تزکیہ نفس قرآن کی روشنی میں
جس طرح پودے کی نشوونما کے لیے اس کو خاردار برگ وبار سے محفوظ رکھنااور وقت پانی، کھاد اور جنگلی جانوروں سے بچاؤ کی تدابیر ضروری ہیں، اسی طرح شخصیت کے ارتقاء کے لیے غلط افکار وخیالات نیز باطل نظریات سے بچنا بھی ناگزیر ہے۔ اگر ہمارے گردوپیش کا معاشرہ بیمار ہو اور ہم چاہیں کہ بیماری سے محفوظ صحتمند زندگی ہمارے حصے میں آئے تو ایسا ناممکن ہے۔ انسانی خاندان سماج کی بنیادی اکائی ہے، اس لیے فطری طور سے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اسے ہر طرح کے آوارہ، باطل اور مہلک نظریات پر مبنی طرز حیات کی آغوش میں جانے سے روکیں۔ انسانی سیرت اور شخصیت کی تعمیر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کا نام تزکیہ نفس ہے، یعنی اگر کسی فرد کی تربیت اسلامی ماحول میں ہورہی ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس کا تزکیہ بھی ہوگا۔
قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کے تعلق سے آیا ہے کہ جب وہ خانہ کعبہ کی تعمیر کررہے تھے اور ان کے ساتھ اسماعیلؑ بھی اس تعمیر میں شریک تھے تو ان کے لبوں پر یہ دعائیہ کلمات جاری تھے ’’اے ہمارے رب تو ان ہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔ (البقرۃ: ۱۲۹)اس آیت مبارکہ میں لفظ تزکیہ کا ترجمہ سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ نے ’’زندگیاں سنوارنا‘‘ لیا ہے۔ اور اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’زندگی شنوارنے میں خیالات، عادات، اخلاق، معاشرت، تمدن غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن: حصہ اول: صفحہ ۱۱۲؍)
معلوم ہوا کہ زندگی کے جملہ مسائل میں اسلام کی رہنمائی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا اور غیر اسلامی تعلیم سے اجتناب کرنا تزکیہ نفس کے مفہوم میں شامل ہے، اسی طرح سورہ نساء کی ایک آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو،اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سرتسلیم خم کرلیں‘‘۔ (سورۃ نساء: ۶۵)
یہاں رک کر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم زندگی کے بڑے سے بڑے یا معمولی درجہ کے مسائل میں بھی اللہ کے رسول کی طرف رجوع کرنے یا ان کو فیصل ماننے کے لیے تیار ہیں؟ اور اگر خدانخواستہ نہیں ہیں تو یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا، اور اگر کوئی شخص مومن ہی نہیں بن پایا تو اس کا تزکیہ نفس کیوں کر ممکن ہے؟ اس بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بھی ہوتی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس طریقے کی تابع نہ ہوجائیں جسے میں لے کر آیا ہوں‘‘۔
تزکیہ نفس کا الہی پروگرام
اللہ تعالی نے جس طرح ہماری اور ضروریات کو پوری کرنے کا اہتمام کیا ہے، ٹھیک اسی طرح ہمارے تزکیہ کا بھی اہتمام فرمایا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’تزکیہ نفس‘‘ کے پہلے باب میں رقم طراز ہیں کہ ’’اگر یہ سوال کیا جائے کہ انبیاء کی بعثت سے اللہ تعالی کا حقیقی مقصود کیا ہے؟ وہ کیا غرض ہے جس کے لیے اس نے نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری کیا ہے اور شریعت اور کتابیں نازل فرمائیں؟ تو اس کا صحیح جواب یہی ہوسکتا ہے، اور وہ یہ کہ۔۔۔ نفوس انسانی کا تزکیہ‘‘۔ (تزکیہ نفس: صفحہ نمبر: ۲۰)
یہی وجہ ہے کہ دو اہم عبادات نماز اور روزہ حصول تزکیہ کے لیے شامل شریعت اور انبیاء کی تعلیمات کا حصہ رہی ہیں۔ نماز کے متعلق سورہ مریم میں ارشاد ربانی ہے: ’’پھر ان کے بعد وہ ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی، پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں‘‘ (سورہ مریم: آیت:۵۹)
اس آیت کریمہ کی تشریح مولانا ابوالاعلی مودودیؒ نے یوں کی ہے: ’’یعنی نماز پڑھنا چھوڑ دی اور غفلت اور لاپرواہی برتنے لگے، یہ ہر امت کے زوال وانحطاط کا پہلا قدم ہے، نماز وہ اولین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ وعملی تعلق خدا کے ساتھ شب وروز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خداپرستی کے مرکزومحور سے بچھڑنے نہیں دیتا ہے‘‘ ۔ (تفہیم القرآن: حصہ سوم: صفحہ: ۷۵)بالکل یہی معاملہ روزہ، زکوۃ اور دوسرے ارکان اسلام کا ہے، ان میں سے کسی بھی رکن کو چھوڑنے کا نتیجہ تنزلی کے سوا اور کچھ نہیں۔
روزہ اور تزکیہ
روزے کے متعلق قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ ’’مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ ۔ (البقرۃ: ۱۸۳) اس آیت مبارکہ مولانا حافظ نذیراحمد دہلویؒ نے اس طرح کیا ہے: ’’مسلمانو! جس طرح تم سے پہلے لوگوں(یعنی اہل کتاب) پر روزہ رکھنا فرض تھا، تم پر بھی فرض کیا گیا ہے، تاکہ تم (بہت سے گناہوں ) سے بچو۔ ‘‘ مفتی محمد شفیع ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کے الفاظ ’الذین من قبلکم‘ عام ہیں،حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کی تمام شریعتیں اور امتیں شامل ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی امت اور کوئی شریعت خالی نہیں رہی، اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا ہے‘‘۔ آگے مزید لکھتے ہیں کہ ’’تقوی کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے، کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے، وہی تقوی کی بنیاد ہے‘‘۔ (معارف القرآن، جلد اول: صفحہ ۴۴۳)
ان ارشادات اور تصریحات سے معلوم ہوا کہ روزہ لازماََ گناہوں سے بچاتا ہے اور نیکیوں سے قریب کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں نیکیوں کا ایک عام ماحول پروان چڑھنے لگتا ہے، جس سے فضا معطر ہوجاتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ ڈھال ہے‘‘۔ (مسلم: جلد اول: باب فضل الصیام)مزید ارشاد رسولؐ ہے کہ ’’روزہ میں ریا نہیں ہوا کرتی ہے‘‘۔ (فتح الباری: جلد۴) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مولانا صدرالدین اصلاحیؒ رقمطراز ہیں: ’’کسی عبادت میں ریا کا نہ ہونا، اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ بندے کو خدا سے قریب کرنے والی ہے، اور یہ کہ ایسی عبادت سے زیادہ تقوی کا قابل اعتماد سرچشمہ اور کوئی نہیں ہوسکتا‘‘۔ (بحوالہ: اسلام ایک نظر میں: صفحہ:۹۸) یہ بات معلوم ہے کہ روزہ ہی واحد ایسی عبادت ہے جس میں نمائش اور ریا کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے یہ بات بنا کسی ترد دکے کہی جاسکتی ہے کہ یہ تزکیہ نفس کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ یہی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل ارشاد مبارکہ سے بھی سامنے آتی ہے کہ ’’ہر گندگی کو دور کرنے والی کوئی نہ کوئی چیز اللہ نے بنائی ہے، اور جسم کو ’’امراض‘‘ سے پاک کرنے والی چیز روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، بروایت ابوہریرۃؓ) اس حدیث کی تشریح مولانا جلیل احسن ندویؒ کچھ اس طرح کرتے ہیں: ’’جدید تحقیقات کی رو سے تمام مسلم اور غیرمسلم ڈاکٹر اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی طرز پر روز ہ رکھنے سے بہت سی مہلک بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔ اور روزے کے نصف صبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو دوسری عبادتوں سے زیادہ خالص اور شائبہ ریا سے پاک ہے۔ اس لیے اس سے نفس وغیرہ پر قابو پانے کی جو قوت حاصل ہوتی ہے، وہ تمام دوسری عبادتوں سے حاصل ہونے والی قوتوں سے نصف حصہ کے برابر ہوتی ہے‘‘۔ (بحوالہ زاد راہ: صفحہ۴۱، باب عبادات)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ رمضان المباک کا مہینہ بھی ہمارے اندر کوئی خاص تبدیلی نہیں لاپاتا، اس کی ممکنہ وجوہات درج ذیل ہیں:
۱) عبادات کا محض رسما ادا کیا جانا۔
۲) اس جذبے سے دل کا خالی ہونا کہ اپنے اندر کچھ تبدیلی لانا ہے۔
۳) محض سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان جملہ عبادات کو انجام دینا۔
۴) روزوں کو ایک بوجھ سمجھ کر جیسے تیسے گنتی پوری کرنا۔
۵) قرآن کریم کو طلب ہدایت کی غرض سے نہ پڑھنا۔
ان وجوہات کے علاوہ اور بھی ممکنہ اور قابل توجہ اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن بہر حال اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ تزکیہ نفس کے اس الہی پروگرام کی ناشکری ہم اجتماعی طور پر کررہے ہیں۔ کاش ہمیں اس کا شعور حاصل ہوتا!
محمد معاذ، جا معہ ملیہ اسلامیہ۔ ای میل: [email protected]