضا کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور جنت نعیم کا مستحق بنا جاسکتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں روزے دار کے لیے جنت کے مخصوص دروازے کا ذکر ہے۔ فی الجنۃ ثمانیۃ ابواب، منہا باب ، یسمی ریاّن، لایدخلہ الا الصائمون۔(عن سہل بن سعد، متفق علیہ)جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازے کو ریاّن کہتے ہیں، ریاّن کے معنی آبپاشی کرنا، سیراب کرنا ہے، یعنی یہ مخصوص دروازہ روزہ داروں کو سیراب کرے گا۔ ایک روایت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میدان حشر میں اعلان ہوگا کہ روزہ رکھنے والے کہاں ہیں؟ یہ اعلان سنتے ہی یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے، ان کے لیے ایک مخصوص دروازہ کھل جائے گا، ان کے داخلے کے بعد وہ بند ہوجائے گا، اور پھر نہیں کھلے گا۔ دراصل ان احادیث میں تذکرہ ان بندۂ مومن کا ہے جن کے اعمال صالحہ میں روزہ ایک ابھرا ہوا پہلو ہوگا، چونکہ روزہ تو ہر مسلم نے رکھا ہوگا۔ دوسرے سات دروازے دوسرے نمایاں اعمال کے اعزاز میں کھلیں گے اور بند ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے اپنے بندوں کو نوازنے کا یہ انوکھا انداز ہوگا۔ روزہ دار کو اس طرح اعزاز بخشنے کی وجہ بھی ایک دوسری حدیث میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادی ہے۔ قال اللہ عزوجل: الا الصوم، فانہ لی وانا اجزی بہ، (عن ابی ہریرۃ، رواہ مسلم) یہ ایک طویل حدیث کا جزو ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ تمام اعمال کے اجر میں اضافہ کا امکان ہے، سوائے روزے کے، چونکہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ بے حدوحساب اجر کا یہ وعدہ ویسے تو نوافل روزوں کے ساتھ بھی ہے لیکن اس کی خصوصی معنویت رمضان کے روزوں کے ساتھ ہے۔ بندہ پورے مہینے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور شہوانی میلانات سے مکمل اجتناب کرتا ہے، راتوں کو قیام کرتا ہے، شب قدر کی تلاش میں سعی وجہد کرتا ہے، غصہ، بدکلامی اور نفس کی تمام شرارتوں کے مقابلے میں اپنے روزے کو ڈھال بنالیتا ہے، دیگر بندگان خدا کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، نماز عید سے قبل صدقہ فطر ادا کرتا ہے تاکہ عید کی خوشیاں سب کو میسر ہوجائیں۔ اور اس طرح آنے والے سال کے بقیہ گیارہ مہینوں تک ایک صالح بندے کی طرح زندگی گزارنے کے لیے اپنا تزکیہ کرلیتا ہے۔ اس کی یہ ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آتی ہے کہ وہ اسے صرف اپنی جنت ہی نہیں بلکہ اپنی ملاقات اور دیدار کی فرحت کا بھی مژدہ سنا دیتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرۃ ؓ سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی حسین پیرائے میں اس نعمت عظمی کا ذکر کیا ہے۔ للصائم فرحتان، یفرحہما، اذا افطر فرح واذا لقی ربہ فرح بصومہ، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ محظوظ ہوتا ہے، ایک جب وہ افطار کرتا ہے، تو محظوظ ہوتا ہے، اور دوسرا جب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا، اس وقت وہ اپنے روزے کی وجہ سے محظوظ گا۔ (صحیح بخاری)
از: ڈاکٹروقارانور