وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ یَأۡتِیَكَ ٱلۡیَقِینُ (الحجر : 99)’ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے’۔
رمضان المبارک کا مہینہ گزر گیا۔ اس کے گزرنے سے بہت سے لوگوں پر ایک مایوسانہ کیفیت طاری ہوئی جیسے کوئی عزیز مہمان رخصت ہوجائے ۔ بہت سے لوگوں پر ایک اطمینانی کیفیت طاری ہوئی جیسے ان کا کام ختم ہوگیا اور اب ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ دونوں کیفیتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے منشاء اور رمضان المبارک کی روح اور پیام کے منافی ہیں۔ رمضان اگر رخصت ہوا، تو ایمان اور اس کے تقاضے ، شریعت اور اس کے احکام، اللہ تعالیٰ اور اس سے تعلق بہر حال باقی ہے۔ رمضان درحقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک دور کا آغاز ہے۔ رمضان انتہا نہیں، ابتداء ہے ۔ رمضان سب کچھ لے کر اور سب نعمتیں تہہ کرکے اور لپیٹ کر نہیں جاتا ہے، وہ بہت کچھ دے کر جھولیاں بھر کر اور نعمتیں لٹا کر جاتا ہے۔ رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے لیکن ذمہ داریوں سے بوجھل اور گراں بار ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم کام توبہ و استغفار ہے جس کے لیے کسی زمانہ اور مکان کی قید نہیں، مگر رمضان المبارک اس کی تحریک اور تقاضا پیدا کرتا ہے اور اس کو آسان بنا دیتا ہے، تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا رشتہ یا چھوٹا ہوا رشتہ جوڑیں۔
قرآن کریم میں ہے: یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ تُوبُوۤا۟ إِلَى ٱللَّهِ تَوۡبَةࣰ نَّصُوحًا’اے ایمان والو !تم اللہ کے حضور رجوع کامل سے خالص توبہ کرلو’۔ (سورہ التحریم: 8) حدیث شریف میں آتا ہے: ” سارے بنی آدم (انسان ) گناہ گار ہیں اور بہترین گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں” ۔ ( رواہ ابن ماجہ ) تو یہ صرف مجبوری کا معاملہ نہیں ہے کہ آدمی جب کسی معصیت میں مبتلا ہو جائے تو توبہ کر لے بلکہ توبہ تو ایک مستقل عبادت ہے۔ قرب و محبوبیت کا ذریعہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان ایک مرتبہ لے آنا کافی ہے، اس کے بعد اس کو تازگی ، غذا اور تجدید کی ضرورت نہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایمان اسی طرح پرانا ہو جاتا ہے جیسے کپڑا میلا اور پرانا ہو جاتا ہے، اس کو نیا اور اجلا کرتے رہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس کو کس طرح نیا کریں؟ فرمایا: لا الہ الا الله کی کثرت کرو۔ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ ءَامِنُوا۟ ” اے ایمان والو تم ایمان لاؤ”۔ (سورہ النساء :136) یہاں بھی ایمان کی تکمیل و تجدید مراد ہے۔
بہر حال ہر شخص کو اپنے ایمان کی تکمیل و تجدید اور تقویت کی ضرورت ہے۔ شعور و احساس کے ساتھ کلمہ توحید کی تکرار وکثرت ، ذکر کی کثرت اور ذکر کی قوت، اعمال کی کثرت اور مداومت ۔ ان سے ایمان میں جلِا اور قوت و زندگی پیدا ہوتی ہے۔ رمضان کے بعد اور ہمیشہ کرنے والے کاموں میں شریعت کی پابندی اور فرائض و احکام کی بجا آوری شامل ہے جس کی خصوصی مشق رمضان میں کرائی جاتی ہے۔ لعلکم تتقون ، سوچنے والی بات ہے کہ جب رمضان میں حلال و طیب چیزیں ایک خاص وقت کے اندر ممنوع قرار دی گئی ہیں اور ان پر بندش عائد ہو گئی ، تو وہ چیزیں جو سدا سے حرام اور قیامت تک حرام رہیں گی، وہ غیر رمضان میں کیسے جائز ہو سکتی ہیں؟
واقعہ ہے کہ مومن کے دو روزے ہیں: ایک عارضی اور ایک دائمی۔ عارضی روزہ رمضان میں ہوتا ہے، صبح صادق کے طلوع سے غروب آفتاب تک ، اس میں کھانا پینا اور ممنوعاتِ صوم سب نا جائز ہوتے ہیں، دائمی روزه بلوغ سے موت تک ، اس میں خلاف شریعت کام اور ممنوعاتِ شرعیہ سب ناجائز ہوتے ہیں۔ ”اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔” (سورہ الحجر :99)۔ کیسے تعجب کی بات ہے کہ عارضی روزے کی پابندی کی جائے اور دائمی روزے کو کھیل بنالیا جائے ، جس کا ایک جزو اور ایک حصہ یہ عارضی روزہ ہے، اگر وہ روزہ نہ ہوتا تو یہ روزہ بھی نہ ہوتا، وہ روزہ صبح صادق سے شروع ہوتا ہے، یہ روزہ کلمہ پڑھ لینے اور اسلام کی حالت میں زمانہ بلوغ کے آجانے سے شروع ہوتا ہے۔ وہ روزہ آفتاب کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے، یہ روزہ جب تک زندگی کا آفتاب رہتا ہے، باقی رہتا ہے۔ جہاں زندگی کا آفتاب غروب ہوا، اور طائر روح نے اپنے قفس کو چھوڑا، وہ روزہ بھی ختم ہوا۔ رمضان گزر گیا، فرض روزے بھی اس کے ساتھ گئے ، مگر اسلام باقی ہے اور اس کا طویل اور مسلسل روزہ بھی باقی ہے۔
رمضان المبارک کا بڑا تحفہ اور عطیہ ربانی یہ قرآن مجید ہے۔ رمضان تو سال بھر کے لئے رخصت ہوا مگر اپنا پیام، اپنا تحفہ اور اپنی سوغات چھوڑ گیا۔ ضرورت ہے کہ رمضان گزر جانے کے بعد اس تحفہ سے اس کی یاد تازہ کی جائے اور اس کی برکات حاصل کی جائیں ۔ ہم قرآن مجید سے اپنا تعلق باقی رکھیں اور اس کی تلاوت نیز اس پر غور و تدبر کو جاری وساری رکھیں ۔رمضان المبارک ہمدردی و غم خواری، امداد و اعانت اور حسن سلوک کا خاص مہینہ ہے۔ اس کو شہر البر والمواساة کہا گیا ہے۔ اس کے جانے کے بعد بھی ہمیں اس کام کو زندہ رکھنا چاہئے اور ان سب بھائیوں کی خبر لیتے رہنا چاہئے جو ہماری امداد و اعانت کے محتاج ہیں۔ رمضان کی تاثیر اور روزے کی قبولیت کی یہ بھی علامت ہے کہ دل میں گداز ، طبیعت میں نرمی اور دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت ، غرباء پر ترس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ تعاون اور بہتر سلوک کی خواہش اور کوشش ہو۔ یہ ہیں وہ سب کام جو رمضان کے بعد بھی جاری رہنے چاہئیں اور رمضان جن کے لئے خاص طور پر تیار کر کے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :” بشارت دے دو میرے ان بندوں کو، جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی دانش مند ہیں” ۔ (سورہ الزمر)
: 17-18)