ام رومان
ہر لمحہ ہر دن اللہ تعالٰی کے فضل سے ہی نمودار ہوتا ہے- اس کی ہر ایک حکمت بندوں پر رحمت ہوتی ہے-ہم جب بھی اس کو پکارتے ہیں وہ لازماً سنتا اور اور اپنی حکمت اور مصلحت کے اعتبار سے جواب دیتا ہے لیکن تمام مہینوں اور ایاموں میں رمضان المبارک کو بے پناہ فضیلتیں حاصل ہیں- اس ماہ ہر نیکی کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے-شیطان بھی قید کر دیا جاتا بشرط کہ انسان خود شیطانی حرکات نہ کرے-روزہ کی حالت میں کی گئی دعا بارگاہِ الٰہی میں رد نہیں کی جاتی-زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بھی اس مہینے کو یاد کیا جاتا ہے. اس مبارک ماہ میں قرآن کا نزول ہوا ہے جیساکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے “رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر حدایت ہے اور ایسی واضع تعلیمات پر مشتمل ہے, جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے, اس پر لازم ہے کہ وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے – اور جو کوئی مریض ہو یا صفر پر ہو, تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے- اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا – اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس حدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے, اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو–“
(البقرۃ, آیت:185)
اس ماہ مبارک کی بے پناہ عظمت و فضیلت کے سبب ہر مسلمان کو اس کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے. وہ دل سے اس کا احترام کرتا ہے – رمضان کی آمد پر مسجدیں سجائ جاتی ہیں, بازاروں کی رونقیں قابل دید ہوتی ہیں, عبادت کا ذوق عروج پر ہوتا ہے, مصروف ترین شخص بھی اس کی آمد پر اپنے کام کاج مختصر کر لیتا ہے اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہے.
اس سال جان لیوا وبا,کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کے چلتے اس طرح کی تمام ساری خوشیاں ہم سے چھین لی گئی ہیں, اس سال ہم چاہ کر بھی کسی طرح کی مزہبی سرگرمیوں کو اجتماعی طور پر انجام نہیں دے سکتے- اس سال وہ ساری چہل پہل اک دم تھم سی گئی ہے, جو اس سے قبل ہم دیکھا کرتے تھے- پرنم آنکھوں کے ساتھ ہم اس با برکت مہینے کا پورے دل سے استقبال کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ یہ مہینہ ساری انسانیت کے لیے باعث رحمت ثابت ہوگا اور اسی ہی کی برکت سے یہ دنیا اس مہلک وبا سے نجات پاسکیگی-
اب کے رمضان میں کچھ ایسی عبادت ہوگی
صرف اور صرف خدا سے ہی رفاقت ہوگی
عبد و معبود کے مابین نہ ہوگا کوئی
اپنی تنہائی میں ہی اپنی جماعت ہوگی
تمام ماہرین طب کا اتفاق ہے کہ یہ بیماری لوگوں کے آپس میں ملنے جلنے سے اثر انداز ہوتی ہے، اس بیماری میں مبتلا شخص سے اختلاط اور کسی طرح کے میل جول سے یہ بیماری منتقل ہو جاتی ہے اور اس کے رابطہ میں آنے والا ہر شخص عموماً متاثر ہو جاتا ہے – اسی وجہ سے ماہرین طب اس سے بچنے کے لئے سماجی فاصلے کو بڑی ہی اہم ترجیح دے رہے ہیں –
اس کے نتیجے میں حکومت نے سبھی لوگوں کو دوری بنائے رکھنے اور ایک جگہ جمع ہونے سے احتیاط کرنے کی ہدایت جاری کی ہے جس پر ہر کوئی عمل کر رہا ہے –
رمضان المبارک میں چونکہ تمام مساجد میں تراویح کی نماز کا احتمام کیا جاتا ہے اس لئے عام دنوں کے مقابلے ان دنوں جماعت میں زیادہ لوگ شریک ہوتے ہیں اس لئے خاص طور پر حکومت نے ایڑوائزری جاری کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وبا کی موجودہ صورت حال میں مساجد میں تراویح اور دیگر نمازوں کے لئے جمع ہونے سے پرہیز کریں اور اس ماہ مبارک میں بھی سماجی فاصلے کو برقرار رکھیں-مختلف علماء کرام اور اداروں کے ذمہ داروں نے بھی ملک میں جاری کشمکش اور اس وبا کے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر مسلمانوں کو گھروں میں رہتے ہوئے عبادات کے فرائض انجام دینےکی ہدایت دی ہے جس پر عمل کرنے میں ہی ہمارے لئے سلامتی اور بہت سی مصیبتوں سے نجات ہے –
جان کو بہر حال شریعت نے بھی بڑی اہمیت دی ہے,اس کی حفاظت ہر شخص کی ذمہ داری ہے, اسی وجہ سے خود کشی کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے -کوئی آدمی یہ نہیں کہ سکتا کہ جان میری ہے, میں چاہوں تو اسے ہلاک کر دوں – رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لئے سخت وعید فرمائ ہے جو اپنی جان کو خود کشی کے ذریعے تباہ کرتا ہے اور زندگی کا سلسلہ جان بوجھ کر ختم کر ڈالتا ہے – اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے آپ نے علاج کرنےکی تاکید فرمائی ہے کیوں کہ جان اللہ تعالٰی کی امانت ہے-
اللہ تعالٰی اپنی بعض حکمتوں میں سے جب کوئی بیماری اور وبا نازل کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کا علاج اور شفاء کے لئے دوا بھی پیدا کر دیتا ہے البتہ بعض اوقات ہماری تحقیق بروقت وہاں تک نہیں پہنچ پاتی اور علاج معلوم نہیں ہو پاتا -اللہ کی دی ہوئی قیمتی جان کی حفاظت کرنا ہر مومن کا فرض ہے، یہ ہرگز مناسب نہیں کہ کسی بیماری اور وبا سے بچنے کے بجائے کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے اس میں مبتلا ہونے کا خدشہ بڑھ جائے, یہ ایمان و توکل نہیں بلکہ بے جا جسارت اور غیر شرعی عمل ہے –
لاک ڈاؤن کی موجودہ شکل میں ایسی صورتیں نکل سکتی ہے کہ رمضان المبارک کی قدر میں کوئی کمی نہ ہو اور لاک ڈاؤن پر بھی مکمل عمل ہو جائے- اگر ہم چاہیں تو لاک ڈاؤن کے باوجود اس ماہ مبارک کو حسب سابق اپنے لئے انقلاب زندگی, تقویٰ و طہارت اور رضائےالٰہی کا ذریعہ بنا سکتےہیں- اس سے نہ تو افادیت رمضان میں کمی آئے گی اور نہ اس کی قدر و قیمت میں کوئ فرق آئے گا –
رمضان المبارک کا مقصد گناہوں سے پاک ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے, ایسی زندگی جس میں عنداللہ جواب دہی کا تصور ہو, خدا کے وجود اور اس کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین رگ و ریشے میں پیوست ہو جائے, اسلامی نظام حیا اور اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کی سچی تڑپ پیدا ہو جائے –
ارشاد باری ہے :” اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے, اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو -“
(البقرۃ:183)
رب کا خوف پیدا ہونے سے تمام منکرات سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے اور اس میں قدسی صفات پیدا ہوتی ہیں جو تمام شریعت کا خلاصہ ہے اس لئے اس کو رمضان المبارک کا مقصد قرار دیا گیا ہے -اس مہینے میں اگر کسی کے اندر یہ صفت ہو گئی تو گویا اس نے اس ماہ مقدس کے مقصد کو پا لیا – یہ مقصد انفرادی عبادت سے حاصل ہوتا ہے, اجتماعیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.
لاک ڈاؤن کے چلتے ہم رمضان المبارک کے تمام اہم کام گھر پر رہتے ہوئے بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں –
تراویح کی نماز کے لیے عام طور پر مساجد کا رخ کیا جاتا ہےلیکن یہ ضروری نہیں ہے, تنہا بھی پڑھی جا سکتی ہے اور اگر گھر کے افراد کو لیکر جماعت کر لی جائے تو اور بھی بہتر ہے -اس کے علاوہ اس ماہ مبارک کو قرآن سے خاص مناسبت ہے, اس لئے زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت اور غور و فکر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے –
مساجد میں افطار کرنے سے بے شک اخوت و محبت کی مثال قائم ہوتی ہے لیکن جان کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے, اس لئے ان دنوں کہیں بھی جمع ہونے سے پرہیز کیجئے کیونکہ اپنی یا دوسروں کی جان کو جوکھم میں ڈالنا غیر دانشمندانہ قدم ہے- لہٰازا جو لوگ مسلمانوں کو آج کل مسجدوں میں نماز جماعت کی دعوت دے رہے ہیں یا گھروں میں چوری چھپے عام نماز جماعت کا اہتمام کر رہے ہیں وہ یقینی طور پر انسانوں کے بیمار پڑنے یا ان کی موت کا سامان کر رہے ہیں اور یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ کسی مسلمان کو نہ تو کسی دوسرے کی جان کے لئے خطرہ بننے کا اور نہ اپنی موت کے اسباب پیدا کرکے خود کشی کرنے کا حق حاصل ہے –
اس کے علاوہ ہم جو رقم افطار پارٹی کے لئے خرچ کرتے ہیں، اس کے بجائے وہ رقم غریبوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس لئے ان لوگوں کو تلاش کیجئے جو لاک ڈاؤن کے سبب فقروفاقہ کے شکار ہیں اور اعانت کے منتظر ہیں, یہ آپکی زمہ داری ہے کہ آپ خود ایسے لوگوں کی پہچان کیجئے اور ان کی مدد فرماکر بے پناہ اجر و ثواب حاصل کیجئے
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمتوں کےنزول کاہے,ﷲتعالیٰ کی طرف سےرحمتوں کی بارش ہوتی ہے، دوسرا عشرہ گناہوں کی خلاصی اور معافی تلافی کا ہےاور تیسرا عشرہ نارِ جہنم سے نجات حاصل کرنے کا ہے-اور اسی تیسرے عشرےمیں اعتکاف بھی کیا جاتا ہے – اعتکاف کی شرطوں کو دیکھتے ہوئے اگر آپ چاہیں تو لاک ڈاؤن کے چلتے اعتکاف کا کام رمضان المبارک کے پورے مہینے بھی انجام دیکر زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکتے ہیں-مسجدوں میں جتنےبھی افرادکو آنے کی اجازت ہے انہیں چاہئے کہ وہ وہیں اعتکاف کی نیت سے مستقل طور پر قیام کرلیں, اس طرح انھیں پورا مہینہ اعتکاف کا ثواب ملتا رہےگا اور سنت بھی ادا ہو جائے گی، سکون اور دل جمعی کے ساتھ عبادت کا موقع ہاتھ آئےگا، شب قدر بھی ملےگی اور اس کے ساتھ باہرکی آب ہوا اور ماحول سے محفوظ بھی رہیں گے، مسجدیں مکمل طرح آباد ہوں گی اور رب العالمین کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی –
ذرا سوچیں ایک تو رمضان کا مبارک مہینہ, عبادت کا مہینہ, ﷲکا مہینہ اور ﷲکا گھر یعنی مسجدیں ہیں کہ ان کے دروازے عام مصلیوں کے لئے بند ہیں -یہ ایک طرح سے امتحان ہے ایک ایک فردِ مومن کا, سوچنے کا موقع ہے, غور و فکر کا وقت ہے کہ مسجدیں حالات کے تحت ضرور بند ہیں لیکن وہ خدا جس کی ہم عبادت کرتے ہیں وہ ہر جگہ ہے, کل جو لوگ مسجد میں سجدہ ریز ہوتے تھے آج وہ اپنے گھروں کو مسجد بنا کر نہ صرف اس امتحان میں کامیاب ہو رہے ہیں بلکہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گھر والوں اور بچوں کی تربیت بھی خصوصی طور پر انجام دے رہے ہیں – اور کل تک جو مسجدوں سے دور رہتے تھے آج وہ توبہ کر رہے ہیں,مسجدوں کے بند دروازوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کر رہے ہیں, ﷲکے حضور اپنی غفلت سے تائب ہو رہے ہیں –
دیکھا جائے تو اس بار رمضان, رمضان نہیں بلکہ امتحان کی صورت ہمارے سامنے نمودار ہوا ہے -ظاہر ہے اس بار رمضان کی روایتی چہل پہل نظر نہیں آ رہی ہیں لیکن ایک نعمت ضرور حاصل ہے اور وہ ہے رمضان کی فضیلت, رمضان کا مبارک دن اور اس کی بابرکت راتیں, خلوت,تنہائی جو عبادت کے لئے دلوں کی صفائی کے لئے سب سے موزوں ہے, جو اپنے خالق و مولٰی سے لو لگانے اور اپنے گناہوں پر رونے کا موقع فراہم کرتی ہے -اب کی بار یہ دیکھا جائے گا کہ کون واقعی میں رمضان والے ہیں کون ہیں جو ہر حال میں اپنے رب کو یاد کرتے ہیں, کون ہیں جن کا شوقِ عبادت میں اضافہ ہوا ہے اور کون صرف رمضان کی بھیڑ – بھاڑ اور ظاہری چہل-پہل اور بازاروں کی رونق کا حصہ بنتے تھے اور رمضان کی حقیقی قدر نہ جانتے تھے اور ان حالات میں بھی مختلف بہانوں سے مسلمانوں کی صفوں سے نکلنے کی راہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں – جن حالات کو ﷲکے نیک بندوں نے ﷲکی طرف رجوع کا بہانہ بنا لیا -وہ کون بدنصیب ہیں جو انہیں حالات کو اپنی غفلت کے لئے وجہ جواز کے طور پر پیش کر رہے ہیں –
لاک ڈاؤن کی پابندی کرتے ہوئے گھروں میں ہی افطار, تراویح اور نماز کا اہتمام کیجئے اور اپنے گھروں پر ہجوم جمع کرنے کی غلطی نہ کیجئے اور نوجوانوں کو ایسی حرکتوں سے روکنے جن سے ملت کی بدنامی ہوتی ہے – اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ آپ سب کی عبادتوں کو قبول کرے اور انسانوں کو اس ہلاکت خیز وبا سے جلد از جلد نجات دے. (آمین(
سڑکوں, ہوٹلوں, چوراہوں اور بازاروں کو آباد کرنے کے بجائے اس سال اپنے دلوں کو آباد کیجئے, مساجد کو سجانے کے بجائے اپنے دل کو سجائیے کہ یہی رمضان کا حقیقی مقصد اور پیغام ہے –
اہتماماتِ رواداری نہ ہوں گے اس بار
جن کے روزے نہیں, ان کی نہ ضیافت ہوگی
شکر اللہ کا کہ , رکھے جس حال میں وہ
اس کی ہی مرضی سے بندوں کی شفاعت ہوگی
(اشعار : ڈاکٹر ناشر نقوی)