آصف نواز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
ابھی حال ہی میں راجیہ سبھا کے چیئرمین حامد انصاری نے ایوان بالا میں موجود ممبران پارلیمنٹ کے بارے میں وقفہ سوالات کو آسانی سے نہیں چلنے د ینے کا شکوہ کرتے ہوئے بڑے کرب بھرے لہجہ میں کہاتھا کہ \”اس ایوان کے اندر ہر طرح کے قاعدے و قانون کی خلاف ورزی اور ہر طرح کے آداب و اقدار کی پامالی ہورہی ہے \”۔ اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ \”یہ ایوان تو اب محض سیاسی ابتری پھیلانے والوں کی ایک انجمن بن کر رہ گیا ہے\”۔ نائب صدر جمہوریہ کے اس بیان اور وقفہ وقفہ سے ہمارے پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی حرکتوں اور حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصول و ضوابط اور اخلاق و اقدار محض کتابوں کے لئے لکھے گئے تھے، عمل سے اس کاکو ئی لینا دینا نہیں ہے۔ واقعی یہ حیرت اور تکلیف کی بات ہے کہ جو چیدہ لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے، اس کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے منصوبے بناتے اور خواب دیکھتے ہیں ، ان کے تعلق سے اس طرح کی باتیں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے، ۷؍ مارچ ۲۰۱۰ ء کی بات ہے کہ عورتوں کو ریزرویشن فراہم کرنے والے بل پر بحث کے دوران احتجاج کرنے والے ممبران پارلیمنٹ کو ایوان بالا سے باہر نکالنے کے لیئے \”مارشلس\” کو تعینات کرنا پڑا۔ اور اسی طرح۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۱ ء کو اسی ایوان بالا کے ممبران نے ہندوستانی شہریوں کو ایک سنگین نقصان پہنچایا۔ جب بدعنوانی مخالف قانون یعنی \”لوک پال بل\” کو،باوجودیہ کہ اسے ایوان زیریں میں پاس کیا جاچکا تھا، اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایوان بالا میں موجود ممبران پارلیمنٹ نے پاس نہیں ہونے دیا۔ یہاں پر طوالت کے ڈر سے محض دو ہی مثالوں پر اکتفاء کیا گیا ہے، ورنہ ایوان بالا کی تاریخ اس طرح کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جن واقعات نے ہندوستان کے جمہوری نظام کی ساکھ کو مجروح کیا ہے اور اس کے قانون سازی کے عمل میں غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ اپنی ذاتی مصلحتوں اور پارٹی کے مفاد کی خاطر اس ایوان کے ممبران عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہندوستان کی مجموعی ترقی کی راہ میں ایک بڑاچیلنج ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو یہاں تک کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اگر ہندوستان اپنے آپ کو اس بحران اور غیر یقینی صورتحال سے نہیں نکال پاتا ہے تواسے ایوان بالا کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے، بلکہ ایسے متزلزل اور جمہوری ڈھانچے کو تباہ کردینے والے ادارہ کو ختم کردینا چاہئے، اگرایسا ہوتا ہے تبھی ہندوستان صحیح معنوں میں آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو اس سیاسی ابتری اور افراتفری کے ماحول سے بچا سکتاہے۔ اور خود کو ایک مضبوط، توانا اور ترقی یافتہ جمہوری ملک کے طورپر قائم رکھ سکتا ہے۔
دنیا کے وہ سارے ممالک جن میں دو ایوانی مقننہ ہیں، ایوان بالا کا تقریبا یہی کردار ہمیں نظر آتاہے۔ریاستہائے متحدہ امریکہ کو چھوڑ کر دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں ایوان بالا اپنا مطلوبہ کردار ادا کر رہا ہو۔ ہمارا ہندوستانی پارلیمنٹ بھی دو ایوانی قانون ساز اداروں؛ لوک سبھا اور راجیہ سبھا پر مشتمل ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ راجیہ سبھا کی تشکیل کو ہندوستان کے وفاقی مزاج کے تحفظ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس ادارہ کی ویب سائٹ کے مطابق چونکہ ایک تن تنہا اور براہ راست منتخب ایوان (یعنی لوک سبھا) اس وسیع و عریض اور متنوع بھارت کے مسائل کو حل کرنے اور اس کو درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے آزادی کے وقت نا کافی سمجھا گیا، اسی لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ریاستوں کی ایک الگ کونسل ہونی چاہئے جو چھوٹی ہو اور ایسے ممبران پر مشتمل ہو جن کا انتخاب خود ریاستی اسمبلیوں اور متحدہ قومی علاقوں کے منتخب ارکان کے ذریعہ عمل میں آئے۔ اور دستور ساز اسمبلی کے ذہن میں اس ایوان کے تعلق سے سب سے اہم بات یہ تھی کہ اگر ایوان زیریں جلدی بازی میں کوئی قانون پاس کر بھی دے تو یہ ایوان بطور احتساب اور توازن کے کام کرے گا، اس لئے کہ بعض دفعہ بہت زیادہ کام کے دباؤ کی وجہ سے ایوان زیریں میں بہت سے ایسے قوانین منظور کر لیے جاتے ہیں، جن پر مختلف زاویہ سے ابھی غور و خوض کرنا باقی ہوتاہے۔ نیز اس دو ایوانی مقننہ کا انتخاب اس سوچ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے ہم پارلیمنٹ میں پچھڑے طبقات اور دیگر اقلیتوں کی نمائندگی اور ان کے جائز حقوق اور مفادات کی حصولیابی کو یقینی بنائیں گے۔
لیکن یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ آج بڑے ہی عجیب و غریب انداز سے اکیسویں صدی کے اس جمہوری ہندوستان میں ایوان بالا اپنی اصل روح کھو چکاہے۔ اور اب یہ محض ایک علامتی اور نمائشی حیثیت کا حامل ادارہ بن کر رہ گیا ہے جو ظاہری طور پر اینٹ پتھر اور گارے کی عمارت کے طور پر تو کھڑا ہے لیکن اس کا کوئی مقصد اور غایت نہیں رہ گیا ہے۔ ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ اب یہ ادارہ بجائے اس کے کہ قانون سازی کے عمل میں ممد ومعاون ہو، اس کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا کررہا ہے۔ یہ اور اس طرح کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اب اس ادارہ کو ختم کردینا چاہئے۔ چند وجوہات کا ذکر یہاں ضروری ہے، جن کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب اس ایوان کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور اسے اب ماضی کا حصہ بن جانا چاہئے۔اس کی ضرورت کیوں نہیں ہے اس کے مختلف وجوہات اور دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن اس مضمون میں چند بنیادی نکات پر ہی بحث کو مرکوز رکھا جائے گا۔
اول؛ آزادی کے وقت راجیہ سبھا بنانے کے پیچھے جو اسباب اورمقاصد کارفرماں تھے، آج وہی سب چیزیں لوک سبھا کے کام کاج کا حصہ ہیں۔ دستور ساز اسمبلی نے آزادی کے وقت جس راجیہ سبھا کا تصور کیا تھا، لوک سبھا آج اس کی ایک جیتی جاگتی تصویرہے۔ ہندوستان کی جملہ ریاستوں کی نمائندگی ایوان زیریں میں کافی مؤثر انداز سے کی جارہی ہے۔ان کی آوازیں سنی جاتی ہیں اور ان کے مطالبات کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس ایوان زیریں میں جو بھی قانون بنتے ہیں ان میں ساری ریاستوں کے مفاد کو مد نظر رکھا جاتا ہے اور کسی بھی ریاست کے حق کی پامالی نہ ہو اس کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ریاستوں کا یہ خوف کہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں ان کی نمائندگی کافی نہیں ہے ، لہذا انہیں ایک اور ایوان کی ضرورت ہے، اب بے بنیاد اور حقیقت سے پرے معلوم ہوتا ہے۔ آج ایسے وقت میں جبکہ ہماری سیاست ہر سطح پر تیزی سے انحطاط کا شکار ہو رہی ہے، اخلاقیات سے اس کا رشتہ دن بدن کمزور ہوتا جارہاہے اور مفاد عامہ کی جگہ ذاتی اور پارٹی کے مفاد نے لے لی ہے، ایسے وقت میں ہمارے ملک کے سبھی علاقوں اور ریاستوں کی نمائندگی پارلیمنٹ کے ایوان زیں کے ذریعہ ہورہی ہے۔ اور یہ نمائندگی بھی ایسی سیاسی جماعتیں کررہی ہیں جن کا علاقائی سطح پر کافی رعب و دبدبہ ہے۔ اور جن کے پاس کوئی قومی مفاد نہیں ہے بلکہ محض چند محدود علاقائی ایجنڈے ہیں۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے اندر بہت سی ایسی علاقائی جماعتیں ہیں جو کئی ایک ریاستوں پر حکمرانی کر رہی ہیں اور وہ بہت لمبے عرصہ تک ان ریاستوں پر قابض بھی رہیں گی۔ ان ریاستوں کے وزراء اعلی اس قدر طاقتور ہیں کہ ان کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل کی بازگشت پورے ہندوستان میں سنی جاتی ہے۔ یہ ریاستیں بڑی سرگرمی کے ساتھ مرکزی سطح پر اپنے مفادات کے حصول میں سرگرم عمل ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر اس قانون کے سامنے سینہ سپر ہوجاتی ہیں جو ان کے اپنے اسٹیٹ کے مفادات کے خلاف ہوتا ہے۔
ابھی حال ہی میں مرکزی حکومت کے ذریعہ تجویز کردہ قومی انسداد دہشت گردی بل کی مخالفت مختلف ریاستی حکومتوں کی طرف سے اس شدت سے کی گئی کہ مرکزی حکومت اس بل کو واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ اور اسی طرح پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے فوڈ سیکورٹی بل کے سلسلے میں ریاستوں کے خدشات اور ان کے تحفظات ممبران پارلیمنٹ سے کہیں زیادہ صاف اور بلند آواز میں سنے گئے۔ چنانچہ ہم اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کا وفاقی ڈھانچہ پوری طرح مستحکم اور مضبوط ہے۔ اور علاقائی مفادات کافی اچھے اور مناسب طریقے سے ایوان زیریں میں اٹھائے جاتے ہیں۔ اس لیے ایوان بالاکی اب چنداں ضرورت نہیں رہی۔
دوئم ؛ یہ ایوان اب محض ان لوگوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جو عوامی الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں یا سیاسی پارٹیوں کے لیئے فنڈ اکٹھا کرنے والے ہیں،یا وہ کوئی بڑے سرمایہ دار ہیں یا صحافی ہیں یا وہ سابق چیف اگزیکیٹیو آفیسر یا سرکاری ملازم رہ چکے ہیں۔ پچھلے چار وزراء اعظم (ایچ ڈی دیو گوڑا، آئی کے گجرال، اٹل بہاری واجپئی اور منموہن سنگھ) میں سے تین وزراء اعظم (اٹل بہاری واجپئی کے علاوہ) بغیر ووٹروں کا سامنا کیے ہوئے راجیہ سبھا کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں جو واضح طور پر ایک غیر جمہوری طریقہ معلوم ہوتاہے۔ جبکہ ماضی میں ہماری حکومتیں ایوان بالا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرتی تھیں جو سیاسی طور پر کافی باصلاحیت ہوا کرتے تھے مگر انھوں نے اپنے آپ کو اس سے کچھ وجوہات کی بنا پر الگ کررکھاتھا۔ یہ معروف اور باوقار افراد ہواکرتے تھے جوانتہائی قابل اور صلاحیتوں سے مالامال ہوتے تھے ، جن کے پاس نجی شعبے میں کام کرنے کا کافی تجربہ ہواکرتا تھا، اور ان کو شامل کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ مختلف وزارتوں کو مزید فعال بنانے کے لیے ان کو وہ نئے افکار اور معلومات فراہم کرسکیں جن کی انہیں ضرورت تھی۔
لیکن بلا تامل یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب سیاسی جماعتیں اس ایوان بالا کا استحصال کر رہی ہیں، اور ان سیاسی دلالوں کو جو انتخابات میں پارٹی کے لیئے فنڈ مہیا کراتے ہیں ،یا ان صحافیوں کو جو مختلف مسائل پر پارٹی کے موقف کی حمایت کرتے ہیں، یا ان نوکرشاہوں کو جو ہر موقع پر ان کی خوشامد اور جی حضوری کرتے ہیں، بطور انعام راجیہ سبھا کی سیٹ کا نذرانہ پیش کرتی ہیں۔ اب تو زیادہ سے زیادہ صنعتکار اور مختلف کمپنیوں کے سربراہان اس نیت کے ساتھ راجیہ سبھا کے ممبر بن رہے ہیں تاکہ وہ بڑے پیمانہ پر اثر و رسوخ حاصل کر سکیں اورپالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہو سکیں۔ اس طرح راجیہ سبھا اقرباء پروری اور مفاد پر مبنی تعلقات کو استوار رکھنے کا ایک قلمی نام بن گیا ہے، اور عوام کے ایجنڈے کو مضبوط بنانے کے مقابلے میں چند لوگوں کے ذاتی مفادات کے لیے کام کرنے والے ایک ادارہ کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔
سیاسی جماعتوں کا مذکورہ بالا افراد کو پارلیمنٹ تک پہنچانا زیادہ تر \”گیو اینڈ ٹیک\” (ایک ہاتھ سے دو دوسرے ہاتھ سے لو) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کچھ لینے کے بدلے ان کو ایوان بالا کا ممبر بنایا جاتا ہے یا انہیں ممبر بنا کر ان سے کچھ لیا جاتاہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس ایوان میں ایک بڑی تعداد ایسے ممبران کی پہنچ جاتی ہے جن کا ماضی داغدار ہوتاہے۔ بہت سارے مجرمانہ معاملات اور کرپشن کے الزامات کے مقدمات ان پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ مہینوں پہلے مارچ ۲۱۰۲ ء میں\”نیشنل الیکشن واچ\” (NEW) اور \”ایسوسی ایشن فار دیموکریٹک ریفارمس\” (ADR) نے (Analysis of Criminal and Finacial Details of PMs of Rajya Sabha) (راجیہ سبھا کے ارکان پارلیمنٹ کی مجرمانہ اور مالی تفصیلات کا تجزیہ) کے نام سے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ایوان بالا کے ۲۳۸؍ میں سے جن۲۲۷؍ ممبران کا انھوں نے تجزیہ کیا ہے ان میں سے ۴۱ کے خلاف فوجداری کے مقدمات ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ یہ تعداد ایوان بالا کے مجموعی ممبران کا تقریبا ۱۸؍ فیصد ہے اور جن کا تعلق ہندوستان کی ساری بڑی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ واقعی یہ ہندوستانی سیاست کا بہت بڑا المیہ ہے اور ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آخرمجرمانہ پس منظر رکھنے والے ممبران کی اتنی بڑی تعداد کیسے اس باوقار مجلس تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔ ابھی حال ہی میں ۱؍ اکتوبر کو کانگریس کی طرف سے راجیہ سبھا کے ایم پی قاضی رشید مسعود کی ۱۹۹۱ ء کے ایک مجرمانہ سازش، دھوکہ دہی اور جعل سازی کے معاملہ میں چار سال کی سزا نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ اگر صاف شفاف طریقہ سے عدلیہ اپنا کام کرے تو بہت بڑی بڑی مچھلیاں اس جال میں آئیں گی۔ یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ سارے مجرمانہ کردار والے ممبران راجیہ سبھا میں ہی ہیں ، لوک سبھا بھی اس برائی سے پاک نہیں ہے۔ ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے تقریبا ۱۶۰؍ ممبران کے خلاف مجرمانہ معاملات چل رہے ہیں۔ لیکن ایوان زیریں کے ممبران کا انتخاب اور اس کا کردار کسی حد تک ابھی تک قابل قبول ہے۔ اور اس میں جو خرابیاں در آئیں ہیں انہیں ختم کر کے اسے مزید فعال بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن اب راجیہ سبھا اس جمہوری نظام کی ایک غیر مربوط کڑی معلوم ہوتی ہے، جس کا ختم ہو جانا ہی ہم ہندوستانی شہریوں کے حق میں بہتر ہے۔
سوم؛ ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ایوان اب ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا ہے جس میں قانون سازی کے عمل پر بحث اور اس کو مزید بہتر بنانے کے مقابلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ذاتی سیاسی ایجنڈے تشکیل دیئے جاتے ہیں اور ان کے فروغ کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ اہم اور ضروری قوانین جو لوک سبھا میں منظور ہوکر راجیہ سبھا میں پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں سیاسی وجوہات کی بنا پر پاس ہونے نہیں دیا جاتاہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے متضاد حکمت عملی تیار کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے ممبران پارلیمنٹ کو اس شرمندگی سے بچا سکیں جو انہیں ملک میں بڑے پیمانے پر اہمیت کے حامل امور کے سلسلے میں قوانین بنانے کے نتیجہ میں اٹھانی پڑتی ہے۔
ایوان بالا میں آج پر مغز اور معنی خیز بحث ایک نادر الوجود شئے بن کے رہ گئی ہے۔ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کو غیر فعال بنانے میں جہاں بہت سارے عوامل کارفرماں رہے ہیں، وہیں اس ایوان بالا کا ضرورت سے کہیں بڑھ کر رول رہاہے۔ جدید ہندوستانی سیاست کے بکھرے ہوئے سیاسی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے ،ایوان بالا کے اس کردار پر جب غور کرتے ہیں تو یہ قانون سازی کے اس عمل میں جو اس ملک کے اقتصادی ،سماجی، اخلاقی اور ماحولیاتی ترقی کی راہ میں تیزی سے انجام دیا جارہا ہے، ایک بڑی رکاوٹ کے طورپر نظر آتا ہے۔
اور آخری سبب جس کی بنا پے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ہمیں اس ایوان بالا کی ضرورت نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ ایوان بالا کے کام کاج پر ہر سال ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے جو ہمارے ملک کے خزانے پر ایک گراں بوجھ ہے اور جس کا خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آتا بلکہ وہ ایک لاحاصل اخراج تصور کیا جاتاہے، چنانچہ اگر اس رقم کو دوسری مناسب اور ضروری جگہوں پر خرچ کیا جا ئے تو اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوں گے۔ اور جہاں تک پارلیمنٹ سے ملنے والی مراعات اور فوائد کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں دونوں ایوانوں کے ممبران یکساں حیثیت کے حامل ہیں۔ ۲۵۰؍ رکنی ایوان بالا کے سبھی ممبران کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں، اورجو مراعات ان کو حاصل ہیں، اورریٹائرمنٹ کی صورت میں جو سہولیات ان کو میسر ہوتی ہیں اور مقامی علاقوں کی ترقی کے نام پر جو گرانٹ ان کو ملتی ہے، یہ سبھی رقمیں کئی سو کروڑ میں ہوتی ہیں۔ چنانچہ راجیہ سبھا کو ختم کرنے کے نتیجہ میں جو یہ خطیر رقم ہاتھ آئے گی اسے بڑے ہی سودمند طریقے سے یا تو بنیادی ڈھانچے کی تعمیر وترقی میں لگا سکتے ہیں یا اسے سماجی ترقی کے مختلف کاموں اور دیگر بامقصد منصوبوں میں لگاکر خاطر خواہ نتیجہ برآمد کر سکتے ہیں۔
آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہندوستان اپنے نظم ونسق اور حکومتی کام کاج میں بہتری لانے کے لیئے اپنے ہی بعض اداروں کو ختم کرے ، کچھ میں اصلاحات لے آئے اور کئی ایک نئے ادارے قائم کرے۔ آج راجیہ سبھا کا شمار بھی ان ہی چند کمزور اداروں میں ہوتا ہے جنہیں ختم کردیاجانا چاہیے۔ اس لیے کہ اس ادارے کو بنانے کے جو مقاصد تھے کہ یہ ہندوستان کے وفاقی ہیئت کو بنانے اور برقرار رکھنے کا ضامن ہوگا،وہ مقاصد اب دیگر اداروں سے حاصل ہو رہے ہیںیا کم سے کم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ مقاصد اس ادارے سے تو اب بالکل نہیں حاصل ہورہے ہیں بلکہ ان مقاصد کے معارض و مخالف سرگرمیاں اس ایوان بالاکا مقدر بن چکیں ہیں۔ آزادی کے بعد سے جب ہم اس ایوان بالا کے تاریخی ادوار پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ ادارہ قانون سازی کے عمل میں ہاتھ بٹانے کے بجائے پارلیمنٹ کے کام میں رکاوٹ ڈالنے میں پیش پیش نظر آتاہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اسے ہندوستان کی تاریخ کا ایک باب بناکر قومی تاریخی دستاویز کے حوالے کردیں اور اسے ماضی کا حصہ بنادیں۔
راجیہ سبھا کا گرتا معیار
آصف نواز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ابھی حال ہی میں راجیہ سبھا کے چیئرمین حامد انصاری نے ایوان بالا میں موجود ممبران پارلیمنٹ کے بارے میں وقفہ سوالات کو آسانی سے نہیں چلنے د ینے کا شکوہ کرتے ہوئے…