ڈاکٹرطلحہ فیاض الدین
وقّاص حسب گنجائش نہیں، بلکہ حسب ضرورت افطاری اور عشائیا کھا کر، پاکیزہ ملبوسات سے مزیّن ، مشک اور عود سے معطّر ہو کر عشاء او ر تراویح کے لئے روانہ ہوا اور آسانی سے پہلی صف میں اپنی جگہ لے لی۔ تراویح میں تلاوت قرآن سے محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ اچانک اس کے موبائل فون میں واٹساپ کے مستقل نوٹفکیشنس آنے شروع ہو گئے، ایک ایک ’’ٹنگ ٹنگ‘‘سے وقّاص کے پیشانی پر ایک ایک کر کہ پسینہ کے قطرے جمع ہو رہے تھے۔ ایک وجہ تو اپنی نماز کی حلاوت اور لذّت کے چلے جا نے کی تھی، مگر ساتھ ہی نماز کے بعد دوسرے لوگوں کی نیزہ دار نگاہوں سے بچنے کی پریشانی تھی۔
سلام پھیر تے ہی وقّاص نے فوراً اپنا موبائل فون کو حالت سکوت میں ڈال دیا، مگر ایک وسوسہ باقی رہ گیا کہ ’کیا وہ میسجس کوئی ایمرجنسی یا حادثہ کی خبر کے تھے؟ــ‘‘جب وہ گھر واپس لوٹا تو دیکھا کہ وہ سارے میسجس اُس کے کالج گروپ کے تھے اور وہ طلباء اس با ت پر بحث کر رہے تھے کہ وہ رمضان کی ’’وجہ‘‘سے کیسے اپنے امتحانات کو ملتوی کروا سکتے ہیں۔ وقّاص تعجب اور حیرت کی حالت میں رہ گیا۔
۶۱۰۲ میں جب چائنا میں روزوں پر سختی سے پابندی کا اعلان ہوا تھا، اس سے ایک سال پہلے ایک تحقیقی مضمون شائع ہوا جس میں وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’مذہبی اعمال و رسومات (رمضان کے روزہ)سے افراد کے مزاج اور کردار پر اچھا اثر تو ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ معاشی نقصان بھی ہوتا ہے‘‘، ’’اگر چہ افراد کے مزاج میں خوشی اور اطمینان بڑھتا ہے، معاشی میدان میں منفی کارکردگی پائی جاتی ہے۔‘‘ ، ’’ لمبہ مہینہ اور لمبے روزوں سے مسلم ممالک میں پیداوار اتنا ہی منفی جانب ہوتی ہے۔‘‘
ایسے اور بھی مضامیں موجود ہیں۔ واقع اور نتیجہ کی حقیقت پر بحث کرنا یہاں پر مقصود نہیں ہے، البتہ اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کے رویہ سے ان کی فطری جسمانی کمزوری کو دین اور اُس کے اراکین کی کمزوری اور وجوہ نقصان بتانے کے پروپگنڈہ میں زمانہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ الا ما شاء اللہ،مسلم روزہ دار طلبا ء کا رمضان میں جو رویہ ہوتا ہے وہ اسی منظر کو پیش کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں دو جہتوں میں ہمیں اپنے آپ کو چیلنج کرنا ہوگا: ظاہری اور نظم و ضبط کے ساتھ تیاری۔
پہلی جہت: بخاری مسلم میں ہے کہ اصحاب رسول کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہو گئے تھے، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آ رہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کردی۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں سیدھے کاندھے پر سے کپڑا ہٹا کر، دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں وہاں ہلکی چال چلیں، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں۔ صحابیِ رسول عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ یہ سنت پر کیا آج بھی عمل کرنا ضروری ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ہم وہ کام یوں نہیں چھوڑ دیں گے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کرتے تھے۔
یہ روایت ہمیں بہت بڑا درس دیتی ہے۔ اگر چہ کہ طواف اللہ کی عبادت ہے، مگر اس کے دوران بھی مسلمانوں کی قوّت و طاقت کے اظہار کو مدّ نظر رکھا جائے گا، اور مخالف اقوام کو کبھی موقع نہیں دیا جا سکتا کہ کسی بھی حالت میں اور کسی بھی موقع پر وہ مسلمانوں کو کمزور اور سست سمجھیں۔ طلباء اور نوجوانوں کو یہ سبق آج رمضا ن کی تیاری میں سیکھنا چاہیے، اور روزہ کے دوران اگر چہ کہ جسم میں کمزوری ہو سکتی ہے، مگر اس کیفیت کا اظہار ہرگز ہونے نہ دیں، اور اس کی وجہ سے اپنے کام اور تعلیم میں چوری نہ کریں۔
دوسری جہت: رمضان کا مہینہ اور اُس کے تمام اعمال ایک فرد میں اور پوری اُمّت میں ضبطِ نفس کے ساتھ ساتھ اعلی میعار کا ڈسیپلین پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرط یہ کہ رمضان کا حق ادا کرنے کا جذبہ اور عزم ہو۔ وقتِ مقررہ پر اُٹھنا، جی نہ چاہنے پر بھی آگے کے دن کا خیال کرتے ہوئے سحری کرنا، رات کے قیام کے لئے دوپہر میں پاورناپ لینا، قیام اللیل میں خشوع کے لئے پیٹ کو زیادہ بھرنے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔۔۔ یہ ایک ایسا پروگرام ہے، جس میں وقت کی پابندی، مستقبل کے مطابق تیاری، اسراف کے بجائے قناعت، متوجہ اور مرکوز بننے کی تربیت کرتا ہے۔
یقینا روزہ میں تعلیمی مصروفیت میں مشغول رہنا بہت ہی مشکل کام ہے، مگر یہ بہت آسان بھی ہو سکتا ہے اگر رمضان کا صحیح استعمال کیا جائے۔ رمضان کے سائے فگن ہونے سے روز مرہ کے معمولات اور اوقات میں فرق آتا ہے، مگر ساتھ میں ایک بہتر اور موئثر ٹائم ٹیبل بنانے میں مدد بھی کرتا ہے جس سے ہم اپنے زندگی میں ایک بہتر اور تعمیری تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اس بات کا احساس کہ حصول علم کی جدوجہد عبادت ہے اور معرفتِ الٰہی کاعظیم ذریعہ ہے، اُس عمل اور کردار کی جانب لے جاتا ہے جس کی مثال صحابیِ رسول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اوردیگر فقرائے صفہ میں ملتی ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جو اپنی فقیری کے باوجود بھی حصول علم کے لئے مستقل جدوجہد کرتے رہتے تھے۔ صحابیِ رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کئی کئی دن بھوکے رہتے اور بے ہوشی کی حالت تک پہنچ جاتے، مگر کبھی علم کی جدوجہد میں پیچھے نہیں ہٹے۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف تین برس کی صحبت حاصل ہوئی مگر تعداد روایات کو دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری زندگی آپ نے ساتھ گزاری۔ یہ اشارہ کرتی ہے کہ تین سال کے بہتر استعمال سے ایک شخص علم کا کتنا ذخیرہ جمع کر سکتا ہے۔
آج مسلم طلباء سے اگر یہ توقع ہے کہ وہ تعلیمی اعتبار سے ترقی کریں اور علمی استعداد کو بڑھائیں، تو اوّلین قدم یہ ہوگا کہ وہ علم کو مقدس، نورِ الٰہی سمجھیں اور حصول علم کو افضل عبادت سمجھیں۔ ثانیاً وہ اپنے اوقات کی منصوبہ بندی اس انداز میں کریں کہ وہ روزہ کے باوجود نہیں، بلکہ روزوں کی وجہ سے وقت کو زیادہ موئثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے، مخصوص صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر علم میں راسخ ہوجائیں۔
(یہ مضمو ن ماہنامہ رفیق منزل کے اپریل ایڈیشن میں شائع ہوچکا ہے۔)