رتھ یاترا : لو جہاد سے گھرواپسی تک

ایڈمن

آگرہ کا اجتماعی تبدیل�ئمذہب کا شوشہ بھی بالآخر لوجہاد کی مانند ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ جس وقت لوجہاد چھڑا ہوا تھا اس وقت مودی سرکار ہنی مون منا رہی تھی، اس لئے حزب اختلاف بھی اس نئی نویلی دلہن کو…

آگرہ کا اجتماعی تبدیل�ئمذہب کا شوشہ بھی بالآخر لوجہاد کی مانند ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ جس وقت لوجہاد چھڑا ہوا تھا اس وقت مودی سرکار ہنی مون منا رہی تھی، اس لئے حزب اختلاف بھی اس نئی نویلی دلہن کو کھلنے کھیلنے کاموقع دے رہا تھا۔ بینڈ ماسٹرذرائع ابلاغ آئے دن اچھے دنوں کی آمد آمد کا ڈھول پیٹتا،اور پریوار والے باراتی دھرتی ماتا کے سینے پرلوجہاد کی شہنائی بجاتے۔ اس بیچ ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہوا۔ اترپردیش اور بہار کی کراری ہار نے مدھو چندرما کو کڑوے کسیلے اماوس میں بدل دیا۔ محبت کے جہاد میں سنگھ پریوار شکست فاش سے دوچار ہوگیا۔ایسا اس لئے ہوا کہ مسلمان تو جہاد بھی محبت سے کرتا ہے جبکہ سنگھ پریواردھرم یدھ میں نفرت کاپریوگ کرتا ہے۔
اس کے بعد جب دہلی کے انتخابات قریب آئے تو بی جے پی نے اپنے مقامی رہنماؤں کے بجائے ارکانِ پارلیمنٹ کو تشہیر کے لئے میدان میں اتارا، لیکن اس دوران زعفرانی چولے سے عوام کا موہ بھنگ ہو چکا تھا۔ دہلی کے رائے دہندگان اچھے دنوں کی آمد سے مایوس ہوکر گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرنے لگے تھے۔ انہیں نیلے سویٹر اور لال مفلر والے کیجریوال کی یاد ستانے لگی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے جلسوں میں خالی کرسیاں حسرت بھری نگاہوں سے آنے جانے والوں سے التجا کرتی تھیں کہ چند لمحوں کی خاطر سہی ہمارے بھاگ سنوارو لیکن کوئی پھٹک کر نہیں دیکھتا تھا، اس لئے کہ عوام نے مودی جی کو اتنا زیادہ دیکھ لیا تھا کہ وہ نہ ان کی تصویر دیکھنا چاہتے تھے، نہ ان کے چیلوں کو سننا چاہتے تھے۔ جس گری راج سنگھ نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مرکزی وزارت کا حقدار بنا لیا کہ جو مسلمان مودی کے مخالف ہیں وہ پاکستان چلے جائیں، وہ دہلی کے لوگوں سے کہتا نظر آیا کہ کِرپا کر کے صرف منٹ کے لئے بیٹھ جائیے میں زیادہ سَمَے نہیں لوں گا، پھر بھی کوئی نہیں بیٹھا۔ ہندوؤں نے سوچا ہوگا یہ مسلمانوں کو توپاکستان بھیج دے گا، لیکن ہم۳۸؍ کروڑ ہندو رائے دہندگان کہاں جائیں گے جنہوں نے مودی کو ووٹ نہیں دیا۔ اکلوتاہندوراشٹر نیپال تو ہمیں اپنے شرن میں لے نہیں سکتا، اور اگر وہاں چلے بھی جائیں گے تو کیا ہمالیہ کی برف کھاکر اپنی بھوک مٹائیں گے اور پیاس بجھائیں گے۔
گری راج تو منھ لٹکا کر لوٹ آیا لیکن سادھوی نرنجن جیوتی نہایت چالاک نکلی، اس نے کہہ دیا بھارت واسیو اَب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ آپ رام زادوں کو ووٹ دیں گے یا حرام زادوں کویعنی جو رام زادہ ہے وہ رامزادے کو اور جو حرام زادہ ہے وہ حرام زادے کو ووٹ دے۔ اس طرح سادھوی جی نے ہندوستان کے ۳۱؍ فیصد رائے دہندگان کو رام زادہ کہہ کر ان کی عزت افزائی کردی اور ۶۹؍ فیصد رائے دہندگان کو حرام زادہ بنادیا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی اگر ۱۵؍ فیصد بھی مان لی جائے اور اسے ۶۹؍ میں سے کم کردیا جائے تب بھی سادھوی جی کے مطابق۴۵؍ فیصد ہندو حرام کی اولاد قرار پاتے ہے۔ ہندو سماج کی یہ توہین دولہے راجہ کوزمین پر لے آئی اور اکڑ کر یہ کہنے والاخود سر فرعون کہ اگر میں مجرم ہوں تو مجھے پھانسی چڑھا دو، ایوان پارلیمنٹ میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوا نظر آیا۔ مودی جی نے کہا سادھوی جی دیہات سے پہلی مرتبہ منتخب ہو کر ایوان میں آئی ہیں۔ وہ پارلیمانی آداب سے واقف نہیں ہیں اور انہوں نے معافی بھی مانگ لی ہے، اس لئے کشادہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو معاف کردینا چاہئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ناتجرہ کار جاہل گنوار کو مودی جی نے وزیر کیوں بنایا ؟ کسی تجربہ کارمہذب بھاجپائی کو کیوں نہیں بنایا؟ ان سوالات کا جواب اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ مودی جی کو اپنی جماعت کے باصلاحیت لوگوں سے خوف محسوس ہوتا ہے اسی لئے وہ ایک سے ایک نااہل کو پکڑ کر وزارت تھما دیتے ہیں تاکہ وہ احسان مند بنارہے اور چاپلوسی کرتارہے۔ اس سے کسی صورت کوئی خطرہ نہ ہو۔
بی جے پی کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنے ہندو رائے دہندگان کو جوڑے رکھنا ہے۔ اے بی پی چینل کے ایک جائزے کے مطابق مودی جی کی مقبولیت نومبر سے لے کر دسمبر تک میں ۵؍ فیصد کم ہوئی ہے۔ اس گرتے ہوئے گراف کو روکنا بھی ایک مسئلہ ہے، اس لئے غالباً تبدیلئ مذہب کا شوشہ چھوڑا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساکشی مہاراج کے گوڈسے کو دیش بھکت قراردینے سے لے کراویدیہ ناتھ کے دھرم پریورتن تک سارے واقعات اتر پردیش میں رونما ہوتے ہیں۔ بی جے پی کی زیر نگرانی چلنے والی ریاستوں میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں کیا جاتا،اس لئے کہ وہاں ریاستی اقتدار قبضے میں آچکا ہے اس لئے ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اتر پردیش اور دہلی میں صوبائی حکومت قائم کرنا ہے اس لئے وہیں ساری مہابھارت کھیلی جاتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کے لئے یہ مذہبی نہیں بلکہ خالص سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن اس نے سنگھ پریوار کولوجہاد بلکہ حرام زادے والے تنازع سے زیادہ رُسوا کیا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ لوگ نہ سیاست سلیقہ سے کر سکتے ہیں اور نہ عبادت۔
دھرم جاگرن والوں نے جن مسلمانوں کو ورغلا کر اپنے دام میں پھنسایا تھا وہ تو واپس اپنے دین میں لوٹ گئے مگر دھرم پریورتن ان کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ پہلے تواس کا سرغنہ والمیکی فرار ہوگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ پہلے سے شراب کی اسمگلنگ اور غنڈہ گردی میں بھی مطلوب ہے۔ بجرنگیوں نے کہا بھئی ہمیں کیوں پریشان کرتے ہو ہم تو بس چوکیدار ہیں اصلی کرتا دھرتا کو پکڑو۔ اس کے بعد کرسمس کے دن علی گڑھ میں ہنگامہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اویدیہ ناتھ نے بڑے طمطراق سے کہا کہ میں وہاں جاؤں گا اگر کوئی روک سکتا ہے تو روک لے لیکن یادو جی کی لاٹھی نے اس کاغذی شیر کو بھی بھیگی بلی بنا دیا، اور پروگرام ہی منسوخ کردیا گیا۔ ایوان پارلیمنٹ میں اس مسئلہ کو لے کر خوب ہنگامہ آرائی ہوئی اور حزب اختلاف نے ایوان بالا میں اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے ناکوں چنے چبوا دئیے۔ مودی جی دہلی میں ہونے کے باوجود منہ چھپاتے پھر رہے تھے کہ کانگریس کے ششی تھرور نے ’’وزیراعظم کی گھر واپسی‘‘ کا نعرہ بلند کردیا۔ سہمے سہمے سے مودی جی کومجبوراً ایوان میں آنا پڑا لیکن بی جے پی نے اعلان کردیا کہ وہ اس مسئلہ پر بیان نہیں دیں گے۔ حزب اختلاف وزیر اعظم کے جواب پر اَڑ گیا اورشوروغل کرکے کارروائی روک دی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے وزیر اعظم کی زبان پر کس چیز نے قفل ڈال دیا ہے اورلمبی چوڑی ہانکنے والے اس مسئلہ پر بیان دینے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟ دراصل مودی جی فی الحال ایک ایسی پل صراط پر چل رہے ہیں جس کے ایک جانب کھائی اور دوسری طرف آگ ہے۔ جو ۳۱؍ فیصد ووٹ ملے ہیں اس میں سے ۱۲؍ فیصد لوگ تو ترقی و خوشحالی کے نام پر جھانسے میں آ گئے تھے اور باقی ۱۹؍ فیصد کا تعلق سنگھ پریوار سے تھا۔ اب اگر وہ تبدیلئ مذہب کی حمایت کریں تو ۱۲؍ فیصد ناراض ہوتے ہیں اور مخالفت کریں تو ۱۹؍ فیصدکی دلآزاری ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ بیچارے کریں بھی تو کیا کریں؟ بی جے پی والے سمجھتے ہیں چونکہ ان کے پاس واضح اکثریت ہے اس لئے وہ جو من میں آئے کرسکتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ دستوری ترمیم کے لئے دوتہائی ارکان درکار ہوتے ہیں معمولی اکثریت سے کام نہیں چلتا۔اس مسئلہ پر نہ حزب اقتدار سنجیدہ ہے اور نہ بی جے پی۔ بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس ہنگامہ کا فائدہ اٹھا کر قومی سطح پر تبدیلئ مذہب کی روک تھام کے لئے کوئی قانون بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہی بات وینکیا نائیڈو اور سنگھ کے مختلف رہنما بار بار دوہراتے ہیں لیکن حزب اختلاف کبھی بھی اس کام میں اس کا تعاون نہیں کرے گا، اور یہ معاملہ یونہی لٹکا رہے گا۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنگھ پریوار قانون کا سہارا لینے کے بجائے دعوت وتبلیغ کے ذریعہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہب کو تبدیل کروا نے کا حوصلہ اپنے اندر کیوں نہیں پاتا؟
ہندو احیاء پرست ماضی میں کئی مرتبہ تمام ذرائع ووسائل کے ساتھ یہ سعئ ناکام کرچکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں منہ کی کھانی پڑی جبکہ مسلمان اور عیسائی اپنے محدود وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود کامیاب ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب کی تبدیلی دعوت و تبلیغ کے شجر کا ثمرہے۔ اگر اس پودے کو حسن اخلاق کی آبِ حیات ، حسنِ کردار کی شمسی تمازت اور خدمت و محبت کی کھاد میسر آجائے تو یہ بڑی تیزی سے پروان چڑھتا ہے لیکن خدا نخواستہ اخلاص کا فقدان ہو جائے تو یہ مرجھا جاتا ہے۔ ہندو احیاء پرستوں کے شدھی کرن میں ناکامی کی بنیادی وجہ ان کی منافقت اور بدنیتی ہے۔ خوف و ہراس اورفریب و لالچ وہ کیڑے مکوڑے ہیں جودین دھرم کے بیج کو چٹ کرجاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر گھرواپسی کی تحریک کے نتیجے میں کوئی اندر تو داخل نہیں ہوپاتا ہاں گھر کے اندر رہنے بسنے والے بہت سارے سمجھدار ہندو ان حماقتوں سے بیزار ہو کر الحاد و اباحیت کی شاہراہ پر نکل جاتے ہیں اوران میں سے کچھ اسلام و عیسائیت کی پادہ میں بھی آجاتے ہیں۔
ہندو رہنما یہ جانتے ہیں کہ دعوت دین ان کے بس کا روگ نہیں ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو ان کاتصور دین اس قدر مہمل اور گنجلک ہے کہ دعوت کی بنیادوں پر بھی اتفاق نہیں ہوپاتا۔ دوسرے خود ان کے اندر ایمان و یقین کا زبردست فقدان ہے ایسے میں وہ کسی اور کو بھلا ایمان کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں ؟اس کے علاوہ ان کے اغراض و مقاصد نہایت محدود نوعیت کے ہیں یعنی صرف اور صرف سیاسی برتری، ایسے میں جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ اس مقصد کو کسی متبادل سہل طریقہ سے حاصل کیا جاسکتا ہو تو اس کے لئے اس قدر پاپڑ کیوں بیلے جائیں تو اس کو تج دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندو مت قدامت پرستی اور روایت پسندی کا ناقابلِ فہم ملغوبہ ہے۔ جس دن انسان اپنی عقل سے کام لے کر غور فکرسے کام لیتا ہے اس کے حصار سے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ لوگ تبدیلئ مذہب پر پابندی لگانے کے بہانے دعوت دین پر قدغن لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دستوری ترمیم کے ذریعہ تبدیلئ مذہب پابندی لگانے کی سعی ماضی میں تین مرتبہ ہو چکی ہے۔
پنڈت نہرو کے دورِ اقتدار میں ۱۹۵۵ ؁ء کے اندر یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا۔ بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ذریعہ غلط ذرائع کی روک تھام کے بجائے عوام کو خوفزدہ کرنے کا کام لیا جائے گا۔ انہوں نے ولبھ بھائی پٹیل کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا دستور سازی کے دوران تین کمیٹیوں نے اس پر غور کیا لیکن وہ کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز نہ کرسکے جس سے آگے چل کر اس کے استعمالِ بے جا کو روکاجاسکے۔ دستور ساز اسمبلی کو ہندو احیاء پرستوں کے اغراض و مقاصد سے واقفیت تھی، اور وہ ان کے ناپاک ارادوں میں مانع تھی۔ پنڈت جی نے اسی کی جانب واضح اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا دھونس اور دھوکہ پر عام قوانین کے لگام لگانا ممکن ہے لیکن اگر تبلیغ دین شرائط کی پابند کی جائے گی تو اس سے پولیس کودخل در معقولات ( ڈرانے دھمکانے )کے بے شمار اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔
مرکز میں ناکامی کے بعد ہندو احیاء پرستوں نے ریاستی قوانین وضع کرنے کا چور دروازہ کھولنے کو شش کی اور کل ۶؍ ریاستوں کے اندر انہیں جزوی کامیابی ملی لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس گناہ بے لذت سے لطف اندوز ہونے والوں میں صرف جن سنگھ یا بی جے پی ملوث نہیں تھی، بلکہ۱۹۶۷ ؁ء میں جب یہ قانون اڑیسہ میں بنا تووہاں سوتنترا پارٹی کی حکومت تھی۔ مدھیہ پردیش کے اندر ۱۹۶۸ ؁ء میں یہ پابندی لگائی گئی، اس وقت کانگریس سے نکل کر مخلوط حکومت بنانے والے گووند نارائن سنگھ برسرِ اقتدار تھے۔ اروناچل پردیش میں کانگریس نے ۱۹۷۸ ؁ء میں یہ کارنامہ انجام دیا اور پھر اسی جماعت نے ۲۰۰۷ ؁ء میں ہماچل پردیش کے اندر بھی یہی حرکت کرڈالی۔ گجرات کے اندر نریندر مودی نے ۲۰۰۳ ؁ء میں یہ قانون نافذ کیا،جبکہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں ۲۰۰۶ ؁ء کے اندر یہ قانون وضع کرکے صدارتی توثیق کے لئے روانہ کیا گیا جو ہنوز دستخط کا منتظر ہے۔ اس معاملے میں سب سے دلچسپ صورتحال تمل ناڈو کی ہے جہاں ۲۰۰۲ ؁ء میں بی جے پی کو خوش کرنے کے لئے یہ قانون بنا اور۲۰۰۴ ؁ء میں اس کے اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی اس کا خاتمہ کردیا گیا اس طرح گویا ثابت ہوگیا یہ سیاسی مفادکا کھیل ہے، دین و مذہب سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔
اس معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آزادئ مذہب پر پابندی لگانے والے اس کالے قانون کو آزادئ مذہب کے قانون کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وینکیا نائیڈو کے اس بیان جیسا ہے کہ دہلی کا نام بدل کر ہستنا پور یا اندر پرستھ رکھ دیا جانا چاہئے۔ اس پر سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے فرمایامیرے خیال میں یہ بہترین تجویز ہے لیکن بات آگے بڑھائی جائے۔ میری رائے ہے کہ بیروزگاری کو کامل روزگار کا نام دے دیا جائے۔ غذائی قلت کا نام بدل کر خوراک کی افزونی رکھ دیا جائے۔ بیمار کو صحتمند اور جاہل کو عالم فاضل کہہ کر پکارا جائے۔ کسانوں کی خودکشی کو کسانوں کا جشن اور غریب کا نیا نام امیر رکھ دیا جائے۔ اس سے ملک کے سارے مسائل یکلخت حل ہو جائیں گے۔ ویسے مودی سرکار جسٹس کاٹجو جیسے لوگوں کے مشورے پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ میک ان انڈیا کا نعرہ لگا کر بیروزگارنوجوانوں کو الو بنا یا جاتا ہے۔ صفائی ابھیان چھیڑ کر امن و آشتی کا صفایا کیا جاتا ہے۔ کالے دھن کے خواب دکھلا کر عوام کو نیند کا انجکشن لگایاجاتا ہے۔تعلیم کے نام پر حکمت ودانائی سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
اڑیسہ کی عدالت نام نہاد آزادئ مذہب کے قانون کو دستور کی دفع ۲۵؍ میں تسلیم شدہ مذہبی آزادی کے حق سے متصادم قرار دے چکی ہے۔ مدھیہ پردیش کی عدالت نے جب اس کی توثیق کردی تو معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ وہاں پرجسٹس اے این رائے نے لفظ تبلیغ کے لغوی معنیٰ لے کر فرمادیا کہ اگر زید جان بوجھ کر بکر کا مذہب تبدیل کروانے کیلئے اپنے مذہب کی تبلیغ کرے تو وہ گویا بکر کی مذہبی آزادی میں مداخلت کرتا ہے جبکہ حقیقت حال اس سے متضاد ہے۔ تبلیغ دین کے سبب بکر کے سامنے مواقع و امکانات کھلتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی مذہب کا حق استعمال کرکے جس دین کو چاہے اختیار کرے۔ اگر تبلیغ پر پابندی لگ جائے تو بکر کے لئے اپنی پسند کے دین کو اختیار کرنے اور اس کی پیروی کرنے کا حق سلب ہو جائے گا اور زید تبلیغ دین کے دستوری حق سے محروم ہوجائے گا۔ اس حماقت خیز قانون کے تحت نجات اور جنت کے حصول کی ترغیب لالچ میں شمار ہوتی ہے اورجہنم کی سزا کو ڈرانا دھمکانا قراردیا جاتاہے۔ اس طرح گویا عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہندی اور غیر ہندی مذاہب کی تفریق بھی مضحکہ خیز ہے مثلاً اگر کوئی ہندو مذہب کو چھوڑ کربودھ مت اختیار کرلے یا کوئی جین اپنا مذہب تبدیل کرکے سکھ بن جائے تو کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا لیکن جہاں کسی ہندو نے اسلام یا عیسائیت کو اختیار کیا واویلا مچایا جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں جبکہ ساری دنیا ایک گاؤں بن گئی ہے حق کے نورکوسو دیشی و پردیسی کے خانوں میں تقسیم کرنے سے بڑی حماقت اورکیا ہو سکتی ہے؟
منافقت کی اعلیٰ ترین مثال تو یہ ہے کہ ہندوؤں کا دھرم پریورتن جرم عظیم ہے اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہب کی تبدیلی گھر واپسی۔ اسی کو کہتے ہیں جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ جو ہندو احیاء پرست یہ کہتے ہیں کہ سارے مسلمان اور عیسائی کسی زمانے میں ہندو تھے ان کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر مسلمان یا عیسائی بنایا گیا وہ دراصل اپنے پرکھوں کی توہین کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہی حربہ استعمال کرکے مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنا دیں لیکن اس ملک کے مسلمان یا عیسائی ان کی اس دلیل سے اس تک حد تک تو اتفاق کرتے ہیں کہ ممکن ہے ہمارے آباء واجداد میں سے بہت سارے ہندو رہے ہوں لیکن وہ ان ہندو احیاء پرستوں کی مانندڈرپوک لوگ نہیں تھے جو آگرہ میں دھرم پریورتن کا ناٹک رچانے کے بعد والمیکی کی طرح فرار ہوکر کسی چوہے کے بلِ میں جاچھپا تھااور ایسے بھی بزدل بھی نہیں کہ انتظامیہ کی ایک دھمکی سے علی گڑھ کا سمیلن ملتوی کردیا۔ اگر وہ ایسے ہوتے تو کبھی بھی اسلام قبول کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور ابھی تک سنگھ پریوار کی مانند خاکی نیکر پہن کر ہوا میں لاٹھیاں گھمارہے ہوتے۔ وہ ایسے لالچی بھی نہیں تھے کہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے کی خاطر پانچ لاکھ روپئے چندہ جمع کیا اور ایک ڈرامہ پر ۱۵۰۰؍ روپئے خرچ کرکے اور۱۵؍ کروڑ روپئے ڈکار گئے(اگر ۳۰۰؍ کا دعویٰ سچا ہے)۔
اگر ہندو احیاء پرست واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے نورحق کو کس طرح قبول کیا تو تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھ لیں۔ اس کی ایک مثال ۵۸۶ ؁ہجری کی ہے جب خواجہ معین الدین چشتیؒ دعوت وتبلیغ کی غرض سے ہندوستان کے لئے نکلے، ملتان میں رک کر پانچ سال تک سنسکرت زبان سیکھی اوراجمیرمیں آبسے۔مقامی لوگوں نے جب ان کی کٹیا میں داخل ہوکرآمدکی وجہ دریافت کی توآپ نے فرمایاکہ میں مسلمان ہوں اور تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے آیا ہوں۔گو کہ میں تمہارے درمیان تنہا ہوں۔ پھر بھی تمہیں خدا کا پیغام سناؤں گا اور تمہیں وہ پیغام سننا ہو گا۔ اگر تم اپنے کان بند کر لو گے تو تمہاری سماعتوں میں شگاف پڑ جائیں گی۔ یہ پیغام تمہارے ذہن و دل کی گہرائیوں میں اتر کر رہے گا۔ اگرتم اپنے گھروں کے دروازے بند کر لویادل و دماغ پر پہرے بٹھا دو تب بھی روشنی کی کرنیں آہنی دروازوں سے گزر کر تم تک پہنچ جائیں گی۔ یہ بات راجپوتوں کوناگوار گزری انہوں نے تلخ لہجے میں کہا کہ ہم اپنی زمین پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ زمین اللہ کی ہے اگرکسی انسان کی ملکیت ہوتی تو تمہارے باپ دادا موت کاذائقہ نہ چکھتے یا زمین کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے۔
آپ کا یہ جواب سن کر راجپوتوں نے کہا کہ ہم کسی اللہ کو نہیں جانتے زمین و آسمان پر ہمارے دیوتاؤں کی حکومت ہے، یہاں تمہارے رہنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ تم دوبارہ اپنی زبان پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لاؤ۔ اس پر آپ نے جواب دیا ’’میں تو اسی کے نام سے زندہ ہوں اور تمہیں بھی اسی کے نام کی برکت سے زندہ کرنے آیا ہوں۔‘‘ ایک راجپوت نے اللہ کا وہ پیغام سننے کی فرمائش کی جسے لے کرآپ تشریف لائے تھے۔ آپ نے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ترجمہ سنسکرت زبان میں سنایا اور فرمایا کہ اللہ کو سب سے ناپسند اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش ہے۔ مٹی کے جو بت ایک جگہ سے دوسری جگہ خودحرکت نہیں کر سکتے وہ تمہاری مدد کیا کریں گے۔ یوں ہمارے پرکھوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی اور انہوں نے اسے خوشی خوشی قبول کرلیا۔ وہ جری اور بہادر لوگ تھے جواپنے تن من دھن کی بازی لگا کر دین اسلام میں داخل ہوئے تھے۔وہ نہایت ذہین لوگ تھے کہ جنہوں نے حق کے آجانے بعد اسے قبول کرنے میں کوئی پس پیش نہیں کیا۔ نہ کسی سے خوف کھایا اور نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ڈرے۔ وہ بلاخوف و خطربت پرستی کے اوہام سے نکل کر اور ذات پات کی زنجیروں کو توڑ کر اسلام کے مضبوط قلعہ میں داخل ہو گئے۔ ہم ان کی اولاد ہیں اور اسلام کی شجاعت اور و قناعت سے سرفراز ہیں اس لئے دھرم جاگرن منچ کے راجیشور سنگھ جیسے لوگ اگر اُلٹے بھی لٹک جائیں تب بھی ۲۰۱۲ ؁ء تو کجا قیامت تک دیار ہند سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایہ نہیں کرسکتے۔
سنگھ پریوار سے قطع نظر امت کے لئے بھی ان واقعات میں عبرت ونصیحت کا نہایت اہم پیغام ہے اور اگر ہم نے اپنی صفوں کو درست نہیں کیا نیز اصلاح حال کی جانب متوجہ نہیں ہوئے تو سنگھ نہ سہی کوئی اور ہمارے قافلہ پر شب خون مار کر اسے لوٹ لے گا۔ آگرہ میں جو لوگ سنگھ کے جھانسے میں آئے ان کے بارے میں یہ خبر منظر عام پر آئی کہ وہ غریب الوطن بنگلہ دیشی نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے تھے۔ اس بابت حضور اکرمؐ کی ایک حدیث بیہقی، شعب الا یمان میں ہے کہ ’’کاد الفقر أن یکون کفرًا‘‘ یعنی ’’قریب ہے کہ فقر و فاقہ انسان کو کفر تک لے جائے۔‘‘ یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے اور نہ ہی لازمی امر ہے بلکہ مسلمانوں کی تایخ میں غریب و مسکین طبقہ سے تعلق رکھنے والے اہل ایمان نے بے شمار کارنامے انجام دئیے ہیں اورصبروعزیمت کے روشن چراغ جلائے ہیں لیکن کمزور ایمان والے لوگ ہر طبقہ میں پائے جاتے ہیں اور ضعف ایمانی کے ساتھ اگر فقر و فاقہ جمع ہو جائے تو خطرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے نبی کریم ؐنے کفرکے ساتھ ساتھ فقر سے پناہ مانگنے کی بھی دعا سکھلائی(اللہم انی أعوذبک من الکفر والفقر)۔ گوناگوں وجوہات کی بناء پر ہم اپنے ان بھائیوں سے غافل ہو گئے تھے لیکن اس طوفان نے ہماری توجہ ان کی جانب مبذول کروادی ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ ہم ان کا خیال رکھیں۔
وہ سیدھے سادے اور بھولے بھالے لوگ نہیں جانتے تھے کہ انہیں کس چیز کی دعوت دی جارہی اور کس جال میں پھنسایا جارہا ہے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ کوئی معمولی سا ڈرامہ ہوگا اس کے بعد ہمیں آدھار کارڈ اور راشن کارڈ وغیرہ مل جائے گا۔ اس سے نہ صرف کچھ سہولتیں حاصل جائیں گی بلکہ عدم تحفظ کی کیفیت بھی مٹ جائیگی۔ اس کے بعد ہم پہلے جیسی مسلمانوں کی سی زندگی گزارتے رہیں گے لیکن جب یہ ہنگامہ برپا ہوگیا تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔وہ لوگ گھبرا گئے اور توبہ و استغفار کرنے لگے۔ ایسے میں سنا ہے کچھ لوگوں نے انہیں ڈانٹنے ڈپٹنے کی بھی کوشش کی حالانکہ وہ ہمدردی کے مستحق تھے۔ ہمیں چاہئے تھا کہ ہم ان کو کافر قرار دینے سے قبل اپنی کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرتے۔ ان کے دکھ درد کا مداوا کرتے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھتے اور انہیں احساس دلاتے کہ ہر آزمائش و مشکل میں ہم ان کے شریک کار ہیں۔ علامہ اقبال کی دعا کہ ’’خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے‘‘ ایک انوکھے انداز میں قبول ہوئی ہے۔ امت کے اندر اضطراب پیدا ہوا ہے۔خدا کرے کہ اضطراب کی یہ موجیں ان منتشر بوندوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیں جن کو بھیڑئیے چٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ان بھائیوں کے قلب وذہن میں حکیم الامت کا یہ پیغام جاگزیں کرنا ہوگا کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

ڈاکٹر سلیم خان

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں