رجوع الی القرآن کی دعوت پرانی ہے،پھراِس کی بار بار تکرار کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اتنی کھلی بات کہ جو بھی اﷲاوررسول پر ایمان لائے، اس کو اﷲ کی بھیجی کتاب،قرآن سے رشتہ جوڑنا لازم ہے، تا کہ وہ جان سکے کہ اُس کے رب نے اسے کیا کرنے کو کہا ہے،اور انسان کے ذہن میں اپنے اور اپنی دنیا کے بارے میں جو سوالات اُبھرتے ہیں خالقِ کائنات نے اُن کے کیا جواب دئیے ہیں، پھر یہ بات بار بار کیوں یاد دلانی پڑتی ہے؟
ہمیں اُن رکاوٹوں کو ہمدردانہ طور پر سمجھنا ہوگا جوعام آدمی کو رجوع الی القرآن کی دعوت قبول کرنے اوراُس پر عمل پیرا ہونے سے روک سکتی ہیں۔ پہلی رکاوٹ زبان کی ہے۔ قرآن عربی میں ہے اور دنیا کی آبادی کے صرف پانچ فی صد لوگوں کی مادری زبان عربی ہے۔ خود مسلمانوں میں اسّی فی صد لوگ عربی نہیں جانتے۔ ترغیب دلانے،ہمّت بندھانے اور بڑے جتن کرنے پر کچھ غیرعرب عربی زبان سیکھ بھی لیں تو بھی عام انسانوں، عام مسلمانوں کی نسبت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ خود ہمارے ملک،ہندوستان میں ایک بڑی تعداد اَن پڑھ ہے، اپنی مادری زبان کو بھی کان سے سن کر سمجھتی ہے، آنکھ سے دیکھ کر نہیں سمجھ سکتی، نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔
تاریخی طور پر اِس مشکل کو دو طرح سے حل کیا گیا ہے:
(۱) پہلا طریقہ مقامی زبانوں میں قرآن شریف کے ترجمے کا ہے، جسے پڑھ کر یا سن کر عام آدمی قرآن کی باتیں جان سکتا ہے۔
(۲) دوسرا طریقہ درس اور وعظ کا ہے، جسے علماء سے سن کر عام لوگ قرآن کی باتیں جان سکتے ہیں۔
تقریباً تین سو سال پہلے جب شاہ و لی اﷲ دہلویؒ نے عام فہم فارسی میں قرآن کریم کا ایک نیا ترجمہ ’’فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن‘‘8 کے نام سے پیش کیا، تو اُس کے مقدمے میں لکھا:
’’یہ کتاب بچپن ہی میں پڑھا دینی چاہئے تا کہ سب سے پہلے اُن کے ذہن میں جو چیز آ ئے وہ اﷲ کی کتاب اور اُس کے مطالب ہوں۔‘‘
گزشتہ صدی میں شیخ ا لہند مولانا محمود الحسنؒ نے اپنے ترجمۂ قرآن کے مقدمے میں لکھا ہے:
’’سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے رب کو پہچانیں اور اُس کی صفات اور احکام کو معلوم کریں، اور تحقیق کریں کہ حق تعا لیٰ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کون سی باتوں سے غصّہ ہوتا ہے، اور اُس کی خوشی کے کاموں کو کرنا اور اُس کی نا خوشی کے کاموں سے بچنا، اِسی کا نام بندگی ہے، اور جو بندگی نہ کرے وہ بندہ نہیں، اور سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو سب چیزوں سے ناواقف محض اَنجان ہوتا ہے، پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے، اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے، لیکن جیسا حق تعا لیٰ نے ان با توں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے، ویسا کوئی نہیں بتلاسکتا، اور جو اثر اور برکت اور ہدایت خدا کے کلام میں ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں ہے۔ اِس لیے عام وخاص جملہ اہلِ اسلام کو لازم ہے کہ اپنے اپنے درجے کے موافق کلام اﷲ کے سمجھنے میں غفلت اور کوتاہی نہ کریں۔‘‘
عوام کا مسئلہ
بعض لوگ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ عام آدمی قرآن کا ترجمہ پڑھے گا،یا سُنے گا، تو بہت سی باتیں اُس کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ زیادہ محفوظ طریقہ یہ ہے کہ عام مسلمان علماء کے وعظ و نصیحت سنیں اور اُن ہی سے پو چھیں کہ کرنا کیا ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے، دو وجہوں سے:
پہلی وجہ یہ ہے کہ سمجھنے میں مشکل صرف بعض اُن آیات میں پیش آ سکتی ہے جن کا تعلق طلاق،وراثت وغیرہ امور یا غیب کی باتوں یا تاریخی حکایات سے ہے۔ ترجمے کے ساتھ وضاحتی نوٹ کے اضافے سے اس مشکل کو دور کیا جا سکتا ہے۔
دوسری و جہ اس خیال کو رد کرنے کی یہ ہے کہ کوئی بات جب خدا کے حکم کے طور پر سامنے آتی ہے تو اُس کا اثرکسی انسان کے وعظ و نصیحت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کے لیے چند متفرق آیات کے ترجمے پیش کرتا ہوں:
’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا،جمے ہوئے ایک خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو،تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ (سورۂ العلق: آیات ۱۔۵)
’’زمانہ گواہ ہے، انسان در حقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لو گوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔‘‘(سورہ والعصر)
’’لوگو! اپنے رب کے غضب سے بچو۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک )چیز ہے۔ جس روز تم اُسے دیکھو گے حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّے سے غافل ہو جائے گی، ہر حاملہ کا حمل گر جاے گا، اور لوگ تم کو مد ہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اﷲ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہوگا۔‘‘ (سورہ الحج:۱۔۲)
’’تعریف اﷲ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازِل کی، اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی۔ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تا کہ وہ لوگوں کو خدا کے عذاب سے خبردار کردے اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوش خبری دے دے کہ اُن کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (الکہف : ۱۔۳)
’’اﷲ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں)اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہو۔ہر چراغ ایک فانوس میں ہو، ہر فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کا چمکتا ہوا تارا،اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہوجو نہ شرقی ہو نہ غربی۔جس کا تیل آپ کی آپ بھڑکا پڑتا ہو، چاہے آگ اس کو نہ لگے۔ اِس طرح روشنی پر روشنی ( پڑنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)۔اﷲ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔( النور: ۳۵)
’’تیرے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اُس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تواُنھیں اُف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی اور رحم دلی کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو:’’پروردگار اُن پر رحم فرما جس طرح اُنھوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ ( بنی اسرائیل : ۲۳ ۔ ۲۴ )
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آ پس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روِش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔‘‘ (الحجرات : ۱۰۔۱۱ )
’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی ہے اور ظاہری ٹیپ ٹاپ، اور تمھارا آ پس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشتکار خوش ہو گئے، پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی، پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے بر عکس آ خرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اﷲ کی مغفرت اور اُس کی خوشنودی ہے۔ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو، ایک دوسرے سے آ گے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان وزمین جیسی ہے، جو مہیّا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اﷲ کا فضل ہے ، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اﷲ بڑے فضل والا ہے۔‘‘( الحدید : ۲۰۔۲۱ )
’’نہایت مہربان ( خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا، اور اسے بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں، اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اسی نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو۔ انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو، اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ ‘‘ (الر حمٰن : ۱۔۹ )
عام مسلمانوں کو ترجموں کے ذریعے قرآن کی طرف رجوع سے روکنا، غلط ہی نہیں نا جائز بھی ہے،ایسا کرنا اسلامی احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔
خواص کا مسئلہ
یہ باتیں سن کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ رجوع الی القرآن کی دعوت کے اصل مخاطب تو خواص ہیں۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان دانشوروں اور علماء نے پیش آمدہ مسائل میں اپنا رہنما فقہ اسلامی کو بنا رکھا ہے۔ مسئلہ سیاست کا ہو یا معاشرت کا، یا معاشی نظام اور زر اور مالیات کے مسائل ہوں، قرآن میں مشکلات کے حل تلاش کرنے کی جگہ فقہی سرمایہ پر اِنحصار ہے۔ دورِ جدید میں اِس کی سب سے بڑی مثال اسلامک فائنانس کی ہے۔مسلمانوں کو صریح سود سے بچانے کے لیے،مگر ساتھ ہی اُن کو کار و بار میں آگے بڑھانے کے لیے بازار میں مروّجہ سارے ہی طریقوں کے اسلامی بدل جزئیاتِ فقہ پر قیاس اور تلفیق کے ذریعہ نکال لیے گئے ہیں۔چالیس برس کی کوششوں کے نتیجے میں اسلامِک فائنانس سارے مسلمان ملکوں میں، بلکہ ان علاقوں میں بھی رواج پا چکا ہے، جن میں مسلمان اقلیت میں ہیں، مگر ابھی تک اسلامِک فائنانس مال کو اُن مقاصد کا خادم بنانے میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکا ہے جن کا قرآن میں ذکر ہے۔ مسلمان آ بادیوں کا ایک معتد بہ حصہ بھوک، مرض اور سر چھپانے کی جگہ سے محرومی کا شکار ہے مگر اِسلامی مالیاتی ادارے ان کے لیے کسی کام کے نہیں۔ قرضوں کا بار، اور قرض پر مبنی تمسکات کا حجم جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں بڑھ رہا ہے اسی طرح مسلمان ملکوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں زر کی سپلائی اور کنٹرول کا نظام بھی دوسرے ملکوں کی طرح قرضے دینے اور لینے پر مبنی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی بھاری تعداد کی چھٹی حس مرابحہ اور تورّق پر مبنی مروّجہ اسلامِک فائنانس کو پوری طرح اسلامی ماننے سے گریز کرتی ہے۔ اسلامک فائنانس کو مقاصدِ شریعت کا خادم بنانے کے لیئے قرآن وسنّت کی طرف رجوع نا گزیر معلوم ہوتا ہے۔
ایک اہم سوال اور اس کا جواب
سوال یہ ہے کہ ایسا ہوتا کیوں نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے علماء اور دانشور نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے بھی رجوع اِلی القرآن سے جھجکتے ہیں؟ بالکل نئے امور جن کے بارے میں قرآن وسنّت میں کوئی نص صریح ملنا تو کجا، کوئی ایسا حکم ملنا بھی دشوار ہے جس پر قیاس کیا جا سکے، ایسے امور میں بھی غالب رجحان یہی ہے کہ کسی ادنیٰ مناسبت رکھنے والے فقہی جزیئے کے سہارے آگے بڑھنا برا ہِ راست رجوع الی القرآن سے بہتر ہے۔ زر اور کریڈٹ کی سپلائی کا مسئلہ ہو یا کاروبار میں در پیش خطرات سے عہدہ برآ ہونے کا، شہروں میں پانی اور بجلی کی سپلائی نیز دیگر رہائشی، تجارتی، اور تفریحی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ نقل و حمل اور مواصلات کی پلاننگ؛ قدرتی وسائل سے استفادہ کے سلسلے میں آنے والی نسلوں کے مفاد کا لحاظ، اور عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ سے پیدا ہونے والے مسائل نئے مسائل ہیں، جن سے ساتویں صدی کا انسان نا واقف تھا۔ کرۂ ارضی پر آج سات ہزار ملین انسان آباد ہیں، جبکہ ساتویں صدی میں یہ تعداد چند سو ملین تک محدود تھی۔ پیداواری طریقے ایسے تھے کہ ماحولیاتی تلوث کا مسئلہ نہیں پیدا ہوا تھا، بظاہر مذکورہ بالا امور کا تعلق ’’امورِ دنیا‘‘ سے معلوم ہوتا ہے،جن کے بارے میں صحیح حدیث میں آیا ہے کہ’’انتم اعلم بامورِ دنیاکم‘‘، لیکن سب کو معلوم ہے کہ مذکورہ بالا امور سے وہ مصالح بھی وابستہ ہیں، جو ظلم و فساد کے ازالے اور عدل و قسط کے قیام سے جڑے ہوئے ہیں، جو اسلام کو مطلوب ہیں، پھر اِن امور کی بابت غور و بحث کے دوران ہم قرآن کی طرف رجوع سے کیوں کتراتے ہیں؟8
جواب آسان نہیں،تفصیلی جواب جس گہرے اور ہشت پہلو تجزیئے کا طالب ہے اُس کا یہ موقع نہیں، لیکن بحث کا آغاز کرنے کے لیے ہمیں اُن رکاوٹوں کو سمجھنا ہوگا جوعربی زبان نہ جاننے کے علاوہ رجوع اِلی القر آن میں سامنے آ تی ہیں۔
قرآن ساتویں صدی میں ملک عرب کے ایک علاقے میں ایک مرد پر نازل ہوا تھا، جبکہ رجوع اِلی القرآن کی دعوت ہم اکیسویں صدی میں ساری دنیا کے مردوں اور عورتوں کو دے رہے ہیں۔ زمانے کے ساتھ ٹکنالوجی بدلی، جگہ کے ساتھ آب و ہوا بدلی، نقل و حمل آسان ہوا، اِتصالات کی دنیا میں انقلاب آیا، معلومات بڑھیں، دنیا کے ہر حصّے میں، بالخصوص بڑے شہروں میں ملی جلی آبادیاں بسنے لگیں۔ اِن تبدیلیوں کے نتیجے میں لوگوں کے مزاج،نفسیات اور زندگی سے اُن کی توقعات میں بھی تبدیلی آئی۔ نئے مسائل کے حل کے لیے قرآن کی طرف رجوع کے لیے ان تمام باتوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ قرآن کی شرح کے طور پر احادیث کے ذخیرے کو کھنگالنا ہوگا۔ تاریخ کا مطالعہ یہ جاننے کے لیے کرنا ہوگا کہ ہم سے پہلے لوگوں نے بدلتے حالات میں احکامِ خداوندی کی تعمیل کس طرح کی۔ اگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہے تو ان کی کامیابی کا راز کیا تھا، اگر ناکام رہے تو ناکامی کے اسباب کیا تھے۔ مثال کے طور پر تجارتی لین دین میں عدل و قسط پر قائم رہنے اور رکھنے کے مسئلہ کو لیا جا سکتا ہے، اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ زندگی کے اِس دائرے میں مقاصدِشریعت کے حاصل کرنے کی تفصیلی تدابیر ، حرمت، ربا و قمار کے بنیادی ڈ ھانچے کے ساتھ کس حد تک کارگر رہیں، اور مال کو قرآن کریم کے الفاظ میں قیامِ حیات کا ذریعہ کامیابی کے ساتھ بنایا جاسکا یا نہیں۔
تحقیق کے دو طریقے
جب آپ رجوع الی القرآن کے ان پہلوؤں پر سوچیں گے تو تحقیق کے دو ایسے طریقوں کی اہمیت ابھر کر سامنے آئے گی جن کی طرف آپ کم توجہ کرتے ہیں،میدانی تحقیق اور تاریخی تحقیق۔ زبان و لغت اور سیاق و بلاغت کی اہمیّت مسلّم، مگر انسانی فرد وسماج کا حال آج کیا ہے، کل کیا تھا، اور آنے والے کل کے اِمکانات کیا ہو سکتے ہیں، ان پہلوؤں کی اہمیت پہچاننا، اور اُن کے تقاضے پورے کرنا بھی ضروری ہے۔
آپ کے ادارے (ادارہ علوم القرآن)نے گزشتہ برسوں میں قرآنِ مجید کو مرکزتوجہ بنا کر بڑی خدمت انجام دی ہے۔ سالانہ کانفرنسوں میں مروّجہ اہم عنوانات: اسلام کا سیاسی،معاشی اور معاشرتی نظام وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا جا چکا ہے۔اب عمومیات سے آگے بڑھنے کا وقت آ گیاہے۔آپ کو چاہیے کہ رجوع الی القرآن کے جدید تقاضے پورا کرنے میں مسلمان علماء اور دانشوروں کی مدد کریں۔ محدود اور متعین موضوعات چنے جائیں، اور قرآنی اِفادات کی روشنی میں، مسلمانوں کی تاریخ اور اُن کی موجودہ حالت کے مطالعہ کی بنیاد پر بتایا جائے کہ کرنا کیا ہے۔ عرصہ ہوا نئے علوم،اِختراع اور اِنکشافات ہماری جانب سے دنیا کو ملنا بند ہو گئے، اور اب تو ہم دوسروں سے سیکھنے میں بھی پچھڑے شمار ہو تے ہیں۔ جب ہم آگے تھے تو قرآن کی وجہ سے آگے آئے تھے، آج بھی ایسی ہی توقع رکھنی چاہیے، بشرطیکہ ہم نئے تقاضوں کو پہچانیں۔ کتابوں پر انحصار نہ کرکے مشاہدۂ احوال کا چلن عام کیجئے۔ معلوم اور صراحت شدہ احکام کے پہلو بہ پہلو تجرباتی طریقوں کی گنجائش نکالیے۔ نئی بات کہنے والوں کی ہمت افزائی کیجیے اگرچہ وہ غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ نئے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کو صرف مسلمانوں تک محدود نہ رکھئے بلکہ مشترکہ انسانی مسائل کے حل میں دل وجان سے دوسروں کو بھی شریک کار گردانئے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری ہمتیں بلند کرے،ہمیں اپنی راہ پر قائم رکھے اور ہماری لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
رجوع الی القرآن) اہمیت اور تقاضے)
رجوع الی القرآن کی دعوت پرانی ہے،پھراِس کی بار بار تکرار کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اتنی کھلی بات کہ جو بھی اﷲاوررسول پر ایمان لائے، اس کو اﷲ کی بھیجی کتاب،قرآن سے رشتہ جوڑنا لازم ہے، تا کہ وہ…