ڈاکٹر وقار انور
اِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ فِی الصُّعُدَاتِ وَ ِفی رِوَایَۃِ: فَإِنْ کُنْتُمْ لَا بُدَّ فَاعِلِیْنَ فَاَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہُ، قِیْلَ وَمَاحَقَّہُ؟ قَالَ غَضُّ بَصَرِ وَرَدُّ السَّلَامِ وَاِرْشَاد الضَّال۔
(عن عمرؓ/ السلسلۃ الصحیحۃ ۱۰۳)
’’رسول اللہؐ نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو (اور ایک روایت میں ہے) اگر تم لازمی طور پر ایسا کرنے والے ہو تو راستے کو اس کا حق دو۔ پوچھا گیا: اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، سلام کا جواب دینا اور بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا۔‘‘
اس حدیث میں ہے کہ آں حضرتؐ نے راستوں پر بیٹھنے سے منع کیا اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو راستہ میں بیٹھنے کے بعد کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے اس کی وضاحت کردی ہے۔ دوسری روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؐ کے منع کرنے کے بعد صحابہ کرام نے عرض کیا کہ راستوں میں بیٹھنے سے رک جانا ان کے لیے پریشانی کا باعث ہوگا، کیونکہ ان کی بہت سی ضرورتیں راستوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ ویسی صورت میں طرزِ عمل کیا ہو، اس کی تعلیم اس حدیث کے آخری حصے میں دی گئی ہے۔ اس کے باوجود کہ راستہ میں بیٹھنے کے آداب بتائے گئے ہیں، یہ بات بنیادی طور پرسمجھ لینی چاہیے کہ یہاں راستہ میں بیٹھنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے جس سے بچنا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں بغیر کسی شدید ضرورت کے راستہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے اور راستہ کو مسافروں کے آنے جانے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ دین اسلام انسانوں کی دنیاوی ضرورتوں کی نفی نہیں کرتا ہے بلکہ ان کی انجام دہی کے سلیقے کی تعلیم دیتا ہے۔
ناگزیر صورتحال کے سبب راستہ میں بیٹھنا ضروری ہوجائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ اپنے اور دوسروں کے لیے خیر کا باعث بن جائے۔ اپنے آپ پر خیر یہ ہے کہ غضِ بصر کیا جائے یعنی نگاہیں نیچی رکھی جائیں۔ راستہ سے گزرنے والے افراد بشمول خواتین کا نگاہوں سے تعاقب نہ کیا جائے بلکہ اپنی توجہ صرف اس طرف مرکوز رکھی جائے، جس کے لیے راستہ میں بیٹھنے والے کو بنیادی طور پر غلط کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ راستہ میں نگاہوں کے بھٹک جانے اور اس چور دروازہ سے گناہوں کا ذخیرہ جمع کرلینے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سوراخ کو بند کرنے کی تعلیم راستہ کے پہلے حق کے طور پر دی گئی ہے۔
راستہ کا دوسرا حق جس کی نشاندہی حضرت محمد ﷺ نے مذکورہ حدیث میں کی ہے یہ ہے کہ سلام کا جواب دیا جائے۔ دراصل سلام کے سلسلہ میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اس کا جواب دینا لازم ہے۔ یہ دراصل محبت و تعلق کا اظہار ہے اور سلامتی کی دعا ہے۔ اور سلام کا جواب دینا اپنے اندر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ اے مسافر میں بھی تجھ سے تعلق خاطر رکھتا ہوں اور تجھے میری طرف سے سلامتی ہے اور کسی گزند پہنچنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔
راستے کا تیسرا حق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے راستے سے بھٹک گیا ہو تو اسے راستہ بتادیا جائے۔ اس بات کی اہمیت ہم اپنے زمانے کے حالات سے کرسکتے ہیں۔ اکثر کسی نئے مقام پر پتہ معلوم کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے تو مقامی افراد کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے جو اس مقام کے واقف کار ہوتے ہیں۔ کیونکہ دیگر افراد تو ہماری طرح مسافر ہوتے ہیں جن کے پاس یا تو رک کر راہ دکھانے کا وقت نہیں ہوتا ہے یا وہ خود صحیح پتہ سے آشنا نہیں ہوتے ہیں۔ مقامی افراد جو راستے میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ مسافروں کی پریشانی دور کریں اور ان کی درست رہنمائی کریں۔
مذکورہ بالا حدیث کا حسن یہ ہے کہ یہ دین کے یسیر (آسان و قابل عمل) ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ یہاں ایک ایسے عمل کی مشروط اجازت دی گئی ہے جو اصلاً ناپسندیدہ ہے۔ اور جو شرائط لگائی گئی ہیں ان کی حیثیت حق ادا کرنے کی ہے۔ ہم اسے اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسا کام کرنا لازم ہوجائے جو پسندیدہ نہیں ہے تو اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور راستے کے جو تین حقوق بتائے گئے ہیں ان میں بھی حسن ترتیب ہے۔ سب سے پہلے اپنے قلب کی اصلاح کہ کہیں نگاہ غلط انداز نہ اٹھ جائے۔ دوسرے درجہ میں سلام کا جواب دے کر مسافروں سے خیرسگالی اور سلامتی کا اظہار۔ اور آخری درجہ کا حق یہ ہے کہ مسافروں کے کام آیا جائے۔ یعنی صرف قول (زبان) سے سلامتی کا اعلان نہ کیا جائے بلکہ اگر کسی کو پریشانی کے عالم میں پایا جائے تو آگے بڑھ کر اسے درست تعاون پیش کیا جائے اور اسے درست راہ پر لگادیا جائے۔